میری ایک عرصے سے خواہش رہی ہے کہ پنڈی کی گلیوں میں گھوما جائے۔ پرانا پنڈی دیکھا جائے، اس کی پرانی عمارات، مساجد کو دیکھا جائے۔ ایسے میں کچھ دوستوں نے مجھ سے تقریباً تقریباً وعدہ بھی کیا کہ وہ مجھے شہر اقتدار کی گلیاں اور چوبارے دکھائیں گے مگر سب ہی مکر گے۔
کسی کو فرصت نہ ملی تو کسی کو موسم لے اڑا۔ ایک بار پھر سے جب شہر اقتدار کو بس چھو کر ہی گزرا تو پرانے وعدے یاد آگئے جو اس شہر سے گزرتے ہوئے کئے تھے مگر افسوس کہ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوجائے۔ ہم بھی اوروں کی طرح بے وفا ہی نکلے اور ایک بار پھر سے شہر اقتدار کی گلیوں اور چوباروں کو بس حسرت سے تکتے ہوئے آگے نکل گئے۔
اے شہر اقتدار، تیری قسم کہ ہم اک دن تیری گلیوں میں سانس ضرور لیں گے۔ تیرے چوبارے ضرور دیکھیں گے۔ اگرچہ کہ میرا وہاں کوئی نہیں مگر پھر بھی ہم کو کبھی نہ کبھی پنڈی کی گلیاں ضرور دیکھنی ہیں۔ پنڈی پنڈی اے۔
مگر ابھی تو ہمیں پشاور جانا ہے۔ جب مغل بادشاہ شاہ جہاں برصغیر کے تحت پر بیٹھا تو پشاور کا گورنر مہابت خان کو بنایا۔ مہابت خان نے اپنی خدمات بادشاہ کے ساتھ ساتھ ریاست کے لیے بھی اولین درجے پر رکھیں، اسی لیے بعد میں جب اورنگ زیب عالمگیر تحت نشین ہوا تو اس نے مہابت خان کو اس کے عہدے پر برقرار رکھا۔ مہابت خان مغلوں کی فن تعمیرات کا مداح تھا۔
لاہور کی بادشاہی مسجد اور وزیرخان مسجد تو دیکھ ہی رکھی تھی۔ ان ہی دو مساجد سے متاثر ہو کر اس نے پشاور میں بھی ایک مسجد بنوائی جسے آج مسجد مہابت خان کہا جاتا ہے۔ مسجد کا رقبہ تیس ہزار مربع فٹ ہے۔ سات گنبد اور ایک بڑا حوض ہے۔ مسجد میں آپ کو فارس اور وسطی ایشیا کے فن تعمیرات کی بھی جھلک نظر آتی ہے۔
مسجد کی نقش نگاری اور کاشی کاری دیکھنے کے لائق ہے۔ مسجد میں لال پتھر کے ساتھ خوب صورت جیومیٹریکل ڈیزائن بنائے گئے ہیں۔………. یہ تو ہوگئیں کتابی باتیں۔ اب آجائیں اصل حقیقت کی جانب۔ مسجد نہ صرف خوب صورت ہے بلکہ بہت خوب صورت ہے مگر اب بس گری ہی چاہتی ہے۔ اس مسجد کا کوئی والی وارث نہیں۔ نہ حکومت نہ کوئی پرائیویٹ ادارہ اسے بچانے کے لیے آگے آ رہا ہے۔
یہ قدیم اور اہم مسجد اب پُرشکوہ بھی ہے اور ہم سے نالاں بھی۔ افسوس کہ پچھلی صوبائی حکومت سمیت کسی نے بھی اس جانب کوئی توجہ نہیں دی۔ مسجد پر بنے نقش ونگار، اس کے خوب صورت ڈیزائن بہت حد تک خراب ہوچکے ہیں۔ یہاں تک کہ مسجد کی ایک طرف کو سبز جالی دار کپڑے سے بند کر دیا گیا کہ اس جانب کوئی نہ آئے۔
وہ حصہ مکمل طور پر خراب ہوچکا ہے اور کسی بھی وقت گر سکتا ہے۔ نہ جانے کب ہم اپنے قومی ورثے کی حفاظت کرنا سیکھیں گے۔ مسجد مہابت خان سے دل جلانے کے بعد ہم پشاور میوزیم کی جانب چل پڑے جو ابھی بند تھا۔ میں تو بند دروازے کے سامنے آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا تھا۔ دروازہ کھلنے سے پہلے ہی وہاں موجود تھا۔ تھوڑی دیر انتظار کے بعد ایک بابا جی آئے تھے۔
آنکھوں ہی آنکھوں میں بولے، کاکا سو روپے نکال۔ پتا نہیں انھوں نے مجھ سے سو روپے کس چیز کا لیا اور پھر آنکھوں ہی آنکھوں میں مجھ سے کہا، چل میرا پتر چھٹی کر اور میں پھر اندر بھاگ گیا۔ اور پھر ایسا اندر گیا کہ میوزیم والوں نے ہاتھ پکڑ کر باہر نکالا کہ بس بھائی بہت ہوگیا۔ اتنا وقت بس مشکوک لوگ لگاتے ہیں۔
چلو اب نکلو شاباش یہاں سے۔ پشاور میوزیم جسے بدھا میوزیم بھی کہا جاتا ہے، دنیا کا اگر سب سے بڑا نہیں تو دنیا کے بہترین عجائب گھروں میں سے ایک ضرور ہے۔ عمارت کا فن تعمیر اس کے انگریز دور کے ہونے کی گواہی دیتا ہے۔ عمارت پہلے ایک کلب تھی جسے انگریز دور میں ہی عجائب گھر بنا دیا گیا تھا۔ انگریز دور میں اسے وکٹوریہ میموریل ہال کہا جاتا تھا۔ پشاور عجائب گھر کی عمارت دو منزلہ ہے مگر اس کا رقبہ وسیع ہے جو اپنے اندر مختلف گیلریاں سمیٹے ہوئے ہے۔ پشاور میوزیم میں بدھا کے بہت سے خوب صورت مجسمے ہیں۔
یہاں اشوک بادشاہ اور کنشک کی مختلف استعمال کی چیزیں، جن میں مہریں بھی شامل ہیں، رکھی ہوئی ہیں۔ پشاور میوزیم گندھارا آرٹ اور اس کی تہذیب کا مرکز ہے۔ سکندر یونانی کے اس علاقے میں آنے سے پہلے پشاور اور اس کے ملحقہ علاقے بھی گندھارا تہذیب کا حصہ تھے۔ اس وقت اس علاقے کے دارلحکومت کا نام غالباً پشکاراوتی تھا جسے آج کل چار سدہ کہا جاتا ہے۔ پشاور میوزیم کے زیادہ تر مجسمے پشاور کے آس پاس کے علاقوں سے ہی دریافت شدہ ہیں جن میں سب سے نمایاں چار سدہ اور تحت بہائی کے مجسمے ہیں۔
عجائب گھر میں اسی دور کے گھروں میں استعمال ہونے والی مختلف اشیاء کے علاوہ ہیرے جواہرات، زرہ بکتر وغیرہ رکھی گئی ہیں۔ پشاور میوزیم میں ایک اسلامک گیلری ہے۔ اسلامی گیلری 75-1974 میں قائم کی گئی اور اس میں پتھر کی کندہ کاری، خطاطی کے نمونے، لکڑی کی چیزیں، دھاتی گھریلو اشیاء اور پینٹنگز شامل ہیں۔
اسلامی نسخوں کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹی قرآنی گیلری بھی قائم کی گئی ہے جس کا افتتاح 8 فروری 2003 کو ہوا تھا۔ ایرانی قونصل خانے کی طرف سے عطیہ کیے گئے کچھ ایرانی خطاطی کے نمونے بھی اس حصے میں نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔ اسلامی سیکشن میں نمائش کی گئی اشیاء کی کل تعداد 434 ہے۔ اوپن ڈسپلے میں دو مسجدوں کے فشار، پتھروں کی تختیاں اور سندھ کے علاقے حالا سے منسوب کاشی کاری کے نمونے موجود ہیں۔
کندہ کاری میں رکھے گئے نوادرات میں سے ایک 1984 میں ہنڈ کے مقام سے دریافت ہوا اور دوسرا جو کہ منگولین انداز کا جو شرادہ رسم الخط کندہ ہے۔ باقی کندہ کا جو کہ کوفی / شرادہ / دیوان گری رسم الخط میں کندہ ہیں۔ یہ کندہ کاری وادی ٹوچی سے دریافت ہوئی تھی۔ خطاطی کا یہ مجموعہ 17 نمونوں پر مشتمل ہے جو کہ مشہور خوش نویسوں نے لکھے تھے۔
یہ رسم الخط کے نمونے ہیں جو شہزادہ محمد دارہ بخت نے 1261 ہجری، نستعلیق، ناظم علی اور عبدالسلام (جو کہ بادشاہ محمد شاہ کے دربار کا خوش نویس تھا) وسلی، عبداللہ بیگ اور فضل حسن نے 1271 ہجری اور شکاشتہ جو کہ مرزا اسد علی نے لکھے۔ اس گیلری میں لکڑی سے بنی ہوئی 18 اشیاء موجود ہیں جن میں کتابیں، تسبیح اور فلائی واہ ہیں۔
چاندی اور تانبے کی چیزوں میں چائے کے برتن، تھالیاں، مرتبان جن پر انسانی اور حیوانی نقوش اور فارسی کندہ ہے۔ اس گیلری میں ہندودھرم کی عکاسی کرتی پینٹنگز بھی موجود ہیں جو کرشنا، شوائ، گنیش، رام، لکشمن، راون اور ہنومان کی پینٹنگ پر مشتمل ہیں۔ اس گیلری میں سید احمد شہید بریلوی کے سردیوں کا کوٹ، ذرہ اور چمڑے سے بنی ہوئی ڈھال، جنگی سازوسامان موجود ہے۔ ایرانی خؤش خطی میں قرآن پاک کی آیتیں اور فارسی شاعری شامل ہیں۔
ملتان سے منسوب کچھ برتن بھی موجود ہیں۔ اسی گیلری میں 29 ہاتھ سے لکھے ہوئے قرآن پاک جو کہ زیادہ تر نسخ اور نستعلیق رسم الخط میں لکھے گئے ہیں، بھی موجود ہیں۔ ان میں سے 10 بہت اہم ہیں جو کہ خط غیار میں 1224 ہجری اور 818 ہجری میں لکھے گئے تھے۔ 64 مخطوط جو شاعری، عربی ادب فارسی، پشتو، ریاضی اور سائنس پر مشتمل ہیں۔
ان میں اہم خطوط، شجرہ اولیائ، بادشاہ شاہ جہاں کے فرمان، مولانا جامی، دیوان حافظ شیرازی، تاریخ گیری نامہ، انشا ابوالفضل، کیمیا اور کتاب الخوارزم شامل ہیں۔ ایتھنالوجیکل گیلری: یہ گیلری پشاور میوزیم کی پہلی منزل پر واقع ہے۔ اس گیلری میں خیبرپختونخواہ کے اکثر قبائل کی ثقافت اور طرززندگی متعارف ہے۔ اس حصے میں 348 اشیاء رکھی گئی ہیں جن میں کیلاش کی 12 یادگاری مجسمے شامل ہیں۔ کیلاش چترال کا بت پرست قبیلہ ہے۔
یہ لوگ موت کے فوراً بعد لکڑی کا ایک یادگار مجسمہ بناتے ہیں جس کا مقصد میت کی روح کو ایک بڑے جنگجو سپاہی یا شکاری کے طور پر اس جہان میں پہنچانا ہوتا ہے۔ پھر اس مجسمے کو قبرستان میں میت کے ساتھ اس کی روح حاصل کرنے کے لیے رکھا جاتا ہے۔ دیگر اشیاء میں جواہرات، زرعی آلات، کانسی اور چمڑے کی بنی ہوئی گھریلو استعمال کی اشیاء شامل ہیں۔ لکڑی کی تپائیاں، صندوقچے اور ٹوکریاں بھی رکھی گئی ہیں۔ مجسموں کو صوبہ خیبرپختونخواہ کے مختلف روایتی اور قبائلی ملبوسات سے آراستہ کیا گیا ہے۔
ہتھیاروں میں تلواریں، خنجر، کمان، ڈھال، بندوقیں، پستول وغیرہ شامل ہیں۔ یہ تمام اشیاء خیبرپختونخواہ کے انیسویں اور بیسویں صدی کی ثقافت اور روایات سے متعلق ہیں۔ سوات، کوہستان اور وزیرستان کی روایتی کشیدہ کاری میں بستر کی چادریں، تکیے کے غلاف، چادریں، قمیض، شلوار، فراک، واسکٹ، کمربند، آستینوں کے کف شامل ہیں۔
8 مردوں اور عورتوں کے مجسمے، محسود قبائل، کوہستانی، چترال، کیلاش کے روایتی ملبوسات میں دکھائے گئے ہیں۔ لکڑی، ٹھیکری، کانسی کی بنی ہوئی گھریلو استعمال کی اشیاء میں چمچے، پیالیاں، روٹی کے برتن، پانی کے گھڑے، چولہے، خمیر کے برتن، لوٹے، چائے کے برتن، گل دان، بالٹیاں اور شمع دان شامل ہیں۔
سونے اور چاندی کے بنے ہوئے روایتی زیورات میں بالیاں، انگوٹھیاں، مختلف ڈیزائنز کے ہار، فیروزہ، آستینوں کے کف، قمیض پر لگائے جانے والے زیور، گلوبند، مختلف ڈیزائنرز کے تعویذ، قمیض کے بٹن، کڑے، پازیب اور بالوں کے زیورات شامل ہیں۔
بدھ مت گیلری: بدھ مت کے تمام نوادرات کو مغربی گیلری میں رکھا گیا ہے۔ اسے 1969-70 میں پشاور عجائب گھر میں شامل کیا گیا۔ اس گیلری کا بنیادی مقصد گوتم بدھ کی ٹھیکری چونے اور شٹ پتھر کے بنے ہوئے مجسموں کی وضاحت کرنا ہے۔ اس حصے میں کل 336 نوادرات ہیں، جن میں گوتم اور اس کے مریدوں کے مجسمے کے بنے ہوئے گوتم بدھ کے سر، ٹھیکری کی مورتیاں، اشکال، مہریں، تبرکات کے صندوقچے، حسن و آرائش کی اشیائ، منقش جانوروں کے مجسمے، چھاگل اور پیتل کی بنی ہوئی اشیاء شامل ہیں۔
کندہ کاری سے مزین گوتم بدھ کے مجسمے خانقاہوں کے عبادت خانوں اور خاص موقعوں پر اسٹوپا کے طاق جو عبادت کے لیے بنائے جاتے تھے، پر آراستہ کئے گئے ہیں۔ زیادہ تر مجسمے تخت بہائی، سری بہلول، جمال گھڑی، چار سدہ اور شاہ جی کی ڈھیری سے دریافت ہوئے ہیں۔
اس حصے میں مہاتما گوتم بدھ کے بنیادی انداز میں چار مجسمے دکھائے گئے ہیں، جن میں مراقبے کا انداز، یقین دہانی کا انداز، وعظ کا انداز اور زمین کی طرف اشارہ کرنے والا انداز شامل ہیں۔ بدھ مت کے بانی مہاتما گوتم بدھ کو سر کے گرد ہالے میں دکھایا گیا ہے۔
اس حصے میں مہاتما گوتم بدھ کے مجسمے کو کھڑے اور بیٹھے دونوں انداز میں دکھایا گیا ہے۔ ان اشکال پر یونان، روم اور ایران کے اثرات نمایاں ہیں۔ یہ اثرات مہاتما گوتم بدھ کے چہروں اور بالوں کی بناوٹ میں بھی نمایاں ہیں۔
بدھ مت سے منسلک اشکال اور گوتم بدھ کے مجسموں کی مانگ میں اضافے کی وجہ چونے کے پتھر کا بت تراشی میں استعمال ہے جو چوتھی اور پانچویں صدی عیسوی میں متعارف ہوا۔ گندھارا کے پتھر کے کندہ کاروں کے لیے پجاریوں کی مانگ کو پورا کرنا مشکل کام تھا۔ جیسا کہ مجسموں کی کندہ کاری مشکل، مہنگا اور طویل عرصے کا کام تھا۔ چونے کے پتھر نے اس مانگ کو پورا کیا۔
اس لیے کہ یہ معاشی طور پر مجسموں میں اضافے کا سستا ذریعہ تھا۔ چونے کے پتھر سے بنائے گئے فن پاروں میں گوتم بدھ، بودھی ستوا، پجاریوں اور راسخ العقیدہ لوگوں کے چہرے شامل ہیں۔ اس گیلری میں گوتم بدھ کی زندگی سے متعلق مناظر میں ان کی معجزاتی پیدائش اور محل سے روانگی کے مناظر کندہ کئے گئے ہیں۔
شٹ پتھر کے مجسمے دوسری صدی عیسوی سے چوتھی صدی عیسوی تک جب کہ چونے کے بنے ہوئے مجسمے تیسری صدی عیسوی سے پانچویں صدی عیسوی تک کے ادوار پر مشتمل ہیں۔ تاہم مٹی کے بنے ہوئے مجسمے بھی چوتھی صدی عیسوی سے پانچویں صدی عیسوی تک کے ادوار پر مشتمل ہیں۔
دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک پشاور ہے۔ پشاور جو بولی وڈ کے کئی کام یاب ستاروں کا مسکن رہا ہے۔ روس اور افغانستان سے حملہ آور ہوں یا پھر تجارتی قافلے سب پشاور سے ہو کر ہی لاہور جاتے اور پھر وہی سے دہلی اور کلکتہ۔ جدید جرنیلی سڑک بھی پشاور سے شروع ہوکر کلکتہ تک جاتی ہے یا پھر یوں سمجھ لیں کہ کلکتہ سے شروع ہوکر پشاور تک آتی ہے۔
بات شاید ایک ہی ہے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کا حلقہ نمبر 1 یعنی NA 1 بھی پشاور ہی ہے۔ پشاور کے بڑے تجارتی گھرانوں میں سے سیٹھی گھرانا ہے جن کے محلے میں سات گھر ہیں۔ ساتوں گھر ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔
ساتوں گھر شان دار ہیں مگر ان میں سے ایک گھر الگ ہے۔ الگ اس لیے کہ اس کے مکینوں نے اس کے ایک حصے کو عام لوگوں کے لیے کھول دیا ہے۔ یہ صرف گھر نہیں ہے بلکہ ایک فن پارہ ہے۔
اس گھر کو بنانے میں تقریباً چالیس سال کا عرصہ لگا۔ گھر کی تزئین و آرائش کے لیے لکڑی ترکی اور قندھار سے منگوائی گئی تھی جب کہ بخارا کے بہت سے برتن آج بھی اس گھر میں موجود ہیں۔ اس گھر کی سب سے بڑی خاصیت اس کا تہہ خانہ ہے۔ تہہ خانہ کوئی چھوٹا نہیں ہے، آپ اسے ایک پوری منزل ہی سمجھ لیں۔ سردیوں میں گرم جب کہ گرمیوں اور حبس کے موسم میں انتہائی ٹھنڈا۔ تہہ خانے میں چمنیوں کے ذریعے ہوا کے گزرنے کا بہترین نظام بنایا گیا ہے۔
کسی زمانے میں اس حویلی سے پشاور شہر کا نظارہ ہوتا تھا، مگر اب بڑھتی ہوئی آبادی نے یہ نظارہ محدود کردیا ہے۔ پہلے شاید یہ حویلی پشاور شہر کی ایک اونچی حویلی ہو مگر اب آس پاس بہت سی بلند عمارات بن چکی ہیں۔ کہتے ہیں کہ سیٹھی خاندان اس قدر امیر تھا کہ ان کے یہاں پیسے گنے نہیں جاتے تھے بلکہ تولے جاتے تھے۔
اس حویلی میں ہر خاص و عام کو جانے کی کھلی اجازت ہے مگر ٹکٹ لگتا ہے۔ ایک ٹکٹ سو روپے کا ہے جب کہ فوٹوگرافی کے الگ سے تین سو روپے ہیں۔ یہ پیسے اس حویلی کی تزئین و آرائش پر خرچ ہوتے ہیں۔ یہاں دولہا دلہن کے فوٹو شوٹ بھی کیے جاتے ہیں۔ اوپر والی منزل پر پہلے رہائش تھی۔ اس کے چائے خانے دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
حویلی کی چھتوں پر لکڑی کا خوب صورت کام کیا گیا ہے جو کہ ایک لمبا عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک ٹھیک ہے۔ سن 1739 میں شہزادی زیب النساء نے پشاور کا دورہ کیا تو پشاور کو ایک انتہائی اہم تجارتی شہر ہونے کے باوجود سہولیات سے خالی پایا۔
شہزادی نے فوراً ایک بڑے سرائے کی تعمیر کا حکم دیا جہاں ناصرف کابل اور روس سے آنے والے تجارتی قافلے اپنا پڑاؤ ڈال سکیں بلکہ دہلی، لاہور سے آنے والے بھی اس سے فائدہ حاصل کر سکیں۔ سرائے صرف ایک سادہ سرائے نہیں تھی بلکہ اس وقت کی تمام ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہاں مختلف دکانیں بھی بنائی گئیں۔
ان میں سے بہت سی دکانیں آج مدہم ہوچکی ہیں جب کہ 75 ابھی بھی ٹھیک حالت میں موجود ہیں۔ آج یہ سرائے گور کھتری کے نام سے جانی جاتی ہے، جس کا بیشتر حصہ پشاور کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے پاس ہے۔ گور کھتری کے دو دروازے ہیں۔ ایک مشرقی دروازہ جب کہ دوسرا اس کے مقابل مغربی دروازہ ہے۔
مشرقی دروازے کا رخ چوں کہ دہلی کی جانب ہے اس لیے اسے دہلی دروازہ کہا جاتا تھا۔ دہلی لاہور سے آنے والے قافلے اس دروازے سے سرائے میں داخل ہوتے تھے۔ مغربی دروازے کا رخ کابل کی جانب ہے اس لیے اسے کابلی دروازہ کہا جاتا ہے۔
کابل اور روس سے آنے والے تجارتی قافلے اس دروازے کو استعمال کرتے ہوئے سرائے میں داخل ہوتے تھے۔ یہ سرائے جب مہاراجا رنجیت سنگھ کے ایک فرانسیسی جنرل کی رہائش گاہ بنی تو گور کھتری کہلائی کیوں کہ اس نے یہاں پھانسی گھاٹ بنوایا۔ کچھ حصے کو جیل کی شکل دے دی۔
انگریز نے 1912 میں پشاور شہر میں میونسپل کارپوریشن کا محکمہ اسی عمارت میں قائم کیا تھا۔ آج بھی یہاں Merry Weather کمپنی کی بنائی ہوئی دو فائر بریگیڈ کی گاڑیاں موجود ہیں جنھیں 1919 اور 1921 میں بنایا گیا تھا۔ آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ نے یہاں اب ایک میوزیم بھی بنا رکھا ہے جو 2006 سے کام کر رہا ہے۔ اس کے پاس کھدائی کے نتیجے میں گندھارا تہذیب کے کچھ آثار بھی دریافت ہوئے ہیں۔ کھدائی کے نتیجے میں ملنے والی مختلف اشیاء کو اسی میوزیم میں رکھا گیا ہے۔
یہ پی ٹی وی ہے۔ سہ پہر کے پانچ بج رہے ہیں۔ زمانہ شاید 2004 کے آس پاس کا ہے۔ ٹی وی پر ایک سیاحتی پروگرام ٹریول گائیڈ آف پاکستان لگا ہے۔
اس پروگرام میں پاکستان کے مختلف حصوں کی سیر کروائی جاتی ہے۔ میں یہ پروگرام متواتر نہیں دیکھتا تھا۔ جب بھی پروگرام شروع ہوتا، اس کا کچھ حصہ دیکھتا۔ آگے یا تو ٹی وی بند کردیتا یا پھر بوریت سے اسے دیکھتا رہتا کیوںکہ اس زمانے میں چینل تبدیل کرنے کا رواج نہیں تھا۔ بلکہ یاد آیا میرے پاس ایک آپشن تھا۔
جموں پاس ہونے کی وجہ سے ایک سادے سے ایٹنیا کی مدد سے ہمارے یہاں بھارتی سرکاری چینل دور درشن آیا کرتا تھا۔ ٹریول گائیڈ آف پاکستان میں کبھی کبھی نیا مواد آتا تھا۔ زیادہ تر پرانے پروگرام ہی دوبارہ چلا کرتے تھے۔ پروگرام میں صرف ایک قسط ایسی تھی جسے میں متعدد بار دیکھ چکا تھا اور اسی پر میرا دل اٹکا ہوا تھا۔
یہ والی قسط جب بھی لگتی، میں سانس لینا تقریباً بھول جاتا تھا۔ یہی ایک خاص قسط مجھے زبانی یاد تھی مگر پھر بھی میں اسے بار بار دیکھنا چاہتا تھا بلکہ دیکھتا بھی تھا۔ اس پروگرام کی وہ خاص قسط اس سفاری ٹرین کے سفر کی تھی جو پشاور سے شروع ہوتا تھا اور لنڈی کوتل پر ختم ہوتا تھا۔ ٹرین میں صرف دو بوگیاں ہوتی تھیں اور ان دو بوگیوں کو دونوں اطراف سے اسٹیم انجن کھینچا کرتے تھے۔
چڑھائی بہت زیادہ تھی۔ فقط دو بوگیوں کو کھینچنا بھی ایک انجن کے بس کی بات نہ تھی، وہ بھی اسٹیم انجن۔ نہ جانے اور کس وجہ سے 2006 میں پنڈی جانے کا اتفاق ہوا تو اس سفاری ٹرین کے بارے معلومات لیں۔ پتا چلا کہ موصوفہ ہم سے روٹھ چکی ہیں۔
یقیناً یہ ایک مایوسی کی بات تھی۔ ایسے میں کسی نے میرا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر گولڑہ ریلوے اسٹیشن جانے کا مشورہ دیا۔ وہاں جا کر جی خوش ہوا۔ چلتی ہوئی سفاری نہ دیکھی تھی، کم از کم کھڑی سفاری ٹرین تو دیکھ لی تھی۔ اس بات کو شاید اٹھارہ یا انیس سال گزر چکے ہیں مگر یہ پروگرام ابھی تک میرے دماغ میں زندہ ہے بلکہ یہ کہنا شاید زیادہ مناسب ہو گا کہ وہ سفاری ٹرین اب بھی زندہ ہے۔
وہ ویسے ہی پشاور سے لنڈی کوتل تک جاتی ہے جیسے 2006 کے سیلاب سے پہلے چلا کرتی تھی۔ 2006 کے سیلابی ریلوں نے اس کے ٹریک اور کچھ پلوں کو نقصان پہنچایا تو اس ٹرین کو عارضی طور پر بند کردیا گیا۔
یہ عارضی دن ویسے ہی تھے جیسے جنرل ضیاء کے الیکشن کروانے کے نوے دن۔ نہ جنرل ضیاء نے نوے دنوں کے بعد الیکشن کروائے اور نہ یہ ٹرین دوبارہ چلی۔ نتیجتاً ٹریک مزید خستہ حالت میں آگیا۔ بہت سی جگہوں سے سب ٹریک زمین کے نیچے ہی دب چکا ہے۔ آپ پشاور سے باہر نکلیں تو آپ کا استقبال 1960 میں تعمیر کردہ باب خیبر کرتا ہے۔ بچپن میں جب بھی صبح سویرے پی ٹی وی پر صبح کی نشریات کا آغاز ہوتا تھا تو اسی باب خیبر کے پاس ایک بابا جی کھڑے دعا پڑھ رہے ہوتے تھے۔
پشاور میں موجود قلعہ بالاحصار آپ کی طبعیت اچھی طرح صاف کرتا ہے کہ بھائی ذرا تمیز سے رہنا اور مجھ سمیت آگے والے تمام قلعوں سے بھی دور ہی رہنا۔ اگرچہ کہ قلعہ بالا حصار کو جشن آزادی کی بنا پر سبزہلالی پرچم سے کسی دلہن کی طرح سجایا گیا تھا مگر پھر بھی اس کی تصویر بنانے سے گریز ہی کیا کہ دیارغیر میں کسی سے بھی پنگا لینا مناسب نہیں۔ اگر ہمیں کسی نے دھر لیا تو؟ اگرچہ کہ ہم نو مئی کے واقعات کی مذمت بہت پہلے کرچکے تھے مگر پھر بھی عافیت اسی میں جانی کہ اس قلعہ اور قلعہ والوں سے دور رہنا ہی بہتر ہے۔
باب خیبر کے بعد پہلا شہر جمرود ہے۔ جہاں قلعہ جمرود بھی ہے۔ جمرود کے قلعہ کو جب ہری سنگھ نلوا نے فتح کیا تو اس وقت کے افغانستان پر حاکم درانی خاندان کے کان کھڑے ہوگئے، کیوں کہ جمرود کا قلعہ فتح کرنے کا مطلب تھا کہ اب ہری سنگھ نلوا جمرود نہیں بیٹھے گا بلکہ یہاں سے آگے بھی نکلے گا اور پھر یہی کچھ ہوا۔ رنجیت سنگھ کی فوجوں نے ہری سنگھ کی قیادت میں افغانستان کا رخ کیا۔ خواہش تھی کہ جمرود کا وہ قلعہ بھی دیکھا جائے۔
معلوم ہوا کہ آپ اس قلعے کے سامنے کھڑے بھی نہیں ہوسکتے۔ حالاںکہ ہماری خواہش بس اتنی سی تھی کہ کم از کم قلعہ جمرود کے بورڈ کے پاس کھڑے ہوکر تصویر بنالی جائے، مگر ہم نے اپنی اوقات اور اپنی گاڑی میں ہی رہنا زیادہ مناسب سمجھا اور دور سے ہی قلعہ جمرود کو ایک فلائنگ کس کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
راستے میں قلعہ شگئی بھی آیا۔ افغانستان سے حملہ آور چوںکہ اسی راستے سے آتے تھے اور پھر تباہی مچاتے ہوئے نیچے اتر جاتے، اسی لیے یہاں بہت سے قلعے بنے ہیں اور لوگ بس انہی قلعوں میں رہتے تھے۔ شگئی قلعہ کے پاس کھڑے ہونا بھی منع ہے۔
یہاں بھی ہم نے صرف فلائنگ کس سے کام چلایا۔ پاس ہی ایک علاقہ ’’علی مسجد‘‘ ہے جہاں کچھ روز قبل بم دھماکے سے ایف سی کے بہت سے اہل کار شہید ہوگئے تھے۔ جمرود سے لنڈی کوتل بلکہ اس سے بھی آگے تک ریل اور سڑک ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ اس وقت کے حالات کے مطابق انگریز کو بہتر یہی لگا کہ یہاں سڑک کی بجائے ریل بچھائی جائے۔
دنیا کے بہت سے دوسرے منصوبوں کی طرح یہ منصوبہ بھی خالصتاً فوجی مقاصد کے لیے بنایا گیا تھا۔ ظاہر سی بات ہے کہ برطانیہ افغانستان پر قبضہ کرنے کا خواہش مند تھا۔ چمن قندھار ریلوے لائن اور پشاور جلال آباد ریلوے لائن اسی سلسلے کی کڑیاں تھیں۔ اس وقت پہاڑوں کو کاٹ کر یہ ریلوے لائن بچھائی گئی تھی۔
جمرود تا لنڈی کوتل ایک مختصر سے ٹریک پر تقریباً سترہ سرنگیں آتی ہیں اور سیاحت کے اعتبار سے یہی اس ٹریک کی خوب صورتی ہے۔ بعض سرنگیں اتنی قریب ہیں کہ ریل ابھی ایک سرنگ سے نکل نہیں پاتی کہ دوسری میں داخل ہوجاتی ہے۔
بعض سرنگیں اتنی چھوٹی ہیں کہ شاید ان کی لمبائی پچاس میٹر سے بھی کم ہو۔ 1920 میں شروع ہونے والا یہ ٹریک انگریز نے 1925 میں مکمل کرلیا تھا مگر ہمارے ہاں جب 2006 میں یہی ٹریک ذرا سیلاب سے متاثر کیا ہوا، سترہ سال گزرنے کے بعد بھی اب تک مرمت نہیں کی جاسکی۔ اب ایسی صورت حال میں تو بس ایک ہی مصرع ذہن میں آتا ہے۔۔۔ ہم سا ہو تو سامنے آئے۔
یہ طورخم ہے۔ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر پاکستان کی جانب سے آخری گاؤں، آخری قصبہ، آخری شہر۔ سب کچھ طورخم ہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ڈیورنڈ لائن شروع ہوجاتی ہے جس کی صحت سے اب افغانستان انکاری ہے یا یوں سمجھ لیں کہ کسی بھی وقت انکار کرسکتا ہے۔ بس طالبان کو ذرا قدم جما لینے دیں، وہ بیت المقدس کو یہودیت سے چھڑانے کے لیے نہیں نکلیں گے، وہ کشمیریوں کی مدد کے لیے نہیں نکلیں گے۔
یہ دونوں چورن اب نہیں بکتے۔ یہ دونوں چورن کبھی طالبان نے بیچے بھی نہیں۔ بس ہمارے ہی ماضی کے حکم رانوں نے ہمارے سامنے یہ چورن بیچے ہیں کہ افغان امریکا کو اپنی زمین سے نکالنے کے بعد فلاں فلاں مسلم مقبوضہ علاقوں کی مدد کو نکلیں گے۔ وہ نہیں نکلیں گے، انھیں نکلنا بھی نہیں چاہیے اور وہ نکلیں گے بھی نہیں۔ وہ اب مکمل طور پر اپنے ملک کی طرف توجہ دے رہے ہیں اور یہی انھیں کرنا چاہیے تھا۔ بات خواہ مخواہ دوسری طرف نکل جائے گی۔
بات ہو رہی تھی ڈیورنڈ لائن کی تو ذرا طالبان کی معیشت سنبھل لینے دیں، وہ سب سے پہلے اسی لائن کی صحت سے انکار کریں گے۔ ماضی میں بھی اور اب بھی افغانستان اٹک پل تک کے علاقوں کو اپنا قرار دیتا آیا ہے۔ ماضی کی حقیقت کچھ بھی رہی ہو۔ ان علاقوں پر بلاشبہہ ان کا قبضہ رہا ہے یا پھر شاید یہ علاقے افغانستان کا حصہ بھی رہے ہوں گے مگر پہلے کوئی سرحد تھی ہی کب۔ لوگوں کی آمدورفت اور رشتے داریاں دونوں طرف تھیں۔
اس ڈیورنڈ لائن کو کبھی کسی نے سنجیدہ نہیں لیا تھا۔ نہ یہاں کی حکومت نے اور نہ وہاں کی مگر اب حالات بدل چکے ہیں۔ اس کا ذمے دار خواہ کوئی بھی ہو۔ مشرف صاحب نے اگر نیٹو کو راہ داری دی تھی تو اس کے بدلے نہ تو ملک کے لیے وہ کچھ کے سکے اور نہ ہی سرحد پر کوئی مناسب انتظامات کیے۔ عمل کا ردعمل ہونا ہی تھا۔
یہاں سے نیٹو سپلائی مکمل طور پر فعال رہی بلکہ یوں سمجھ لیں کہ امریکا نے وہ زمینی جنگ صرف اور صرف پاکستان کے بل بوتے پر لڑی۔ وہ جتنی دیر بھی افغانستان میں رہا، شاید ہماری بدولت ہی رہا۔ یہاں سے نیٹو سپلائی جاتی رہی اور بدلے میں وہاں سے بدلہ ہی لیا گیا۔ وہ آرمی پبلک سکول کے سانحے کی صورت میں ہو یا پھر سوات میں سرحد پار دخل اندازی ہو، جس کی بنیاد پر پاکستان کو متعدد فوجی آپریشن کرنا پڑے۔ یہ طورخم ہے۔
کہنے کو تو بین الاقوامی بارڈر ہے مگر شکل و صورت سے یہ بین الاقوامی بارڈر نہیں لگتا۔ ہم بھی وہ لوگ ہیں جو مہمان کی مالی حالت دیکھ کر اس کی مہمان نوازی کرتے ہیں۔ طورخم میں ہر جگہ یہاں تک کہ سڑک بھی مٹی سے اٹی ہوئی ہے۔ لوگوں نے سڑک پر ایسے ہی دکانیں بنا رکھی ہیں۔ فی الحال وہاں کوئی معقول طریقے سے مارکیٹ نہیں۔ کچھ پکی دکانیں ضرور بنی ہوئی ہیں۔
خیبرپاس کے تھوڑا ہی آگے سے ٹرکوں کی لمبی لائنیں شروع ہوجاتی ہیں جو کہ طورخم تک جاتی ہیں۔ یہاں سے ٹرک پھل، سبزیاں اور دوسری چیزیں افغانستان جاتی ہیں جب کہ وہاں سے خشک میوہ جات اور کچھ مزید سامان پاکستان آتا ہے۔ ایک ٹرک جو لائن میں لگ جاتا ہے، نہ جانے اس کی باری کب آتی ہو گی۔ جتنی لمبی قطار میں نے دیکھی ہے، کم از کم چار سے پانچ دن تو ضرور لگتے ہوں گے۔
طورخم پر آپ کو ٹرک ہی ٹرک چاروں اطراف نظر آتے ہیں۔ طورخم کو اگر ٹرکوں کا شہر کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ ٹرکوں کو تو آپ ایک طرف رکھیں، ایک دن میں بہت سے لوگ سرحد پار کرتے ہیں۔ کیا چھوٹے بچے، کیا بوڑھے اور کیا جوان۔ کوئی فیملی افغانستان سے آ رہی ہے تو کوئی پاکستان سے جا رہی ہے۔ طورخم ایک بہت بڑا میدان ہے، جس میں مسافروں کے لیے کوئی سہولت نہیں۔ کم از کم مجھے تو نظر نہیں آئی۔ یہاں سہولت سے مراد قیام و طعام ہیں۔
البتہ طورخم کا بس اسٹینڈ بہت بڑا ہے۔ ظاہر ہے یہاں اس طرح کی تو گاڑیاں نہیں چلتی جیسے ہمارے عام شہروں میں ہوتی ہیں۔ یہاں چھوٹی کاریں ہوتی ہیں۔ لوگ زیادہ ہوں تو پوری کار بک کروا لیتے ہیں۔ ورنہ سواری کے حساب سے بھی کاریں چلتی ہیں۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں میں بہت سے افغان طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
طورخم میں لڑکوں کا ایک گروپ دیکھا جو ابھی اپنے گھر میں گرمیوں کی چھٹیاں گزار کر واپس پاکستان آ رہا تھا۔ ہاتھوں میں پاسپورٹ اور چہروں پر افغان چمک۔ دور سے ہی یہ جوان پہچانے جاتے ہیں، جن لوگوں کے رشتے دار دونوں اطراف آباد ہیں، وہ بھی ایک دوسرے کی خوشی اور غمی میں شریک ہوتے ہیں۔
ایسے میں یہ لوگ خوش قسمت ہیں۔ اگر اس صورت حال کا موازنہ پاکستان اور بھارت سے کیا جائے، خاص کر جموں اور سیالکوٹ کا تو یہاں بھی تقسیم کے وقت دونوں علاقوں کا میل جول بہت زیادہ تھا۔ یہ دونوں شہر ہی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے اور ہیں۔ فرق بس یہ پڑا ہے کہ اب ان کے درمیان ایک لکیر آ گئی ہے۔ لوگ اب ایک دوسرے کو دور سے بھی نہیں دیکھ سکتے۔
مشرف دور میں یہ منصوبہ زیرِغور رہا کہ سیالکوٹ تا جموں بس سروس شروع کی جائے مگر یہ منصوبہ بھی دیگر بہت سے منصوبوں کی طرح ایک منصوبہ ہی رہا۔ سیالکوٹ کا جغرافیہ دیکھیں تو ہمیشہ سے ہی اس شہر کا میل جول پنجاب کے دوسرے شہروں سے زیادہ جموں سے رہا تھا۔ جرنیلی سڑک بھی جہلم، گجرات سے ہوتی ہوئی گوجرانولہ اور لاہور کو نکل جاتی ہے۔ سیالکوٹ جانے کے لیے آپ کو گجرات میں ہی جرنیلی سڑک سے ہٹنا پڑتا ہے۔ ایک گھنٹے کی مسافت آپ کو سیالکوٹ لے آتی ہے جب کہ اس لائن پر آگے جموں ہے۔
تقسیم سے پہلے بھی اس ٹریک پر جو ریل چلتی تھی، وہ وزیرآباد سے جموں تک جاتی تھی۔ درمیان میں سیالکوٹ پڑتا تھا۔ ریاست جموں و کشمیر کے راجاؤں کا سرمائی مقام سیالکوٹ ہی تھا۔ سردیوں میں اپنا بیشتر وقت وہ اسی شہر میں گزارتے تھے۔ یہ طورخم ہے جہاں ایک چھوٹے سے بچے نے ابھی اپنے باپ کے ہمراہ ڈیورنڈ لائن کو پار کیا ہے۔ نہ جانے کیوں بچہ بڑا خوش تھا۔ باپ اور بچے کی صاف سفید شلوار قمیص ان کے خوش حال ہونے کی چغلی کھارہی تھی۔ چوڑے شانوں والے باپ نے اپنا روایتی صافہ اپنے کندھے پر رکھا ہوا ہے۔
کچھ ہی دیر کے بعد دونوں باپ بیٹا ایک گاڑی میں بیٹھے اور پشاور کی طرف چل دیے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ طورخم میں کوئی مسافرخانہ نہیں یا کم از کم مجھے نظر نہیں آیا۔ لوگ کھلے آسمان کے نیچے بے یارو مددگار ہوتے ہیں۔ ایک خاندان جس میں دو عورتیں، چند بچے اور ایک بوڑھا شامل ہے، طورخم کی گندی اور مٹی سے بھری ہوئی گرم جگہ پر بیٹھے ہیں۔
بچے کے پاؤں میں عام سی پلاسٹک کی چپل اور گندے کپڑے اس کے خاندان کی مالی حالت کی چغلی کھا رہے ہیں۔ یہ لوگ زمین پر بیٹھے ہیں کہ نہ جانے کب ان کو سرحد پار کروائی جائے گی، کب ان کا بلاوا آئے گا۔ یہ خاندان افغان ہے جو کہ اب واپس افغانستان جا رہا ہے۔ بچے کی آنکھیں نیند سے بھری ہوئی ہیں۔
اس کے چہرے پر بہت معصومیت ہے مگر ساتھ میں سوال بھی بہت ہیں۔ بچے کے چہرے پر کوئی شرارت نہیں۔ وہ کسی سے کوئی بات نہیں کر رہا۔ شاید اس کے دل میں بہت سے شکوے ہیں، شکایتیں ہیں کہ اسے یہاں اس گرم زمین پر کیوں بٹھایا گیا ہے۔ کیوں اس کو عارضی ہی سہی مگر کوئی چھت فراہم نہیں کی گئی۔ سر پر سورج چمک رہا ہے بلکہ آگ نکال رہا ہے، نیچے سے زمین بھی اپنی گرمی باہر نکال رہی ہے۔ اس معصوم بچے نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا کہ کیا وہ اور اس کا خاندان ایک سادہ سی بینچ کے بھی مستحق نہیں۔ میں نے شرمندگی سے منہ موڑ لیا اور بچے نے میرے اوپر ترس کھاتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔
شاید اس بچے کو ہم اچھا مستقبل اور اچھی جگہ دے سکتے ہیں۔ چین بھی ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف کام کر رہا ہے۔ افغانستان میں نئی تعمیرات ہو رہی ہیں جس کے ذریعے سارا مواد پاکستان کے راستے سے ہی جا رہا ہے۔ طورخم پر نئے ٹرمینل بن رہے ہیں مگر کام بہت زیادہ ہے اور رفتار بہت کم۔ دونوں ممالک کو اپنے شہریوں کے بارے میں بہت سے اقدامات کرنے ہوں گے اور جلد کرنے ہوں گے تاکہ محرومی کے اس احساس کو کچھ کم کیا جا سکے۔
The post نوادرات، قلعے، ٹِرکوں کی قطاریں appeared first on ایکسپریس اردو.