(آخری قسط)
بیخود ؔدہلوی نے اپنے شراب نہ پینے کے جواز میں یہ شعر پڑھا:
؎ بیخود ؔکے لب بھی تر نہ ہوئے مے سے عمر بھر
آلودۂ شراب گریبان ہی رہا
جس پر اسرار الحق مجاز ؔنے کہا کہ ’’اس کی وجہ پارسائی نہیں، بلکہ بیخودؔ صاحب کے ہاتھوں کا رعشہ ہے۔‘‘
جس زمانے میں شیخ سرعبدالقادر، وزیرہند کونسل کے رکن کی حیثیت سے انگلستان میں مقیم تھے تو انہوں عیدالفطر کے موقع پر ووکنگ مسجد میں نماز کی امامت کے فرائض سرانجام دے۔
جب یہ خبر لاہور میں علامہ اقبالؔ تک پنہچی تو انہوں نے فرمایا،’’ایک امامت عبدالقادر کے دستِ ستم سے بچی ہوئی تھی، ظالم نے اس پر بھی ہاتھ صاف کر دیا۔‘‘ کچھ عرصے بعد اپنے صاحب زادے کی شادی کے سلسلے میں جب عبدالقادر لاہور ائے، تو اقبالؔ کے مذکورہ فقرے کی بازگشت سن کر بہت محظوظ ہوئے اور کہنے لگے کہ ’’اگر ڈاکٹر صاحب سے ملو تو ان سے عرض کرنا کہ عبدالقادر نے آپ کے فقرے کے جواب میں آپ ہی کا شعر سنایا تھا:
؎جو بے نماز کبھی پڑھتے ہیں نماز اقبالؔ
بلا کے دیر سے مجھ کو امام کرتے ہیں‘‘
محمد علی جوہر ؔسیتا پور کی دعوت میں شریک تھے۔ اس دعوت میں مہاتما گاندھی بھی موجود تھے۔ میزبان نے مہمانوں کے سامنے پھل رکھے تو جوہرصاحب نے یکے بعد دیگرے کئی شریفے اٹھا ئے اور کھا گئے۔
یہ دیکھ کر گاندھی جی نے ان سے کہا کہ’’ آپ ذیا بیطس کے مریض ہیں شریفے آپ کو نقصان پہنچائیں گے۔‘‘ جوہرؔ مرحوم نے جواب دیا،’’گاندھی جی! سسرال کا مال کبھی تکلیف نہیں پہنچاتا۔‘‘ گاندھی جی نے حیرت سے پوچھا،’’وہ کیسے؟؟‘‘ تو محمد علی جوؔہر بولے ’’میں رام پور کا رہنے والا ہوں اور شریفے سیتا پور کے ہیں۔ اس حساب سے یہ میرا سسرالی شہر ہوا۔‘‘
مبالغہ شاعری کا اہم ترین جزو ہے۔ تاہم اس کے برتاؤ میں شعراء قدرے احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ مگر لکھنؤ کے ایک شاعر میرکلو حقیر ؔنے تو شاعری میں مبالغے کی انتہا کردی۔ وہ لکھتے ہیں:
گلی میں یار کی چیونٹی گھسیٹ لائی تجھے
حقیر صدقے ہو تو اپنی ناتوانی کے
دہلی کلاتھ مل کے ایک مشاعرے میں فراقؔ گورکھپوری نے اپنی غزل پڑھنے سے پہلے کہا،’’ میری اس غزل کا مخاطب ایک پران پنشن یافتہ معشوق ہے۔‘‘ یہ سن کر گوپی ناتھ امن بولے،’’اسی سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ جب معشوق پنشن یافتہ ہے تو فراق صاحب کس منزل پر ہیں۔‘‘
جگرؔ مراد آبادی مشاعرے میں مدعو تھے، مشاعرے کی صدارت کسی خاتون کو کرنی تھی۔ سب شعراء ڈائس پر تشریف لائے مگر صدر صاحبہ کو پہنچنے میں کچھ تاخیر ہوگئی۔ کچھ دیر بعد جب وہ خاتون تشریف لائیں تو جگرؔ صاحب نے ان کو آتے دیکھا اور مائک پر آکر ان کے استقبال میں درج ذیل فی البدیہہ شعر پڑھا:
؎تمہیں تو محفل عشاق میں پہلے سے آنا تھا
یہ دنیا کیا کہے گی شمع پروانوں کے بعد آئی
ڈاکٹر اعجاز حسین الہ آباد یونیورسٹی میں غزل پڑھا رہے تھے، فراقؔ صاحب بھی موجود تھے۔ انہوں نے ایک شعر کی تشریح کے دوران ڈاکٹر اعجاز سے پوچھا،’’ایسا کیوں کہا جاتا ہے کہ غزل گو شعراء عام طور پر بدکردار ہوتے ہیں؟؟‘‘ اعجاز صاحب برجستہ بولے،’’ان کے سامنے آپ کی مثال جو رہتی ہے۔‘‘
معروف شاعر احسان دانش ؔپہلے پہل اپنا نام احسان بن دانش لکھا کرتے تھے، جس کا ترجمہ انگریزی زبان میں ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری نے Gratitude without wisdom کیا تو احسان دانشؔ نے ’’بِن‘‘ کو اڑا دیا۔
ایک بار صادقین نے جوش ؔصاحب کو اپنی تصاویر دکھا کر رائے چاہی۔ جوش ؔ صاحب نے صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا،’’میاں! تمہارا آرٹ ہماری سمجھ میں تو نہ آتا ہے۔‘‘ صادقین بھی ٹھہرے ایک فن کار، دونوں ہاتھ جوڑ کر بولے’’قبلہ! جب میں دس برس کا تھا تو آپ کی شاعری بھی میری سمجھ میں نہیں آتی تھی۔‘‘
نظام دکن میر عثمان ذی جاہ کے دربار میں ایک شخص ملازمت کے لیے پیش ہوا۔ نام پوچھا تو بتایا،’’محمد احمد الدین مجددی۔‘‘ میر صاحب بولے،’’میاں! تمہارے نام میں ’دالیں ‘بہت ہیں‘‘ جس پر وہ شخص ہاتھ جوڑ کر بولا،’’حضور !!کوئی تو’’دال‘‘ آپ کے یہاں گل ہی جائے گی۔‘‘
جوش ؔملیح آبادی نے ایک مشاعرے میں اپنا کلام سنانا شروع کیا تو ان کے ’’پاکیزہ‘‘ خیالات میں گندھے اشعار سن کر سامعین میں سے ایک آواز آئی،’’ہم یہاں مشاعرہ سننے آئے ہیں،کفر سننے نہیں۔‘‘ جوشؔ نے ترکی بہ ترکی جواب دیا،’’ہم بھی یہاں مشاعرہ سنانے آئے ہیں، تراویح ُپڑھانے نہیں۔‘‘
مشتاق احمد یوسفی صاحب اپنی کتاب ’’شام ِ شعر یاراں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ موسیقی کی ایک محفل میں ایک بے سرا گلوکار بڑی اچھی غزلوں کی ریڑھ مار رہا تھا، وہ بھی یوں کہ بڑے سے بڑے شاعر کا اچھے سے اچھا شعر بھی بالکل لغو اور پوچ معلوم ہونے لگتا۔ محفل میں احمد فراز ؔبھی تشریف فرما تھے۔ گلوکار انہیں مخاطب کر تے ہوئے کہنے لگا،’’فرازؔ صاحب! اب میں آپ کی غزل گاؤں گا۔ بات یہ ہے کہ اب میں صرف زندہ شاعروں کا کلام گاتا ہوں۔‘‘ اس پر فرازؔ صاحب نے فرمایا،’’جی ہاں، مروں کو کیا مارنا۔‘‘
مشفق خواجہ نے ساقی ؔفاروقی کے نام اپنے ایک خط میں ان کے پالتو کُتّے کی موت پر اظہارافسوس کرتے ہوئے لکھا،’’مجھے تاریخ گوئی میں کوئی دل چسپی نہیں، لیکن تمہارے کتے کی موت کو نظرانداز نہیں کر سکتا، لہٰذا قطعہ تاریخ لکھا ہے:
؎کون عف عف کرے گا سن کے کلام
اک سخن فہمِ خوش دہاں نہ رہا!!
کہی ’’دندانِ سگ‘‘ سے یہ تاریخ
’’نظمِ ساقی ؔکا قدر داں نہ رہا‘‘
ٖفراقؔ صاحب ایک بار لکھنؤ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں تشریف لائے۔ ادبی موضوع پر تقریر کے بعد سامعین طلباء سے سوالات کرنے کو کہا گیا۔ ایک دو نے سوال کیے۔ فراقؔ صاحب نے جوابات دیے۔ اسی دوران حاضرین کے درمیان سے ایک طالبہ اٹھ کر کھڑی ہوئی۔
فراق ؔصاحب اور سب اس کی طرف متوجہ ہوئے، لیکن طالبہ کچھ کہے بغیر مجمع کو چیرتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔ فراق ؔنے اسے حیرت سے جاتے ہوئے دیکھا اور بولے،’’میں سمجھا تھا کوئی سوال کریں گی۔‘‘ فراق صاحب کے پہلو میں تشریف فرما احتشام حسین بولے’’مگر، وہ تو جواب دے گئیں۔‘‘
آشفتہؔ لکھنوی کے دروازے پر کسی سائل نے خوش آواز لہجے میں شعر پڑھا اور صدا بلند کی۔ آشفتہؔ صاحب کے خورد سالہ بھانجے نے اس سے کہا،’’ٹھہرو! میں ماموں جان کو مطلع کرتا ہوں۔‘‘ اند ر جاکر آشفتہؔ صاحب سے کہا،’’کوئی صاحب آپ کو باہر بلاتے ہیں۔‘‘ آشفتہ ؔصاحب نے کہا،’’نام تو پوچھا ہوتا؟؟‘‘ ان کے بھانجے نے جواب دیا،’’لگتا ہے کوئی شاعر ہے، اور آپ کے دھوکے میں مجھے غزل سنانی شروع کر دی ہے۔‘‘
اپنے دور کی معروف شاعرہ بسمل ؔصابری نے دوران مشاعرہ اپنی غزل کا درج ذیل شعر ہے پڑھا:
؎آخرِشب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ
صبحِ دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا!
محفل میں شعر پر خاطرخواہ داد موصول ہوئی۔ مشاعرے کے اختتام پر شعراء میں موجود احمد فراز ؔنے بسمل صاؔبری کو مخاطب کرتے ہوئے ان کے کلام کو سراہا اور کہا،’’اگر مذکورہ شعر کے مصرع اول کے آخری دو لفظوں کو بدل کے یوں کر دیا جائے تو شعر مزید قابلِ داد ہو جائے گا اور یہ کہتے ہوئے شعر کو اس طرح دہرانے لگے:
؎آخر ِ شب دید کے قابل تھی بسملؔ صابری
صبحِ دم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا!
کلیم صاحب ملٹری اکاؤنٹس میں ڈپٹی اکاونٹنٹ جنرل تھے۔ ایک مشاعرے میں کسی نے کلیم صاحب کے صاحبزادے کا تعارف عبدالمجیدسالک ؔصاحب سے کراتے ہوئے کہا کہ’’ یہ کلیم صاحب کے بیٹے ہیں۔‘‘
اس پر سالک ؔصاحب کی رگِ ظرافت پھڑکی اور فرمایا،’’تو یوں کہیے کہ آپ ’ضربِ کلیم‘ ہیں۔‘‘
رشید احمد صدیقی صاحب جن دنوں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبہ اردو کے سربراہ تھے، ان دنوں وہاں آمنہ نامی ایک حاملہ خاتون انشاء اللہ خان انشائؔ کی ادبی زندگی پر ڈالٹریٹ کا مقالہ تحریر کر رہی تھیں۔ اسی دوران آمنہ خاتون کے ہاں بچے کی ولادت کے دن قریب آگئے اور انہوں نے رخصت کے لیے درخواست دی۔ درخواست جب رشید صاحب کے پاس منظوری کے لیے پہنچی تو رشید صاحب کہنے لگے،’’ہم نے تو آمنہ خاتون کو تحقیق کے لیے بلایا تھا، انہوں نے تو تخلیق شروع کردی۔‘‘
ایک مرتبہ مرزا فرحت اللہ بیگ نظام دکن کے استاد جلیلؔ مانک پوری سے ملاقات کو تشریف لے گئے۔ وہاں دو چار شعراء کے علاوہ اخترؔ یار جنگ بھی بیٹھے تھے۔
انہوں نے ایک شعر میں لفظ ’’فکر‘‘ کو مؤنث باندھا تھا۔ استاد جلیلؔ نے مرزا فرحت سے پوچھا کہ’’ لفظ فکر کی تجنیس کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے؟‘‘جس پر مرزا نے بتایا،’’وہ اسے مذکر اور مونث دونوں طرح سے باندھتے ہیں۔‘‘ استاد نے حیران ہو کے پوچھا،’’وہ کیسے؟‘‘ تو کہنے لگے، ’’جب دیکھتا ہوں کہ واقعی کوئی زبردست فکر آن پڑا ہے تو اسے مذکر باندھتا ہوں، اور اگر کوئی چھوٹی موٹی معمولی نوعیت کی فکر ہو تو پھر اسے مونث باندھتا ہوں۔‘‘
شفاء الملک حکیم فقیر محمد چشتی سے ملنے چراغ حسن حسرت ؔاور مظفر حسین شمیم ؔحاضر ہوئے۔ حکیم صاحب نے شمیم ؔسے پوچھا،’’آپ کا وطنِ مالوف؟‘‘ جواب ملا،’’رائے پور۔‘‘کہنے لگے ،’’رائے پور، سی پی میں ہے نا!!‘‘جس پر شمیم ؔصاحب نے جواب دیا،’’جی ہاں۔‘‘ تو شفاء الملک بولے’’اچھا!! تو یوں کہیے، آپ سی پی سے تشریف لائے ہیں تو پھر شمیم ؔتخلص کیا؟؟موتی تخلص کیا کیجیے۔‘‘
روزنامہ احسان کے ایڈیٹر اسرار بصری خاکوں پر مشتمل اپنی کتاب ’’چہرے میں‘‘ مرتضی احمد خان میکش ؔکا خاکہ تحریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں،’’ایک اردومخالف نے میکشؔ صاحب سے پوچھا،’’آرمی کا متبادل تو فوج ہے، لیکن نیوی کا متبادل کیا ہے؟‘‘ میکشؔ صاحب نے جواب دیا،’’موج‘‘۔ ’’اور ایئر فورس کا؟‘‘،جواب ملا،’’اوج‘‘ پھر سوال ہوا،’’اب لگے ہاتھوں ویمن نیشنل گارڈز کا ترجمہ بھی عطا ہو؟‘‘ تو میکش صاحب نے ناک پر انگلی رکھتے ہوئے بڑی ادا سے کہا،’’نوج۔‘‘
اورنٹیئل کالج لاہور میں انورؔ مسعود فارسی کے طالب علم تھے۔ ان کی کلاس کے پروفیسر وزیرالحسن عابدی نے ایک دفعہ چپڑاسی کو چاک لانے کو کہا۔ چپڑاسی نے بہت سے چاک جھولی میں ڈالے اور لے کر حاضر ہوگیا۔ اس سے پہلے کہ کوئی کچھ کہتا، انور ؔمسعود شرارتی لہجے میں بولے،’’سر! ’دامنِ صد چاک‘ اسی کو کہتے ہیں۔‘‘
جوش ؔجن دنوں روزنامہ’’ آج کل ‘‘میں کام کرتے تھے، ان دنوں مجاز ؔلکھنوی سے کسی معمولی چپلقش کی بنا پر ایک طویل نظم بعنوان ’’پندنامہ برائے میاں مجازؔ‘‘ لکھی اور’’آج کل‘ میں چھاپ دی۔ اس طویل نظم کا جواب مجاز ؔنے ایک قطعے کی صورت میں تحریر کیا جس میں جوش کے وزیراعظم کشمیر شیخ عبداللہ کی شان میں قصیدہ لکھنے پہ طنز کیا تھا۔
؎نطق رسوائ، دہن دریدہ ہے
یہ شنیدہ نہیں ہے دیدہ ہے
رندِ برباد کو نصیحت ہے!!
شیخ کی شان میں قصیدہ ہے
نعتیہ مشاعرہ جاری تھا۔ ہر شاعر کو صرف ایک نعت پڑھنے کی اجازت تھی۔ ایک شاعرصاحب آئے اور یکے بعد دیگر تین نعتیں پڑھ ڈالیں اور ہر نعت کے بعد کہتے،’’جب میں نے یہ نعت کہی تو سرکارﷺ نے انے پاس بلا لیا۔‘‘ میر مشاعرہ بلآخر تنگ آ کر بولے،’’آپ کبھی حمد پر بھی طبع آزمائی فرما کے دیکھیں!‘‘َ
دہلی میں منعقدہ شام بہار کے مشاعرے کے بعد سب شعراء بھارت کی سیاحت کا پروگرام بنا رہے تھے لیکن پرؔتو روہیلہ کی بیگم وطن واپسی پر مصر تھیں اور کسی طرح بھی رکنے پر آمادہ نہ تھیں تو پرتو روہیلہ نے احمد فرازؔ سے معذرت کرتے ہوئے کہا،’’یار! جی تو چاہتا ہے آپ کے ہمراہ جاؤں مگر کیا کروں مجبوری ہے۔‘‘ فراز صاحب حسبِ عادت مسکرائے اور بولے:
’’ناحق پرتو ؔروہیلہ پر تہمت ہے مختاری کی‘‘
زیادہ پُرلطف بات یہ ہے کہ پرتو روہیلہ کا حقیقی نام مختار علی خان تھا۔
جوش ؔ ملیح آبادی حیدرآباد میںاپنے قیام کے دوران شام کو اکثر قاضی تلمیذحسین کے پاس وقت گزاری کے لیے چلے جاتے۔ قاضی صاحب نہ صرف خود بڑی تلخ اور گاڑھی چائے پیتے تھے بلکہ اپنے ملنے ملانے والوں کو بھی بالجبر وہ چائے پلواتے تھے۔ ایک بار جوش ؔبھی قاضی صاحب کے اس شغف کی زد میں آگئے جس پر جوش نے فرمایا:
؎قاضی صاحب کی چائے پیتے ہیں
پھر بھی حیرت ہے لوگ جیتے ہیں؟
The post سخن آرائیاں appeared first on ایکسپریس اردو.