بچے من کے سچے اور کھرے ہوتے ہیں ان کے چھوٹے چھوٹے دماغ بہت کچھ سوچتے اور سمجھتے ہیں۔ ہم اکثر کہتے ہیں کہ بچے ہیں، انھیں کیا معلوم، لیکن یہی ہماری غلط فہمی ہے کیوں کہ ان کے مشاہدے کی حس بہت تیز ہوتی ہے۔
بچوں کی نفسیات سمجھنے کے لیے والدین کو بہت تگ و دو کی ضرورت ہے۔ یہی وقت ہوتا ہے جب ہم اپنے بچوں کو صحیح غلط اور اچھے برے کی تمیز سیکھاتے ہیں۔
انھیں خوش گوار ماحول مہیا کرتے ہیں، ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ اور بچوں کے درمیان تھوڑا سا بھی غیر منصفانہ سلوک ان کا مستقبل ان کی زندگی تباہ کر سکتا ہے۔ آئیے اپنے بچوں کی نفسیاتی اصلاح کریں، انھیں سمجھیں اور سمجھائیں۔
کچھ گھرانوں میں بچوں پر کسی قسم کی کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی، بچے جہاں دل چاہے اپنی مرضی سے آئیں جائیں، یہ بھی ٹھیک نہیں ہے بچوں کو بلاوجہ کی آزادی دینا ٹھیک نہیں ہے، انھیں پیار سے سمجھائیں کہ فلاں دوست یا جگہ ان کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔
آپ ان پر سختی کریں یا مار پیٹ کریں گی، تو بہت منفی ردعمل سامنے آئے گا، اس لیے بہتر ہے کہ ان کی نفسیات سمجھیں، انھیں زیادہ وقت دیں اور دوستوں کی طرح ان کے قریب رہنے کی کوشش کیجیے۔
کچھ والدین کی عادت ہوتی ہے کہ وہ نہ بچوں کو کہیں لے کر جاتے ہیں اور نہ ان کے دوستوں کو گھر آنے کی اجازت دیتے ہیں اور اسی طرح ان پر بہت سی بلاوجہ کی پابندیاں لگاتے ہیں، یہ بھی بچوں کے نفسیاتی تقاضوں کے لحاظ سے بالکل ٹھیک نہیں ہے۔
آپ کے لیے ضروری ہے کہ ان کی یہ بے ضررر خواہشات ضرور پوری کیجیے، کبھی انھیں پارک لے جائیے، ان کے اچھے دوستوں کے ساتھ بیٹھنے دیں اور ضرورت کے مطابق موبائل وغیرہ کا استعمال بھی کرنے دیں۔ بلاوجہ کی روک ٹوک کے نقصانات زیادہ ہیں، اس لیے کوشش کیجیے کہ ان کے ذہن میں نیکی اور بدی کا تصور واضح کریں۔
بچوں کو دھمکیاں نہ دیں کہ انھیں آپ فلاں غلط کام پر سزا دیں گے۔ بچوں کے دل میں خوف و ہراس پیدا ہو جاتا ہے، وہ احساس کمتری کا شکار ہو کر خود کو بہت پیچھے لے جاتے ہیں اور بچوں کو کبھی پیسوں کا چیزوں کا لالچ نہ دیں کہ وہ فلاں کام کریں تو انھیں یہ لے کر دیں گے، وہ تحفہ لے دیں گے، اس طرح سے بچوں کی نہ تو اچھی تربیت ہو سکتی ہے اور نہ ہی اخلاقیات ان کے کردار کا حصہ بن سکتی ہیں۔
شفقت و محبت سے بچوں سے ہر کام کروایا جا سکتا ہے۔ والدین جب بات بات پر بچوں کو ڈانٹتے ہیں، تو ان کے دل ودماغ میں بدتمیزی اور ڈھٹائی میں اضافہ کرتے ہیں، اس لیے بہتر ہے کہ بچوں سے پیار ومحبت سے کام لیں، تاکہ ان کے دل میں آپ کے لیے عزت پیدا ہو۔
بچوں کو جو سکھایا جائے، وہ اس پر ہی عمل کرتے ہیں، اس لیے کوشش کیجیے، انھیں دوسروں سے محبت کرنا سیکھائیے اور جب آپ ان کے دل میں محبت کا جذبہ پیدا ہوگا، تو سب سے پہلے وہ آپ کے قریب ہوں گے، آپ کی قربت ان کے ساتھ ہوگی، تو وہ سب سے پہلے آپ کے ساتھ دلی رشتہ جوڑیں گے۔
اکثر والدین اس بات پر حیران ہوتے ہیں کہ ان کے بچے کے دماغ میں اپنی عمر سے بھی بڑی باتیں کیسے آ گئیں۔ بچوں کے لیے گھر میں ایسا ماحول پیدا کریں کہ بچوں کی عمر کے مطابق ہر بات ہو۔ کوئی بات بھی بچوں سے پوچھیے، تو اس بات کو یاد رکھیں کہ ان کا ’ایج گروپ‘ کیا ہے۔ بچوں کو سمجھائیں کہ اسکول اور محلے میں اپنی عمر ہی کے دوست بنائیں، تاکہ ان کی اچھی ذہنی نشوونما ہو سکے۔
بچے جب بڑے ہوتے جاتے ہیں، تو ان کی نفسیاتی ضروریات بڑھ جاتی ہیں۔ اس لیے انھیں زیادہ وقت دیں، پارک لے جائیں دوستوں کی طرف جانے دیں۔ مائیں گھر پر بچیوں کو وقت دیں، انھیں سہیلیوں کی طرح سمجھائیں اور ان کی اچھی تربیت کریں۔
بہن،بھائیوں کے درمیان مثبت مقابلے کی فضا قائم کیجیے، نہ کہ ان کے درمیان حسد پیدا کیجیے کہ وہ ایک دوسرے کا مذاق اڑائیں۔ بچوں کی ہمیشہ دوسروں کے سامنے تعریف ہی کریں نہ کہ غلط انداز سے انھیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے اور وہ آپ سے برے طریقے سے متنفر ہو جائیں اور آپ سے دور ہوتے چلے جائیں۔
بچے اکثر ماں باپ سے بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں، لیکن کچھ جھجھک اور ماں باپ کے پاس وقت کی قلت کی وجہ کچھ کہہ نہیں سکتے آپ کو چاہیے کہ کوشش کیجیے کہ وہ جب آپ سے کچھ کہنا چاہیں تو ان کی بات ضرور سنیں۔ والدین کو چاہیے کہ بچپن سے ہی بچوں کو ادب و احترام سیکھائیں اور چھوٹے بڑے سے بات کرنے کی تمیز دیں۔
آپ کو چاہیے کہ خود بھی بچوں سے احترام سے بات کریں اور تُو تَڑاخ سے پرہیز کیجیے، تاکہ آپ کے بچے بھی آپ کا دلی احترام کریں۔ بچے کو بچپن سے ہی سچ، جھوٹ، اچھائی برائی، غیبت، چغلی اور دیگر اخلاقی برائیوں اور اچھائیوں کی پہچان کرائیں اور ان کے کردار کا حصہ بنائیں۔
بچے کو سحر انگیزی اور رات کو وقت پر سونے کی عادت ڈالیں کیوں کہ یہ عادت نہ صرف بچے کے لیے بہترین ثابت ہوگی، بلکہ آپ کو بھی اس کا فائدہ ہوگا۔بچہ نماز کا پابند ہوگا، اسکول وقت پر جائے گا اور وقت پر ناشتا کرے گا۔ بہن بھائیوں کا آپس میں احساس پیدا کریں کہ بڑے بہن بھائی آپ کا کتنا خیال رکھتے ہیں اور بڑوں کو سمجھائیں کہ وہ چھوٹے بہن بھائیوں کو پیار سے رکھیں اور ان سے نرمی سے پیش آئیں۔
بچے اگر غلطی کریں، تو ماریں پیٹیں نہیں، بلکہ نرمی سے پیش آئیں اور انھیں سمجھائیں کہ یہ بات ٹھیک نہیں اور اگلی بار یہ غلطی نہ کریں۔
ایسا نہ ہو کہ بچوں کو ہر غلطی پر لعنت ملامت یا مار پیٹ شروع کردیں، بہتر یہ ہے کہ انھیں پیار سے سمجھائیے کہ بیٹا یہ کام آپ نے غلط ہے اور کوشش کریں کہ اب یہ کام غلط نہ ہو کیوں کہ اس سے آپ کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔کوشش کیجیے، بچوں کو باہر کے کھانوں کی عادت نہ ڈالیں، اگر ایک بار وہ ’فاسٹ فوڈ‘ کے عادی ہوگئے تو پھر آپ کے لیے مشکلات پیدا کریں گے۔
بچوں کو پیزے، برگر کی ایسی لت لگ جاتی ہے کہ انھیں کھائے بغیر وہ سوتے نہیں، اس لیے بہتر ہے کہ انھیں گھر کے ہی کھانے بنا کر دیجیے۔ کبھی سبزی کے سینڈوچ بنا دیے، تو کبھی چکن کے برگر اس طرح ان کی ’فاسٹ فوڈ‘ کی خواہش بھی پوری ہو جائے گی اور وہ گھر کا سادہ اور صاف ستھرا کھانا بھی نوش کر لیں گے۔
گھر میں بچوں کے لیے ایک چھوٹا سا کونا مخصوص کریں، جس میں ان کی دل چسپی کے مطابق مطالعاتی کتابیں رکھی ہوئی ہوں۔ اس طرح بچوں کی توجہ ٹی وی، انٹرنیٹ کے بہ جائے کتابوں پر رہے گی۔ بچوں کے ساتھ خود کھیلیں اس طرح بچوں میں اعتماد پیدا ہوگا اور آپ بھی جان لیں گی کہ کون سا بچہ کس کھیل میں دل چسپی رکھتا ہے۔
بچوں کے دل میں دوسرے بچوں کے لیے احساس اور ہم دردی کا جذبہ پیدا کریں اور انھیں سمجھائیں کہ اگر وہ دوسروں کا خیال رکھیں گے، تو اللہ تعالیٰ ان کا خیال رکھے گا اور انھیں زندگی میں کام یابیوں سے نوازے گا۔ اس طرح آپ اپنے بچوں کی شخصیت سازی میں مثبت کردار ادا کرسکتی ہیں۔
The post اخلاقیات اور مثبت رویے کیسے اجاگر ہوں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.