اس لامحدود کائنات میں ہر دکھائی دینے والی شے ننھے منے ذرات، ایٹموں سے بنی ہے۔
آج سے تین ارب ستر کروڑ سال پہلے مختلف کیمیائی مادوں کے ملاپ سے زمین پہ ایسے ایٹموں نے جنم لیا جو ازخود حرکت کر سکتے تھے۔ یہی خصوصی ایٹم ’’زندگی‘‘ کو وجود میں لائے۔ ازخود حرکت کے قابل ایٹموں کو اب خلیے (Cells) کہا جاتا ہے۔
کروڑوں برسوں کے عرصے میں خلیوں کے مجموعوں نے چھوٹے بڑے ہزارہا قسم کے جاندار تخلیق کر ڈالے۔ ویسے ایک خلیے والے یعنی یک خلوی جاندار(Unicellular organism) آج بھی کرہ ارض پہ موجود ہیں جیسے جراثیم (بیکٹیریا) اور آرکیا (Archaea)۔
زندہ وجود کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ وہ پلتا بڑھتا اور پھر بوڑھا ہو کر مر جاتا ہے۔ سائنس نے بے پناہ ترقی کر لی ہے مگر وہ اب تک بڑھاپے کے عمل کو صحیح طرح نہیں سمجھ سکی۔ تاہم سائنس داں جدید آلات اور عمیق تحقیق کے ذریعے عمل ِبڑھاپا کے اسرار ورموز ضرور جان رہے ہیں۔
انوکھا قدرتی عمل
مثال کے طور پہ پچھلے دنوں انکشاف ہوا کہ ہمارے جسم میں انتہائی چھوٹی سطح پر انجام پانے والا ایک قدرتی عمل انسانوں کو جلد بوڑھا ہونے سے کیسے بچاتا ہے۔ گویا اس قدرتی عمل کے باعث انسان مزید کئی سال زندگی کی رعنائیوں اور خوشیوں سے لطف اندوز ہونے کے قابل ہو گیا۔ اگر یہ عمل وجود میں نہ آتا، تو انسان بہت جلد اللہ کو پیارا ہو جاتا۔
جدید طبی تحقیق کی رو سے ایک بالغ مرد تقریباً 36 ٹریلین(360 کھرب)خلیوں کا مجموعہ ہے۔ جبکہ ایک بالغ خاتون 28 ٹریلین (280کھرب )خلیوں سے وجود میں آتی ہے۔ ان انسانی خلیوں کی چار سو سے زائد اقسام ہیں جو مختلف ذمے داریاں انجام دیتی ہیں۔ یہ سبھی اقسام ایک دوسرے سے رابطہ رکھتی ہیں اور اسی قدرتی طور پہ مربوط و حیران کن نیٹ ورک کی بدولت انسان اپنی روزمرہ سرگرمیاں انجام دیتا ہے۔
ہمارے جسم میں خون کے خلیوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے، یعنی 84 فیصد۔ اس کے بعد پلٹلیٹ (4.9 فیصد) ، ہڈیوں کے گودے کے خلیوں (2.5 فیصد)، خون کی نالیوں میں استر بچھانے والے خلیوں یعنی endothelial cells (2.1فیصد) اور خون کے سفید خلیوں Lymphocytes (1.5 فیصد) کا نمبر آتا ہے۔
ہر خلیہ ایک اکائی
حیرت انگیز اور دلچسپ بات یہ ہے کہ انسان کے کھربوں خلیوں میں سے ہر خلیہ اپنی جگہ ایک فرد یا اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ کھاتا پیتا، اپنے کام کاج کرتا ، بچے پیدا کرتا اور رفتہ رفتہ بوڑھا ہو کر مر جاتا ہے۔ اس کی لاش پھر نئے خلیے پیدا کرنے میں کام آتی ہے۔ انسانی جلد انہی مردہ خلیوں کی لاشوں سے بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے، جلد پہ پڑنے والا زخم کا نشان آہستہ آہستہ غائب ہو جاتا ہے۔
ہر خلیہ مختلف حصے رکھتا ہے جو اسے اپنی ذمے داریاں نبھانے میں مدد دیتے ہیں۔ مثلاً اس کے مرکزے یا نیوکلس میں تمام جینیاتی معلومات محفوظ ہوتی ہے۔ ایک حصہ مائٹوکونڈریا، (mitochondria) کھائی گئی غذا سے وہ کیمیائی توانائی بناتا ہے جسے کام میں لا کر خلیہ اپنی ذمے داریاں انجام دیتا ہے۔ رائبوسوم (Ribosome)نامی حصہ پروٹین بناتا ہے جو خلیے اور انسان کی بقا کے لیے ضروری مادے ہیں۔ سینٹراولیس (centrioles) نامی حصہ خلیے کو تقسیم ہونے میں مدد دیتا ہے۔ اسی عمل سے مزید خلیے جنم لیتے ہیں۔
انسانی جسم کے خاکروب
خلیے کا ایک اہم حصہ’’ لایسوسم‘‘ (Lysosome) کہلاتا ہے۔ لایسوسم کی ذمے داری یہ ہے کہ جب خلیے کا کوئی حصہ خراب ہو جائے یا کام کے قابل نہ رہے تو اسے گلا سڑا دے۔ لایسوسم میں تیزابی مادے موجود ہوتے ہیں جو خلیے کے کسی بھی حصے کو گلا دیتے ہیں۔ لایسوسم حملہ آور وائرس یا جراثیم کو مارنے میں بھی کام آتے ہیں۔
اگر خلیہ کسی مرض، ضرب یا قدرتی بڑھاپے سے کام کے قابل نہیں رہے تو لایسوسم ایک ایسا قدرتی عمل جنم دینے میں مددگار بنتے ہیں جو خلیے کو مار ڈالتا ہے۔ یہ عمل’’ پروگرامڈ خلیہ موت‘‘ (programmed cell death) کہلاتا ہے۔
لایسوسم گویا خلیے کے خاکروب ہیں۔ وہ خلیے کی سلطنت میں گھومتے پھرتے ہیں۔ جہاں کوڑا پائیں، اس کو گلا سڑا دیتے ہیں۔ یوں وہ اس چھوٹی سی دنیا یا کارخانہ ِقدرت کو صاف ستھرا اور کام کرنے کے قابل رکھتے ہیں۔ جب سائنس دانوں نے ان کا خردبینی مطالعہ کیا تو ان کے ذہن میں اس سوال نے جنم لیا: ’’جب خود لایسوسم کسی وجہ سے ناکارہ ہو جائیں تو کیا ہوتا ہے؟‘‘ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے جاپانی سائنس دانوں کی ایک ٹیم تحقیق و تجربات میں مصروف ہو گئی۔
یہ ماہرین اوساکا یونیورسٹی، اوساکا اور نارا میڈیکل یونیورسٹی ، نارا سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی تحقیق کے حیران کن نتائج پچھلے ماہ یورپی سائنسی رسالے،ای ایم بی او رپورٹس (EMBO Reports) میں شائع ہوئے۔
مرمت کی قدرتی مشین
جاپانی سائنس دانوں نے دریافت کیا کہ جب لایسوسم خراب ہو جائیں تو ان کے تیزابی مادے اندر سے نکل کر پورے خلیے میں پھیل جاتے ہیں۔ وہ پھر اس کے صحت مند حصوں کو نقصان پہنچا کر خلیے کو بیمار کر ڈالتے ہیں۔ یوں وہ جلد غیرقدرتی موت پا لیتا ہے۔ اگر یہ سلسلہ دیگر خلیوں تک دراز ہو جائے تو تبھی انسان کینسر جیسے کئی موذی امراض کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہ امراض بڑھاپا آنے کی رفتار تیز کر دیتے ہیں۔ گویا لایسوسم کی خرابی کو بڑھاپے کی قبل از وقت آمد کا اعلان سمجھنا چاہیے۔
خوش قسمتی سے قدرت نے لایسوسم کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے ایک عمدہ نظام بنا رکھا ہے۔ یہ قدرتی نظام لایسوسم کی خرابی دور کر کے اسے دوبارہ تندرست بنا دیتا ہے۔ اسی نظام کو جاپانی سائنس دانوں نے پہلی بار دریافت کیا۔ یہ انسان پہ قدرت الہی کی کاریگری اور یکتائی آشکارا کرتا ہے جو انتہائی چھوٹی سطح پر بھی کارفرما ہے اور تعجب خیز معجزے دکھا کر انسان کو ششدر کر دیتی ہے۔
ہوتا یہ ہے کہ جب لایسوسم کا کوئی حصہ خراب ہو جائے تو خلیہ خاص قسم کے پروٹینی سالمات (مالیکیول) اس جگہ طلب کر لیتا ہے جو ’’جی اے بی اے آر اے پی‘‘ (Gamma-aminobutyric acid receptor-associated protein)کہلاتے ہیں۔ ان پروٹینی سالمات کو انجینئر سمجھیے جن کی نگرانی میں لایسوسم کی مرمت ہوتی ہے۔
یہ جی اے بی اے آر اے پی مقررہ جگہ ایسی مشینری بلوا لیتے ہیں جو مائع پروٹینی مادوں سے بنی ہوتی ہے۔ یہ مائع مشینری ’’ای ایس سی آر ٹی‘‘ (endosomal sorting complexes required for transport )کہلاتی ہے۔ اس مشینری کی مدد سے پھر لایسوسم اپنی خراب جگہ کو گلا سڑا دیتا ہے۔ اور وہاں نیا مادہ پیدا ہو جاتا ہے۔ یوں وہ پہلے کی طرح بھلا چنگا ہونے لگتا ہے۔
جب لایسوسم کی خرابی دور ہو جائے تو خلیہ ایک اور خصوصی پروٹین ’’ایس ٹی کے 38‘‘ (Serine-threonine kinase 38)کو متاثرہ جگہ طلب کرتا ہے۔ یہ پروٹین ای ایس سی آر ٹی مشینری کو پرزے پرزے کر کے منتشر کر دیتا ہے۔ یوں لایسوسم پہلے کی طرح اپنی ذمے داریاں بخوبی انجام دینے لگتا ہے۔
جاپانی ماہرین کا کہنا ہے کہ جی اے بی اے آر اے پی پروٹینی سالمات اور ایس ٹی کے 38 مائع پروٹین ہر زندہ وجود میں پائے جاتے ہیں۔
ان کی خاصیت یہ ہے کہ اربوں سال سے ایک ہی ہیت میں چلے آ رہے ہیں ورنہ خلیوں میں جینیاتی تبدیلیاں جنم لینا عام بات ہے۔گویا اللہ تعالی نے یہ یقینی بنایا ہے کہ ان دونوں میں کوئی تبدیلی جنم نہ لے اور وہ انسانوں اور حیوانوں کو جلد بڑھاپا آنے کے منفی عمل سے دور رکھیں۔ یہ خلویاتی عمل بنی نوع انسان کے لیے قدرت الہی کی خاص رحمت ونعمت ہے۔
The post انسان کو بڑھاپے سے بچاتا معجزاتی نظام appeared first on ایکسپریس اردو.