اقبال کی شخصیت کو سمجھنے، ان کے خیالات کی رفعتوں تک پہنچنے، ان کی شاعری سے لطف اندوز ہونے یا ان کے افکار سے خودی کے حصول کی جستجو کے لیے ان کے مکاتیب کے اس ذخیرے سے استفادہ کرنا ضروری ہے جو انہوں نے اپنے عزیز و اقارب، احباب اور مختلف شخصیات کو لکھے، کیوں کہ بقول مولوی عبدالحق:’’مکتوب دلی خیالات و جذبات کا روزنامچہ اور اسرارحیات کا صحیفہ ہے۔
اس میں وہ صداقت اور خلوص ہوتا ہے جو دوسرے کلام میں نظر نہیں آتا۔ خطوں سے انسانی سیرت کا جیسا اندازہ ہوتا ہے، وہ کسی دوسرے ذریعے سے نہیں ہوسکتا۔‘‘ مکتوبات کا تعلق مکتوب نگار اور مکتوب الیہ کی ذات سے ہوتا ہے۔ اس سے نہ صرف مکتوب نگار کی ذاتی معلومات سے آگاہی ملتی ہے بلکہ اس کے فکری ارتقاء کو سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اگر اقبال مکتوبات نہ ہوتے تو شاید ہی کوئی ان کے ارتقائی خیالات کو سمجھ پاتا۔ اقبال کے مکتوبات نہ صرف اردو میں بلکہ دیگر زبانوں میں بھی ملتے ہیں جن میں انگریزی جرمن، فارسی اور عربی شامل ہیں۔
ان تقریباً ڈیڑھ ہزار خطوط کی بہترین بات یہ ہے کہ اقبال اپنے خیالات کی خود وضاحت کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں:’’میرا مقصد شاعرانہ نہیں بلکہ مذہبی اور اخلاقی ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے اقبال کو صرف شاعر ماننا درست نہیں وہ ایک ہمہ گیر شخصیت تھے۔ بقول محمد عبداللہ قریشی:’’علامہ کی ہمہ گیر شخصیت کے گوناگوں پہلو سمجھنے کے لیے ان کے نجی اور ذاتی خطوط کے عظیم سرمائے کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔‘‘
اقبال کے مکتوبات میں ہمیں وہ نظریات بھی ملتے ہیں جو وہ شاعری کی زبان میں بیان نہیں کرسکے۔ آپ نے مکتوبات کے ذریعے ان کو زیربحث لانا مناسب سمجھا۔ اس سلسلے میں رفیع الدین ہاشمی لکھتے ہیں:’’خطوط میں اقبال نے مختلف علمی، معاشی اور فلسفیانہ مباحث پر بحث کی اور مکتوب الیہ کے ساتھ قرآن و حدیث، فقہ اور تصوف جیسے موضوعات پر تبادلۂ خیال کیا۔ بعض خطوط میں اپنے نظریات کی خود ہی وضاحت کی نیز اپنے اشعار و افکار کی تشریحات کرتے ہوئے بھی نظر آئے۔‘‘
اقبال کے نزدیک انسان کی تکمیل خودی کے پیدا ہونے کے بعد ہوسکتی ہے۔ بقول عبدالسلام ندوی:’’ڈاکٹر صاحب کے نزدیک تعلیم کا اصل مقصد خودی کی معرفت ہے۔‘‘ اقبال کے نزدیک خودی احترام انسانیت ہے یہی وجہ ہے کہ وہ ایک ایسے معاشرے کے خواب دیکھتے تھے جہاں کا ہر فرد سیرت و کردار میں متوازن ہوں۔
اس حوالے سے مولوی عبدالحق لکھتے ہیں:’’دوسرے تمام تصورات کی طرح تدریس و تربیت کا مرکز بھی خودی ہے، جس کے استحکام میں اس اساسی عنصر کو زیادہ دخل ہے۔ خودی جب آشکار ہوتی ہے ایک زندہ جاوداں پیکر کی صورت میں ڈھل جاتی ہے۔ خودی کی آگہی کے زیرسایہ وہ تعلیم و تربیت کے سبب مثالی انسان بنتا ہے۔ وہی انسان بعد میں تقویم زندگی کا محاسب کہلاتا ہے۔‘‘
اقبال کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ تصوف کے خلاف تھے جب کہ ان کے خطوط سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے جس ماحول میں آنکھ کھولی، وہ ماحول تصوف کے گہرے رنگ میں رنگا ہوا تھا۔
چناں چہ اقبال 24 فروری 1916ء کو اپنے وقت کے بلند پایہ عالم وصوفی شاہ پھلواری کو خط میں لکھتے ہیں:’’میرے والد کو فتوحات اور فصوص سے ایک گہرا لگاؤ رہا، چار برس کی عمر سے کانوں میں ان کی تعلیم پڑنی شروع ہوئی۔ برسوں تک ان دونوں کا درس ہمارے گھر میں رہا، گو کہ بچپن میں مجھے ان کی سمجھ نہیں تھی، تاہم درس میں ہر روز شریک ہوتا۔‘‘
اسی طرح انہوں نے 25 جولائی 1918ء کو اکبر الہ آبادی کے نام خط لکھا جس میں انہوں نے آستانۂ محبوب الہی پر حاضری کی تمنا ظاہر کی، لکھتے ہیں: ’’تعطیلات میں ان شاء اللہ دہلی جانے کا مقصد ہے کہ ایک مدت سے آستانۂ حضرت محبوب الہی پر حاضر ہونے کا ارادہ کر رہا ہوں، کیا عجب ان گرما کی تعطیلات میں اللہ اس ارادے کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘ حضرت خواجہ نظام الدینؒ کے مزار پر اقبال کئی مرتبہ حاضر ہوئے اور ’’التجائے مسافر‘‘ کے نام سے ایک نظم بھی پڑھی۔
اقبال کیوں کر تصوف کے خلاف ہوسکتے ہیں جب کہ انہیں نے ایک خط میں اکبر الہ آبادی کو یہ لکھا:’’اسلامی تصوف دل میں قوت پیدا کرتا ہے، اور اس کا اثر لٹریچر پر ہوتا ہے۔‘‘ ایک اور خط جو بنام خان محمد نیاز الدین لکھا میں لکھتے ہیں:’’تصوف کے ادبیات کا وہ حصہ جو اخلاق و اعمال سے تعلق رکھتا ہے نہایت قابل قدر ہے کیوں کہ اس کے پڑھنے سے طبیعت پر سوزوگداز کی حالت طاری ہوتی ہے۔ فلسفے کا حصہ محض بے کار ہے اور بعض صورتوں میں میرے خیال سے تعلیم قرآن کے خلاف ہے۔ اسی فلسفے نے متاثرین صوفیہ کی توجہ صورواشکال غیبی کے مشاہدے کی جانب کردی اور ان کا نصب العین محض غیبی اشکال کا مشاہدہ کرنا رہ گیا جب کہ اسلامی نقطۂ خیال سے تزکیہ نفس کا مقصد استقامت ہے۔‘‘
اقبال اس نام و نہاد تصوف کے خلاف تھے جو بے عملی، ترک دنیا اور رہبانیت اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے کیوں کہ اسلام نے ہرگز اپنے ماننے والوں کو رہبانیت کی ترغیب نہیں دی، بلکہ اس سے بچنے کا حکم دیتا ہے۔ اسی بنیاد پر اقبال نے اس نام و نہاد تصوف کے خلاف شدید تنقید کی ہے۔ اس تنقید کا اندازہ اس خط سے لگائیے جو انہوں نے بنام خواجہ حسن نظامی لکھا:’’رہبانیت عیسائی مذہب کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ہر قوم میں پیدا ہوتی ہے اور اس نے ہر شریعت و قانون کا مقابلہ کیا ہے۔
اسلام اسی کے خلاف ایک صدائے احتجاج ہے۔ تصوف جو مسلمانوں میں پیدا ہوا (اور تصوف سے میری مراد ایرانی تصوف ہے) اس نے ہر قوم کی رہبانیت سے فائدہ اٹھایا اور ہر راہبی تعلیم کو جذب کرنے کی کوشش کی۔ نیز اس نے قرامطی تحریک سے بھی فائدہ اٹھایا جس کا مقصد قیود شرعیہ اسلامیہ کو فنا کرنا تھا۔‘‘
اقبال کا ہر فلسفہ فکر اسلامی کی بنیادوں پر استوار ہے۔ وہ ایک خط میں خواجہ غلام السیدین کے نام لکھتے ہیں: ’’علم سے میری مراد وہ علم ہے جس کا مدار حواس پر ہو، عام طور پر میں نے علم کا لفظ انہی معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اس علم سے طبعی قوت ہاتھ آتی ہے جو دین کے ماتحت ہو اگر علم دین کے ماتحت نہ رہے تو وہ محض شیطانیت ہے، مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ علم کو مسلمان کرے۔‘‘
دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارہ
اقبال کے نزدیک اسلام ایک خالص تعلیمی تحریک ہے جس کے ہر حکم سے، جس کی ثقافت سے درس و تدریس اور تعلیم و تربیت چھلکتی ہے۔ اقبال دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ یہ چاہتے تھے کہ مسلمان جدید عصری علوم سے بھی بہرہ ور ہوں۔
اقبال ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:’’الندوہ علی گڑھ کالج، دارالعلوم دیوبند اور اس قسم کے دوسرے مدارس جو الگ الگ کام کر رہے ہیں، اس بڑی ضرورت کو رفع نہیں کرسکتے۔ ان تعلیمی قوتوں کو یکجا کرکے وسیع تر اغراض کا مرکزی دارالعلم بنانا ہوگا جہاں نہ صرف فرد ملت کی قابلیتیں نشوونما پاسکیں بلکہ تہذیب کا وہ سانچہ تیار ہوسکے جس میں موجودہ زمانے کے ہندوستانی مسلمان ڈھل جائیں تاکہ ایک جامع و متوازن تعلیم و تربیت مرتب ہوسکے۔‘‘
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں
مسلم قوم اور بالخصوص مسلم نوجوانوں کا اعتماد بحال کرنا اقبال کی اولین خواہش تھی۔ علامہ اقبال کی ساری زندگی مذہب کو تمام شعبوں میں مصدر کے طور پر تسلیم کروانے میں بسر ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال نے اجتہاد پر بہت زور دیا۔
انہوں نے 1924ء میں ’’اسلام میں اجتہاد‘‘ کے عنوان سے ایک مقالہ اسلامیہ کالج لاہور کے حبیبیہ ہال میں پڑھا اور اپنے دور کے علماء سے اس موضوع پر تبادلہ خیال جاری رکھا۔ جن میں سید سلمان ندوی سرفہرست ہیں۔ اقبال فقہ اسلامی کے حوالے سے لکھتے ہیں:’’ضرورت اس امر کی ہے کہ فقہ اسلامی کے حوالے سے ایک مفصل تاریخی کتاب لکھی جائے۔ غرض یہ کہ اس وقت ملت اسلامیہ کو مذہبی اعتبار سے سخت راہ نمائی کی ضرورت ہے۔‘‘
اقبال تاعمر امت مسلمہ کا درد دل میں لیے رہے۔ اکبر الہ آبادی کے نام اس حوالے سے خط لکھتے ہیں:’’ترکوں کی فتح کا مژدۂ جاں فزا پہنچا، مگر اس کا کیا علاج کہ دل کو پھر بھی اطمینان نہیں، معلوم نہیں روح کیا چاہتی ہے اور آنکھوں کو کس نظارے کی ہوس ہے۔
میں ایک زبردست تمنا کا احساس دل میں رکھتا ہوں، گو اس تمنا کا موضوع مجھے معلوم نہیں۔ ایسی حالت میں مجھے مسرت بھی ہو تو اضطراب کا عنصر غالب رہتا ہے۔‘‘ اقبال کا یہ اظہار شاید اس وجہ سے تھا کہ ان کی طرح اکبر الہ آبادی بھی امت مسلمہ کے مستقبل اور ان کی اصلاح و ترویج کے لیے کوشاں رہتے تھے۔
اقبال نوجوانوں کو نظریۂ قومیت سے بھی بچانے کی بھرپور کوششوں میں لگے رہے۔ ان کے نزدیک یہ محض تارعنکبوت کی طرح بے حیثیت ہے۔ یہی بات وہ خان محمد نیازالدین خاں کو ایک خط میں لکھتے ہیں:’’نئے اسکول کے مسلمانوں کو معلوم ہوگا کہ یورپ جس قومیت پر ناز کرتا ہے وہ محض بودے اور سست تاروں کا بنا ہوا ایک ضعیف چیتھڑا ہے، قومیت کے اصل اصول اسلام نے بتائے ہیں جن کی پختگی و پائے داری مرور ایام اور اعصار سے متاثر نہیں ہوسکتی۔‘‘ انسانیت اسی مغربی نظریۂ قومیت کی وجہ سے سسک رہی ہے۔ یہی وجہ ہے اقبال اسے سم قاتل خیال کرتے تھے۔
اقبال نے ہر موقع پر مشرق اور مغرب کا تقابل کیا، چاہے وہ میدان سیاست کا ہو یا معیشت کا۔ اقبال اکبرالہ آبادی کو لکھتے ہیں:’’ہزار کتب خانہ ایک طرف اور باپ کی نگاہ شفقت ایک طرف۔ اسی واسطے تو جب کبھی موقع ملتا ہے ان کی خدمت میں جا پہنچتا ہوں اور ان کی گرمئی صحبت سے مستفید ہوتا ہوں۔
پرسوں شام کھانا کھا رہے تھے اور کسی عزیز کا ذکر کر رہے تھے جن کا حال ہی میں انتقال ہوگیا، دوران گفتگو کہنے لگے،’’معلوم نہیں بندہ اپنے رب سے کب کا بچھڑا ہوا ہے۔‘‘ اس خیال سے اس قدر متاثر ہوئے کہ بے ہوش ہوگئے اور رات دس گیارہ بجے تک یہی کیفیت رہی۔ یہ خاموش لیکچر ہیں جو پیران مشرقی سے ہی مل سکتے ہیں، یورپ کی درس گاہوں میں ان کا نشان نہیں۔‘‘
خلاصہ کلام
اقبال کے علمی و فکری سفر سے ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ فکراقبال جامد نہیں تھی بلکہ مسلسل تغیروتبدل اور ارتقاء پذیر رہی۔ اقبال کے خطوط ہم دردی، خلوص، تنقید و اصلاح، امت مسلمہ کی معاشی، سیاسی، معاشرتی اور مذہبی حالت پر اظہارتشویش سے متصف ہیں۔ اقبال کا یہ اعجاز ہے کہ قوم انہیں مفکراسلام اور مفکر پاکستان کے لقب سے یاد رکھتی ہے۔
بقول ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی:’’اقبال ایک بسیارگو شاعر تو نہ تھے، مگر مکتوب نگاری میں ان کی بسیارگوئی سے انکار مشکل ہے، انہوں نے اپنی زندگی میں بلامبالغہ ہزاروں ہی خطوط لکھے ہوں گے اور اس سب کا سبب ان کی عظیم الشان شخصیت ہے۔ اقبال سمندرپار کے ملکوں میں بھی ایک قادرالکلام شاعر، مفکراسلام اور سیاسی قائد کی حیثیت سے جانے جاتے تھے، معاشرے کے ہر طبقے سے لوگ انہیں خط لکھتے تھے۔‘‘
اقبال ایک سوچ کا نام ہے، اقبال ایک فکر کا نام ہے، اقبال وہ شخصیت ہیں جو صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں۔
حوالہ جات
٭ کلیات مکاتیب اقبال جلد اول و دوم
٭ خطوط اقبال رفیع الدین ہاشمی
٭ مقدمات عبدالحق، ڈاکٹر عبارت بریلوی
٭ اقبال کامل
٭ اقبال نامہ
٭ اقبال کے نثری افکار
The post علامہ اقبال اپنے خطوط کی روشنی میں appeared first on ایکسپریس اردو.