Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل
رمز و معنی سے نہ غمگین کہانی سے اٹھا
جو بھی طوفان اٹھا اشک فشانی سے اٹھا
زندگی گزری ہے شعلوں کی پرستاری میں
اب کوئی رقصِ دروں، شعلہ بیانی سے اٹھا!
سنگِ الزام ہی برسا ہے نہ دامن میں چراغ
بوجھ بے رنگ جوانی کا جوانی سے اٹھا
وہ جسے سونپ چلے زیست پھر اک بار تجھے
ایسا کردار مرے حق میں کہانی سے اٹھا
اِنھی ملبوں کے تلے چن کے مرے ریزوں کو
آ کوئی تازہ بدن میری نشانی سے اٹھا
کروٹیں عشق نے لیں سوز میں رفتہ رفتہ
یہ بھنور یوں نہیں دریا کی روانی سے اٹھا
(حمزہ ہاشمی۔ لاہور)

۔۔۔
غزل
وحشت مرے جنوں کی حاجت روا ہوئی ہے
شوریدگی مرے اب در کی گدا ہوئی ہے
مُدّت سے لب سیے تھے میں نے وفا کی خاطر
اور اب یہ خامشی بھی آخر صدا ہوئی ہے
میں اُس کی رحمتوں کا طالب رہا سدا سے
اُس کی طرف سے مجھ کو بیٹی عطا ہوئی ہے
یہ سوجھ بوجھ والے کب جان وارتے ہیں
یہ رسم سرپِھروں سے یارو اداہوئی ہے
تیری طلب ہی میری اب زادِ راہ ٹھہری
تیری لگن ہی میری اب راہ نماہوئی ہے
یہ سلسلہ جو شک کی حد سے نکل گیا ہے
یہ بات اور بڑھ کر اب افتراہوئی ہے
لوگوں کو عیش و عشرت، بزمِ نشاط حاصل
ہم کو حیات ساجد ؔ کیوں کر سزاہوئی ہے
(شیخ محمد ساجد۔ لاہور)

۔۔۔
غزل
منصف ہو قبیلے کے، خطا کار کو پکڑو
انصاف جو کرنا ہے تو سردار کو پکڑو
دیوار کو تھامو گے تو گرنے سے بچے گی
یہ کس نے کہا سا یۂ دیوار کو پکڑو
کیوں تم نے لگا رکھا ہے دو طرفہ تماشا
یا تخت کے ہو جاؤ یا پھر دار کو پکڑو
محسوس جو کرنی ہو کبھی لمس کی لذت
تو ہاتھ بڑھا کر کسی بیمار کو پکڑو
کھل جائے گی تم پر بھی لکھاری کی حقیقت
بس اس کے لکھے ادنیٰ سے کردار کو پکڑو
للکار سنو اب تو ذرا کوئے بتاں کی
اب حیدرِ کرار کی تلوار کو پکڑو
اغیار کی تقلید میں رسوا ہی رہو گے
اسلاف کے چھوڑے ہوئے افکار کو پکڑو
(جاویدجدون۔ اسلام آباد)

۔۔۔
غزل
آخرش یار یار ہوتے ہیں
زندگی کا قرار ہوتے ہیں
دیکھ کر تجھ کو تیرے دیوانے
مثلِ باغ و بہار ہوتے ہیں
پہلے کرتے تھے لوگ تیروں سے
اب تو لفظوں سے وار ہوتے ہیں
کون ہوتا ہے اس حویلی میں
تیرے گریہ گزار ہوتے ہیں
ٹال دیتے ہیں دکھ دعاؤں سے
لوگ ایسے ہزار ہوتے ہیں
تم جو ہوتے ہو دور آنکھوں سے
ہم بڑے بے قرار ہوتے ہیں
عین فطرت کا یہ تقاضا ہے
پھول کے ساتھ خار ہوتے ہیں
(اسد رضا سحر۔ احمد پورسیال)

۔۔۔
غزل
اداس راستے روئے تو آنکھ بھر آئی
نشاں امید کے کھوئے تو آنکھ بھر آئی
جو پتی پتی بکھیرے گئے ہواؤں میں
غزل میں پھول پروئے توآنکھ بھر آئی
پھر ایک بار سرِ دشت آرزؤں کے
جو بیج وقت نے بوئے تو آنکھ بھر آئی
بکھر گئے تھے جو رنگ آس کے خزاؤں میں
جو خوشبوؤں میں سموئے تو آنکھ بھر آئی
بدن کے وار تو سب ہنس کے سہہ لیے لیکن
جو خار دل میں چبھوئے تو آنکھ بھر آئی
جو عنبرین ہمیں روٹھ کر نہ چین آیا
لپٹ کے یاد سے سوئے توآنکھ بھر آئی
(عنبرین خان۔ لاہور)


غزل
دل کے اک کونے میں جذباتِ نہاں رکھتا ہوں
حوصلہ اپنا محبت میں جواں رکھتا ہوں
دشتِ تنہائی ہے سایہ ہے نہ پانی اس میں
اہلِ ہجرت کیلئے پھر بھی مکاں رکھتا ہوں
ماں ہے حوا سو بہت قدر ہے عورت کی مجھے
باپ آدم ہے محبت کا سماں رکھتا ہوں
آپ محفل میں بلائیں گے تو بتلاؤں گا
طعن و تشنیع سے بڑھ کر جو زباں رکھتا ہوں
کس نے کانوں میں ترے ڈال دی نفرت کی صدا
اپنے یاروں میں تو چاہت کے نشاں رکھتا ہوں
ڈھانپ لیتی ہے مجھے دھوپ میں ماں کی چادر
باپ زندہ ہے سو خوابوں کی دکاں رکھتا ہوں
کوئی لالچ نہیں رکھتا ہوں کسی دوست سے میں
سامنے پیار کے کب سود و زیاں رکھتا ہوں
(احمد حجازی ۔لیاقت پور ضلع رحیم یار خان)


غزل
بے بسی کانہ بیکسی کا دکھ
ہم کو مارے گا زندگی کا دکھ
روز کیوں دیکھنا پڑا مجھ کو
تیرے ہوتے ہوئے کسی کا دکھ
آنکھ سے تو فرات جاری ہے
اور ہے دل میں تشنگی کا دکھ
رات یوں نو چتی ہے خوابوں کو
جیسے اس کو ہے روشنی کا دکھ
ہمیں انسان سے لگاؤ ہے
کب کسی کو ہے ہر کسی کا دکھ
درد اک اور جاگ اٹھتا ہے
جب بھی سہتا ہوں میں خوشی کا دکھ
(سیف علی عدیل۔ اسلام آباد)


غزل
مالک! اب آگے بھی، کہ یہاں تک تو کر لیا
گھر سے جدا ہوئے ہیں، کنویں میں اتر لیا
کتنا حسیں ہے عالم ِ خواب و تصورات
جو رنگ چاہا، اپنی کہانی میں بھر لیا
آزادیاں تھیں، طائرِ دل تھا، بہار تھی
پھر ایک روز تیری تمنا نے دھر لیا
ہر مقصدِ عظیم میں قربانیاں تو ہیں
دینِ مبیں نے کیسے بہادر کا سر لیا
رستے کئی فرار کے تھے اے حیاتِ درد
تیرا ثبات ذمے نہیں تھا، مگر لیا
کیسا زیاں پسند ہے دل بھی کہ دہر میں
دے کر متاعِ عمر غمِ بے ثمر لیا
اس راہِ روزگار میں بکھرے ہوئے کبھی
یاد آئی ماں تو بال بنائے، سنور لیا
(زبیر حمزہ ۔قلعہ دیدار سنگھ)


غزل
کس ارادے سے نکل آئے ہیں
غم جو چہرے سے نکل آئے ہیں
تب چراغوں کو جلایا اُس نے
جب اندھیرے سے نکل آئے ہیں.
زندگی تیری کفالت کے لیے
ہم بڑھاپے سے نکل آئے ہیں
اب تحفظ بھی کہاں پائیں گے
ہم جو پنجرے سے نکل آئے ہیں
تا کہ دیواریں بھی باتیں کر لیں
ہم بھی کمرے سے نکل آئے ہیں
کیا بتائیں گے وہ شجرہ شافیؔ
جو قبیلے سے نکل آئے ہیں.
(بلال شافی۔ جڑانوالا، فیصل آباد)


غزل
فراقِ یار میں ہر پَل ہماری آنکھ روتی ہے
وفاؤں کا ملا یہ پھل ہماری آنکھ روتی ہے
تمہارے قرب میں جتنے کبھی ہم نے گزارے تھے
وہ اکثر یاد آئیں پَل ہماری آنکھ روتی ہے
نگل جاتی ہے روزانہ ہمیں بے رحم ظالم جب
تمہاری سوچ کی دلدل، ہماری آنکھ روتی ہے
کہا جب بھی اُسے ہم نے، کہ آ جاؤ ہمیں ملنے
کہا اس نے ہمیشہ کَل، ہماری آنکھ روتی ہے
کسی کی یادِ میں راحلؔ کوئی دل کھول کر رویا
کہ صحرا ہو گیا جل تھل ہماری آنکھ روتی ہے
(علی راحل،بورے والا۔ پنجاب)


غزل
دیپ چاہت کے تم جلا رکھنا
مجھ کو اپنا صنم بنا رکھنا
میرا تم پر سدا بھروسہ ہے
مجھ سے جیون میں بس وفا رکھنا
تم نے مجھ سے کئے ہیں وعدے جو
اپنے وعدوں کو تم نبھا رکھنا
نعمتیں رب کی ہم کو حاصل ہیں
شکر رب کا سدا ادا رکھنا
دانہ چگ لیں گے یہ پرندے بھی
ان پرندوں کو تم بلا رکھنا
تیری زلفیں ہیں یا گھٹا کوئی
اپنی زلفوں کو جاں کھلا رکھنا
( احمد مسعود قریشی۔ ملتان)

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>