ماہ ستمبر 2023 ء کے تیسرے ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم ، بنجمن نیتن یاہو نے دعوی کیا کہ ایک نیا مشرق وسطی ظہور پذیر ہو چکا جس کے مالک اسرائیل اور اس کے ساتھی عرب ممالک ہیں۔
موصوف نے فلسطینی عرب مسلمانوںکا ذکر کرنا تک گوارا نہیں کیا جو پچھلی ایک صدی سے اسرائیلی حکمران طبقے کے ظلم وستم سہہ رہے ہیں ۔نیتن یاہو کے انداز سے عیاں تھا کہ وہ فلسطینیوں کو معمولی کیڑے مکوڑے سمجھتا ہے۔انہی معمولی فلسطینیوں نے اکتوبر کے پہلے ہفتے اسرائیلی حکمران طبقے خصوصاً نیتن یاہو کو ’’آپریشن طوفان الاقصی ‘‘کی صورت ایسا منہ توڑ جواب دیا کہ اسے دن میں تارے نظر آ گئے۔
حکمران طبقے کے ہوش وحواس گم
اسرائیل کے بارے میں عالمی سطح پہ جوتاثر تھا کہ وہ ایک ناقابل شکست اور پُراسرار عسکری و سائنسی طاقت ہے، مٹھی بھر فلسطینی مجاہدین نے یہ طلسم پاش پاش کر دیا اور دنیا والوں کو دکھا دیا کہ اسرائیلی اسٹیبلشمنٹ بھی ایک لاپروا اور کمزور ادارہ ہے جو لامحدود وسائل رکھنے کے باوجود اپنے ملک کی حفاظت نہیں کر سکا۔
مٹھی بھر مجاہدین کے حملے نے پوری اسرائیلی ریاست کو ہلا کر رکھ دیا اور حکمران طبقے کے ہوش وحواس گم کر دئیے۔حکمرانوں نے اربوں ڈالر خرچ کر کے اپنے سائنس دانوں سے جاسوسی کے ہائی ٹیک آلات تیار کرائے تھے، وہ ایک تنظیم کے حملے کو نہ جان پائے اور نہ روک سکے۔ اسرائیلی سیکورٹی فورسز کے جدید ترین ہتھیار بھی مجاہدین حماس کو نہ روک سکے اور انھوں نے اسرائیلی ریاست کو سخت جانی و مالی نقصان پہنچایا۔
اسرائیلی حکمران طبقہ حواس باختہ اور کھسیانا ہو کر اہل غزہ پہ خوفناک اور تباہ کن بم باری کرنے لگا کہ اس کے پاس جدید ترین طیارے اور توپیں موجود ہیں۔اس نے کئی سو فلسطینی مرد، خواتین اور بچے شہید کر دئیے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ اس عالمی دہشت گرد کی کیونکر سرپرستی کرتی ہے۔
اس کی مثال یوں سامنے آئی کہ اہل غزہ کی ناکہ بندی کے لیے اپنے دو طیارہ بردار جہاز بحیرہ روم بھجوا دئیے۔ یہ ہے وہ اسرائیلی دہشت گرد حکومت کے پشتی بان امریکا کا اصل روپ جسے کئی مسلم حکمران ’’صاحب بہادر‘‘کا درجہ دیتے ہیں۔اس کی غلامی کا اندازہ یوں لگائیے کہ انھوں نے اسرائیل کی سخت الفاظ میں مذمت نہ کی کہ صاحب بہادر ناراض ہو جائے گا۔
امریکی منصوبہ ٹھپ
پچھلے پانچ چھ سال سے امریکی اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور کوشش تھی کہ وہ اسرائیل اور اسلامی ممالک کے درمیان تعلقات استوار کرا دے۔ اس کی سعی رنگ لائی اور اکثر عرب ملک اسرائیل کے قریب آنے لگے۔ معاشی مفادات نے مسلم حکمرانوں کی آنکھوں پہ پٹی باندھ دی اور وہ فراموش کر گئے کہ اول اسرائیل نے قبلہ اول پہ قبضہ کر رکھا ہے۔
دوم یہ کہ اسرائیلی ریاست ربع صدی سے فلسطینیوں پہ ظلم وستم کر رہی ہے۔فلسطینی مسلمان جن تکالیف ، دکھوں اور مسائل میں گرفتار ہیں، انھیں بھول کر اسرائیل سے دوستی کرنا اپنے ضمیر اور دین وایمان کو دھوکا دینے کے مترادف تھا۔
فلسطینیوں کے حقوق کی ترجمان، حماس نے اسرائیل پہ حملہ کر کے دنیا والوں کو نہ صرف اہل فلسطین کی موجودگی کا احساس دلایا بلکہ خصوصاً سبھی مسلمانوں کے دل ودماغ جھنجھوڑ کر رکھ دئیے۔ اس حملے سے عالم اسلام کو احساس ہوا کہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل ان کے ہم مذہبوں پہ ظلم ڈھا رہا ہے اور انھیں صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہے۔
اب وقت کی پکار ہے کہ مسلم ممالک اتحاد ویک جہتی کا مظاہرہ کریں تاکہ اسرائیل کو فلسطینی بھائیوں پہ مذید ظلم وستم کرنے سے روکا جا سکے۔ یہ ٹھنڈے کمروں میں ٹھاٹ باٹ سے رہتے ہوئے محض جذباتی بیان دینے کا وقت نہیں بلکہ صورت حال مسلم حکومتوں سے عملی اقدام کی متقاضی ہے۔
راہ بدلنی ہو گی
حماس کے حملوں کے بعد اکثر مسلم ممالک نے غیرت کھاتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ انجام پاتی دوستانہ گفتگو منجمند کر دی۔حقیقت یہ ہے کہ جب تک آزاد ریاست فلسطین کا قیام عمل میں نہیں آتا، تب تک کسی اسلامی ملک کو اسرائیل کے ساتھ دوستی نہیں کرنی چاہیے، اس سے معاشی تعلقات قائم کرنا تو دور کی بات ہے۔
امریکا، برطانیہ اور فرانس تو خیر روز اول سے اسرایل کے ہمنوا بلکہ پشتی بان ہیں کہ انہی استعماری طاقتوں کی کوششوں سے اسرائیلی مملکت کا قیام عمل میں آیا، حالیہ حملوں نے اسلامی ملکوں کو بھارت کا حقیقی چہرہ بھی دکھا دیا۔
مودی حکومت نے کھلے عام نیتن یاہو حکومت کی حمایت کی جو غزہ میں فلسطینی مسلمانوں کو قتل عام کر رہی تھی۔ جو اسلامی ممالک معاشی مفادات پانے کے لیے بھارت سے دوستیاں کررہے تھے، انھیں ہوش کے ناخن لینے چاہیں۔ عام مسلمان کی یہی دعا ہے کہ خدارا یہ مسلم حکمران چند ٹکوں کے لیے اپنی دینی حمیّت نیلام نہ کریں اور اسلام کو بدنام ہونے سے محفوظ رکھیں۔
حملے کا آغاز
7 اکتوبر کو صبح ساڑھے چھ بجے غزہ میں مقیم فلسطینی مجاہدین نے پہلے پے در پے تین سے پانچ ہزار کے مابین راکٹ اسرائیل کی جانب داغے۔اور پھر مختلف مقامات سے اسرائیل میں داخل ہو گئے۔ یہ مسلح مجاہد پیراشوٹوں، کشتیوں، گاڑیوں، موٹر سائیکلوں یا پیدل ہی دشمن کی سرزمین میں گھسے اور اسرائیلی سیکورٹی فورسز کو نشانہ بننانے لگے۔
جن اسرائیلی شہریوں نے مزاحمت کی، وہ بھی مجاہدین کی گولیوں کا شکار ہوئے۔ مجاہدین کی تنظیموں نے غیر قانونی یہودی بستیوں میں مقیم افراد کو جائز ٹارگٹ قرار دے دیا تھا۔اس لیے ان پہ بھی گولیاں برسائی گئیں۔یہ اسرائیلی آباد کار فلسطینوں کو اپنا غلام سمجھتے اور اکثر ان پہ گولیاں برسا دیتے ہیں۔ان مغروروں اور فرعونوں کو سبق سکھانا ضروری تھا تاکہ وہ فلسطینیوں کو ترمال نہ سمجھ لیں۔
مچھر اور نمرود کی جھوٹی خدائی
سات اکتوبر کو اسرائیل و عرب ممالک کی یوم کپور جنگ ہوئے پچاس سال ایک دن مکمل ہو گئے تھے ۔ اس جنگ کی پچاسویں سالگرہ کو یادگار بناتے ہوئے فلسطینی مجاہدین نے اسرائیل میں ایسا اچانک اور تیزرفتار دھاوا بولا کہ اسرائیلی حکمران طبقہ اور دنیا والے دنگ رہ گئے۔ عملی اعتبار سے ایٹمی قوت اور سائنس و ٹیکنالوجی میں ماہر سمجھے جانے والے اسرائیل اور بے سروسامانی کے عالم میں جیتے فلسطینی مجاہدین کے درمیان کوئی مقابلہ ہی نہیں تھا۔
اسرائیلی فوج کا شمار جدید ترین اسلحہ اور سائنسی و ٹیکنالوجیکل مہارت رکھنے کی وجہ سے دنیا کی طاقت ور ترین افواج میں ہوتا ہے۔جبکہ فلسطینی مجاہدین چھپ چھپا کر صرف چھوٹا اسلحہ تیار کر پاتے ہیں یا پھر اتحادی ممالک انھیں چوری چھپے فراہم کرتے ہیں۔
اس کے باوجود فلسطینی مجاہدین نے اپنی زبردست دلیری ، استقامت اور ذہانت سے ثابت کر دکھایا کہ کبھی کبھی ایک چیونٹی بھی ہاتھی کو شکست دے سکتی ہے۔ بعض اوقات صرف ایک مچھر آمر مطلق نمرود کی جھوٹی خدائی کا خاتمہ کر سکتا ہے۔
اسرائیلی مظالم کا فطری ردعمل
حسب دستور امریکا، برطانیہ ، فرانس اور ان کے حواری اسرائیل کی حمایت میں شوروغوغا کرنے لگے۔انھوں نے دعوی کیا کہ اسرائیل حالت ِجنگ میں ہے اور یہ کہ اسے اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔
انھوں نے حماس اور فلسطینیوں کی دیگر مسلح تنظیموں کو ’’دہشت گرد‘‘قرار دیا۔اس طرح عالمی سیاست میں ان طاقتوں کی منافقت ایک بار پھر عیاں ہو گئی جو بظاہر انسانی حقوق کی چیمپین کہلاتی اور قانون و انصاف کا رکھوالا بنی پھرتی ہیں۔ صرف روس نے بیان دیا کہ فلسطینیوں کو بھی دفاع کا حق حاصل ہے جن پہ اسرائیلی حکومت عرصہ دراز سے مظالم توڑ رہی ہے۔ان کی کارروائی اسرائیلی مظالم کا فطری ردعمل ہے۔
مسلمانوں کا حُسن سلوک
تاریخ عیاں کرتی ہے کہ جب عیسائی یہود پہ مظالم ڈھا رہے تھے تو مسلم حکمرانوں نے انھیں پناہ دی۔عیسائیوں نے یہود کو فلسطین سے نکال باہر کیا تھا۔
حضرت عمر ؓ فاروق کے زمانے میں فلسطین فتح ہوا تو آپ نے یہود کو علاقے میں بسنے کی اجازت دے دی۔آنے والے مسلم حکمران بھی یہود کی دادرسی کرتے رہے جو یورپ میں عیسائیوں کے مظالم کا عموماً نشانہ بنتے رہتے تھے۔مسلمانوں کے اس حسن ِسلوک کا مگر یہود نے کیا بدلہ دیا؟
یہودی ریاست کا خفیہ منصوبہ
ہوا یہ کہ اٹھارویں صدی سے امریکا ویورپ کے امیرکبیر یہود ایک خفیہ منصوبے کے تحت فلسطین میں مسلمانوں سے زمینیں خریدنے لگے۔منصوبہ یہ تھا کہ ان زمینوں پہ امریکا و یورپ سے غریب یہودی لا کر بسائے جائیں۔مقصد یہ تھا کہ فلسطین میں یہود کی تعداد بڑھا کر وہاں ایک یہودی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کر دی جائے۔
چناں چہ ان زمینوں پہ امریکی و یورپی یہودی مہاجر لا کر بسائے گئے۔ یوں فلسطین میں یہود کی تعداد بڑھنے لگی۔ اس زمانے میں صرف چند ہزار یہودی فلسطین میں رہتے تھے۔ مگر امیر کبیر یہود کی دولت کے بل پہ لاکھوں یہودی فلسطین میں آ بسے اور یوں فلسطین میں ان کی کثرت ہو گئی۔
اس کے بعد یہود نے اپنی مسلح دہشت گرد تنظیمیں بنا لیں جو فلسطینی عربوں پہ حملے کرنے لگیں۔مدعا یہ تھا کہ ان کے دیہات و قصبات پہ قبضہ کیا جا سکے۔اس دہشت گردی کے سہارے یہود فلسطینیوں کی کئی آبادیوں پہ قابض ہو گئے۔
یہ تمام تاریخی شواہد خود یہودی مورخین کی کتب میں درج ہیں۔یوں زمینیں خریدنے کو ہتھیار بنا کر یہود نے فلسطین کے وسیع علاقے پہ قبضہ کر لیا اور وہاں اپنی مملکت اسرائیل بنانے میں کامیاب رہے۔
اقوام متحدہ کی ناانصافی
انہی دنوں اقوام متحدہ وجود میں آئی۔ ممالک کی اس تنظیم میں امریکا و برطانیہ کی اجارہ داری تھی۔اس لیے معاملہ وہاں پہنچا تو اقوام متحدہ نے فلسطین کا بیشتر حصہ یہود کو دے دیا۔اسی زیادتی کی بنا پر فلسطینی مسلمانوں نے یہ پلان مسترد کر دیا۔
ان کے ساتھ واضح طور پہ ناانصافی ہوئی تھی۔ اسرائیل اور یہود کے پشت پناہ …امریکا و برطانیہ چونکہ عالمی طاقتیں تھیں لہذا طاقت کے بل بوتے پر انھوں نے یہود کو زیادہ نواز دیا۔
اس سے قبل برطانیہ اسی ناجائز طریقے سے جموں و کشمیر کی مسلم اکثریتی ریاست بھارتی اسٹیبلشمنٹ کو سونپ چکا تھا کیونکہ وہ پاکستان پہ بھارت کو ترجیح دیتا تھا۔ گویا جنگ عظیم دوم کے بعد سے دنیا میں جدید عالمی سیاست میں جس کی لاٹھی ، اس کی بھینس کا فلسفہ کارفرما ہے۔ اس طریق ِسیاست نے قانون اور عدل و انصاف کو روند ڈالا اور کمزور ریاستیں اپنے مفادات ہر ممکن طریقے سے پورے کرنے پر جُتی طاقتور ریاستوں کے ہاتھوں میں کھلونا بن گئیں۔
مظالم کا ردِعمل… اسلامی مسلح تنظیمیں
فلسطین اور جموں وکشمیر ،یہ وہ دو اہم عوامل ہیں جن کی وجہ سے عالم اسلام میں استعماری قوتوں کے خلاف غم وغصّہ پایا جاتا ہے۔ فلپائن کے مسلمان اکثریتی علاقوں، برما، سنکیانگ، چیچنیا، بوسنیااور کوسووہ میں غیرمسلم حکومتوں نے مسلم طبقے پہ جو ظلم ڈھائے، وہ بھی دنیا بھر کے مسلمانوں کو اشتعال دلاتے رہے۔
استعماری قوتوں نے سوڈان اور انڈونیشیا میں بستے عیسائیوں کو تو آزاد ریاستیں بنا کر دے دیں مگر دنیا کے مختلف خطوں میں بستے مسلمانوں کو یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ اپنے اکثریتی علاقوں میں اپنی ریاستیں قائم کر لیں۔
اب ظاہر ہے، جب مسلسل ظلم رہے تو امن نہیں ہو سکتا۔ اس لیے حساس مسلمان مسلح تنظیمیں بنا کر غیرمسلم حکومتوں سے لڑنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک موجودہ مسلمان حکمران مادہ پرستی کے اسیر ہو کر بزدل و ناکارہ ہو چکے۔
وہ اعلی عہدوں، کرسیوں، محلوں، قیمتی گاڑیوں، شاہی پروٹوکول، امیرانہ طمطراق اور شاہانہ رہن سہن کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں ۔وی وی آئی پی پروٹوکول کے غلام یہ مسلم حکمران ماضی کے مجاہدین کی طرح سادہ زندگی گذار کر ظلم وستم کے خلاف صف آرا نہیں ہو سکتے۔وہ دن گئے جب کمزور و مظالم کا شکار مسلمانوں کی امداد کے لیے سبھی مسلمان جمع ہو جاتے تھے۔
عالمی میڈیا کی منافقت
استعماری قوتوں اور استبدادی حکومتوں سے نبردآزما مسلم مسلح تنظیموں کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس زیادہ بڑا اسلحہ موجود نہیں، اس لیے وہ عموماً چھوٹے ہتھیاروں سے گوریلا جنگ لڑتی ہیں۔ ایسی جنگ میں شہری بھی مارے جاتے ہیں۔
اس باعث استعماری قوتیں انھیں ’’دہشت گرد تنظیمیں‘‘قرار دینے میں کامیاب رہیں۔ تاہم ان قوتوں کا میڈیا مسلمانوں کے خلاف ہوتی سرکاری دہشت گردی کے بارے میں خبریں اور رپورٹیں بہت کم دیتا ہے۔ مثال کے طور پہ بھارت اور اسرائیل ہی کو لیجیے۔
بھارت نے لاکھوں سیکورٹی فورسز جموں وکشمیر میں لگا رکھی ہے تاکہ وہاں تحریک آزادی کو کچلا جا سکے۔یہ سیکورٹی فورسز مقبوضہ ریاست میں کشمیری مسلمانوں کے قتل، بے حرمتی، کرپشن، غنڈہ گردی غرض ہر جرم میں ملوث ہیں مگر ان سے پوچھ تاچھ کرنے والا کوئی نہیں۔
آج کشمیری حقیقتاً ایک بہت بڑے قید خانے میںبے بسی اور مجبوری کی زندگیاں گذار رہے ہیں اور کوئی ان کے دکھ درد بانٹنے والا نہیں۔بھارتی حکومت اب تو یہودی امرا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے وہاں زمینیں خرید کر ہندوؤں کو بسا رہی ہے تاکہ ریاست میں ان کی آبادی بڑھائی جا سکے۔یوں مستقبل میں کشمیری مسلمان اکثریت ہونے کا دعوی نہ کر سکیں اور رائے شماری کرانے کے حق سے محروم ہو جائیں۔
مغربی میڈیا مگر جموں و کشمیر میں جاری مسلمانوں کی نسل کشی کے بارے میں بہت کم خبریں دیتا ہے۔ مرکزی میڈیا میں کبھی کبھی اس بارے میں ایک آدھ رپورٹ آ جاتی ہے۔
ورنہ بیشتر رپورٹوں میں بھارتی حکومت کی مدح سرائی کی جاتی اور اسے ایک ابھرتی قوت کے طور پہ پیش کیا جاتا ہے۔ استعماری اور جابر حکومتوں سے لڑتے مسلمانوں کو اس وقت بہت تکلیف ہوئی جب کچھ عرب ممالک محض معاشی فوائد پانے کے لیے بھارت اور اسرائیل سے دوستی کی پینگیں جھولنے لگے۔ انھوں نے ان عرب حکمرانوں کو عالم اسلام کا غدار ، لالچی اور ہوس پرست قرار دیا۔
مسلمانان ِ جموں و کشمیر کی طرح فلسطینی مسلمان بھی اذیت ناک اور عالم کسمپرسی میں زندگیاں گذار رہے ہیں۔ان کے گھروں کے سامنے اسرائیلی فوجی براجمان رہتے اور ان کی نقل وحرکت پہ نظر رکھتے ہیں۔
اسرائیلی حکومت نے انھیں مذید تکالیف میں مبتلا کرنے کے لیے انھیںایک دوسرے سے دور تین علاقوں…مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی بیت المقدس میں مقید کر رکھا ہے۔ظالم حکومت نے طاقت کے بل بوتے پہ فلسطین مسلمانوں کو اپنے ہی وطن میں دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیا۔ یہودی بستیاں بسا کر اسرائیل رفتہ رفتہ مجوزہ آزاد فلسطینی ریاست کے علاقوں پہ قبضہ کر رہا ہے۔
شیر کی ایک دن کی زندگی
سیکورٹی فورسز کی کثرت، قتال، مارپیٹ، تشدد، پابندیاں، بندشیں، رکاوٹیں…کوئی بھی شے مگر جموں وکشمیر اور فلسطین کے مسلمانوں کا جذبہ آزادی ماند نہیں کر سکی۔ان مسلمانوں کی اکثریت شہید ٹیپو سلطان کے اس مقولے پہ یقین رکھتی ہے:’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے۔‘‘یہ مسلمان ظالم کے سامنے سر جھکانے کے بجائے اس کو کٹا دینا بہتر سمجھتے ہیں۔
یہی انداز فکر اسرائیل پہ کیے گئے حالیہ حملوں میں شریک فلسطینی مجاہدین کا تھا جو جان ہتھیلی پہ رکھ کر اسرائیل کی سرزمین میں داخل ہوئے کیونکہ وہ نہیں جانتے تھے ، واپس آ کر غازی کہلائیں گے یا شہادت ان کا مقدر بنے گی۔
اسرائیلی ظالم ہر حملے کے بعد اہل غزہ پہ بموں کی بارش کر دیتے ہیں۔ان حملوں میں وہ فلسطینی بھی شہید ہوتے ہیں جو حماس کے رکن نہیں۔ تاہم بیشتر فلسطینی حماس اور دیگر گوریلا تنظیموں کے مجاہدین کو اپنا ہیرو سمجھتے ہیں کہ وہ بے سروسامانی میں بھی کہیں زیادہ بڑی عسکری طاقت سے نبردآزما ہیں۔اُن کے نزدیک دور جدید کے بیشتر مسلم حکمران تو چوڑیاں پہن کر اپنے عالی شان محلات میں بیٹھ گئے ہیں۔
غزہ کے فلسطینی مسلمان خاص طور پہ پچھلے پندرہ سال سے جو اذیت ناک ، دردناک اور مسائل سے بھرپور زندگی گذار رہے ہیں، اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ان کاواحد ’’جرم ‘‘یہ ہے کہ انھوں نے اسرائیل مخالف تنظیم، حماس کو ووٹ دے کر اپنے علاقے کی حکومت سونپ دی۔ اسرائیل ہی نہیں جمہوریت اور انسانی حقوق کا راگ الاپنے والی امریکی و یورپی حکومتوں نے غزہ کے عوام کا یہ فیصلہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔چناں چہ اسرائیل نے 2007ء سے غزہ کی ناکہ بندی کر رکھی ہے تاکہ حماس حکومت ناکام بنائی جا سکے۔
اہل غزہ پہ کڑی پابندیاں عائد ہیں اور ان تک صرف اتنی خوراک پہنچ پاتی ہے کہ جسم اور روح کا رشتہ برقرار رہے۔ اسرائیلی حکومت نے غزہ کے مسلمانوں پہ ظلم وستم کے جو پہاڑ توڑے ہیں، ان کی بابت جان کر آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں۔
اہل غزہ کی حالت زار
پچھلے پندرہ سولہ برس سے بائیس تئیس لاکھ آبادی والے اہل غزہ آزادی سے نقل وحرکت نہیں کر سکتے۔اگر کوئی مغربی کنارے میں ملازمت کرتا ہے تو اسرائیلی حکومت اسے پاس جاری کرتی ہے۔
حتی کہ مریضوں کوغزہ سے باہر جانے کے لیے اسرائیل سے اجازت لینا پڑتی ہے۔صدمے کی بات یہ ہے کہ ان کے مسلم پڑوسی، مصر نے بھی اہل غزہ کی نقل وحرکت پہ سخت پابندیاں لگا رکھی ہیں۔اسی لیے غزہ میں مقیم عام فلسطینی بڑی دشواریاں اور رکاوٹیں عبور کرنے کے بعد ہی باہر جا پاتا ہے۔
غزہ زیادہ بڑا علاقہ نہیں، اس کا کل رقبہ 141 مربع میل ہے۔اس کی لمبائی 25 میل ہے اور یہ 3.7 میل تا 7.5 میل چوڑا ہے۔اس چھوٹے سے رقبے میں بائیس تئیس لاکھ فلسطینی مسلمان بستے ہیں۔ یہ دنیا کا تیسرا گنجان ترین علاقہ ہے۔اسرائیل کی ظالمانہ پابندیوں نے اسے دنیا کا سب سے بڑا قید خانہ بھی بنا دیا۔
پابندیوں کے باعث غزہ میں معاشی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس لیے ساٹھ فیصد کام کرنے کے اہل لوگ بیروزگار ہیں۔ یہ دنیا میں بیروزگاری کی سب سے بلند شرح ہے۔نوجوانوں میں تو بیروزگاری اور زیادہ ہے۔
اسرائیلی جلاد غزہ میں صرف اتنی خوراک جانے دیتے ہیں کہ لوگوں کی بھوک مٹ جائے۔بیشتر لوگ پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھا پاتے۔اسی طرح پانی بھی تھوڑی مقدار میں فراہم کیا جاتا ہے۔ گویا اسرائیل نے غزہ کو ایک وسیع وعریض کربلا میں تبدیل کر دیا۔
اقوام متحدہ کے ادارے، ورلڈ فوڈ پروگرام کی رو سے آج اہل غزہ کی بیشتر تعداد کو دو وقت کا کھانا بھی نصیب نہیں ہوتا اور وہ ایک وقت کھا کر خود کو زندہ رکھتے ہیں۔مغربی کنارے میں بتیس لاکھ فلسطینی رہتے ہیں۔
وہاں بھی غربت ، بیروگاری اور بھوک کی فراوانی ہے۔ مگر اہل غزہ کی’’99 فیصد‘‘آبادی ان عفریتوں سے نبردآزما ہے۔ اس امر سے اندازہ کیجیے کہ اہل غزہ کیسی خوفناک، اذیت ناک اور دُکھوں سے بھری زندگی گذار رہے ہیں
غزہ میں پٹرول، ڈیزل،بجلی ، مٹی کا تیل ، گیس، کوئلہ حتی کہ لکڑی بھی بہت نایاب اشیا ہیں۔ وجہ یہی کہ اسرائیلی ایندھن کے بہت کم ذرائع غزہ میں داخل ہونے دیتے ہیں۔اسی لیے اہل غزہ کو دن میں سات آٹھ گھنٹے ہی بجلی میّسر آتی ہے۔ (اور ہم پاکستانی ایک ڈیرھ گھنٹہ بجلی جانے پر بے حال اور غصّیلے ہو جاتے ہیں۔)
غزہ میں سیوریج کا بھی بُرا حال ہے۔ اسرائیلی اکثر غزہ پہ بمباری کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے سیوریج کے پائپ ٹوٹنا عام ہے۔اسی لیے گندا پانی اکثر صاف پانی کے پائپوں میں داخل ہو جاتا ہے۔ اور اہل غزہ یہ گندا پانی پینے پر مجبور ہیں کہ کوئی اور راستہ ہی نہیں۔ چناں چہ غزہ کے بچوں، خواتین اور بوڑھوں میں خصوصاً پیٹ کی بیماریاں عام ہیں۔ان کی لپیٹ میں آ کر ہر سال کئی ہزار بچے بوڑھے چل بستے ہیں۔
خونخوار اسرائیلی پابندیوں کی وجہ سے غزہ میں صحت کی سہولیات بہت کم ہیں۔ کلینک اور اسپتال مناسب اور موزوں طبی آلات نہیں رکھتے۔ہر وقت ادویہ کی کمی رہتی ہے۔ ایک ہی دوا کئی امراض میں استعمال کر کے کام چلایا جاتا ہے۔ طبی سہولیات نہ وہنے کی وجہ سے بھی غزہ میں شرح اموات بہت زیادہ ہے۔
اسرائیلی حکومت کا دعوی ہے کہ وہ غزہ میں ’’دہشت گردوں ‘‘کے ٹھکانوںپہ بم باری کرتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ اسرائیلی کسی بھی عمارت پہ بم باری کرتے ہوئے نہیں ہچکچاتے چاہے وہ اسپتال ہو، اسکول، کلینک یا رہائشی گھر ہو۔ اسی لیے بم باری کے دوران معصوم بچے بھی شہید ہو جاتے ہیں۔ہر دفعہ بمباری کے بعد اہل غزہ کے لیے زندگی مذید کٹھن اور تکلیف دہ ہو جاتی ہے۔
اہل غزہ مسلسل جنگ کی حالت میں رہتے ہیں۔ ان کے حوصلے بلند ہیں پھر بھی یہ صورت حال اکثر فلسطینیوں پہ منفی نفسیاتی اثرات بھی مرتب کرتی ہے۔جب موت ہر وقت سر پہ منڈلاتی رہے تو اکثر فلسطینی نوجوان اسلحہ اٹھا کر اسرائیلی فوجیوں پہ پل پڑتے ہیں۔ دیگر نوجوان اُمید اور حوصلہ کھو بیٹھتے ہیں۔غزہ کے ایک نوجوان نے حال ہی میں مغربی صحافیوں کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا:
’’ہم روزانہ ایک جنگ لڑتے ہیں، یہ کہ اپنی ذہنی حالت کو نارمل رکھیں۔سبھی نوجوان پڑھنے کے بعد کوئی نہ کوئی کام کرتے ہیں تاکہ خود کو مصروف رکھ سکیں۔ یہ ساری مسلسل جدوجہد اسی لیے کہ ہم اپنے آپ کو پاگل ہونے سے بچا لیں۔‘‘
The post اسرائیل کا غرور و تکبر پامال appeared first on ایکسپریس اردو.