یہ 5 جنوری 1971ء کی بات ہے جب آسٹریلوی شہر، میلبورن میں برطانیہ اور آسٹریلیا کے مابین دنیا کا پہلا ایک روزہ بین الاقوامی میچ کھیلا گیا۔
یہ مقابلہ آسٹریلوی ٹیم نے پانچ وکٹوں سے جیت لیا۔ اْسے دیکھنے ایک لاکھ تماشائی میدان میں آئے۔ ان کی دلچسپی دیکھ کر کئی ماہرین نے پیشن گوئی کر دی کہ کرکٹ کی یہ نئی قسم عوام میں بڑی مقبول ہو گی۔ انہوں نے کچھ غلط نہیں کہا تھا۔
محض چار سال بعد ایک روزہ کرکٹ مقابلوں کا پہلا عالمی کپ منعقد ہوا۔ مگر ایک روزہ کرکٹ اور ٹیسٹ کرکٹ میں زیادہ فرق نہیں تھا۔
کھلاڑی سفید لباس ہی زیب تن کرتے، سرخ گیند سے کھیلتے، دن میں مقابلہ ہوتا اور اس کے قوانین بھی یکساں تھے۔ اس یکسانیت کو ایک جوشیلے آدمی نے ختم کیا جس کا نام کیری پیکر تھا۔ اس نے تن تنہا ایک روزہ کرکٹ کا چولا ہی بدل ڈالا اور اس کی ہیئت میں نئے رنگ بھر دئیے۔
ایک آسٹریلوی کی آمد
کم لوگ جانتے ہیں کہ آسٹریلوی صنعت کار‘ کیری پیکر (متوفی 2005ئ) نے ایک روزہ کرکٹ کا موجودہ روپ بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔وہ آسٹریلیا میں ٹی وی چینل‘ 9 کا مالک تھا۔ یہ صاف گو صنعت کار مواقع کی تلاش میں رہتا اور افسر شاہی سے خائف تھا۔
اس کی نظر میں افسر شاہی ترقی کی دشمن تھی۔ لہذا جب کیری اور افسر شاہی کا تصادم ہوا‘ تو اس نے اپنی تنظیم کھڑی کی‘ لاکھوں ڈالر کی کثیر رقم سے دنیا کے پچاس بہترین کھلاڑیوں کی خدمات حاصل کیں اور نہایت شاندار طریقے سے ایک روزہ بین الاقوامی مقابلے منعقد کروانے لگا۔
مسئلے کا آغاز
فریقین کے مابین تصادم اس وقت ہوا جب آسٹریلین کرکٹ بورڈ نے 1976ء میں چینل 9 کو کرکٹ میچ دکھانے کا خصوصی اختیار دینے سے انکار کر دیا۔
چونکہ چینل 9 پچھلے بیس برس سے کرکٹ میچ دکھا رہا تھا‘ اس لیے کیری پیکر سمجھتا تھا کہ اسی کے پاس یہ امتیاز رہنا چاہیے۔ جب ترغیب اور دھمکی سے کام نہ بنا‘ تو کیری نے اپنے طور پر نمائشی کرکٹ مقابلے کروانے کا فیصلہ کر لیا۔
1977ء میں کیری نے اس سلسلے میں کچھ آسٹریلوی کھلاڑیوں سے معاہدے کیے۔ کامیابی اس وقت ملی جب برطانوی کرکٹ ٹیم کا کپتان‘ ٹونی گریگ بھی آ ملا۔ ٹونی کی وساطت سے دیگر ممالک کے کئی مشہور کھلاڑی کیری پیکر کی تنظیم’’ ورلڈ سیریز کرکٹ‘‘ میں شامل ہوگئے۔
اس کے تحت ایک روزہ مقابلے کھیلنے والے نمایاں کھلاڑی ٹونی گریگ‘ کلائیو لائیڈ‘ گریگ چیپل‘ آئن چیپل‘ عمران خان‘ ڈینس للی اور مائیکل ہولڈنگ تھے۔پاکستانی کرکٹروں میں آصف اقبال، مشتاق محمد، ماجد خان، جاوید میاں داد اور سرفراز نواز بھی اس کا حصہ رہے۔
مارچ 1977ء میں جب آسٹریلوی ٹیم ایشز سیریز کھیلنے برطانیہ پہنچی‘ تو اس کے تیرہ کھلاڑی کیری پیکر سے ہاتھ ملا چکے تھے۔ وہیں کچھ صحافیوں نے یہ خبر دی کی کہ آسٹریلوی کھلاڑی ورلڈ سیریز کرکٹ میں کھیل رہے ہیں۔
بس پھر کیا تھا‘ دنیائے کرکٹ میں ہنگامہ مچ گیا۔ برطانوی اخبارات نے سب سے پہلے ٹونی گریگ کے لتّے لیے جس نے اس تنظیم کے احیا میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ ورلڈ سیریز کے مقابلوں کو ’کیری پیکر سرکس‘ قرار دے دیا گیا۔
اْدھر آسٹریلوی ٹیم پر بھی اتنی زبردست تنقید ہوئی کہ وہ شکستہ دلی کے باعث ایشز سیریز ہار گئی۔ آئی سی سی (انٹر نیشنل کرکٹ کونسل) نے کیری پیکر کو متوازی ایک روزہ بین الاقوامی میچ کروانے سے روکنا چاہا مگر وہ نہ مانا۔ اس پر آئی سی سی نے تمام بورڈوں کو حکم دیا کہ ان کے ملک کا جو کھلاڑی ورلڈ سیریز سے معاہدہ کرے ‘ اسے قومی ٹیم سے نکال دو۔
اور کھیل بدل گیا
جب آسٹریلوی حکومت نے کیری کو کرکٹ میدان استعمال کرنے کی اجازت نہ دی‘ تو اس نے فٹ بال کے میدان اور عوامی پارکوں میں کنکریٹ کی پچیں بنوائیں اور وہاں میچ کروائے۔
اس نے تہیہ کر رکھا تھا کہ وہ آسٹریلوی افسر شاہی کو شکست فاش دے کر رہے گا۔اور حقیقت یہ ہے کہ ورلڈ سیریز کرکٹ ایک روزہ کرکٹ کی ہیئت میں انقلابی تبدیلیاں لانے کا سبب بن گئی۔ خصوصاً سست رفتار روایتی کرکٹ جوش و جذبے والے کھیل میں بدلنے لگی۔
کیری نے چمکتی دمکتی بتیوں کی روشنی میں رات کے وقت مقابلے منعقد کرائے اور کھلاڑیوں کو رنگ برنگے کپڑے پہنائے۔ سرخ کے بجائے سفید گیند سے کھیلنے کا رواج ڈالا ۔ تماشائیوں میں ٹی شرٹیں تقسیم کی گئیں ۔
کیری پیکر چاہتا تھا کہ ورلڈ سیریز کے مقابلے تیز رفتار اور ’گلیمر‘ سے پْر ہوں۔ اسی لیے تب کے مایہ ناز گیند بازوں‘ ڈینس للی‘ عمران خان‘ مائیکل ہولڈنگ اور اینڈی رابرٹس کی خدمات حاصل کر لیں۔
ان کی تیز رفتار اور خوفناک گیندوں کے سامنے بلے بازوں کو محسوس ہونے لگا کہ انہیں اپنا بدن بچانے کے لیے حفاظتی اشیا پہننے کی ضرورت ہے۔ 16 دسمبر 1977ء کو سڈنی میں ایک مقابلے میں اینڈی رابرٹس کی برق رفتار گیند نے آسٹریلوی بلے باز‘ ڈیوڈ ہکس کا جبڑا توڑ ڈالا۔
یہی حادثہ ایک اور نمایاں تبدیلی لانے کا بھی سبب بنا… بلے بازوں کے چہروں پر پہلے پہل ہیلمٹ نمودار ہو گئے۔ سب سے پہلے برطانوی کھلاڑی‘ ڈینس ایمس ایک میچ میں موٹر سائیکل والا ہیلمٹ پہن کر کھیلنے گیا۔ اس کی دیکھا دیکھی دوسرے بلے باز بھی ورلڈ سیریز کے مقابلوں میں ہیلمٹ پہننے لگے۔ بعد ازاں دیگر حفاظتی اشیا بھی سامنے آنے لگیں۔
ورلڈ سیریز کے مقابلوں میں عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی حصہ لیتے تھے‘ اس لیے آسٹریلیا میں انہیں بڑی پذیرائی ملی۔ ہر مقابلہ دیکھنے ہزاروں تماشائی میدان میں آ جاتے۔ پھر کیری پیکر نے اپنی تنظیم کی ’مارکیٹنگ‘ زبردست انداز میں کی۔ گو اس کا نقصان یہ ہوا کہ ایک روزہ عالمی کرکٹ رفتہ رفتہ تجارتی خطوط پر استوار ہو گئی۔
آئی سی سی کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والا پہلا بورڈ‘ پاکستان کرکٹ بورڈ تھا۔ دراصل جب بورڈ کو ٹیم تشکیل دیتے ہوئے مشکلات پیش آئیں‘ تو اس نے بادل نخواستہ ورلڈ سیریز کھیلنے والے پاکستانی کھلاڑی بھی شامل کر لیے۔
اس پر آئی سی سی نے شور مچایا تاہم صرف زبانی دھمکیاں دینے پر ہی اکتفا کیا۔ویسٹ انڈین کرکٹ بورڈ بھی ویوین رچرڈز سمیت اپنے کئی مایہ ناز کھلاڑیوں سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ جب 1979ء کا عالمی کپ نزدیک آیا‘ تو اس نے بھی مجبوراً ان کھلاڑیوں کو ٹیم میں جگہ دے دی جن پر پابندی لگی ہوئی تھی۔
کئی بھارتی کھلاڑی بھی پْر کشش معاوضے کے باعث ورلڈ سیریز کے میچ کھیلنا چاہتے تھے۔ بھارتی کرکٹ بورڈ نے انہیں اس ادارے سے باز رکھنا چاہا تو وہاں ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔
آخر بورڈ اور کھلاڑیوں کے مابین یہ طے پایا کہ ان کا معاوضہ خاطر خواہ بڑھا دیا جائے گا تا کہ وہ صرف قومی ٹیم کے لیے کھیل سکیں۔ اس طرح بھارتی کھلاڑی اپنی شرائط منوانے میں کامیاب رہے۔
زوال کی آمد
کیری پیکر مقابلوں کی زبردست تشہیر کر رہا تھا۔ لوگوں کی کثیر تعداد نے مقابلے دیکھے لیکن پھر آسٹریلوی عوام کی دلچسپی کم ہو گئی۔
بڑی وجہ یہ تھی کہ تب دنیائے کرکٹ میں بڑے نام کم تھے اور نیا خون بھی نہیں آ رہا تھا۔ کیری نے سنیل گواسکر کے علاوہ تمام بڑے کھلاڑیوں سے معاہدے کرلیے تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ مستقبل میں ایسے مشہور کھلاڑی کہاں سے آئیں گے؟ جب 1978ء میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم میچ کھیلنے بھارت پہنچی‘ تو اس میں کپتان کالی چرن کے علاوہ بقیہ سب کھلاڑی نوآموز تھے۔
ان دگرگوں حالات میں کیری پیکر اور آئی سی سی‘ دونوں کو احساس ہوا کہ کوئی نہ کوئی سمجھوتا ہونا چاہیے۔
تاہم آئی سی سی ایسی شرائط سامنے لائی جو کیری کو نامنظور تھیں۔ اب کیری کو مزید غصّہ آیا اور وہ عدالت میں پہنچ گیا تا کہ ورلڈ سیریز کرکٹ کو قانونی تحفظ دے سکے۔ عدالتی جنگ میں بھی اْسے کامیابی ملی اور عدالت نے یہ مقابلے جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔ جواباً آئی سی سی نے ان کھلاڑیوں پر زیادہ سخت پابندیاں عائد کر دیں جو ورلڈ سیریز کے مقابلوں میںحصہ لیتے تھے۔
مفاہمت ہو گئی
مذاکرات ناکام ہونے سے کرکٹ کے ان عاشقوں کو صدمہ پہنچا‘ جو تدبر اور امن سے یہ معاملہ سلجھانا چاہتے تھے۔ آخر ان کی بھاگ دوڑ کامیاب ثابت ہوئی اور کیری پیکر اپنا ’’سرکس‘‘ ختم کرنے پر راضی ہو گیا۔
اس نے تمام کھلاڑیوں کو معاہدوں کے مطابق رقوم ادا کیں اور30 مئی 1979ء کو ورلڈ سیریز کرکٹ ختم کردی۔مفاہمت کے سلسلے میں کیری نے صرف ایک شرط رکھی… آسٹریلیا میں کرکٹ میچ دکھانے کے سلسلے میں چینل9 کو خصوصی اختیار ملنے چاہیں۔ سارا قضیہ اسی بات سے شروع ہوا تھا۔ آئی سی سی کو بھلا کیا اعتراض ہوتا‘ اس نے فوراً کیری پیکر کی تجویز منظور کر لی۔
یوں ورلڈ سیریز کرکٹ کا خاتمہ ہو گیا جس نے تین سال دنیائے کرکٹ کو ہلائے رکھا۔ اس سیریز کے بطن سے کرکٹ میں منفی اور مثبت‘ دونوں قسم کی نئی باتوں کا ظہور ہوا۔ کھلاڑیوں کے جن رنگین ملبوسات کا شروع میں مذاق اڑایا گیا ‘ آئی سی سی نے انہیں تسلیم کر لیا۔
اب کھلاڑی عالمی کپ کے مقابلوں میں رنگ برنگ ملبوسات پہن کر ہی شرکت کرتے ہیں۔ نیز رات کو بتیوں کی روشنی میں کھیلنے کا رواج بھی چل پڑا۔ سفید گیند کو بھی اپنا لیا گیا۔ یوں کیری پیکر سیریز کی جدتیں اس کے خاتمے کے بعد بھی امر ہو گئیں۔
مزید براں چینل 9 نے جس طرح کرکٹ مقابلوں کو دکھانے کااہتمام کیا‘ وہ بھی منفرد تھا۔ ہر میچ کے لیے بیس پچیس کیمرے نصب کیے جاتے جو کھیلنے کے انداز کو مختلف زاویوں سے دکھاتے ۔ یوں میچ دیکھنے کا عمل زیادہ پْر لطف ہو گیا۔ورلڈ سیریز کرکٹ سے کھلاڑیوں کو بھی مالی فائدہ پہنچا۔ بورڈ انہیں پہلے کے مقابلے میں زیادہ تنخواہیں دینے لگے۔ پھر ماڈلنگ اور اشتہاروں سے بھی انہیں آمدن ہونے لگی۔ یوں وہ بھی فٹ بال یا ٹینس کے کھلاڑیوں کی طرح ’گلیمر‘ کا نیا نشان بن گئے۔
دنیائے کرکٹ میں یہ انقلابی تبدیلیاں ایک شخص‘ کیری پیکر کی بدولت ہی ممکن ہوئیں۔ گو وہ اپنے ملک کی افسر شاہی کو سبق سکھانا چاہتا تھا تاہم اس نے ایک روزہ عالمی کرکٹ کی شکل ہی بدل ڈالی۔
The post کیری پیکر:جس نے ایک روزہ کرکٹ کو رنگارنگ بنایا appeared first on ایکسپریس اردو.