کراچی: ہمارے اخبار ’ایکسپریس‘ کے ممتاز کالم نگار جناب سعد اللہ جان برق اپنے آٹھ جون 2023ء کے کالم میں رقم طراز ہیں:
’’آپ نے ’’شوبز‘‘ کے نام پر مختلف فلمیں، اشتہارات اور ماڈلوں کے مظاہرے دیکھے ہوں گے، اکثر فلموں اور ڈراموں میں ساحلی مقامات پر عورتیں دیکھی ہوں گی۔ ایسے مناظر ہمارے پڑوسی ملک کے چینلوں اور فلموں میں آج کل ساری دنیا سے زیادہ ہوتے ہیں۔
اکثر لوگوں کو ان خواتین پر غصہ آتا ہے، لیکن یقین کریں کہ ہمیں ایسے مناظر دیکھ کر اس ’’آزاد‘‘ عورت پر غصہ نہیں، بلکہ ترس اور رحم آتا ہے کیوں کہ یہ وہ خود نہیں کر رہی ہے، بلکہ اسے اس حد تک سدھایا جا چکا ہے، ہیپناٹائز کیا چکا ہے اور اتن ذہن سازی کی جا چکی ہے کہ وہ خود وہی کر رہی ہے، جو مرد اس سے کروانا چاہتا ہے۔
یہ ہو بہو ویسا ہی سلسلہ ہے جو اشرافیہ اور ’عوامیہ‘ کا رہا ہے کہ اشرافیہ نے عوامیہ کو ہزاروں سال دماغ کے عدم استعمال پر اور خود کو دماغ کے کثرت استعمال پر لگا رکھا ہے، جس کے نتیجے میں عوامیہ کا دماغ صفر اور اشرافیہ کا دماغ انتہائی تیز چالاک اور طاقت وَر ہوگیا۔ ٹھیک یہی معاملہ مرد اور عورت کا بھی ہے، مرد نے عورت کو ’’محدود‘‘ کر کے اس کے جسم اور دماغ دونوں کو مفلوج کیا ہوا ہے، نتیجہ یہی نکلنا تھا کہ عورت کو دماغ اور جسم دونوں لحاظ سے کمزور کر دیا گیا ہے، اسے ناقص العقل کہا جاتا ہے، لیکن وہ اصل میں ناقص العقل نہیں، بلکہ اسے ناقص العقل بنایا گیا ہے اور اسے ایک ایسا ’معمول‘ بنایا گیا ہے، جو ’عامل‘ کی مرضی کے مطابق ہر کام کر رہی ہے۔
سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس سے اس کی اصل حیثیت چھین لی گئی ہے جو ’’ماں‘‘ کی ہے، دنیا میں ہزاروں لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی بیٹی نہیں ہوتی، بہن نہیں ہوتی، بیوی نہیں ہوتی، لیکن ایسا کوئی انسان نہیں ہوگا کہ جس کی ماں نہیں ہوگی، لیکن آج انسان نے اس عورت کو سب کچھ بنا دیا ہے۔ وہ صرف ماں نہیں رہی ہے صرف ایک ’زہریلا جسم‘ بنا دی گئی ہے کیوں کہ چالاک مرد نے اسے آزادی کے بانس پر چڑھا کر ’’کمائی‘‘ پر لگا دیا ہے، حالاں کہ کمائی کا کام خالص مرد کا ہے اور وہ اس بیماری میں خوشی خوشی وہ سب کچھ کر رہی ہے، جو مرد چاہتا ہے، ’آزادی نسواں‘ کے نام پر اسے زمرد کے گلو بند کا اسیر بنایا گیا ہے۔
انسانی بچے کی پرورش مرد کا کام ہے اس کی اور اس کی ماں کی مادی ضروریات پوری کرنا شامل ہے، جب کہ عورت کا کام اس بچے کے اندر انسان پیدا کرنا ہوتا ہے اور آج مرد نے اپنا کام (کمائی) بھی عورت کے ذمے کر دیا ہے اور اگر عورت کمائی کرنے نکل پڑے اور بچے کو نوکروں، چائلڈ کیئر سینٹروں اور ’تنخواہ دار‘ لوگوں پر ڈال دے، تو وہ تو ان کے اندر ڈاکٹر، انجینئر، بینکر، تاجر وغیرہ ڈال دیں گے، انسان کو کون ڈالے گا۔‘‘
سعد اللہ جان برق نے اپنے کالم میں عصرِ حاضر کے ایک نہایت اہم سماجی مسئلے کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے، جس پر تھوڑی بہت بات کرنا بھی اتنا زیادہ ناپسندیدہ بنا دیا گیا ہے کہ کوئی چاہے بھی تو اس حوالے سے لب کشائی نہیں کرتا، کیوں کہ کہنے کو تو سب کو اپنی رائے دینے کی آزادی حاصل ہے، لیکن ایسے خیالات کا اظہار فٹ دھنی سے ’جہالت‘ یا ’دقیانوسیت‘ قرار دے دیا جاتا ہے، جب کہ یہ پوری نسل انسانی کا ایک توجہ طلب معاملہ اور ایک سنگین مسئلہ ہے۔
یہ بات بالکل درست ہے کہ ہمارے سماج میں خواتین کو ان کے حقوق حاصل نہیں ہیں، انھیں آج بھی کم تر اور نیچ سمجھا جاتا ہے، یہاں تک کہ بہت سے وڈیروں اور جاگیرداروں کی سرکردگی میں پتھر کے دور اور ’زمانۂ جاہلیت‘ کی بھی بہت سی غیر انسانی رسوم جاری ہیں۔۔۔ جی بالکل، ہم بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں اور گاہے گاہے اس کے خلاف آواز بھی اٹھاتے رہتے ہیں، لیکن ہمیں اس کے ساتھ ساتھ کچھ اس حوالے سے بھی تو توجہ دینی چاہیے کہ قدرت کی طرف سے جو ایک فطری ذمہ داری صنف نازک کو ودیعیت کی گئی ہے، کہیں ’حقوق نسواں‘، ’برابری‘ یا ’آزادی‘ کے نام پر ہم اس کے ساتھ ’کھلواڑ‘ تو نہیں کرنے لگے۔۔۔؟
ہمارے بے رحم ’سرمایہ دار‘ اور سفاک معاشی نظام نے ایک ماں کے قیمتی ترین وقت کو اپنے کاروبار اور مفادات کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں بچے اور ماں کے درمیان دوری پیدا ہو رہی ہے، اس ماں کے بچے کو دیے جانے والے قیمتی وقت اپنے دفتر کو دینے کے عوض اُسے کچھ پیسے تو ضرور مل رہے ہیں، اور اسی پیسے سے وہ ایک معقول رقم اسی بچے کی تربیت و نشوونما کے واسطے خرچ بھی کر رہی ہے، اس کے لیے اچھے ’ڈے کیئر سینٹر‘ یا آیائوں سے تربیت بھی کرا رہی ہے، لیکن کوئی بتائے کہ اس ننھی سی جان سے اس کی ماں کی قربت جیسا بنیادی ترین حق جیتے جی چھینا جانا کیسا انصاف ہے۔۔۔؟
کیا اس نام نہاد ’’حقوق نسواں‘‘ کی کند چُھری سے ایک معصوم بچے کے بنیادی ترین انسانی حق کی ’بَلی‘ چڑھانا ٹھیک عمل ہے۔۔۔؟ ہمارے ہاں تو بچوں کی صحت و نشوونما کے نام پر بھی درجنوں ’غیر سرکاری تنظیمیں‘ قائم ہیں، کیا انھوں نے شیر خوار بچے کے اس حق کی تلفی اور پائمالی پر کسی ’ریلی‘ مظاہرے یا پنج ستارہ ہوٹلوں کے ٹھنڈے ٹھار کمروں میں کبھی کوئی محفل سجائی ہے۔۔۔؟ یا دیگر بہت سی ’این جی اوز‘ کی طرح ان کی ترجیحات بھی کچھ اور ہیں!
اس بات میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ بچے کے لیے ماں کے علاوہ کوئی خونی رشتے دار تک بھی اس کی وہ جذباتی اور فطری ضرورت کو اس طرح مکمل کر ہی نہیں سکتا، جس طرح اس کی ماں کر سکتی ہے، جب کہ تربیت کرنے والی پیشہ وَر یا تنخواہ دار ’آیا‘ یا ’ڈے کیئر سینٹر‘ تو بہت دور کی بات ہے۔
ماں کی گود کو بچے کی پہلی درس گاہ قرار دیا جاتا ہے۔ ماہرین نومولود بچے کے لیے ماں کی قربت، اس کا لَمس اور اس کی موجودگی کو سیکھنے کے عمل کے لیے کلیدی قرار دیتے ہیں۔ بچہ ’ماں‘ کی شبیہہ اور اس کی اپنے پاس موجودگی سے ایک اطمینان اور تحفظ پاتا ہے۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ بڑے ہونے کے بعد تک گھر پہنچتے ہی ہم سب سے پہلے اپنی ’ماں‘ کی طرف ہی جاتے ہیں۔ کیوں کہ ہمارے لیے یہ دنیا شروع ہی ہماری ’ماں‘ سے ہوتی ہے۔ ایسے میں اگر بچے میں اپنی ’ماں‘ سے فطری وابستگی کا وہ احساس ہی نہ لے پائے، تو یہ اس کی ذہنی نشوونما کے لیے نہایت منفی عمل ہے۔
اگر بچے کو دنیا سے متعارف ہوتے ہوئے سائے کی طرح ساتھ ساتھ موجود ماں کے سائبان کا احساس نہ مل سکے، تو سوچیے کہ اس بچے کے اندر جو ایک شدید نفسیاتی اور جذباتی خلا پیدا ہوگا، وہ کس قدر خطرناک ہو سکتا ہے۔ یہ فطری خلا تا عمر اس کے اندر سماجیات کے تئیں اس کے رویوں پر بھی نہایت شدید منفی اثرات کا باعث ہوگا، جو اس کے سماجی کردار اور اس کے ذریعے سماج کے لیے بھی مختلف سنگین مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔
دراصل ہم نے عورت کو ’آزاد‘ اور ’خود مختار‘ کہتے ہوئے پیمانہ ہی یہ بنایا ہے کہ اس کے لیے عورت کا اپنے گھر سے باہر آکر کوئی کام کرنا ناگزیر ہے، لیکن اس کے بدلے میں بطور ’ماں‘ وہ عورت سرمایہ دارانہ نظام کی اس ’خدمت‘ کی کتنی بھاری قیمت ادا کر رہی ہے، کیا آپ اسے روپیے پیسے یا بھاری آمدنی کے پلڑے سے بھی تول سکتے ہیں۔۔۔؟ شیر خوارگی اور کم سنی کا جو اہم ترین وقت، جو اس بچے کی نفسیاتی اور سماجی نشوونما کے لیے ایک مستحکم بنیاد تشکیل دیتا ہے، یہیں سے اس کی شخصیت کے بنیادی لوازمات کی نیو بھی پڑتی ہے، وہ گردو پیش سے مختلف چیزیں، سنتا، دیکھتا اور سمجھتا ہے، اس کا ننھا سا ذہن ارتقائی انداز میں مختلف چیزوں کی اپنی توجیہہ کرنے لگتا ہے۔
لیکن اس کے ہر ہر مرحلے پر وہ اپنی ماں کی جانب ہی دیکھ رہا ہوتا ہے، لیکن ماں اس کے پاس موجود نہیں ہوتی۔۔۔! اب آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا کسی فرد کے بچپن اور اوائل عمری کے اس اہم اور قیمتی ترین وقت کو دنیا کی کسی بھی قیمتی شے سے بھی خریدا جا سکتا ہے۔ لیکن ستم ظریفی ہے کہ ہمارا سفاک معاشی اور نام نہاد آزاد سماجی نظام دھڑلے سے بچے کے اس بنیادی حق کو چند ٹکوں کے عوض خرید رہا ہے اور ہم ہیں کہ اتنے مطمئن اور شاد ’کر دیے گئے‘ ہیں کہ ذرا سے بھی احساس نہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے!
اس ساری صورت حال کے بعد شاید اس بے رحم معاشی نظام کے لیے ’کام یاب پرزے‘ کی صورت میں تو ایک پوری نسل ضرور تیار ہو رہی ہے، لیکن اس کے اندر زندگی بھر کے لیے ایک جذباتی خالی پن بھی ہمیشہ کے لیے جگہ بنا رہا ہے۔ ہماری اس مسئلے سے غفلت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں سارے ہی مردوں کو غیر ضروری طور پر ظالم، جابر اور قابل نفرت بنا کر پیش کرنا بھی ’حقوق نسواں‘ کی ایک ’ضرورت‘ یا رواج بنا دیا گیا ہے۔ اس لیے کوئی خاتون تو کسی طرح اس موضوع پر کچھ بات ضرور کر سکتی ہے، لیکن ’صنف قوی‘ کی جانب سے اس طرح کی کسی بھی بات کے اظہار کو پوری شدت سے ’دقیانوسیت‘ اور اس کی ’حاکمانہ ذہنیت‘ کا عکاس قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔
سماج میں ایسی تبدیلیاں لانے کے لیے باقاعدہ ایسے مواد کی تشہیر کی جاتی رہتی ہے، جس سے دھیرے دھیرے ہمارے سماجی حالات اور واقعات ’پیغام کنندگان‘ کی خواہش کے مطابق ڈھلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح باقاعدہ ایک طے شدہ طریقے کے تحت ہمارے شیرخوار اور نومولود بچوں سے ان کی ماں چھینی جا رہی ہے اور ایک لفظ یا ایک سطر کا بھی کہیں کوئی احتجاج کوئی صدا کوئی آواز سامنے نہیں آ رہی کہ آخر ہم یہ ’’حقوق‘‘ اور ’’آزادی‘‘ کے نام پر اپنے بچوں اور اس کی ماں کے ساتھ کر کیا رہے ہیں۔۔۔؟
کیوں کہ ہمارا پیمانہ ہی یہ بنا دیا گیا ہے کہ عورت اگر گھرداری کرتی ہے، تو وہ مرد کی ’غلام‘ اور ’محکوم‘ ہے، یا کچھ اور نہیں تو یہ سفاکانہ رائے تو بار بار سننے میں آتی ہے کہ ایسی خواتین ’بے کار‘ اور سماج کے لیے ’عضو معطل‘ ہیں۔۔۔! جب کہ امور خانہ داری کرنے والی خواتین کے لیے اس سے زیادہ بے رحم اور غیر منصفانہ کلمات اور کچھ نہیں ہو سکتے، اگر سرمایہ دارانہ عینک سے بھی دیکھیے، تو وہ خواتین بہت سے ایسے لوگوں ہی کی ساجھے داری کر رہی ہیں، جو سرمایہ دارانہ نظام سے ’ملازمین‘ کی صورت میں وابستہ ہیں!
یعنی براہ راست ’منافع کی زبان‘ میں بھی ان خواتین کا کردار ناگزیر اور مفید ہے، لیکن ہمیں ایک بنی بنائی سوچ دے دی گئی ہے اور کوئی اس پر غور بھی نہیں کرتا، بالکل ایسے ہی ملازمت پیشہ مائوں کی اپنے بچوں سے دوری کا مسئلہ بھی ہے، جس کو توجہ دینا تو درکنار سِرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں بلکہ ’آزادی‘ سمجھا جاتا ہے۔
The post ’آزادی‘ یا ممتا کے فطری تعلق کا خون۔۔۔؟ appeared first on ایکسپریس اردو.