ہر انسان کو زندگی میں کوئی نہ کوئی شوق ہوتا ہے کبھی وقت گزرنے کے ساتھ اس میں کمی آجاتی ہے تو کبھی شدت۔ ایسے ہی جیسے مجھے بچپن سے دلہن بننے کا بہت شوق تھا۔ میں کافی چھوٹی تھی جب اچانک یہ شوق ہوگیا۔ اب کیسے ہوا یہ تو یاد نہیں، البتہ پروان اس وقت چڑھا، جب اپنی کزن کی شادی میں شرکت اور دلہن کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔
اس سے پہلے تو ہم صرف شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر دوپٹہ اوڑھ کر شرمایا کرتے تھے، لیکن جب ہماری کزن (جو کہ ہم سے عمر میں کافی بڑی تھیں اور جن کو ہم ’بڑی آپا‘ کہا کرتے تھے) کی شادی ہوئی تو اندازہ ہوا کہ بھئی دلہن کے تو بڑے چاؤ چونچلے ہوا کرتے ہیں۔ نئے نئے کپڑے، زیور، مہندی پھر اوپر سے نخرے وغیرہ وغیرہ۔
اب چوںکہ جس زمانے میں ہماری ’بڑی آپا‘ کی شادی ہوئی وہ بہت سادگی کا دور تھا، تو نہ ہال وغیرہ اتنے تھے اور نہ ہی بیوٹی پارلر۔ خیر تو بات ہو رہی تھی دلہن کی۔ اب ہمارے شوق کا عالم یہ تھا کہ جب کوئی پوچھتا بڑے ہوکر کیا بنو گی؟ ہم جھٹ سے بول دیتے ’’دلہن۔‘‘
جب بڑی آپا کی شادی دیکھی تو یہ اشتیاق اور بھی بڑھ گیا ’بڑی آپا‘ کی شادی میں جیسا کہ ہم نے پہلے بتایا کہ بیوٹی پارلر وغیرہ تو ہوتے ہی نہیں تھے۔۔۔ تو گھر میں ہی ان کو تیار کیا گیا، اب محلے یا خاندان کی کوئی بھی خاتون جن کو ذرا بھی میک اپ کا پتا ہوتا یا جس کے پاس سامانِ آرائش ہوتا، دلہن اس کے حوالے کر دی جاتی۔
اب وہ جانے اور وہی جانے، کیوں کہ دلہن کو نہ کچھ معلوم ہوتا نہ ہی اس کی کچھ چلتی تھی۔ پھر جو میک اپ ہوتا، یوں ہوتا کہ اچھی بھلی لڑکی کو بڑی محنت سے گویا کہ ’بُھتنی‘ بنا دیا جاتا۔ بال تو لگتا تھا استری کر کے سیدھے کر دیے ہیں۔ مانگ ایسی سیدھی کہ کاش اتنے سیدھے لوگ بھی ہو جائیں، اس پر غضب کا لائنز جو کن پٹیوں تک جاتا اور کاجل۔۔۔ اس میں تو لگتا تھا کہ ’گوند‘ ملا دی گئی ہے، مجال ہے جو دلہن آنکھیں کھول سکے۔
اس کی آنکھیں بھی دولھا کو دیکھ کر ہی کھلتی ہوںگی، بلکہ شاید کھلی کی کھلی رہ جاتی ہوں۔ اوپر سے جو آئی شیڈ لگایا جاتا، وہ عموماً نیلے یا ہرے رنگ کا ہوتا، اور کپڑے لال، گویا دلہن نہیں ’گولا گنڈا‘ تیار کیا جاتا۔ ہونٹوں پر لگی ہوئی سرخی دیکھ کر لگتا کہ تازہ تازہ لہو پیا ہے۔۔۔! سونے پر سہاگا۔۔۔ بیٹھنے کا انداز۔ دلہن کو گھٹنوں میں منہ دے کر بٹھا دیا جاتا۔ ظاہر ہے جیسا میک اپ ہوتا تھا اس پر منہ چھپانا ہی بنتا تھا۔
اب جب تک رخصتی نہ ہو جائے، دلہن اسی حال میں بیٹھی رہتی (بے چاری)۔ اس دوران ایک واقعہ ضروری رونما ہوتا۔ محلے کی کوئی نہ کوئی خاتون جن کو اپنے حُسن اور روپ پر تنا ناز اور فخر ہوتا کہ وہ ہر نئی دلہن کو دیکھ کر یہ ضرور کہتیں ’’وہ روپ نہیں آیا، جو مجھ پر آیا تھا۔‘‘ اب بتاؤ ہمیں کیا پتا کہ روپ آیا تھا یا۔۔۔؟
خیر، ہماری ’بڑی آپا‘ کی شادی تو بخیروخوبی انجام پاگئی، لیکن ہمارے ارمانوں میں مزید اضافہ کر گئی۔ جیسے جیسے وقت آگے بڑھ رہا تھا، ہمارا دلہن بننے کا شوق ہمارے قد کے ساتھ پروان چڑھ رہا تھا۔ اب جب ہمارا وقت آیا تو (واقعی ہم پر وقت آگیا) کیوںکہ اس بات کا اندازہ بھی اس وقت ہوا کہ کپڑے ہی نہیں ملتے، دلہن کو ایک عدد دولھا بھی بیٹھے بٹھائے مل جاتا ہے۔
اب وہ تو ایک لمبی تفصیل ہے کہ شادی کیسے طے ہوئے کس سے اور کس طرح؟ اصل مدعا تو یہ ہے کہ ہم بھی اپنی شادی پر کسی ’نمونے‘ سے کم نہیں لگ رہے تھے، حالاںکہ ہمارے وقت میں بے شمار پارلر کھل چکے تھے اور جس پارلر میں ہمیں جانا تھا وہ بھی کافی مشہور، مہنگا اور بڑا پارلر تھا، لیکن جب نصیب میں ہی ’چڑیل‘ بننا لکھا جا چکا ہو، تو اسے کون بدل سکتا ہے۔۔۔!
جب ہم اپنی شادی والے دن پارلر میں داخل ہوئے، تو لگ رہا تھا کسی مشن پر لائے گئے ہیں۔ وہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ تھا۔ مطلب جس بیوٹیشن کے حصے میں جو بھی دلہن آجائے وہ اس کی ہوئی۔ ہمیں جن خاتون نے ’پکڑا‘ وہ تو خود ’قاتلہ‘ لگ رہی تھیں اور ہم ’مقتول‘ اور پھر جو انھوں نے ہمارا ستیاناس کیا، تو کچھ پَل تو سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ جب تک ہم سمجھ پاتے ایک ’چڑیل‘ تیار ہو چکی تھی۔
منہ تو ہمارا مختصر سا تھا اوپر سے انھوں نے بالوں کے جوڑے کے بہ جائے گھونسلا بنا دیا اور وہ بھی جس میں چڑیا نہ صرف اپنے انڈوں اور بچوں سمیت بیٹھ سکتی تھی، بلکہ اس ’’گھونسلے‘‘ کو دیکھ کر لگتا چڑیا نے اڑوس پڑوس کی چڑیوں کو بھی بلا لیا ہے۔ ہم انسان کے بہ جائے کوئی اور مخلوق بلکہ یوں کہیے کہ ’خلائی مخلوق‘ لگ رہے تھے۔
خیر اللہ اللہ کر کے بیوٹی پارلر سے جان چھڑائی اور شادی ہال پہنچے تو وہاں رنگ برنگے حلیوں میں اور عجیب و غریب لوگ نظر آئے۔
اب ہم دلہن تھے، تو آنکھیں چپکائی یعنی بند نہیں تھیں، لیکن جھکائی ہوئی ضرور تھیں۔ یہ وہ دور تھا، جب دلہن سر جھکا کر بیٹھی ہوتی تھی، اس کا گھونگھٹ بھی کافی لمبا ہوتا تھا۔ ہمارا تو یہ بھی مسئلہ تھا کہ اتنی جھکی نظر سے لوگوں کا تجزیہ اور ان پر تبصرہ کرنا مشکل تھا۔ یہ سوچ کر غصہ آرہا تھا کہ اتنے مزے مزے کے کردار پھر رہے ہیں اور ہم جو بے لاگ تبصرے میں ماہر تھے، خاموش بیٹھے ہیں۔ مرتے کیا نہ کرتے، خاموشں بیٹھنا مجبوری تھی۔
کھانے سے فارغ ہونے کے بعد دولھا صاحب کو لایا گیا۔ جیسے ہی دولھا صاحب سوفے پر بیٹھے وہ اوپر بیٹھے اور ہم نیچے پڑے نظر آئے۔ جی وہ بیٹھے ہی اتنے زوردار طریقے سے، ایک تو خود موٹے اوپر سے سوفا چھوٹا تو کسی نہ کسی کو تو نیچے آنا ہی تھا۔ ہماری قسمت کہ ہم منہ کے بل زمین پر آرہے، جس کی وجہ سے ہمارے ’’حسن‘‘ میں مزید اضافہ ہوگیا۔
وہ تو شکر ہے کہ ہمارے دولھا صاحب ہمارا حسن صحیح طرح دیکھ نہ سکے، خیر ہوئی کہ ہماری جٹھانی بروقت آپہنچیں اور آتے ہی نہ صرف ہمیں سہرا باندھ دیا، بلکہ فورا بٹھا بھی دیا۔ ٹیڑھے میڑھے ہو کر ہم نے بھی سوفے پر جگہ بنائی اور بیٹھ ہی گئے۔
حلیہ تو بگڑ ہی چکا تھا، لیکن رخصتی کا وقت قریب تھا اس لیے برداشت کیے بیٹھے رہے۔ ہمارے قد سے بڑا اور وزن سے دگنا جو سہرا باندھا گیا اس کی وجہ سے ہمارے چہرے کے جذبات بھی چھپ گئے۔ اچھا ہی ہوا، کیوں کہ رونے کے بہ جائے ہمارے سارے دانت باہر تھے (بھئی شوق جو تھا دلہن بننے کا) اور دانتوں پر لگی لپ اسٹک کوئی اور ہی نقشہ بنا رہی تھی۔
رونا بھی نہیں آرہا تھا خالی ’’اوں اوں‘‘ کی آواز نکال کر رونے کا تاثر دے رہے تھے۔ ڈر بھی تھا کہ کسی نے سہرا اٹھالیا، تو رہی سہی عزت بھی جائے گی۔ اس لیے اپنی تازہ تازہ بے عزتی کو یاد کیا (جو سب کے سامنے اسٹیج پر گرنے سے ہوئی ) اور زبردستی کے کچھ آنسو نکال ہی لیے۔
خیر جناب عزت کے ساتھ رخصتی ہوگئی اور ہم پیا دیس سدھارے۔ یوں ہماری شادی ہو ہی گئی، جسے کافی عرصہ بیت چکا ہے الحمدللہ۔
ابھی مہینے دو مہینے پہلے ایک شادی میں گئے، وہاں جو دلہن کا حال دیکھا تو حیران ہی رہ گئے۔ پٹر پٹر باتیں کرتی دلہن، شوہر کو یوں ابھی سے انگلیوں پر نچا رہی تھی کہ ہماری تو آنکھیں باہر ساتھ ساتھ حیرت سے دل گردے بھی باہر نکلنے کو بے قرار تھے۔
بڑی مشکل سے کنٹرول کیا۔ اب موقع ملا کھل کر تبصرہ کریں۔ پھر اچانک برابر میں بیٹھی ہوئی ایک اور خاتون پر نظر پڑی، جو ہماری طرح ہی بھری بیٹھی تھیں۔ ہم نے موقع سے فوراً فائدہ اٹھایا اور ان سے باتیں شروع کر دیں، جو آخرکار دلہن اور اس کے گھر والوں پر تنقید میں تنقید میں بدل گئیں۔
باتیں کرتے کرتے پتا ہی نہیں چلا کہ کتنا وقت گزر چکا ہے۔ جب فرصت ملی تو اندازہ ہوا کہ ہال کی روشنیاں بند ہونے اور رخصتی کا وقت ہو چکا ہے۔ بڑے بھاری دل سے ان خاتون سے اجازت لی اور باقی تبصرہ گھر کے لیے چھوڑ دیا۔ یوں ہمارا دلہن نامہ مکمل ہو سکا۔
The post قصہ دلہن بننے کا… appeared first on ایکسپریس اردو.