شانگلہ کی پہچان دو حوالوں سے ہے، اول قدرتی مناظرکی خوبصورتی، دوسرے کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے یہاں کے مزدور۔ شانگلہ ایک سب ڈویژن کی حیثیت سے ضلع سوات کا حصہ تھا لیکن جون 1995ء میں اْسے ایک الگ ضلع کی حیثیت دی گئی اور جولائی 1995ء میں باقاعدہ طور پر ڈپٹی کمشنر نے یہاں کے انتظامی اْمور کا چارج سنبھال لیا۔
شانگلہ ایک خوب صورت علاقہ ہے لیکن سیاحوں کی نظروں سے اوجھل چلا آ رہا ہے کیوں کہ یہاں نہ تو سیاحوں کے لیے بنیادی سہولیات ہیں اور نہ ہی اس کے خوب صورت مقامات تک سڑکیں بچھائی گئی ہیں۔
شانگلہ تک پہنچنے کے لیے خوازہ خیلہ تک مدین، بحرین روڈ پر ہی سفر کرنا پڑتا ہے، تاہم خوازہ خیلہ کے مقام پر ایک سڑک سیدھی مدین، بحرین اور کالام تک چلی گئی ہے جب کہ دوسری پختہ سڑک پہاڑی راستہ پر مشرق کی جانب شانگلہ ٹاپ تک اْوپر ہی اْوپر موڑ در موڑ چلی جاتی ہے، اس کے بعد ڈھلان شروع ہوکر ’’الپوری‘‘ کے مقام پر ختم ہو جاتی ہے۔
الپوری، ضلع شانگلہ کا صدر مقام اور ایک حسین قصبہ ہے، جس کے بازار میں زندگی کی بنیادی ضرورت کی تمام اشیاء باآسانی مل سکتی ہیں۔
یہاں ایک ڈگری کالج، ہسپتال، ہائی سکول، ٹیلی فون ایکس چینج اور ضلعی دفاتر ہیں، پشتو زبان کے مشہور صوفی شاعر حافظ الپوری کا مزار بھی یہیں پر واقع ہے، یہاں سیاحوں کے لیے بہت سی دل چسپیاں موجود ہیں، جن میں قدرتی چشمے اوردل کش آبشار سیاحوں کے لیے دل رْبائی اور تسکین کا باعث بنتے ہیں۔ الپوری کے قریب ’’لیلونئی‘‘ کے نام کا ایک خوب صورت اور پْرکشش مقام بھی ہے۔
بشام، ضلع شانگلہ کا ایک خوب صورت اور دل کش علاقہ ہے جو مینگورہ سے 97 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں سے ایک راستہ ایبٹ آباد اوردوسرا راستہ گلگت اور خنجراب کی طرف چلا گیا ہے، یہاں پر آپ تاریخی دریا ’’اباسین‘‘ کا نظارہ بھی کر سکتے ہیں اور بشام کے قرب و جوار میں بکھری خوب صورتیوں سے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔
ضلع شانگلہ کے مذکورہ مقامات قدرتی حْسن و جمال سے مالامال ہیں، لیکن سیاحتی سہولتوں کے فقدان اور بعض جگہوں پر سڑکوں کی خراب حالت کے باعث یہ علاقے سیاحوں کی نگاہوں سے اْوجھل ہیں، جس کے باعث روزگار کے مواقع بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔
شانگلہ کے لوگ روزگار کی تلاش میں ملک کے دیگر علاقوں کا رخ کرتے ہیں، زیادہ تر مقامی لوگ کان کنی کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ اس کام میں ان کا کوئی پرسان حال نہیں، جس کے باعث شانگلہ کو ہر سال درجن بھر لاشیں اپنی آغوش میں سمیٹنا ہوتی ہیں جب کہ بہت سے مزدورمعذوری کا طوق اپنے گلے میں ڈال لیتے ہیں۔ خیبر پختون خوا کے پس ماندہ ضلع شانگلہ میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کا کوئی پرسان حال نہیں۔
پانچ تحصیلوں پر مشتمل ضلع شانگلہ کی آبادی تقریباً آٹھ لاکھ ہے جہاں کے بیشتر لوگوں کا روزگار کوئلے کی کان کنی سے جڑا ہے۔ ضلع شانگلہ میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کی وجہ سے اکثر لوگ اس جان لیوا کام سے وابستہ ہیں، جو بلوچستان، سندھ اورخیبرپختون خوا کی مختلف کانوں میں کام کے لیے وہاں بسیرا کرلیتے ہیں۔
افسوس کی بات ہے کہ ان جفاکش کان کنوں کی لائف سیکیورٹی کے لیے کوئی انتظام نہیں ہوتا۔ مائنز پالیسی ہے اور نہ ہی کسی اور اصول کے تحت کام کیا جاتا ہے۔ انتہائی خطرناک اوردشوارگزار گھاٹیوں اور زیر زمین کانوں میں کام کرتے ہوئے مزدور چند روپوں کی خاطر ہر وقت موت کی آغوش میں ہوتے ہیں۔
ان نامساعد حالات کی وجہ سے اب تک شانگلہ سے تعلق رکھنے والے ہزاروں نوجوان نہ صرف موت کو گلے لگا چکے ہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں زندگی بھر کے لیے معذور بھی ہوچکے ہیں۔
علاقے کی ہزاروں خواتین بیوہ اور ہزاروں بچے یتیم ہوچکے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق شانگلہ سے تعلق رکھنے والے کان کنوں کی اموات کی وجہ سے 30 ہزار بیوائیں اور 80 ہزار بچے یتیم ہو چکے ہیں۔ کوئلے کی کان میں سپائنل کارڈ ٹوٹنے کی وجہ سے معذور ہونیوالے نوجوانوں کی تعداد 200 سے زیادہ ہے جب کہ کئی مزدور ہاتھ پاؤں سے محروم یا نابینا ہو چکے ہیں، اکثر مزدور پھیھپڑوں کی بیماری میں بھی مبتلا ہیں۔
مخیر حضرات اور غیر سرکاری تنظیموں کے تعاون سے ان افراد کیلئے ویل چیئرز کا بندوبست کیا گیا ہے جو ریڑھ کی ہڈی ٹوٹنے سے معذور ہو چکے تھے۔ معذور ہونے کے بعد شوکت نامی نوجوان نے گاؤں میں ایک دکان کھول لی ہے اور فارغ وقت میں وہ مقامی بچیوں کو مفت تعلیم دیتے ہیں۔
آج کل زیادہ حادثات درہ آدم خیل کے کوئلے کی کانوں میں پیش آتے ہیں کیونکہ یہ کانیں نئی نئی شروع ہوئی ہیں اور ان میں حفاظتی اقدامات کا فقدان ہے۔ ضلع شانگلہ میں کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی آگاہی اور حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک مقامی تنظیم کے عہدیدار عبدالباسط نے بتایا کہ ضلع شانگلہ کے 75 فی صد تک مزدور کوئلے کی کان کنی سے وابستہ ہیں۔ صوبہ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں جتنی بھی کوئلے کی کانیں ہیں اس میں شانگلہ کے مزدورکام کرتے ہیں۔
عبدالباسط نے کہا کہ شانگلہ کے کان کن مزدوروں کی پہلے کوئی تفصیل موجود نہیں تھی لیکن ان کی تنظیم نے 2017ء سے اپنی مدد آپ کے تحت کام شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شانگلہ میں اوسطاً سالانہ 300 مزدورکوئلے کی کانوں میں مر جاتے ہیں اور 50 مستقل معذور ہو جاتے ہیں، جس میں سپائنل کارڈ انجری، گردن کی ہڈی ٹوٹنا وغیرہ شامل ہے۔
کان کنی سے وابستہ مزدور 50 سال تک کی عمر میں ناکارہ ہو جاتے ہیں کیوںکہ مائنز میں گیسوں اور گرد سے بچنے کے لیے حفاظتی اقدامات نہ ہونے سے ان کے پھیپھڑے اور گردے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ شانگلہ زیادہ تر پہاڑی علاقہ ہے اور یہاں پچھلے ستر، اسی سال سے لوگ کان کنی سے وابستہ ہیں، اسی وجہ سے یہاں کے لوگ پہاڑی اور سخت جان ہوتے ہیں۔
کانوں میں کام کرنے والوں میں اکثریت نوجوانوں کی ہے یہاں تک کہ سکول کی چھٹیوں میں نوعمر لڑکے بھی یہی کام کرنے لگتے ہیں۔ حال ہی میں اورکزئی کی کان میں دھماکے سے شانگلہ کے تین نوجوان جاں بحق ہوچکے ہیں جس میں ایک میٹرک کا طالب علم بھی تھا، جو یہاں کے باسیوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ بدقسمتی سے کسی منرل ڈیپارٹمنٹ یا لیبر ڈیپارٹمنٹ نے شانگلہ کے مرنے والے اور معذور مزدوروں کا ڈیٹا جمع کیا اور نہ ہی کوئی مالی مدد کی ہے۔
اگر ہم اعداد وشمار پر ایک نظر ڈالیں تو 2020ء میں شانگلہ کے 196 مزدور جاں بحق ہوئے جب کہ 2021ء میں 230 مزدور کوئلے کی کان میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اگر کام کے دوران مزدور مر جائے تو کان کا مالک صرف پانچ لاکھ روپے دیتا ہے، اگرچہ وفاق کے پاس 26.5 ارب روپے ورکرز ویلفیئر فنڈ ہے۔
یہ فنڈ ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں کوئلے کے فی ٹن کے حساب سے جمع ہوتا ہے، اس کے باوجود مزدوروں پر خرچ نہیں کیا جاتا۔ کوئلے کی کانوں کے مزدور حادثوں کے علاوہ صوبہ بلوچستان اور سابقہ فاٹا میں اغوا برائے تاوان، دہشت گردی اور دیگر مائنز تنازعات کا بھی شکار ہوتے ہیں۔ ان اسباب کی وجہ سے ہر مہینے اوسطاً چار سے پانچ مزدوروں کی لاشیں ضلع شانگلہ لائی جاتی ہیں۔ ایک مزدور کو 1500 روپے یومیہ ملتے ہیں، شانگلہ کی یونین کونسل پیرآباد کے رہائشی مزدور سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
کوئلے کی کانیں گزشتہ31 برسوں کے دوران خیبر پختونخوا میں 859 مزدوروں کو نگل گئی ہیں۔ 230 مزدور زخمی ہو ئے۔ ایبٹ آباد، ہری پور، مانسہرہ ، درہ آدم خیل، کرک، پشاور، مردان، ڈی آ ئی خان، مہمند، بونیر، چترال، سوات اور کوہستان میں1991ء سے 2022ء تک کل 791 واقعات رونما ہو ئے۔
ضلع کوہستان خوش قسمت ضلع ہے جہاں کی کوئلہ کانوں میں ایسا کو ئی حادثہ رونما نہیں ہوا۔ کوہاٹ درہ آدم خیل سب سے زیادہ متاثرعلاقوں میں شامل ہے۔ درہ آدم خیل میں 232 واقعات میں 304 مزدور چل بسے، سال 2020ء کے دوران سب سے زیادہ 99 اور سال2021ء کے دوران 80 مزدور موت کے منہ میں چلے گئے۔ حادثے کے زیادہ واقعات سال 2021ء میں رپورٹ کیے گئے۔
ضلع سوات میں 26 حادثات میں 23 مزدور جاں بحق اور 7 زخمی ہو ئے۔ چترال میں دو واقعات میں چار مزدور زخمی، ضلع بونیر میں 152 واقعات رونما ہو ئے جس میں 153 مزدور جاں بحق اور 42 زخمی ہو ئے۔ ضلع مردان میں 82 واقعات میں 84 مزدور جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جب کہ 12 کان کن زخمی ہوئے۔ پشاور متنی میں 205 واقعات میں 149 مزدور جاں بحق، 116 کان کن زخمی ہو ئے۔
کوہاٹ درہ آدم خیل میں 232 واقعات میں 304 مزدور جاں بحق اور 23 زخمی ہو ئے۔ ضلع کرک میں دس واقعات میں 15جاں بحق جب کہ ایک کان کن زخمی ہوا۔ ڈی آئی خان میں سات واقعات میں آٹھ مزدور جاں بحق ہوئے۔ ضلع مہمند میں سات واقعات میں 32 مزدور جاں بحق جب کہ سات زخمی ہوئے۔ ایبٹ آ باد میں 41 حادثات میں 39 مزدور جاں بحق اور 16 کان کن زخمی، مانسہرہ میں گیارہ حادثات میں 37 مزدور جاں بحق جب کہ ہری پور میں 16 حادثات میں 15 مزدور جاں بحق اور 2 زخمی ہو ئے۔
2003ء میں درہ آدم خیل میں کوئلے کی کانیں دریافت ہوئیں، جہاں 18 ہزار تک کان کن کام کرتے ہیں۔ یہاں مناسب حفاظتی اقدامات نہ کرنیکی وجہ سے کئی کان کن دم گھٹنے اور سلائیڈنگ کے باعث موت کا شکار ہوئے ہیں۔ بعض کو اغوا کر نے کے بعد قتل کیا گیا۔
سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ بد قسمتی سے ’لیبر کانپینسیشن ایکٹ‘ 1923ء (نقصان کی تلافی کا قانون) لاگو کیا گیا نہ ہی لیبر ایکٹ 2015ء میں ترامیم کے دعوے کو عملی شکل دی گئی۔
شانگلہ میں گزشتہ ماہ اکتوبر میں کوئلہ کان میں جان بحق مزدوروں کی تعداد11 سے تجاوز کرگئی۔ آئے روز کوئلے کی کانوں میں شانگلہ کے باسی حادثات کاشکار ہو رہے ہیں۔ کان کنی سے وابستہ شانگلہ کے ہزاروں مزدوروں کی نہ تو رجسٹریشن ہے اور نہ ہی کوئی دوسری سہولت ان کو میسر ہے۔
2013ء میں کیے گئے سروے کے مطابق شانگلہ میں 65 فی صد سے زائد لوگوں کا دارومدار براہ راست کوئلہ کان کنی پر ہے تاہم شانگلہ میں ان کوئلہ کان کنوں کے لیے نہ تو کوئی ہسپتال قائم ہے، نہ ان کے بچوں کے لیے سکول، اور وہ کسی دوسری سہولت سے بھی محروم ہیں۔
لہٰذا وقت کی ضرورت ہے کہ شانگلہ سمیت کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے تمام مزدوروں کی رجسٹریشن کر کے ان کو قانون کے مطابق تمام سہولیات فراہم کی جائیں۔ تمام مزدوروں کے کوائف حاصل کر کے ان کی رجسٹریشن کی جائے ، اسی طرح تمام کوئلہ کان لیز ہولڈرز کو رجسٹرڈ کیا جائے۔
غیرقانونی اور سیل شدہ کوئلہ کانوں کی بندش کو یقینی بنایا جائے تاکہ آئے روز ہونے والے ان حادثات کی روک تھام ہوسکے، مزدوروں کو ان کا حق ملے اور حادثے کے صورت میں ان کو جائز حقوق مل سکیں۔
The post شانگلہ کے بے بس کان کن appeared first on ایکسپریس اردو.