عام طور پر توہم پرستی کا تعلق روزمرہ کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات سے جوڑا جاتا ہے توہم پرستی کا عمل دخل نہ صرف زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں میں دکھائی دیتا ہے۔
بل کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی کے بہت سے کام یاب لوگ اپنی کام یابی کی وجہ توہم پرستی سے جڑی اپنی کسی ایسی حرکت یا عمل کو قرار دیتے ہیں جو بظاہر ان کے شعبے سے میل نہیں کھاتی اور پھر جب زندگی کا ہر شعبہ توہم پرستی یا ٹوٹکوں میں گھرا ہو تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کھیل کا شعبہ اس سے مبرا ہو۔
عام طور دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے نام ور کھلاڑی توہم پرستی یا ٹوٹکوں پر مستقل مزاجی سے عمل کرتے ہیں چوں کہ آج کل ہر طرف فٹ بال کا شور ہے تو آئیے! فٹ بال کے حوالے سے مختلف ملکوں اور کھلاڑیوں کی توہم پرستانہ عادتوں پر نظر ڈالتے ہیں۔
٭ جان جارج ٹیریJohn Terry
انگلینڈ کی ٹیم کے سینٹر بیک اور دو ہزار چھے سے دوہزار بارہ تک کپتانی کے فرائض انجام دینے والے جان جارج ٹیری جارحانہ مزاج کے کھلاڑی ہیں۔ جان ٹیری کی وجہ شہرت جہاں ان کا زبردست کھیل ہے، وہیں دوسری طرف ان کی توہم پرستی بھی مشہور ہے۔
برطانوی فٹ بال کلب چیلسیا سے کھیلنے والے جان ٹیری جس وقت اپنے کلب سے اسٹیڈیم کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو ہمیشہ بس کے بائیں جانب چوتھی لائن میں کھڑکی کی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھتے ہیں۔ اس سیٹ پر کوئی دوسرا نہیں بیٹھ سکتا۔ اسی طرح وہ جب اپنی کار پر اسٹیڈیم آتے ہیں تو ایک مخصوص جگہ پر کار پارک کرتے ہیں اور اس دوران ہمیشہ گانوں کی مخصوص سی ڈی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ جان ٹیری نے دس سال تک پنڈلی پر پہننے والے حفاظتی ’’شن گارڈوں‘‘ کی ایک ہی جوڑی استعمال کی۔ ان حفاظتی شن گارڈوں سے جان ٹیری کی گلوخلاصی سن دوہزار پانچ میں اس وقت ہوئی، جب وہ چوری ہوگئے۔ اس عمل کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ حفاظتی شن گارڈ انہیں میدان میں ہر اس جگہ لے جاتے تھے جہاں وہ پہنچنا چاہتے تھے۔
٭ پیپ ریاناPepe Reina
اسپین کی موجودہ ٹیم کے گول کیپر پیپ ریانا توہم پرستی کی طویل فہرست رکھتے ہیں۔ تاہم ان کا اس حوالے سے سب سے اہم وہم یہ ہے کہ وہ ہر میچ سے قبل اپنی گاڑی کا پیٹرول ٹینک فل کرانا نہیں بھولتے۔ ان کا خیال ہے کہ اس عمل سے ان کے اندر بھی توانائی مکمل طور پر بھر جاتی ہے۔
٭ ڈیوڈ بیکہمDavid Beckham
برطانیہ کے شہرۂ آفاق کھلاڑی ڈیوڈ بیکہم ایک عجیب و غریب عادت یا توہم کا شکار رہے ہیں۔ اس حوالے سے ڈیوڈ بیکہم کا کہنا ہے کہ وہ ماضی میں میچ سے قبل فریج میں موجود اپنے مشروب کے ڈبوں کو مخصوص اور سیدھی ترتیب میں رکھے بغیر میچ کھیلنے نہیں جاتے تھے۔ اسی طرح اگر فریج میں مشروب کا ایک ڈبا ہوتا تھا وہ لازماً دوسرا ڈبا اس کے ساتھ رکھ کر اس کا جوڑا بناتے تھے۔ تاہم ڈاکٹر حضرات ڈیوڈ بیکہم کی اس عادت کو توہم پرستی کے بجائے ایک نفسیاتی مرض قرار دیتے ہیں، جس میں مریض ہر چیز کو ترتیب میں رکھنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈیوڈ بیکہم نے کچھ ہی عرصے بعد علاج کے ذریعے یہ عادت ترک کردی تھی۔
٭ لورینٹ بلانکLaurent Blanc
فرانس سے تعلق رکھنے والے مڈ فیلڈر لورینٹ بلانک انیس سو اٹھانوے کے ورلڈ کپ میں ایک عجیب توہم پرستی کا شکار نظر آئے۔ وہ ہر میچ سے قبل اپنے گول کیپر فبیان بارتہیز کے گنجے سر کو چومتے تھے۔ وہ اس عمل کو اپنی ٹیم کی خوش قسمتی کے لئے ضروری قرار دیتے تھے اور یہ بات اس وقت درست ثابت ہوئی جب فرانس نے انیس سو اٹھانوے کا عالمی کپ جیت لیا۔
٭ شے گیوینShay Given
جمہوریہ آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے شے گیوین کا شمار دنیا کے بہترین گول کیپروں میں کیا جاتا ہے شے گیوین اپنے کلب آسٹن ولا یا قومی ٹیم کی جانب سے کھیلتے ہوئے ہر میچ سے قبل اپنے بیگ میں سے پانی سے بھری ایک بوتل نکالتے ہیں اور گول پوسٹ کے پیچھے اس کا چھڑکاؤ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ شے گیوین کا ماننا ہے کہ یہ مقدس پانی ان کے ساتھ ہر میچ میں موجود ہوتا ہے اور اس کی برکت سے ان کی کارکردگی ہمیشہ عمدہ رہتی ہے۔
٭ فل جونزPhil Jones
انگلینڈ سے تعلق رکھنے والے بائیس سالہ فل جونز بھی توہم پرستی کا شکار ہیں۔ وہ اپنی اس توہم پرستی کو خوش قسمتی کے لیے ضروری قرار دیتے ہیں۔ اس ضمن میں وہ ہمیشہ اپنے ملک یا کلب مانچسٹر یونائیٹڈ کی جانب سے کھیلتے ہوئے موزے پہنے کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ اگر ان کا میچ ہوم گراؤنڈ میں ہوتا ہے تو وہ سیدھے پیر کا موزہ پہلے پہنتے ہیں اور اگر میچ دوسرے شہر میں یا ملک میں ہورہا ہوتا ہے تو وہ الٹے پیر کا موزہ پہلے پہننا لازمی سمجھتے ہیں۔ زبردست دفاعی صلاحیتوں کے مالک فل جونز کا خیال ہے کہ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو میچ ہار جائیں گے یا ان کی کارکردگی خراب ہوگی۔
٭ جان کریوف Johan Cruyff
ہالینڈ سے تعلق رکھنے والے ماضی کے عظیم کھلاڑی جان کریوف میچ سے قبل فتح کے لیے ایک عجیب و غریب ٹوٹکا اختیار کرتے تھے۔ وہ میچ شروع ہونے سے قبل اپنے منہ کی چیونگم مخالف ٹیم کے ہاف میں جاکر تھوک دیا کرتے تھے۔ جان کریوف کا خیال تھا کہ اس طرح کرنے سے ان کی فتح لازمی ہوتی تھی یا کم از کم ان کا کھیل نکھر جاتا تھا۔
٭ کولو تورKolo Toure
موجودہ ورلڈکپ میں آئیوری کوسٹ کی جانب سے اپنے کھیل کے جوہر دکھانے والے مسلم کھلاڑی کولو تور کا خیال ہے کہ وہ اگر گراؤنڈ میں اپنی ٹیم کی جانب سے سب سے آخر میں آتے ہیں تو ان کی ٹیم کے لیے یہ نیک شگون ہوتا ہے۔
٭ پال انسPaul Ince
انگلینڈ کی جانب سے تریپن میچوں میں شرکت کرنے والے پال انس اپنے پورے کیریر میں توہم پرستی کا اظہار کرتے رہے۔ وہ گراؤنڈ میں اپنی ٹیم کی جانب سے سب سے آخر میں داخل ہوتے تھے۔ اسی طرح جب میچ ختم ہوجاتا تھا تو وہ لاکر روم میں اپنی ٹیم کے تمام کھلاڑیوں کی جانب سے شرٹ اتارنے کے بعد اپنی شرٹ سب سے آخر میں اتارتے تھے۔
٭ پیلےPele
برازیل کے جادوئی کھلاڑی پیلے کے حوالے سے بھی کہا جاتا ہے کہ اپنے کیریر کے اوائل میں وہ ایک مخصوص شرٹ پہن کر میچ کھیلنا پسند کرتے تھے۔ ایک دفعہ یہ شرٹ انہوں نے اپنے کسی چاہنے والے کو تحفے میں دے دی تو پیلے نے محسوس کیا کہ ان کی کارکردگی میں کمی آرہی ہے۔ تاہم کچھ عرصے بعد یہ شرٹ انہیں واپس مل گئی جسے پہن کر پیلے نے دوبارہ اپنے کھیل کے جوہر دکھانے شروع کردیے۔ تاہم یہ عمل مستقل جاری نہ رہ سکا بلکہ کچھ ہی عرصہ بعد پیلے اپنی خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر فٹ بال کے کھیل پر حکم رانی کرنے لگے۔
٭ گیری لنکرGary Lineker
برق رفتار کھیل سے شہرت حاصل کرنے والے برطانوی کھلاڑی گیری لنکر کا شمار ماضی کے عمدہ فارورڈز میں کیا جاتا ہے۔ گیری لنکر میچ سے قبل وارم اپ ٹائم میں کبھی بھی گیند گول میں نہیں پھینکتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح وہ قدرت کی جانب سے گول کرنے کی صلاحیت کو قبل از وقت استعمال کرلیں گے۔ اسی طرح اگر وہ میچ کے دوران محسوس کرتے تھے کہ ان سے عمدہ طریقے سے کھیلا نہیں جارہا تو وہ گراؤنڈ میں رہتے ہوئے شرٹ تبدیل کرلیا کرتے تھے۔
٭ جنارو گاٹوسوGennaro Gattuso
برق رفتار مڈ فیلڈرجنارو گاٹوسو کا تعلق اٹلی کی ٹیم سے ہے اور وہ اس ٹیم کا حصہ تھے جس نے دو ہزار چھے کا ورلڈکپ جیتا تھا۔ جنارو گاٹوسو ہر میچ سے قبل مشہور ناول نگار ’’دوستو فسکی‘‘ کی کوئی نہ کوئی تحریر پڑھنا خوش بختی کی علامت سمجھتے ہیں۔ اسی لیے ہر میچ سے قبل ان کے بیگ میں دوستو فسکی کا کوئی نہ کوئی ناول ضرور موجود ہوتا ہے ۔
٭ ماریو گومزMario Gomez
جرمنی کی جانب سے انسٹھ میچوں میں حصہ لینے والے اٹھائیس سالہ ماریو گومز کے بارے میں مشہور ہے کہ ایک مرتبہ جرمنی کی نوجوانوں کی ٹیم کی جانب سے ایک میچ سے پہلے وہ قومی ترانہ پڑھنا بھول گئے تھے۔ اس میچ میں انہوں نے نہ صرف عمدہ کارکردگی دکھائی بلکہ گول بھی کیے۔ اس واقعے کو انہوں نے خوش قسمتی کا باعث سمجھا اور پھر اس کے بعد ماریو گومز نے کسی بھی میچ سے قبل کبھی بھی قومی ترانہ نہیں پڑھا۔
٭ مال ون کاماراMalvin Kamara
براعظم افریقہ سے تعلق رکھنے والے چھوٹے سے ملک سیرا لیون میں فٹ بال ذوق وشوق سے کھیلا جاتا ہے۔ اس ملک کی قومی ٹیم کے کھلاڑی مال ون کامارا اپنی کارکردگی میں بہتری لانے کے لیے ہر میچ سے قبل مشہور فلم سیریز ’’ولی وونکا اینڈ دی چاکلیٹ فیکٹری‘‘ دیکھنا نہیں بھولتے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس فلم کو دیکھنے کے بعد ان کا موڈ بہتر ہوجاتا ہے، جو اچھا کھیلنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سے مال ون کامارا اس ٹوٹکے کے باوجود دو سو سے زاید میچوں میں صرف پندرہ گول کرسکے ہیں۔
٭ ایڈرن میوتوAdrian Mutu
رومانیہ کے لئے ستتر میچوں میں خدمات انجام دینے والے ایڈرین میوتو نے مقابلوں میں خوش قسمتی کے عنصر کو فعال رکھنے کے لیے ہمیشہ ایک ہی زیرجامہ (انڈرویئر) کا استعمال کیا ہے۔ اس دوران اگرچہ وہ نیا زیرجامہ بھی پہنتے تھے۔ تاہم اس کے نیچے ان کا پرانا زیرجامہ بھی موجود رہتا تھا۔ بالکل اسی طرح کولمبیا کے معروف گول کیپر ’’رینا ہیگوتا‘‘ جو اپنے بڑے بڑے بالوں کی وجہ سے بھی پہچانے جاتے تھے انہوں نے بھی اپنے پورے کیریر میںخوش قسمتی کے لئے اپنے پرانے زیر جامے ہی کو اپنے ساتھ رکھا۔
٭ سرجیو گویکوچیاSergio Goycochea
ارجنٹائن کے گول کیپر سرجیو گویکوچیا کی وجہ شہرت اگرچہ پنالٹی ککس روکنا رہی ہے۔ تاہم اس کے علاوہ ان کی ایک وجہ شہرت یہ بھی تھی کہ جب کسی بھی میچ میں ان کے خلاف پنالٹی کک لگائی جاتی تھی تو وہ اس سے قبل پیشاب کرنا ضروری سمجھتے تھے بات صرف یہاں تک ہوتی تو ٹھیک تھا، لیکن توہم پرستی کے باعث وہ یہ عمل گراؤنڈ پر ہی کرتے تھے۔
منیجر اور کوچز کے توہمات
رائے ہاگسنRoy Hodgson
انگلینڈ کے موجودہ کوچ رائے ہاگسن کے بارے میں مشہور ہے کہ جب ان کی ٹیم میچوں میں مستقل فتح حاصل کررہی ہوتی ہے تو وہ اس دوران ہمیشہ ایک ہی رنگ کا کوٹ، پتلون، ٹائی اور موزے پہنتے ہیں اور جب ان کی ٹیم کوئی میچ ہار جاتی ہے، تو وہ اس وقت تک مختلف رنگوں کے کپڑے پہنتے ہیں جب تک ٹیم اگلے میچ میں فتح نہ حاصل کرلے۔
لوئیس آراگونوسLuis Aragones
اسپین کے سابق کھلاڑی اور اپنے ملک کے لیے دو ہزار چار سے دوہزار آٹھ تک منیجر کی خدمات انجام دینے والے معروف کھلاڑی اور کوچ لوئیس آراگونوس کو پیلے رنگ سے نفرت تھی۔ وہ پیلے رنگ کو اپنے لیے بدقسمتی کی علامت سمجھتے تھے۔ ان کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ میچ سے قبل کوئی بھی شخص بالخصوص کھلاڑی پیلی شرٹ پہن کر ان کے سامنے نہ آئے اور اگر ایسا ہوجاتا تو وہ فوراً شرٹ تبدیل کرنے کا حکم دیتے تھے۔
گیووانی تراپاتونیGiovanni Trapattoni
اٹلی سے تعلق رکھنے والے سنیئر کھلاڑی اور سن دو ہزار سے دو ہزار چار تک اٹلی کی قومی ٹیم کے لیے منیجر کے فرائض انجام دینے والے گیووانی تراپاتونی اپنے کلب میچوں سے قبل اور بعد میں بطور منیجر ہر میچ سے پہلے گرائونڈ میں نہ صرف مقدس پانی کا چھڑکائو کرتے تھے، بل کہ اس پانی سے غسل بھی کرتے تھے۔ انہیں یہ پانی ان کی بہن بھیجتی تھیں جو کہ ایک نن تھیں۔
رومیو اینکونیتانیRomeo Anconetani
اٹلی کے لیے خدمات انجام دینے والے مڈفیلڈر اور بعدازاں منیجر کے عہدے پر فائز ہونے والے رومیو اینکونیتانی ہر میچ سے قبل اپنی کام یابیوں کے لیے گرائونڈ میں نمک چھڑکنے کا ٹوٹکا استعمال کرتے تھے۔ ایک مرتبہ مقامی کلب میچ میں مضبوط مدمقابل ٹیم کو زیر کرنے کے لیے رومیو نے تقریباً چھبیس کلو نمک کا چھڑکائو کیا تھا۔
اسٹیو بائولSteve Boul
برطانیہ کی جانب سے انیس سو اسی سے سن دو ہزار تک خدمات انجام دینے والے اسٹیو بائول جس وقت کوچ کے فرائض انجام دیتے تھے تو وہ اپنی خوش بختی کے لیے ہاتھ میں پہننے والی گھڑی ہمیشہ اپنی پتلون کی سیدھے ہاتھ کی جانب والی جیب میں رکھتے تھے۔
کارلوس بیلاردوCarlos Bilardo
انیس سو چھیاسی کے ورلڈکپ کا فاتح ارجنٹائن تھا۔ اس ٹیم کے منیجر کارلوس بیلاردو بھی بلا کے توہم پرست ہیں۔ انیس سو چھیاسی کے ورلڈ کپ میں انہوں نے پور ے ٹورنامنٹ کے دوران کھلاڑیوں پر مرغی کھانے پر پابندی صرف اس لیے لگائی تھی کہ ٹورنامنٹ کے دوران مرغی کھانا بدقسمتی کی علامت ہے۔ اسی طرح ٹورنامنٹ کے ابتدائی مرحلے کے میچ میں کھلاڑیوں کو لے جانے والی بس خراب ہوگئی تو کارلوس نے پوری ارجنٹائن کی ٹیم کو مختلف ٹیکسیوں میں سوار کراکے گرائونڈ پہنچایا، جس کے بعد ٹیم نے عمدہ کارکردگی دکھائی اور اچھے طریقے سے کام یاب ہوئی۔ اس فتح کے بعد کارلوس نے پورے ٹورنامنٹ میں ٹیم کو بس کے بجائے انہی ٹیکسیوں میں اسٹیڈیم روانہ کیا۔ اس کے علاوہ اسی ٹورنامنٹ کے دوران ایک میچ سے قبل ارجنٹائن کی ٹیم کو ایک خاتون نے کام یابی کی دعا دی ٹیم اس میچ میں کامیاب ہوگئی تو کارلوس نے اس نامعلوم خاتون کو تلاش کرکے پورے ٹورنامنٹ میں ٹیم کے ساتھ رکھا۔ یہ خاتون ٹیم کو ہر میچ سے قبل کام یابی کی دعا دیتی تھیں۔ تاہم اسے کارلوس بیلاردو کی توہم پرستی کہیں یا ٹیم کی زبردست محنت کا نتیجہ قراردیں کہ انیس سو چھیاسی کے ورلڈ کپ کا فاتح ارجنٹائن ہی بنا۔
اسٹیو بروسSteve Bruce
برطانیہ کے سابق کھلاڑی اسٹیو بروس کی وجہ شہرت ایک عمدہ سینٹر بیک کی رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں تریپن سالہ اسٹیو بروس ’’ہل سٹی‘‘ ٹیم کے لیے منیجر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اسٹیو بروس اس وہم کا شکار رہتے ہیں کہ اگر ان کی ٹیم کو پنالٹی کک ملے اور اگر انہوں نے یہ کک لگاتے ہوئے دیکھی تو پنالٹی کک ضائع ہوجائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کی ٹیم کو پنالٹی کک ملتی ہے تو وہ گرائونڈ کی جانب پیٹھ کرلیتے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر ان کی ٹیم کی جانب سے آج تک کوئی پنالٹی کک ضائع نہیں ہوئی۔
ڈیگو میراڈوناDiego Maradona
ڈیگو میرا ڈونا کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والے میراڈونا اپنے کھیل کے دوران تو کسی خاص وہم کا شکار نہیں نظر آتے تھے، تاہم جب وہ دو ہزار دس میں ٹیم کے منیجر بنے تو اپنی ٹیم کے ہر میچ سے قبل ہمیشہ بھورے رنگ کا ٹریک سوٹ زیب تن کرکے گرائونڈ میں آتے تھے۔ اسی طرح انہوں نے اپنے ہاتھوں میں ہمیشہ رنگ برنگ پٹے یا بینڈ بھی پہننے ہوئے ہوتے تھے۔ مگر پھر بھی ان کی یہ توہم پرستی ان کی ٹیم کو کوئی فائدہ نا پہنچا سکی۔
ٹیموں کی توہم پرستی
روانڈا کی ٹیم
وسطی افریقہ میں واقع ملک روانڈا کی ٹیم کسی بھی ملک سے کھیلنے سے قبل اس بات کا اہتمام کرتی ہے کہ برائیوں کی قوتوں کو میدان کے باہر روک دیا جائے، تاکہ وہ قوتیں اس کے مخالفین کا ساتھ نہ دے سکیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے روانڈا کے کھلاڑی اسٹیڈیم کے مرکزی گیٹ پر جادوئی آگ جلاتے ہیں، تاکہ دوسری ٹیموں کا جادو کام نہ کرسکے۔ اس کے باوجود روانڈا کی ٹیم اکثروبیشتر شکست سے دوچار ہوجاتی ہے۔
اسپین اور روس
دو ہزار آٹھ کی یورپین چیمپیئن شپ میں روس اور اسپین کے مابین کھیلا جانے والا سیمی فائنل توہم پرستی یا ٹوٹکے بازی کے لحاظ سے یادگار تھا۔ اس میچ میں اسپین کے قدیم قبائل ’’ووڈو‘‘ کے افراد نے روس کے کھلاڑیوں کے گڑیوں کی شکل کے مجسمے بنائے اور ان مجسموں میں سوئیاں گاڑدی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح روسی کھلاڑیوں پر نادیدہ قوتیں دبائو ڈالے رکھیں گی۔ یہ میچ اسپین بہ آسانی جیت گیا تھا۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ روسی کھلاڑی نادیدہ قوتوں کے دبائو کے تحت میچ ہارے تھے یا اپنی ناقص کارکردگی کے باعث شکست سے دوچار ہوئے تھے۔
زمبابوے اور مگرمچھMidlands Port Cement
دوہزار نو میں زمبابوے کے فرسٹ ڈویژن کلب مڈلینڈ پورٹ سیمنٹ کے منیجرنے فیصلہ کیا کہ ان کی ٹیم کے تمام کھلاڑیوں کو دریائے زمبابوے میں میچ سے قبل غسل کرنا چاہے، تاکہ تمام برائی کی قوتوں سے چھٹکارا حاصل ہوسکے۔ اس مقصد کے لیے ان کی ٹیم کے سترہ کھلاڑیوں نے دریائے زمبابوے میں غوطہ لگایا۔ واضح رہے کہ یہ دریا خوں خوار مگرمچھوں کے لیے مشہور ہے۔ تھوڑی دیر بعد جب کھلاڑی سطح پر آئے تو ایک کھلاڑی کم تھا خیال کیا جاتا ہے وہ مگرمچھوں کی خوراک بن گیا۔ اس توہم پرستی نے نہ صرف ایک کھلاڑی کی زندگی کا چراغ گل کردیا بل کہ ٹیم اگلا میچ بھی ہار گئی۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ اس حادثے کے باوجود آج بھی زمبابوے کی قومی ٹیم کے کھلاڑ ی میچ سے قبل اس دریا میں غسل کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
بدقسمت لاکر روم
انگلینڈ کے شہر کارڈف کے مرکزی میلینیم اسٹیڈیم کے جنوبی حصے میں واقع لاکر روم فٹ بال ٹیموں کے لیے بدقسمتی کی علامت بن چکا ہے۔ یہ لاکر روم ہر اس ٹیم کو شکست سے دوچار کرنے کا باعث بن رہا ہے، جو اس لاکر روم کو استعمال کرتی ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بظاہر اس کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی تاہم انیس سو نناوے سے یہی صورت حال اب تک قائم ہے۔
ستاروں کی چال، ریمنڈ ڈومینچ Raymond Domenech
فرانس کے سابق کھلاڑی اوردو ہزار چار سے دو ہزار دس تک منیجر کے فرائض انجام دینے والے ریمنڈ ڈومینچ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کھلاڑیوں کا انتخاب کرتے وقت کھیل کی صلاحیتوں کے علاوہ ان کے پیدائشی برج بھی نظر میں رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں ’’ماہر نجوم ‘‘ کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے۔
وہ اپنے اس وہم میں اتنے پختہ ہیں کہ انہوں نے دوہزار چھے کے ورلڈ کپ میں ایک انتہائی اہم کھلاڑی رابرٹ پیرس کو محض اس وجہ سے منتخب نہیں کیا تھا کہ رابرٹ پیرس کے ستارے ٹیم کے ستاروں سے مناسبت نہیں رکھتے تھے۔ ان کے اس اقرار کے بعد فرانس اور دنیا بھر میں کھیلوں کے حلقوں کی جانب سے ریمنڈ پر زبردست تنقید کی گئی تھی۔ دوسری طرف علم نجوم کی مدد لینے کے باوجود فرانس ورلڈکپ کا فائنل اٹلی سے ہار گیا تھا۔ اس میچ کے دوران ریمنڈ ڈومینچ نے ڈریگون کی تصویر والی جو ٹائی پہننی تھی وہ بھی انہوں نے ماہر علم نجوم سے مشورے کے بعد منتخب کی تھی۔
دیگر کھیل اور توہمات
فٹ بال کی طرح دیگر کھیلوں میں بھی کھلاڑیوں کی جانب سے توہم پرستی کا اکثر و بیشتر اظہار ہوتا رہتا ہے۔ اس حوالے سے کرکٹر سرفہرست ہیں انڈیا کے سپر اسٹار بیٹسمین سچن ٹنڈولکر بیٹنگ پر جانے سے پہلے ہمیشہ الٹے پائوں کا پیڈ باندھتے ہیں، جب کہ آسٹریلیا کے کپتان مائیکل کلارک بیٹنگ پر جانے سے قبل تیز آواز میں موسیقی سنتے ہیں۔ انڈین کپتان دھونی اور یوراج سنگھ دنوں اپنی پیدائش کی تاریخ والی شرٹ پہنتے ہیں۔ دھونی سات جولائی کے لحاظ سے سات نمبر اور یوراج سنگھ بارہ دسمبر کے لحاظ سے بارہ نمبر کی شرٹ پہنتے ہیں۔ واضح رہے کہ دونوں کا پیدائش کا مہینہ اور تاریخ پیدائش یعنی سات جولائی (سات تاریخ اور ساتواں مہینہ) اور بارہ دسمبر (بارہ تاریخ اور بارہواں مہینہ) گنتی کے لحاظ سے ایک نمبر رکھتے ہیں۔ انڈین فاسٹ بائولر ظہیر خان خوش قسمتی کی علامت کے طور پر پیلے رنگ کا رومال جیب میں رکھتے ہیں جب کہ سارو گنگولی اپنے استاد کی تصویر جیب میں رکھتے ہیں۔ اسی طرح آسٹریلیا کے اسٹیووا اپنی پتلون کی بائیں طرف کی جیب میں سرخ رومال رکھتے ہیں جو انہیں ان کے دادا نے دیا تھا۔
ٹینس کی شہرۂ آفاق خاتون کھلاڑی سرینا ولیمز پورا ٹورنامنٹ ایک ہی موزے کا جوڑا پہن کر کھیلنا اپنے لیے خوش قسمتی کی علامت قرار دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ میچ کی اپنی پہلی سروس سے قبل گیند کو زمین پر پانچ مرتبہ لازمی ٹَپا دیتی ہیں۔ باسکٹ بال کے مشہور کھلاڑی مائیکل جارڈن میچ کے دوران دو نیکر پہنتے تھے۔ پہلی نیکر ان کے ابتدائی کلب (نارتھ کیرولینا) کی ہوتی تھی، جس کے اوپر دوسری نیکر موجودہ کلب شکاگو بلز کی ہوتی تھی۔
کاروں کی ریس کے مشہور ایونٹ نیشنل ایسوسی ایشن فار اسٹاک کارآٹو ریسنگ کے دوران ہر ے رنگ کی گاڑی استعمال کرنے کی ممانعت ہے۔ اس کے علاوہ ڈرائیوروں کو دوران ریسنگ پچاس ڈالر سے زاید رقم رکھنا بھی منع ہے، جب کہ ریسنگ ٹریک پر مونگ پھلی کا چھلکا نظر آنے کی صورت میں ریس روک دی جاتی ہے۔ یہ تمام عوامل ڈرائیوروں اور ریس کے مالکان کے لیے بدقسمتی کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔
اسپین سے تعلق رکھنے والے لان ٹینس کے سابق عالمی نمبر ایک رافیل نڈال بھی توہم پرستی کا شکار ہیں۔ وہ ہمیشہ اپنے دونوں پیر کے موزے یکساں اونچائی تک پہنتے ہیں۔ اگر ان میں فرق آجائے تو وہ فوراً انہیں برابر کرتے ہیں اس کے علاوہ وہ کبھی بھی کورٹ کی لائنز پر میچ کے دوران یا میچ کے بعد اپنا پیر نہیں رکھتے۔ اسی طرح میچ کے دوران ان کی مشروبات کی بوتلیں بھی کورٹ لائن کے ساتھ ایک مخصوص ترتیب میں رکھی ہوتی ہیں۔ گولف کے سابق عالمی نمبر ون ٹائیگر وڈ کسی بھی ٹورنامنٹ کا فائنل سرخ رنگ کی ٹی شرٹ پہن کر کھیلتے ہیں۔ سرخ رنگ کو وہ اپنے پیدائشی برج کے لحاظ سے خوش قسمتی کا رنگ قرار یتے ہیں۔