میرا ضلع چکوال جہاں کئی اعتبار سے منفرد ہے، وہیں یہ لوکیشن کے اعتبار سے بھی مجھے بہت پسند ہے کہ میدانی علاقے سے یہاں تک پہنچنا شمالی علاقہ جات کی نسبت بہت کم وقت میں ممکن ہے اور آسان بھی۔ پھر میدانی علاقے کی جانب سے چکوال کی حدود میں داخل ہونے والی موٹروے سالٹ رینج کے حصے سے ہو کر آتی ہے اور چکوال کا یہی حصہ سب سے خوب صورت بھی ہے۔
اس سلسلہ کوہ نمک میں جہاں دنیا کا بہترین ہمالین نمک ہے وہیں اور بھی بہت کچھ چھپا ہوا ہے جس کو جاننے اور کھوجنے کی کوشش کی جائے تو ہر دفع قدرت حیران کیے دیتی ہے۔
یہی سلسلہ کوہ نمک تاریخ کا حصہ بھی رہا، یہیں معدنیات کے خزانے بھی ہیں، اسی سلسلے میں قدرت نے کئی چھوٹے بڑے چشمے رواں کر رکھے ہیں، پھر انہی پہاڑوں میں جنگلی حیات ہے، جس میں سے سب سے خاص یہاں کا پنجاب اڑیال ہے، پھر انہی پہاڑوں میں قدرت کے کئی رنگ ہیں جو قدم قدم پر اپنا رنگ بدلتے ہیں۔
اگر ان رنگوں کی بات کی جائے تو یہی اہم بات ہے کہ موٹروے کے علاوہ بھی کوہ نمک سے میدانی علاقے کو جانے والے راستے ہیں۔ کمال ہے کہ ہر سڑک بل کھاتی خوب صورت نظاروں سے ہوتی ہوئی اترتی ہے۔
پھر پکی سڑک کے علاوہ میرے پسندیدہ ترین آف روڈ ٹریک بھی ایسے ہی ہیں جو چشموں اور معدنیات کے خزانوں کے پاس سے ہوتے ہوئے میدانی علاقے کو جا نکلتے ہیں۔ ان میں میرے سب سے پسندیدہ دو آف روڈ ہیں۔ ایک آف روڈ پہاڑی کے اوپر موٹروے کے کنارے سنبل گاؤں سے پہاڑوں میں اتر کر نیچے پیر کھارا دربار تک کا ہے اور دوسرا ٹریک مشہور تاریخی مقام کٹاس راج سے کچھ فاصلے پر موجود ڈلوال گاؤں کے قریب سے ہوتا ہوا سلسلہ کوہ نمک کی کانوں کے پاس سے گزرتا میدانی علاقے کو جا نکلتا ہے۔
ان دو راستوں کی ہی بات کی جائے تو دس کلومیٹر کے ان راستوں پر ہی آپ کو کئی رنگوں کا پہاڑ دیکھنے کو ملتا ہے، کئی طرح کی جنگلی حیات نظر آتی ہے اور قسمت اچھی ہو تو پنجاب اڑیال کو بھی دیکھ سکتے ہیں جو اس علاقے کا خاص حسن ہے۔
پھر کئی طرح کے جنگلی درخت، جھاڑیاں اور جڑی بوٹیاں ملیں گی، جنہیں تلاشتے حکیم سنیاسی بھی یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ ان راستوں پر آپ کو سب سے پہلے سفید پتھر لائم اسٹون کا خزانہ ملے گا، پھر کوئلہ، پھر جپسم، پھر لال مٹی، پھر اس پر نمک کی کانیں آئیں گی۔ اس کے علاوہ یہاں سلیب نما پتھر ملتا ہے جس کو الگ سے بہت سے کاموں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
اس پتھر کا خاص استعمال آپ کو یہیں چکوال میں قلعہ کھجولہ اور ملوٹ کے مندروں میں ملے گا، جہاں بہت خوب صورتی اور نفاست سے اس پتھر کو تراش کر اس سے صدیوں پہلے ان مندروں کی تعمیر کی گئی جو آج بھی دیکھنے لائق ہیں۔ پھر انہی راہوں پر چشموں کا پانی آپ کے سنگ چلتا ہے اور تھوڑا راستہ بدل کر آپ ان چشموں تک بھی پہنچ سکتے ہیں۔
یہ تو محض اس کے سلسلۂ کوہ نمک کا ذکر تھا۔ اس کے علاوہ یہاں کی جنگلی حیات کی پناہ گاہ کے رنگ برنگے پہاڑ فوسلز کے خزانے لیے ہوئے ہیں۔ انہی پہاڑوں کے کنارے بہت سے چھوٹے ڈیم ہیں جن میں سے ہر ایک کا منفرد نظارہ ہے۔
اس ضلع میں اتنا کچھ ہے کہ اس کو ایک تحریر میں سما پانا ممکن نہیں۔ بس اتنا ہے کہ آپ جس طرح کا ماحول پسند کرتے ہیں وہ آپ کو پرسکون کر دینے کو یہاں موجود ہے۔ بس ضرورت ہے تو اس تک رسائی پانے کی اور اب چند سالوں سے سوشل میڈیا کے ذریعے شائقین کا اس جانب رخ بھی ہونے لگا ہے۔
تاریخ ہو، جغرافیہ ہو، معدنیات ہوں، جنگلی حیات ہو، کروڑوں سال پہلے کی زندگی کے فوسلز ہوں، پانی کے چشموں کے مقامات ہوں، خوب صورت دیہاتی رنگ ہو، آج کے دور کا زیتون دیکھنا ہو، ٹریکنگ یا ہائیکنگ کرنی ہو، غروب آفتاب یا طلوع آفتاب کے نظارے لینے ہوں، ڈیموں کی سیر کرنی ہو۔۔۔ تو آپ کسی بھی جانب سے چکوال کا رخ کرلیں۔
چکوال کی حدود میں داخل ہوتے ہی آپ کو ایسے مقامات ملنا شروع ہوجائیں گے، بس ذرا سی کھوج ہو اور اس کے لیے سوشل میڈیا ہی پر ایک سرچ کرکے دیکھ لیں، وہ آپ کو حیران کر دے گی۔
پانڈوؤں کے رہائشی غار : سیروسیاحت کے شوق سے جڑے ہونے کی وجہ سے میرا اکثر ایسے مقامات پر جانا ہوتا ہے جہاں ماضی کے انسان کا بستا تھا۔ یوں اس کو میسر سہولتوں کا نظام دیکھنے کو ملتا رہتا ہے اور اس سب کو دیکھ کر رب کے حضور شکر گزاری کرنے کا بھی موقع میسر آتا ہے۔
ایسے ہی ماضی کی یاد دلانے کو ایک خوبصورت تاریخی مقام میرے شہر چکوال میں کٹاس راج کے نام سے موجود ہے، جہاں کئی سو سال بلکہ ہزاروں سال پرانی تاریخ موجود ہے جسے دیکھ کر اس وقت کے رہن سہن اور سہولتوں کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔
کٹاس راج ہندوؤں کا خاص مقدس مقام ہے۔ یہ مقام چکوال شہر سے تقریبا 40 کلومیٹر اور کلرکہار انٹرچینج سے تقریبا 25 کلومیٹر کے فاصلے پر تحصیل چوآسیدن شاہ کے قریب واقع ہے۔ اس جگہ جہاں آج صرف پسماندہ تاریخی عمارتیں اور چند غار ہیں ماضی میں یہاں ایک بہت بڑی یونیورسٹی ہوا کرتی تھی، جس میں متعدد مضامین کے ساتھ سنسکرت زبان کی تعلیم دی جاتی تھی۔ میلوں پیدل سفر کرکے لوگ یہاں علم حاصل کرنے آتے تھے۔
اسی مقام سے البیرونی نے بھی سنسکرت زبان کا علم حاصل کیا۔ اس مقام پر ہندوؤں کے ست گھڑا کے سات مندر بھی ہیں اور ان کے دیوتا شیوا سے منسوب تالاب بھی ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ تالاب شیوا کے اپنی بیوی ستی کی جدائی میں رونے سے وجود میں آیا۔ اسی طرح اس تاریخی مقام پر اور بھی بہت سے تاریخی حوالے ملتے ہیں اور کئی قصے کہانیاں اس جگہ سے منسوب ہیں۔ فی الحال میں صرف یہاں موجود غاروں کا ذکر کروں گا۔
کٹاس راج مندر اور پوتر تالاب کے مشرقی جانب سے سڑک نکلتی ہے اور اس سڑک کی دوسری جانب پہاڑی میں چند غار ہیں جو پانڈوؤں کے رہائشی غار کہلاتے ہیں۔
ان غاروں کی تعداد 5 ہے۔ ان غاروں کی لمبائی کچھ کتب میں ایک کلومیٹر تک بتائی جاتی ہے تو کچھ قصے کہانیوں میں ان غاروں سے خفیہ راستے نکلنے کا تذکرہ بھی ملتا ہے، جو اُس دور میں استعمال کیے جاتے تھے۔ جہاں سڑک کے ایک جانب پوتر تالاب اور مندروں پر عوام کا خوب آنا جانا لگا رہتا ہے وہیں دوسری جانب ان غاروں کا رخ کرنے والے بہت کم لوگ ہی ہیں شاید اس کی وجہ ایسے مقامات سے آنے والا خوف ہے۔
میری نظر میں یہ غار کافی عرصہ سے تھے لیکن ان میں کبھی جانا نہ ہوا۔ اس دفع کٹاس پہنچ کر ان غاروں کو کھوجنے کی سوجھی اور من چاہا کہ ان کی لمبائی اور ان کے خفیہ راستوں کی حقیقت کے بارے میں معلوم تو کیا جائے۔ اپنے بہترین سنگی ملک زاہد بھائی کو ساتھ لیا اور کٹاس راج پہنچ گئے۔ ایسے پر اسرار مقامات کی کھوج کو ساتھ جانے والا کوئی کوئی ہی ہوتا ہے۔ باری باری ہم سارے غاروں میں گئے اور ان کا اندر سے بہ خوبی جائزہ لیا۔
اب ان میں سب سے بڑا غار بھی چند سو میڑ ہی طویل ہے، باقی کے لمبے رستے شاید ناگہانی آفات کی نظر ہوکر بند ہوگئے یا پھر بند کردیے گئے، اس بارے میں علم نہ ہو سکا، لیکن بڑے غار میں آگے جا کر ایسے چند مقامات نظر آتے ہیں جہاں یہ شبہہ ہوتا ہے کہ آگے اس کو یا تو بند کیا گیا ہے یا پھر کسی زلزلے کی وجہ سے تودہ گرنے سے بند ہوگیا ہے۔
نیچے روڈ سے نظر آنے والے تمام غاروں کو دیکھنے کے بعد اسی پہاڑ پر مزید اوپر کی جانب بڑھے تو ایک اور مقام پر ایک غار کا داخلی راستہ نظر آیا۔ جب آگے بڑھے تو پتا چلا کہ اس کے راستے میں بھی بڑے بڑے پتھر گرے پڑے ہیں، جس سے یہ راستہ بھی بند ہوگیا ہے۔ اسی طرح اوپر دوسری جانب ایک اور چند میٹر لمبا غار نظر آیا لیکن اس کی چھت کھلی ہوئی تھی جو شاید کسی زلزلے کی وجہ سے اوپر سے پہاڑ کے سرک جانے پر کھل گئی۔
اس کے بعد پہاڑ کے اردگرد مزید کھوج لگاتے رہے مگر اس کے علاوہ کسی بڑے غار کا راستہ یا نشانات نہ ملے۔ اس سب کے بعد اسی پہاڑی کی چوٹی پر گئے اور وہاں بیٹھ کر کٹاس راج کا نظارہ کیا۔ اس مقام سے کٹاس راج کی تمام عمارتوں کا بہ خوبی جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ اسی سے ہمیں اندازہ ہوا کے بارہا یہاں آنے کے باوجود چند مقامات ابھی ایسے موجود ہیں جہاں تک ابھی ہم گئے ہی نہیں تھے۔
اس سب کھوج میں نہ تو ایک کلومیٹر طویل غار ہمیں ملا اور نہ ہی غاروں سے بنے خفیہ راستے ہم نے دیکھے۔ البتہ انہیں غاروں کے قریب دو عمارتیں موجود ہیں جن کے دروازے ہر وقت بند رہتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ان کے اندر سے بھی کسی غار کا راستہ نکلتا ہو اور وہی طویل غار یا خفیہ راستہ ہو۔ اس کا تالا کھلوانے کو وہاں موجود سرکاری ملازم کی منت سماجت درکار ہے، جسے آئندہ پر چھوڑ دیا۔ پھر کبھی موقع ملا تو کسی سے اس بارے میں معلوم کریں گے اور ان عمارتوں کے اندر سے بھی جائزہ لے کر انشاء اللہ شیئر کریں گے۔
جن غاروں تک ہم گئے ہیں اگر ان کو پانڈوؤں کی رہائش گاہ مانا جائے تو پھر یہ واضح ہے کہ موجودہ غاروں میں سے آگے جانے والا مزید راستہ کسی حادثے کی نظر ہوکر بند ہوگیا یا کردیا گیا ہے اور اگر موجودہ لمبائی کو ہی دور ماضی کا اصل غار مانا جائے تو ان چھوٹے غاروں میں چند افراد سے زیادہ کی رہائش کی گنجائش موجود نہیں۔ اصل حقیقت کیا ہے؟ اس بارے اگر کسی کو معلوم ہو تو ضرور مطلع کریں تاکہ میرے علم میں بھی اضافہ ہو سکے۔
کٹاس راج میں موجود باقی مقامات کے نام درج کیے دیتا ہوں، ان کی تفصیل پھر کبھی سہی کیوںکہ ان میں سے ہر ایک کی تاریخ اور سن تعمیر مختلف ہے۔ بارہ درہ، حویلی ہری سنگھ نلوا، ست گراہ (ست گھڑا) کے سات مندر، پوتر تالاب، تالاب سے ملحقہ رہائشی عمارتیں، شو لنگ کا مندر، شیو کا مندر، پانڈوؤں کا تاریخی کنواں اور اس کے علاوہ چند ایک عمارتیں جن کے بارے میں کسی کو علم نہیں۔ ان تمام مقامات پر اور کٹاس راج سے متعلق تاریخی حوالہ جات پر اگر لکھا جائے تو ایک مکمل کتاب مرتب کی جا سکتی ہے۔
ان غاروں کی کھوج کو آنے والوں کو میرا مشورہ ہے کہ سب سے پہلے تو یہاں کی صفائی کا خاص خیال رکھیں اور اس کے بعد گرمیوں میں ان غاروں میں جاتے ہوئے احتیاط کریں،کیوںکہ گرمیوں میں ایسے مقامات پر حشرات الارض کا خطرہ کافی بڑھ جاتا ہے اور پھر بِھڑوں نے بھی کافی چھتے آباد کر رکھے ہیں۔ اس کے علاوہ اندر جانے کے لیے روشنی کا بندوبست ضرور رکھیں۔ موبائل کی فلیش لائٹ آگے جانے کے لیے ناکافی ہے۔
پنجاب اڑیال : جیسے پاکستان کا قومی جانور مارخور جنگلی بکرے کی ایک قسم ہے، اسی طرح اڑیال جنگلی دنبے کی ایک قسم ہے۔
پاکستان کے مختلف علاقوں میں اس کی تین اقسام پائی جاتی ہیں جن میں سے ایک نسل پنجاب اڑیال کے نام سے ہے، جو باقیوں کی نسبت زیادہ خوب صورت ہے۔ پنجاب اڑیال کالاباغ سے لے کر منگلہ تک کے علاقے میں مختلف مقامات پر پایا جاتا ہے۔ یہ کالاباغ، میانوالی، اٹک، وادی سون، سالٹ رینج، چکوال اور جہلم کے پہاڑی سلسلوں میں پایا جاتا ہے۔
اس کی خوب صورتی اس کے نر کے سینگھوں کی وجہ سے ہے اس کے سینگ خاصے موٹے اور پیچھے کی جانب کو مڑے ہوئے ہوتے ہی۔ 70 سے 90 سینٹی میٹر قد، قریب 38 انچ لمبے سینگ، سفید پیٹ، سینے پر سیاہ بال اور بڑی بڑی آنکھوں والا یہ جانور بلاشبہہ قدرت کا حسیں شاہ کار ہے۔
سالٹ رینج کے پتھریلے، بے آب وگیاہ پہاڑوں میں جہاں جہاں پھلاہی، کاہو، کیکر کی جھاڑیاں ہیں، وہیں اس کے مسکن ہیں۔
اڑیال گروہوں میں رہنے والا جانور ہے اور ان کے جھنڈ میں زیادہ تر مادائیں اور نابالغ نر ہوتے ہیں۔ اڑیال کھانے اور چارے کے لیے زیادہ تر صبح کے وقت باہر آتے ہیں۔ اڑیال عام طور پر ایک وقت میں صرف ایک بچے کو جنم دیتے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق اس کی صرف 15 فی صد مادائیں ایک وقت میں دو بچوں کو جنم دیتی ہیں۔
2011 میں ہونے والے ایک سروے کی WWF کی شائع کی گئی رپورٹ کے مطابق کچھ علاقوں میں اس کے آدھے بچے پیدائش کے بعد پہلے ہی ہفتے چرا لیے جاتے ہیں۔ چکوال میں چھمبی سرلہ کے علاقے میں یہ کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔
یہ گروہ کی شکل میں رہتے ہیں اور ایک نر نگران کی حیثیت سے کسی بلند مقام پر کھڑے ہوکر حفاظت کا فریضہ سرانجام دیتا اور کسی بھی خطرے کی بھنک پاتے ہی آواز کی صورت میں باقیوں کو سگنل دیتا ہے، جس کے بعد پلک جھپکنے میں یہ نظروں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ ویسے تو اسے دیکھ پانا بہت مشکل ہے لیکن چرواہوں کی قسمت اس معاملے میں کافی اچھی ہے۔ انہوں نے ان کو بارہا اپنے ریوڑ کے قریب چرتے ہوئے دیکھا ہے۔
پاکستان میں اڑیالوں کا غیرقانونی شکار جاری ہے اور بیچنے کی غرض سے ان کے بچے بھی کافی تعداد میں پکڑے جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی نسل معدوی کے خدشے سے دوچار ہے۔ تاہم محکمۂ جنگلی حیات کے انتظامات کے تحت اس کی تعداد میں پچھلے کچھ عرصے میں کافی بہتری ہوئی ہے۔
اس علاقے میں ہر سال پنجاب اڑیال کے شکار کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسے ہنٹنگ ٹرافی کہتے ہیں۔ یکم دسمبر سے ہنٹنگ ٹرافی کا نوٹیفکیشن جاری ہوجائے گا۔ ہنٹنگ ٹرافی سے متعلق بتایا گیا کہ ایسے اڑیال جن کی طبعی عمر پوری ہوچکی ہوتی ہے ان کے شکار کی اجازت دی جاتی ہے۔ پنجاب اڑیال کی اوسط عمر12۔13 سال ہوتی ہے۔
اس کے بعد یہ بوڑھا ہوجاتا ہے اور پھر خود اپنے ساتھیوں کے لیے بھی خطرہ بنا رہتا ہے۔ یہ اپنے غول میں شامل مادہ اڑیالوں کے پاس بیٹھا رہتا ہے اور افزائش نسل کے موسم کے دوران جوان نر اڑیال کو ان کے پاس نہیں جانے دیتا، جس کی وجہ سے افزائش نسل نہیں ہوپاتی۔ 12-13 سال کے بعد چوںکہ پنجاب اڑیال کی طبعی موت قریب ہوتی ہے، اس وجہ سے اس کے شکار کی اجازت دی جاتی ہے۔ اس کے لیے غیرملکی شکاری بھی پاکستان آتے ہیں اور مقامی شکاریوں کی بڑی تعداد بھی شریک ہوتی ہے، لیکن اس ٹرافی کے ایونٹ کے علاوہ اس کے شکار پر مکمل پابندی عائد ہے۔
جنگلی حیات ہمارے ماحول کا حسن اور ملک کا سرمایہ ہے۔ اس کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے۔ جس طرح پاکستان کا قومی جانور مارخور ہے، اسی طرح پنجابی اڑیال کو چکوال کے مقامی جانور کا درجہ حاصل ہے۔ چکوال میں سالٹ رینج، دل جبہ اور چوآسیدن شاہ سے کلرکہار تک اس کی قدرتی پناہ گاہ موجود ہے۔
گمنام قبریں ڈھوک بن امیر خاتون : جہاں میں آپ کو خوب جہاں گردی کرتے نظر آتا ہوں، جو کہ میرے حساب سے ابھی کم ہے، وہیں کبھی کبھی کچھ نیا مقام تلاش کرنے کی غرض سے میں گوگل میپ کھول کر بھی اس پر کبھی کہیں تو کبھی کہیں گھومتا رہتا ہوں۔
گوگل میپ پر اسی چھان بین نے بہت سے نئے مقامات تک پہنچایا ہے اور جنگلوں کو جاتی کئی راہوں کی خاک چھانی ہے۔
کرونا سے پہلے ایک روز یوں ہی گوگل میپ پر گھومتے گھماتے چکوال کے فوسلز والے گاؤں ڈھوک بن امیر خاتون کے جنگل میں پہنچ گیا۔ وہاں کچھ چوکور اور کچھ مستطیل شکل میں پتھروں کے ڈھیر نظر آئے، جن کو گوگل میپ پر دیکھ کر یہی ظاہر ہو رہا تھا کہ یہ انسان کی بنائی ہوئی کوئی شے ہے۔ یہ تمام ڈھیر جسامت میں ایک دوسرے سے مختلف تھے، جس سے یہ اندازہ کر پانا مشکل تھا کہ یہ کیا ہے۔ اب ایسا پراسرار مقام اور وہ بھی اپنے ہی شہر میں نظر آئے تو کیسے ممکن ہے کی اس کی مزید کھوج نہ لگائی جائے۔
کافی عرصے تک اس بارے لوگوں سے دریافت کرتا رہا، لیکن ان کے بارے میں معلوم نہ ہوپایا۔ پھر جاکر چکوال کی دھرتی کے عظیم سپوت یاسین چوہدری صاحب نے اس بارے میں پوسٹ لگائی تو معما حل ہوا اور ان کی پوسٹ کو دیکھ کر یہاں پہنچنے کا تجسس مزید بڑھ گیا۔
پچھلے برس کے رمضان میں ایک تپتے دن ایک دوست کے سنگ اس جگہ کے کافی قریب پہنچ کر پھر واپس آگئے، کیوںکہ گرمی کی شدت اور روزے کی وجہ سے آگے جا پانا مشکل تھا یا پھر شاید تب ہمارا یہاں پہنچنا لکھا نہ تھا۔ یوں ہی چند ماہ بیت گئے اور دوبارہ جنوری میں خالہ ذاد کے سنگ اس جانب عازم سفر ہوئے، لیکن قدرت کو اب بھی ہمارا یہاں پہنچنا منظور نہ تھا۔ ایک فون کال آ گئی اور منزل کے قریب سے واپس لوٹنا پڑا۔
یوں ہی چند ماہ بیت گئے اور 20 مئی کو آخرکار میں یہاں پہنچنے میں کام یاب ہوگیا۔ یہاں تک جانے کا سفر میں نے ڈھریالہ کہون اور کھجولہ گاؤں کو ملانے والی سڑک کی جانب سے کیا۔ اس سڑک پر کھجولہ کے قریب سے ایک کچا راستہ علیحدہ ہوتا ہے جو کہ دو کوئلے کی کانوں سے ہوتا ہوا اس مقام پر پہنچتا ہے جو میری منزل تھی۔
پہاڑوں کے بیچ گھرا ہوا یہ رقبہ ہارون چیمہ مرحوم نے کچھ عرصہ قبل خرید کر آباد کیا تھا اور شاید یہ راستہ تب ہی انہوں نے صحیح کرایا ہو گا، لیکن اب دوبارہ اس کی حالت خستہ ہے۔
اس رقبے پر میری وہ پر اسرار منزل تھی جہاں تیسری کوشش میں جا کر میری رسائی ممکن ہوئی۔ فرق یہ تھا کہ پہلی دونوں کوششوں میں میرے سنگ دوسرا ہم سفر بھی موجود رہا، اب تیسری کوشش میں میں اکیلا ہی پہنچنے میں کام یاب ہوا۔ سمجھ میں یہی آتا ہے کے قدرت کو یہ مقام مجھے اکیلے ہی دکھانا منظور تھا۔
یہ جگہ چاروں طرف سے پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے اور ماضی بعید کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ایک بہترین محفوظ مقام ہے۔ یہیں ایک طرف قدرے بلند جگہ پر مختلف سائز کی کئی قبریں ہیں جو میری منزل تھیں۔
یہ قبریں لمبائی کے رخ تو موجودہ دور کی قبروں سے تھوڑی ہی بڑی ہیں لیکن چوڑائی کے رخ پر ان کا سائز مختلف ہے اور تین قبریں تو قریب 20 فٹ تک لمبی ہیں۔ یہ قبریں بہت ہی پرانے دور کی معلوم ہوتی ہیں۔ ان کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اجتماعی صورت میں چند قبروں کو ملا کر ان کو ایک کردیا گیا۔
اوپر نشانی کے طور پر تراش کر الگ الگ رکھے گئے بڑے پتھر بھی نظر آتے ہیں۔ ان قبروں کی اصلیت تو کسی سے معلوم نہ ہوسکی اور نہ ہی ان کا کوئی تاریخی حوالہ مجھے معلوم ہو سکا، البتہ ان کے بارے میں مشہور یہی ہے کہ یہ قبریں پیدل مسافت طے کرنے والے دور کی یہاں سے گزرنے والی ایک بارات کی ہیں۔
ڈاکوؤں یا پھر کسی اور طاقت نے اس مقام پر بارات پر حملہ کر کے تمام لوگوں کو مار دیا تھا جس کے بعد ان کو یہیں دفنا کر یہ اجتماعی قبریں بنا دی گئیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس ایک بڑی قبر کے نیچے کئی مردے دفن ہیں۔ ان قبروں کو دیکھ کر یہ قصہ سچا معلوم ہوتا ہے، کیوںکہ بنائی گئی تمام قبروں کا سائز گو مختلف ہے لیکن ان پر لگا ہوا پتھر ایک ہی طرز کا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک ہی وقت میں بنائی گئی تھیں۔
اس جگہ کے ساتھ آگے مغرب کی جانب بڑھنے پر آدھا کلومیٹر تک لمبائی کے رخ پر پتھروں کے ڈھیر نظر آتے ہیں جو کسی بھی طور قدرتی ڈھیر معلوم نہیں ہوتے۔ اس جگہ کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی ماضی بعید کی کسی آبادی یا پھر قبرستان کے آثار ہوں۔
یہ تمام آثار تحقیق کی دعوت دیتے نظر آتے ہیں اور ممکن ہے کہ اس پر تحقیق سے تاریخ کئی رازوں سے پردے اٹھیں۔
اسی تحقیق کی کوششیں ماضی میں اس علاقے میں ہوتی رہی ہیں اور بتاتا چلوں کے اسی جنگل میں سے ڈائنوسار کے فوسلز بھی دریافت ہوئے ہیں اور مزید کئی ایک فوسلز مختلف ادوار میں یہاں سے ملتے رہے ہیں، جو مختلف عجائب گھروں کی زینت ہیں۔
تاریخ اور فوسلز میں دل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ ایک بہترین مقام ہے، جس پر جتنی تحقیق کی جائے اتنے ہی راز کھلنا ممکن ہیں۔ ساون کے بعد فوسلز کی تلاش میں کافی لوگ یہاں کا رخ کرتے ہیں اور اپنی کھوج لگا کر کچھ نہ کچھ حاصل کرنے میں کام یاب ہوتے رہتے ہیں۔
واپسی پر میں نے دوسرا رستہ اختیار کیا اور پہاڑ کے دوسری جانب ڈھوک بن امیر خاتون میں جا پہنچا۔ وادی کہون کی جانب سے آنے والے راستے کی نسبت ڈھوک بن امیر خاتون کی جانب سے یہاں پہنچنے والا راستہ آسان اور مختصر ہے۔
دونوں ہی راستوں سے موٹرسائیکل یا جیپ پر آیا جا سکتا ہے۔ کار کی رسائی دونوں جانب سے ناممکن ہے بلکہ قریب پہنچ کر تو موٹرسائیکل پر آنے والے کے لیے بھی تھوڑا مشکل راستہ ہے لیکن اگر شوق جوان ہو تو پھر شوقین پہنچنے میں کام یاب ہو ہی جاتا ہے۔
قدرت کے متلاشی اور نت نئے کھوج لگانے والوں کے لیے گوگل میپ ایک بہترین ذریعہ ہے اور اسی سے بہت کچھ نیا دیکھنے کو ملتا ہے اور پھر اس تک رسائی حاصل کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ سالٹ رینج میں ایسے کئی ایک گم نام مقامات موجود ہیں جہاں تک پہنچ کر ابھی ان رازوں کو آشکار کرنا باقی ہے۔
زندگی رہی تو انشاء اللہ یہ کھوج جاری رہے گی اور بھلا ہو چکوال لائبریری کا جہاں سے ملنے والی ایک پرانی کتاب ’’سالٹ رینج میں آثارِقدیمہ‘‘ کا جس نے چند ایک مزید نام دے دیے ہیں، جن کے بارے میں پہلے کبھی نہیں سنا تھا، تو اب انشاء اللہ ان تک بھی رسائی کی کوشش کروں گا اور پھر آپ احباب سے شیئر کروں گا۔
سرلہ ڈیم سے ڈھریالہ کہون ٹریکنگ: 17 کلومیٹر کی پیدل آوارگی کے بعد پانچوں افراد میں پروگرام طے پایا کہ اتوار کے روز گاؤں جانے کے لیے کھوکھرزیر سے پیدل سفر کیا جائے۔
اتوار کو دن 2 بجے ہم چار دوست کھوکھرزیر گاؤں کے ساتھ بنے سرلہ ڈیم کی جانب رواں دواں تھے، منزل تھی بلکہ راستہ تھا ڈیم سے ڈھریالہ کہون جانے والا سرلے کا راستہ، جس پر ایک عشرہ پہلے تک پہاڑی کے دونوں جانب کے گاؤں کے باسیوں کی ریل پیل ہوا کرتی تھی۔
دن ڈھائی بجے سرلہ ڈیم پر ہم تین دوستوں کو چھوڑ کر چوتھے نے واپسی کی راہ لی۔ راستے کی شروعات ہی ایڈوینچر سے پُر تھی کہ ڈیم کے اوور فلو کو پار کرنا تھا، جس کی دیوار ہمارے قد سے بھی دو چار بالشت اونچی تھی اور اس سے آگے پڑپاٹی ڈھن تک راستہ ہم سب کے لیے نیا تھا۔ اس سے آگے کا راستہ بھی صرف میں نے ہی طے کر رکھا تھا۔
اڑھائی بجے دیوار پھلانگنے سے راستے کا آغاز ہوا تو کچھ آگے چل کر جنگل میں لکڑیاں بناتے احباب سے ملاقات ہوئی، جنہوں نے کہا کہ کھوکھربالا گاؤں کو تو نزدیکی راستہ ڈھوک سیلہ سے جاتا ہے، ہمارا کہنا تھا کے وہ مختصر راستہ ہے اس لیے ہمیں اس پر نہیں جانا۔ اب وہ کیا جانیں جنگل کے نت نئے اور لمبے راستوں پر بھٹکنے کا سواد۔
پگڈنڈی سے گزرتے ہوئے سیانے (گوگل میپ) کے دکھلائے راستے پر پہنچے تو سکون سا ہوا ک چلو راستہ تو صحیح پکڑا ہے۔ یہ راستہ وریامال، کریالہ، کھوکھرزیر اور ان کے قریب کے گاؤں سرلہ کے جنگل میں داخل ہونے اور وہاں سے ڈھریالہ کہون جاتے ہوئے استعمال کرتے ہیں لیکن اب بس کوئی ہم سا سرپھرا ہی یہاں بھٹکتا نظر آئے گا یا پھر کوئی چرواہا۔
کچھ سفر طے کر لینے کے بعد ایک بلند مقام پر اٹھائے بیگ کا وزن کم کرنے کو رکے اور دو چار مالٹے تناول کیے، کچھ گاجریں کھائیں، تصویریں بنائیں اور پھر وقت کی قلت کا احساس کرکے راہ پر چل دیے۔ وقت کی قلت کا خدشہ کچھ یوں بھی تھا کے سفر شروع کرکے ساتھ کے جوانوں کو بتایا کہ ’’پتا رستے دا مینوں وی نئیں جے‘‘ سو ان کا پریشان ہونا بنتا بھی تھا۔
وہ تو خیر احباب سیانے پر یقین رکھنے والے تھے تو اس کے دکھلائے پر مان گئے کہ چلو کہیں نہ کہیں پہنچ ہی جائیں گے، اور پھر آڑے ترچھے اترائی چڑھائی کے راستوں سے ہوتے ہوئے 4.6 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے پانچ بج کر چار منٹ پر پر اس راستے کے ایک خوب صورت مقام پڑپاٹی ڈھن پہنچ گئے۔
ڈھن کا نظارہ بھی کمال کا ہے اور اس راستے پر آنے کی ایک وجہ بھی یہی ڈھن تھی کے ایک نیا رستہ دیکھنے کے ساتھ کے جوانوں کو ایک نیا مقام بھی دیکھنے کو ملے گا اور ساتھ چلے احتشام بھائی کی تو کافی عرصے سے یہ مقام دیکھنے کی خواہش بھی تھی جو آج پوری ہوئی۔
ڈھن کی منفرد بات یہ ہے کہ یہاں ریتیلے پتھر کے اوپر سے نیچے چار تالاب ہیں اور ہر اگلا تالاب پہلے کی نسبت زیادہ بڑا ہے۔ ریتلے پتھر کا پانی سے ہونے والا کٹاؤ بھی دیکھنے کے لائق ہے۔ یہاں ان تالابوں کے ساتھ سے اوپر جانا تو اک بہت مشکل مرحلہ ہے جس کی پلاننگ ہم بھی یہاں بیٹھے کرتے رہے اور ساتھ میں پھر سے بیگ کا وزن کم کیا اور پھر تالاب سے ہٹ کر پہاڑ کے اوپر جاتے راستے پر ہو لیے۔
تالاب کے نیچے سے اوپر جانے والے اس راستے کی چڑھائی بہت زیادہ ہے اور یہ اس سارے ٹریک کا مشکل حصہ ہے۔ البتہ اس کے ٹاپ پر پہنچ کر ایک خوب صورت نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے جس سے ساری تھکان جاتی رہتی ہے۔ پھر اس راستے سے ہو کر جب پانی کے پاس پہنچا جائے تو پانی کے بہاؤ کے ساتھ چلتے ہوئے بڑے بڑے پتھروں سے گزر کر دس منٹ کی مسافت سے ڈھن کے اوپر ٹاپ پر بھی پہنچ سکتے ہیں اور یہاں سے تالابوں کا نظارہ اور بھی کمال ہے۔
تاہم ہمیں وقت کی قلت کا سامنا تھا۔ اس لیے ہم سیدھا ڈھریالہ کہون گاؤں کی طرف ہی گام زن رہے اور مزید 3.8 کلومیٹر کی مسافت طے کرکے یہاں لگی واٹر سپلائی، بوہڑوں، دربار اور ٹوفا پتھر کے نمونے دیکھتے ہوئے ساڑھے پانچ بجے ڈھریالہ کہون گاؤں کے بڑے تالاب پر پہنچ گئے۔
اس تالاب سے آگے گاڑی اور موٹرسائیکل آسانی سے کلرکہار چوآسیدن شاہ روڈ پر جاسکتی ہے۔ یعنی یک طرفہ ٹریک پر چل کر دوسری جانب گاڑی یا بائیک پہنچ سکتی ہے، لیکن گاؤں سے باہر سڑک تک صبح کے علاوہ کوئی خاص ٹرانسپورٹ نہیں ملتی۔
سرلہ ڈیم سے ڈھریالہ گاؤں کے اس تالاب تک کا یہ مکمل ٹریک تقریباً ساڑھے آٹھ کلومیٹر کا ہے، جس پر آپ کو مختلف رنگوں کے پہاڑ، جنگل، بوہڑ کے تین درخت، ٹوفی پتھر کے ذخائر، فوسلز اور قسمت اچھی ہو تو اڑیال بجی دیکھنے کو مل سکتا ہے۔
اس کے بعد ہماری منزل ہمارا گاؤں تھا۔ اس لیے گاؤں میں کھیلتے بچوں سے ہنسی مذاق کرتے ہم ڈھریالہ سے اپنے گاؤں کھوکھربالا جانے والی سڑک پر ہو لیے۔ اس راستے پر ایک ٹریکٹر ٹرالی نے بھی ہماری کچھ مسافت طے کرا دی گوکہ اس میں ٹانگوں میں ہونے والی وائبریشن کے باعث ہونے والی تھکاوٹ، پیدل چل لینے سے بھی زیادہ تھی لیکن ایک طرح کا ایڈوینچر تھا۔
کھوکھربالا کے اس راستے پر جیو کول مائن (کوئلے کی کان) تک پہنچے تو یہاں ایک عزیز، جس کا نام بھی عزیز ہی ہے، نے سرراہ پکڑ لیا اور چائے پلا کر سارے سفر کی تھکان دور کردی۔ ایسی راہوں پر چائے مل جائے تو سفر کا مزہ آ جاتا ہے۔
سرلہ ڈیم کے اوور فلو سے یہاں کوئلے کی کان تک کل مسافت تقریباً بارہ کلومیٹر ہے اور کان پر پر ہم ساڑھے چھے بجے پہنچے۔ اس دوران مختلف مقامات پر آرام کرتے اور نظارے دیکھتے ہم نے تقریباً چالیس منٹ صرف کیے۔
صرف یہ ٹریک کرنا ہو تو اس سے بھی کم وقت میں کیا جا سکتا ہے اور اگر مزے لیتے ہوئے اور فوٹوگرافی کے گر آزماتے ہوئے کرنا ہو تو یہ ایک مکمل دن کا ٹریک ہے۔ ٹریک شروع کرنے سے پہلے خیال رہے کہ ان دنوں بارش کا امکان نہ ہو کیوںکہ ٹریک کا بیشتر حصہ برساتی پانی کی گزرگاہ بھی ہے اور بارش سے آنے والے پانی سے نہ تو اس راستے پر چلا جا سکتا ہے اور نہ ہی پڑپاٹی ڈھن اتنی خوب صورت اور معصوم سی رہتی ہے بلکہ پتھروں سے ٹکراتا ہوا بارش کا پانی کئی فٹ بلند سطح بنا لیتا ہے جسے پار کرنا ناممکن ہوتا ہے۔
اس لیے برسات کے دنوں میں ٹریک نہ کریں اور ٹریک کے دوران جنگل اور جنگلی حیات کا خیال رکھیں کہ یہی قدرتی حسن کے اصل رنگ ہیں۔ اس کے علاوہ ایسے مقامات پر جاتے ہوئے صفائی کا خاص خیال رکھتے ہوئے اچھے سیاح ہونے کا ثبوت دیں۔
The post چکوال گردی appeared first on ایکسپریس اردو.