مذہبی یا معاشرتی ہر دو اعتبار سے زندگی ایک مشکل ٹاسک ہے، جس میں عمومی طور پر دکھوں اور غموں کا غلبہ محسوس ہوتا ہے۔ اور عصر حاضر کی معاشی بدحالی، فکری تباہی اور اخلاقی پستی نے تو اس مشکل کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
رشتوں اور ذمہ داریوں کے بوجھ تلے دبا انسان تو ہنسنا جیسے بھولتا ہی جا رہا ہے، تاہم اس دوران اگر اسے کوئی چند لمحوں کے لئے بھی مسکرانے کا موقع فراہم کر دے تو ایک انسان کے لئے دوسرے کے لئے اس سے بڑی شائد کوئی نیکی نہ ہو؟ دکھوں اور غموں سے بھری زندگی میں اپنے قول و فعل سے دوسروں کو ہنسانا ایک فن کی حیثیت رکھتا ہے، جس پر یدِ طولہ حاصل کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔
کامیاب کامیڈی یا مزاح نہ صرف سامعین کو خوش اور خوش کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے بلکہ سامعین کو سنگین معاشرتی یا انفرادی پریشانیوں کو بھی سمجھ سکتی ہے۔
مزاح کی مختلف صنفوں میں درجہ بندی کی جا سکتی ہے جیسے فارس ، برلسکس ، طنزیہ ، گھریلو کامیڈی ، کامیڈی آف آداب ، غلطیوں کا مزاح وغیرہ۔ شوبز کی دنیا کا ذکر کیا جائے تو یہاں ایسے متعدد فنکار گزرے، جن کا نام بھی اگر ذہن میں آ جائے تو بے اختیار ہونٹوں پر مسکراہٹ چھا جاتی ہے۔ ایسے ہی فنکاروں میں ایک نام آسکر ایوارڈ یافتہ رابن ولیمز کا ہے، جو فی البدی مزاح گو، سٹیج اور فلم اداکار، فلم نویس اور فلم ساز بھی تھے۔
عظیم کامیڈین گو رابن میکلورین ولیمز 21جولائی 1951ء کو امریکی ریاست ایلانس کے شہر شکاگو میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد رابرٹ فٹزجیرالڈ ولیمز موبائل فون بنانے والی ایک بڑی کمپنی میں سینئر ایگزیکٹو تھے جبکہ والدہ لوری میک لورین ایک ماڈل تھیں۔
ولیمز کے دو بڑے سوتیلے بھائی بھی تھے۔ 2001ء میں ان سائیڈ دی ایکٹرز سٹوڈیو میں ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں رابن ولیمز کا کہنا تھا کہ میرے مزاج میں مزاحیہ پن درحقیقت میری والدہ کی وجہ سے ہے، بچپن میں وہ اپنی والدہ کی توجہ حاصل کرنے کے لئے کامیڈی کرتے اور اپنی ماں کو ہنسانے کی کوشش کرتے تھے اور یہی چیز بعدازاں ان کی سب سے بڑی خوبی بن گئی۔ ولیمز نے گورٹن ایلیمنٹری سکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔
اداکار کے مطابق وہ زیادہ تر خاموش رہنے والے بچے تھے اور شرم محسوس کرنے کا یہ سلسلہ ہائی سکول کے شعبہ ڈرامہ تک جاری رہا، اداکار کے بچپن کے دوست بھی انہیں مضحکہ خیز کے طور پر یاد کرتے ہیں۔
1963ء میں، جب ولیمز 12برس کے تھے، ان کے والد کا تبادلہ ڈیٹرائٹ (مشی گن) ہو گیا۔ مشی گن میں یہ خاندان 40کمروں پر مشتمل 20 ایکڑ کے فارم ہاؤس میں رہتا تھا، جہاں ولیمز کو ایک ڈیٹرائٹ کنٹری ڈے سکول میں داخل کروا دیا گیا۔
اس سکول میں انہوں نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا، جہاں وہ نہ صرف ریسلنگ ٹیم میں شامل ہوئے بلکہ کلاس کے مانیٹر بھی منتخب ہو گئے۔ ولیمز کے والد اور والدہ چوں کہ دونوں ہی کام کرتے تھے، لہذا ان کی پرورش ایک گھریلو ملازمہ نے کی تاہم جب وہ 16 برس کی عمر کو پہنچے تو ان کے والد نے ریٹائرمنٹ لے لی اور یہ فیملی ٹبرون، کیلی فورنیا شفٹ ہو گیا، جہاں ایک بار پھر ولیمز کو ریڈووڈ ہائی سکول میں داخل کروا دیا گیا۔
1969ء میں انہوں نے گریجوایشن مکمل کی اور پھر پولیٹیکل سائنس پڑھنے کے لئے وہ کلیرمونٹ مینز کالج چلے آئے۔ ولیمز نے کینٹ فیلڈ، کیلی فورنیا کے ایک کمیونٹی کالج، کالج آف مارین میں تین سال تک تھیٹر کی تعلیم حاصل کی۔ اس کالج کے پروفیسر جیمز ڈن کے مطابق ولیمز کی صلاحیتوں کی گہرائی کا اظہار اس وقت ہوا، جب ہم نے انہیں ایک تھیٹر میں کاسٹ کیا، اس تھیٹر میں ولیمز نے کمال مہارت کا مظاہرہ کیا، جسے دیکھ کر ہم دنگ رہ گئے۔
1973ء میں ولیمز نے نیویارک سٹی میں جولیارڈ سکول میں سکالرشپ حاصل کی۔ انہی دنوں رابن کو کچھ مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے بس بوائے کے طور پر کام کرنا شروع کر دیا۔ بعدازاں 1976ء میں انہوں نے اپنے ایک دوست کے مشورے پر جولیارڈ سکول یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ یہ سکول اسے اب مزید کچھ نہیں سکھا سکتا۔ جولیارڈ سکول میں ولیمز کے ایک استاد جیرالڈ فریڈمین کا کہنا تھا کہ ’’ رابن ایک جینیئس ہے اور اس کے سکول چھوڑنے پر کسی کو حیرت نہیں ہوئی کیوں کہ اس کو مستقبل میں بہت کچھ سیکھ کر کرنا تھا‘‘۔
امریکی اداکار اور کامیڈین رابن ولیمز نے 1976ء میں اپنے فنی سفر کا آغاز سٹینڈاپ کامیڈی یعنی لائیو شو سے کیا۔ ان کی پہلی پرفارمنس ’’ہالی سٹی زو‘‘ سان فرانسیسکو میں تھی۔
اس کے بعد وہ لاس اینجلس چلے گئے، جہاں انہوں نے مختلف کلبز میں سٹینڈاپ کامیڈی کی۔ اسی دوران 1977ء میں ٹی وی پروڈیوسر سرجارج شلیٹر کی ان پر نظر پڑی، جنہوں نے ولیمز کو اپنے شو Laugh-In میں کام کی پیش کش کی، یہ شو 1977ء کے اواخر میں نشر ہوا اور رابن کی یہ پہلی ٹی وی نمائش تھی تاہم یہ تجربہ کامیاب نہ رہا کیوں کہ یہ ڈرامہ ناکام ہو گیا، لیکن ولیمز کو اس سے نئی شروعات ضرور مل گئی۔
1978ء میں کامیڈین نے Mork & Mindy کے نام سے نشر ہونے والی ٹیلی ویژن پروگرام میں کام کیا، جس میں انہیں مرکزی کردار ملا، جو انہوں نے بخوبی نبھایا اور یہی ڈرامہ ان کی آئندہ منزلوں تک رسائی کا موجب بن گیا۔ اس پروگرام کی کامیابی کے بعد انہیں ایچ بی او (ہوم باکس آفس) کے تحت بننے والی ویڈیوز Off the Wall / Live at the Roxy، An Evening with Robin Williams، Robin Williams: An Evening at the Met میں کام کا بھی موقع میسر آیا۔ ولیمز نے 1979ء میں ایک لائیو شو Copacabana کی پرفارمنس کے باعث اپنا سب سے پہلا گریمی ایوارڈ جیتا، یہ شو نیویارک سٹی میں منعقد ہوا۔
معروف امریکی کامیڈین اور مختلف پروگرامز کے میزبان ڈیوڈ لیٹرمین، جنہوں نے ولیمز کے ساتھ 40 برس گزارے ہیں کا کہنا ہے کہ’’ میری ولیمز کے ساتھ پہلی ملاقات ’’دی کامیڈی سٹور کلب‘‘ میں ہوئی، ان کی صلاحیتوں کا میں پہلے روز ہی معترف ہو گیا، وہ ایک سمندری طوفان کی طرح آیا اور سب پر چھا گیا۔‘‘ عظیم اداکار کا فلمی سفر 1977ء میں ریلیز ہونے والی ایک کم بجٹ فلم Can I Do It… ‘Til I Need Glasses? سے ہوا، اس فلم کا بجٹ ساڑھے سات لاکھ ڈالر جبکہ باکس آفس پر کمائی 3.5 ملین ڈالر تھی، اس فلم میں ان کا کردار نہایت محدود تھا۔
فلمی دنیا کے سفر میں ان کا پہلا بریک تھرو فلم Good Morning, Vietnam تھی، جو 1987ء میں ریلیز ہوئی، اس فلم کا بجٹ صرف 13 ملین ڈالر جبکہ کمائی 124 ملین ڈالر کے قریب رہی۔ یوں اس فلم کے بعد رابن ولیمز وہ اداکار بن گئے، جن کا شمار آج چیدہ کامیڈین میں ہوتا ہے۔
معروف کامیڈین رابن ولیمز کی نجی زندگی کے بارے میں بات کی جائے تو ان کی پہلی شادی جون 1978ء میں ویلیری ویلا رڈی سے ہوئی، اس جوڑے کو قدرت نے 1983ء میں ایک بیٹے زیک ولیمز سے نوازا تاہم 1988ء میں ان کے درمیان طلاق ہو گئی۔ 30 اپریل 1989ء میں ولیمز نے معروف امریکی فلم پروڈیوسر مارشا گریسز سے بیاہ رچایا، ان کے دوبچے ہوئے۔
2008ء میں گریسز نے خلع کے لئے ولیمز کو پہلا نوٹس جاری کیا اور پھر 2010ء میں ان کے درمیان باقاعدہ طلاق ہو گئی۔ کامیڈین نے اکتوبر 2011ء میں تیسری شادی ایک گرافک ڈیزائنر سوسان سے کی۔ 2009ء میں ولیمز امراض قلب کے باعث ہسپتال میں داخل ہوئے، جس کے بعد انہیں طبی مسائل کا مرتے دم تک سامنا رہا۔ ان کی آخری اہلیہ سوسان کا کہنا ہے کہ ان دنوں ولیمز اپنا دماغی توازن بھی کھو بیٹھے تھے۔
11 اگست 2014ء میں رابن ولیمز کیلیفورنیا میں واقع اپنے گھر میں مردہ پائے گئے، جس کے بارے میں بعدازاں میڈیکل رپورٹ نے بتایا کہ انہوں نے خودکشی کی تھی۔ ان کی موت کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی کیوں کہ دنیا بھر میں ان کے پرستار پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کی وفات پر اس وقت کے امریکی صدر اوباما سمیت دنیا بھر سے تعزیتی پیغامات کا ایک تانتا بندھ گیا، یوں کامیڈی کی دنیا کا ایک باب ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا۔
4 دہائیوں پر محیط پیشہ وارانہ زندگی اور اعزازات
عظیم امریکی مزاحیہ اداکار قدرتی طور پر فی البدی مزاح کی صلاحیت کے حامل تھے، جنہوں نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز 70ء کی دہائی کے اواخر میں سٹینڈ اپ کامیڈی سے کیا یعنی سٹیج پر کھڑے ہو کر لوگوں کو ہنسانا۔ 1977ء میں آئی روبرٹ لیوی کی ہدایت کاری میں ریلیز ہونے والی فلم Can I Do It… ‘Til I Need Glasses? میں رابن کو پہلی بار اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملا۔ فلم میں انہیں ایک وکیل کا مختصر کردار دیا گیا۔
تاہم تین برس بعد ڈائریکٹر رابرٹ آلمین کی فلم Popeye میں انہیں معروف امریکی اداکارہ شیلے ڈیوال کے ساتھ مرکزی کردار دیا گیا، جس کو انہوں نے بخوبی نبھانے کی کوشش کی۔ اس فلم کے بعد دو سال کا وقفہ آیا اور پھر 1982ء میں اداکار کو The World According to Garp نامی فلم میں کام کا موقع ملا، جسے کافی سراہا گیا، جس کے بعد وہ اس پٹڑی پر چڑھ گئے اور پھر اپنی موت تک وہ اس پر دوڑتے رہے۔
اداکار نے Moscow on the Hudson (1984)، Vietnam (1987)، Dead Poets Society (1989)، Awakenings(1990)، The Fisher King (1991)، Aladdin (1992)، Mrs. Doubtfire (1993)، The Birdcage (1996)، Good Will Hunting (1997)، Insomnia (2002)، Happy Feet (2006) اور World’s Greatest Dad(2009) سمیت 72 فلموں میں کام کیا بلکہ ان میں جو آخری دو فلمیں ہیں، ان میں سے ایک Absolutely Anyting ان کے انتقال کے ایک سال بعد یعنی 2015ء میں ریلیز ہوئی جبکہ Once Upon A Studio رواں برس یعنی جون 2023ء میں ریلیز ہوئی، جس میں انہوں نے اپنی آواز کا جادو جگایا ہے۔ یونہی عظیم مزاح گو نے ٹیلی ویژن پر اپنے سفر کا آغاز 1977ء میں Sorority’62سے کیا، پہلے پہل انہیں ٹیلی ویژن میں کام حاصل کرنے کے لئے کچھ دشواریوں کا سامنا بھی رہا تاہم جلد ہی شوبز کی دنیا ان کی صلاحیتوں کی معترف ہونے لگی۔
اداکار نے مرتے دم تک 36 کے قریب ٹیلی ویژن ڈراموں یا پروگرامز میں کام کیا، رابن ولیمز نے دو تھیٹروں، ایک ویڈیو گیم اور 5 ویڈیوز میں بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔
رابن ولیمز نے اپنی زندگی کی تقریباً 4 دہائیاں شوبز کو دیں، جس دوران ان کی صلاحیتوں اور خدمات کا ہر سطح پر اعتراف کیا گیا۔ اداکار کو مختلف کیٹیگریز کے تحت دنیائے شوبز کے سب سے بڑے اعزاز آسکر کے لئے چار بار نامزد کیا گیا اور 1998ء میں بالآخر وہ ٹرافی اٹھانے میں کامیاب ہو گئے۔ رابن کو بہترین اداکاری پر ایمی، برٹش اکیڈمی فلم، گولڈن گلوب، گریمی، سکرین ایکٹرز گلڈ، کڈز چوائس اور ایم ٹی وی سمیت متعدد ایوارڈز کا حق دار ٹھہرایا گیا۔
The post رابن ولیمز…ایک عظیم کامیڈین appeared first on ایکسپریس اردو.