’’خلائی مخلوق نہیں ملی!‘‘
طویل عرصے بعد ’اڑن طشتریوں‘ پر ’ناسا‘ کی رپورٹ
امریکا کے خلائی تحقیقاتی ادارے ’ناسا‘ (NASA) نے اڑن طشتریوں سے متعلق اپنی رپورٹ شایع کرنے کا اعلان کیا تو دنیا بھر کے شائقین علم اور سائنسی محققین سے لے کر سنسنی اور پراسراریت سے لگاؤ رکھنے والے اپنے دل تھام کر بیٹھ گئے، لیکن 36 صفحوں کی یہ رپورٹ جب سامنے آئی، تو اس میں بتایا گیا ہے کہ انھیں ابھی تک کسی خلائی مخلوق تک پہنچنے یا ان کی موجودگی کی کوئی خبر نہیں مل سکی ہے۔
’ناسا‘ کی یہ رپورٹ دراصل فضا میں دکھائی دینے والی پراسرار ’اڑن طشتریوں‘ سے متعلق تھی، جس کو پہلے نامعلوم اشیا، جنھیں پہلے ’یو ایف اوز‘ (UFOs) یعنی ’’اَن آئیڈنٹی فائیڈ فلائینگ آبجیکٹ‘‘ کہا جاتا تھا، اب ’یو اے پیز‘ (UAPs) کہا جانے لگا ہے۔ ’یو ایف اوز‘ کی اصطلاح 1952ء میں وضع کی گئی تھی، جسے عام طور پر اڑن طشتریوں سے منسوب کیا گیا اور ان اڑن طشتریوں کا تعلق کسی دوسرے سیارے کی مخلوق سے جوڑا جاتا رہا۔2021ء میں کہا گیا کہ نامعلوم اڑتی ہوئی چیز تو کچھ بھی ہو سکتی ہے۔
اس لیے ’اڑن طشتریوں‘ کے لیے بہتر اصطلاح ’یو اے پیز‘ ہے، جس سے مراد Unidentified Aerial Phenomena یعنی ’فضا میں اڑتے ہوئے نامعلوم مظاہر‘ قرار دیا گیا۔ ناسا کی اس موضوع پر رپورٹ کا ایک عرصے سے عوام بالخصوص سائنس کے حلقوں میں انتظار کیا جا رہا تھا۔
اس رپورتاژ کے 16 خودمختار محققین نے اپنے ابتدائی مشاہدات رواں برس مئی میں پیش کیے تھے اور وہاں بھی بتایا تھا کہ اس میں چشم دید گواہوں کے بیانات اور شواہد کے ساتھ حاصل شدہ معلومات کے ساتھ وہ کسی مکمل نتیجے پر نہیں پہنچ سکے، اس کے لیے انھیں مزید منظم طریقے سے معیاری اعدادوشمار درکار ہوں گے، جو کہ کسی دوسرے سیارے پر مخلوق کی موجودگی یا موجودگی کے آثار کے حوالے سے چھان بین کر رہے ہیں۔
اس تحقیق میں27 سال میں 800 واقعات جمع کیے گئے ہیں، جس کے متعلق اندازہ ہے کہ ممکنہ طور پر یہ تمام واقعات کا صرف دو سے پانچ فی صد تک ہوگا۔ امریکی حکومت اس حوالے سے خارجہ نگرانی کے تعلق سے گذشتہ چند برسوں سے کافی سنجیدہ ہے۔
’ناسا‘ کے منظرعام پر آنے والا یہ کام ’پینٹاگون‘ سے تعاون ضرور کرتا ہے، لیکن یہ تحقیقات ’پینٹاگون‘ سے بالکل علاحدہ ہے۔ جولائی میں ایک امریکی اینٹیلی جینس افسر شہہ سرخیوں میں رہے، جب انھوں نے امریکی حکومت کا اڑن طشتریوں پر یقین رکھنے اور ان کے باقیات کی موجودگی کی بات کی تھی۔
چند دن قبل میکسیکو سے دریافت شدہ دو ’غیرانسانی‘ قرار دی جانے والے اجسام کا چرچا بھی جاری ہے، جنھیں خلائی مخلوق اور ان کے ’ڈی این اے‘ کو مختلف اور پراسرار قرار دیا جا رہا ہے۔
۔۔۔
’پانی پوری‘ پر پابندی۔۔۔!
آپ نے بچپن میں بازار کی کھٹی میٹھی اور چٹ پٹی چاٹ اور پانی پوری وغیرہ کھانے سے باز رہنے کے لیے اپنے والدین اور بزرگوں کی تنبیہہ ضرور سنی ہوگی۔ لیکن نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں پانی پوری سمیت چٹ پٹے کھانوں پر یہ پابندی برسات کے موسم کے بعد پیدا ہونے والی موسمی بیماریوں کی روک تھام کے لیے عائد کی گئی ہے۔
اب اس کی کڑی نگرانی بھی کی جا رہی ہے۔ ’خبر‘ میں بتایا گیا ہے کہ یہ عمل صرف نیپال کے شہریوں کو بیماریوں سے بچانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ جس کے تحت جہاں دیگر بہت سے اقدام اٹھائے گئے ہیں، وہاں ’پانی پوری‘ سمیت چٹے پٹ کھانوں پر مکمل طور پر پابندی عائد کر دی گئی ہے، کیوں کہ یہ بڑے پیمانے پر بیماریوں کا سبب ہیں۔
جس پر کچھ دل جلوں نے خوب تنقید بھی کی ہے اور توجہ دلائی گئی ہے کہ ’شہر میں پلاسٹک کی غیر معیاری تھیلیوں میں دودھ دینے پر بھی پابندی عائد کی جائے۔‘ جسے صارفین کے حقوق کے نمائندے سستی شہرت کی بات قرار دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ وہاں پلاسٹک کی خراب تھیلیوں کو غیرمعیاری پاؤڈر سے دھو کر اسی میں کھانے پینے کی چیزیں دینے کی شکایات بھی پائی جاتی ہیں۔
تاہم فی الحال حکام نے گلی کوچوں میں ایسے تمام چٹخارے دار کھانوں اور چاٹ وغیرہ پر پابندی پر عمل کرانے کی باتیں ہو رہی ہیں اور اس پابندی پر عمل درآمد کرانے کے لیے وہاں کے قوانین کو بھی ٹٹولا جا رہا ہے، دوسری جانب اس پابندی کو ’بے تکا‘ کہہ کر اس پر تنقید کرنے والوں کی تعداد بھی کوئی تھوڑی نہیں ہے۔
۔۔۔
’اے سی‘ کی کم ٹھنڈک زیادہ توانائی کیسے استعمال کرتی ہے؟
دفاتر میں ’اے سی‘ کا درست درجہ حرارت ملازمین کی کام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے۔ لی آئی کون 1959ء میں جب سنگاپور کے وزیراعظم بنے، تو انھوں نے سب سے پہلے سرکاری عمارتوں میں ’اے سی‘ لگوائے تھے، کیوں کہ وہ سمجھتے تھے کہ ’اے سی‘ کام بہتر کرنے کی بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوا کہ کتنا درجہ حرارت؟ سنگاپور کی ایک یونیورسٹی نے اس حوالے سے دو مختلف درجہ ہائے حرارت کے کمروں میں ایک پہیلی حل کرنے کے لیے دی، جس میں 25 ڈگری سینٹی گریڈ میں عملی طور پر تیز کام سامنے آیا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ائیر کنڈیشن جگہوں پر ہمارے جسم کا درجۂ حرارت 37 ڈگری تک بہترین تصور کیا جاتا ہے۔ ٹھنڈے کمروں میں ہمارے جسم کو گرم رکھنے کے لیے بھی توانائی صَرف ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں ذہنی کام کے لیے توانائی ممکنہ طور پر کم ہو سکتی ہے۔ یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق 21 ڈگری کے بہ جائے 25 ڈگری رکھنا زیادہ بہتر ہے۔
اسے انسانی جِلد کے درجہ حرارت سے بھی مشروط کیا جاتا ہے، کیوں کہ اے سی میں جلد کا درجہ حرارت بھی وقت کے ساتھ گرتا جاتا ہے۔ سنگاپور کی قومی ماحولیاتی ایجینسی 25 ڈگری کو توانائی بچانے کا ذریعہ بھی بتاتی ہے۔ ایئر کنڈیشنگ اور ’ریفریجریٹنگ ایسوسی ایشن‘ کی جانب سے 22 سے 25 ڈگری کو آرام دہ قرار دیا گیا ہے۔
50 اسکوائر فٹ کے دو کمروں کو مختلف درجہ حرارت کے تجربے سے گزارا گیا، جس سے ثابت ہوا کہ ’اے سی‘ کا درجۂ حرارت کم رکھنے، یعنی ٹھنڈک بڑھانے سے توانائی کی کھپت کم ہوئی، جب کہ عام طور پر ہمیں یہ بات بڑی عجیب سی لگتی ہے۔ ہم یہی سمجھتے ہیں کہ اے سی ہلکا چلتا رہے گا، تو بجلی بھی کم خرچ ہوگی، جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے!
صرف بجلی ہی نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ’گرین ہاؤس گیس‘ کے اخراج میں بھی کمی ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ’ایئر کنڈیشن سسٹم‘ جو اپنا کام شروع کرتے ہوئے پہلے گھر میں موجود حرارت یا گرماؤ کو ختم کرتا ہے، اس کا یہ دائرہ ’ریفریجریٹنگ سائیکل‘ کہلاتا ہے، یہی طریقہ ہمارے ریفریجریٹر کو بھی ٹھنڈا رکھتا ہے۔ گھر کے ’اے سی‘ کا یہ کام گھر کے باہر لگے ہوئے ’کمپریسر‘ کے ذریعے ہوتا ہے اور اس کے لیے کافی توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔
’اے سی‘ کو پہلے کسی بھی جگہ کی حرارت کو ختم کرنا ہوتا ہے اور جب ’اے سی‘ اپنے تئیں بچت کی خاطر آہستہ چلایا جاتا ہے، تو یہ امر بالواسطہ طور پر اس عمل کی طوالت اور حجم کو بڑھا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین نے قرار دیا ہے کہ ’اے سی‘ کی ٹھنڈک موسم کی مناسبت سے رکھی جائے۔ اگر بچت کی نیت سے خفیف ٹھنڈک رکھیے گا، تو یہ امر الٹا بجلی کا بل بڑھائے گا۔ البتہ ’اے سی‘ کے ساتھ پنکھے کا استعمال کمرے کی ٹھنڈک کو برقرار رکھنے میں کافی مدد دیتا ہے۔
۔۔۔
’دل کے دورے‘ کے بعد مریضوں کے تجربات!
دل کے دورے کے بعد کی بے ہوشی کے دوران مریضوں نے اپنے تجربات سے متعلق ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ اس غفلت کی کیفیت میں میں انھیں زندگی کے پچھلے تجربات کے ایک خواب یا ہیولا سا دکھائی دیا۔ کہیں کسی نے اس وقت کے دوران سنسنی خیزی کا تجربہ کیا، کسی جگہ پُرسکون نیند اور خوش گواریت بھی پائی گئی۔
کچھ مریضوں کا کہنا تھا کہ وہ گہری بے ہوشی میں ضرور تھے، لیکن انھیں ایسا لگا کہ جیسے شعور کی کسی منزل پر موجود ہیں، انھیں ڈاکٹروں کی آوازیں اور ان کی جانب سے کی جانے والی طبی امداد کو محسوس کر رہے تھے۔
اسی طرح کسی کو اس بے ہوشی کی کیفیت کے دوران بھی درد، تکلیف اور جسمانی دبائو کے احساس کے تجربے بھی بہم پہنچے۔ بہت سے مریضوں نے کسی لمبی سرنگ جیسے تجربات کی خبر بھی دی، جیسا کہ اس سے پہلے موت کے وقت کے مشاہدوں میں بھی ایسی ہی کسی طویل سرنگ کا دکھائی دینا بتایا جاتا رہا ہے۔
طبی ماہرین نے اس تحقیق کے ذریعے دل کے دورے کے بعد طاری ہونے والی بے ہوشی یا غفلت میں دماغ میں آکسیجن اور اس کی فعالیت کا جائزہ لیتے ہوئے یہ قرار دیا کہ اس دوران دماغ زیادہ فعال دیکھا گیا ہے، تبھی مریض اپنے گردوپیش یا دماغ کی جانب سے کی جانے والی تخیلاتی سرگرمیوں کی خبر دے رہے ہوتے ہیں۔
The post نگری نگری appeared first on ایکسپریس اردو.