Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

سارے رنگ

$
0
0

الوداع میرے بیٹے نعمان۔۔۔ الوداع!

ڈاکٹرفرید اﷲ صدیقی

یہ 10 اگست 1973ء جمعے کی بات ہے۔ میں صبح تقریباً 10 بجے اپنی ’ویسپا‘ اسکوٹر پر شوکت صدیقی کے ناول ’خدا کی بستی‘ پر بننے والے ڈرامے کی ریکارڈنگ کے سلسلے میں پاکستان ٹیلی وژن جانے کی تیاری کر رہا تھا، جس میں میرا ایک چھوٹا سا کردار تھا۔

اسی اثنا میں ہمارے سالے سعادت صاحب نے میرے ہاں ’شہزادے ‘ کی ولادت کی اطلاع دی اور میں ڈاکٹر حیدری بیگم (آغا تالش کی ہمشیرہ) کے کلینک (بالمقابل آغا جوس، ناظم آباد) پہنچا۔ جہاں میری شریک حیات نسیم کے پلنگ کے چھوٹے سے ’پنگوڑے‘ میں گلابی تولیے میں لپٹا ہوا ایک سرخ و سفید گول مٹول نوزائیدہ بچہ آنکھیں کھولے مجھے دیکھ رہا تھا۔

ہمارے اس پیارے بچے کا نام نعمان رکھا گیا۔ اس نے ہمیشہ اپنی امی کو پیار سے ’می می‘ کہہ کر مخاطب کیا اور مجھے ’پاپا‘۔ اس کے منہ سے لفظ ’’می می‘‘ لوگوں کو اتنا پسند آیا کہ پھر ان کی امی (نسیم) کو سبھی می می کہہ کر مخاطب کرنے لگے۔۔۔ بسا اوقات میں بھی ازراہ تفنن انھیں ’می می‘ کہتا تھا۔

49سال گزرنے کے بعد اپنی امی (می می) کا وہی پیارا نعمان۔۔۔ 24 جولائی 2023ء کو اپنے اللہ کے پاس چلا گیا۔۔۔ اگلے روز 25 جولائی 2023ء کو اپنے دادا مرحوم حافظ فصیح اﷲ کے بنائے ہوئے گھر ناظم آباد میں عمران، شفیق، کامران (میرے بھتیجے) کے ’کورڈ یارڈ‘ میں گلابی تولیے کے بہ جائے سفید دو گز جنتی لباس میں لپٹا اپنی روایتی مسکراہٹ کے ساتھ اپنے خون، یعنی صاحب زادے حسنین صدیقی اور ان کی امی ثمرہ صدیقی، بہن حنا، ’’می می‘‘، پاپا اور دیگر عزیزان کے درمیان لیٹا ہوا ہے، جب کہ اس کی پاک روح اوپر جنت الفردوس سے اپنے چاہنے والوں کو آخری سلام کرتے ہوئے اﷲ حافظ کہہ چکی ہے۔۔۔

الوداع میرے بیٹے نعمان۔۔۔ الوداع۔۔۔ انشاء اﷲ اب ہماری ملاقات جنت میں ہوگی۔ جہاں تم ہم سے پہلے ہمارے استقبال کے لیے موجود ہوں گے۔ تم کتنے خوش نصیب رہے کہ بغیر اپنوں کو دکھ اور درد میں دیکھے اپنی دائمی زندگی اور ٹھکانے جنت میں چلے گئے ہو۔ ہمارا انتظار کرو۔ ہم سب باری باری تمھارے پاس پہنچ رہے ہیں۔

نعمان کی 49 سالہ خوش گوار زندگی ہمارے لیے ایک داستان ہے۔ محلے کے اسکول کے بعد ہیپی اسکول واقع سوسائٹی میں داخل ہوا۔ میں تقریباً ہر روز شام 4 بجے آفس رائل ایکسچینج سے فارغ ہو کر پہلے عمران کو گلستان ہائی اسکول سے اپنی ’ویسپا‘ پر بٹھاکر نعمان کے اسکول ہیپی ہوم سے گھر لاتا تھا۔ راستے میں عمران نعمان کی فرمائشیں بھی چلتی رہتی تھیں۔

1982ء میں میں سب کو لے کر ہندوستان اپنے آبائی شہر الٰہ آباد اپنے تایا زاد بھائی عشرت اﷲ صدیقی کی بیٹی کی شادی میں گیا تھا۔ جہاں میرے پیدائشی گھر کی خوب صورت عمارت اور آگے ہرے بھرے لان کو دیکھ کر سب بہت خوش ہوئے تھے۔

انڈیا سے واپسی پر ’’می می‘‘ اور نعمان کے نانا کے شہر اندور مالوہ بھی گھومتے ہوئے آئے۔ نعمان ہمیشہ سے ذہنی طور پر پکا پاکستانی مسلمان تھا۔ اپنے وطن پاکستان کی محبت میں ڈوبا رہا۔ ایک مرتبہ کالج گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان کے جگری دوست سید خالد محمود بخاری ’نیشنل بینک آف پاکستان‘ کے بورڈ اور ڈائریکٹر کے ممبر تھے۔

وہ ایک کانفرنس میں کراچی آئے ہوئے تھے۔ ہوٹل میریٹ میں ان سے ملاقات ہوئی۔ پوچھنے لگے نعمان نے کتنی تعلیم حاصل کی اور کیا کررہے ہیں۔

میں نے بتایا کہ نعمان نے MBA کر لیا ہے۔ اب سوچ رہا ہے کہ کیا کرے۔ انھوں نے کہا اس میں سوچنے کی کیا بات ہے، میں جو موجود ہوں۔ خالد نے اپنے مخصوص دوستانہ اور تحکمانہ انداز میں کہا۔ ’’بینکر بن جائیں!‘‘ کانفرنس سے واپسی پر خالد نے ’نیشنل بینک‘ میں نعمان کے لیے مجھے ’تقرر نامہ‘ تھما دیا، پھر نعمان نے اپنے بینکنگ کیریئر کا آغاز کر دیا۔ انھوں نے کئی بینکوں میں اچھے عہدوں پر کام کیا۔ نعمان خودنمائی سے بہت دور رہتا تھا۔

اچھے قد اور کاٹھ کے ساتھ خوب رُو اور رنگ و روپ میں اس کی شخصیت تھی۔ اپنی ’’می می‘‘ کا شہزادہ۔ اپنی ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ وہ سب کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتا تھا۔ نہ کسی لینے میں، نہ کسی کے دینے میں۔ تقریباً تنہائی پسند، مگر پھر بھی ہردل عزیز۔ موسیقی کا دل دادہ۔ پرانے اداس نغمے اس کے پسندیدہ تھے۔

کی بورڈ بجانے کا ماہر۔۔۔ چوں کہ اس کی ’’می می‘‘ بھی اس کے شوق کی دل دادہ تھیں، لہٰذا نعمان کوئی بھی دُھن بجانے کے بعد اس کی تائید اپنی ’’می می‘‘ سے ضرور لیتا تھا۔ وہ سب کا پیارا تھا۔ اﷲ نے نعمان کو بھرپور زندگی کے عالم میں اپنے پاس بلالیا۔ اﷲ کا شکر ہے کہ اس نے اپنے ماں باپ بیوی بچوں کا کوئی دکھ نہیں دیکھا۔ ہمارا دکھ اس کا ہماری زندگی سے جدا ہونے کا اپنی جگہ، مگر ہم اﷲ کی مرضی پر راضی بہ رضا ہیں۔

میں شاید اپنے بیٹے پر کچھ نہ لکھ پاتا، مگر میرے بہت محترم دوست غم گسار، بھائی جناب ڈاکٹر احمد بختیار اشرف جو انقرہ سے تشریف لائے ہیں، انھوں نے اپنے انتہائی پرخلوص دلی تعزیت کا اظہار جن قیمتی الفاظ میں کیا اور چاہا کہ میں بطور ایک لکھاری اپنے بیٹے پر ضرور کچھ لکھوں۔ جی تو چاہتا ہے کہ میں جناب اشرف صاحب کے وہ الفاظ جو انہوں نے میری دل جوئی کے لیے کہے وہ سب دہراؤں ۔

ان کے غم گساری کے دل میں اتر جانے والی گفتگو کو میں اپنی کسی اور تحریر میں لاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ میرے بیٹے نعمان صدیقی کی بے حساب مغفرت فرمائے۔ آمین!

گھوڑا اور فلسفی
محمد فراز
وہ بڑا ہی اڑیل گھوڑا تھا، چوہدری صاحب اس پر سواری نہیں کر پائے تھے، بس یہ کہہ کر اپنی جھینپ مٹا لیتے تھے کہ ساری قیمت اسی اڑیل مزاج کی تو ہے۔

جب کہ دل ہی دل میں اس دلال کو کوستے رہتے، جس نے مہنگے داموں وہ جنگلی گھوڑا ان کے متھے مار دیا تھا۔ ان کے خدام دن بھر گھوڑے کا زور توڑنے کی نئی نئی ترکیبیں لڑاتے رہتے اور اصطبل کے باقی گھوڑے اس تماشے سے لطف اندوز ہوتے رہتے، البتہ یہ تماشا بزرگ گھوڑوں کو بالکل پسند نہیں تھا، انھوں نے نوجوانوں کو سختی سے تلقین کر رکھی تھی کہ اس ’بد تہذیب‘ سے دور رہیں۔ اس کے باغیانہ خیالات اور جنگل کے واہیات واقعات قطعاً نہ سنیں۔

اپنے آقا کی وفاداری میں ہی دونوں جہانوں کا سُکھ ہے۔ اور ویسے بھی اصطبل میں پیدا ہونے والے گھوڑوں کے لیے جنگلی گھوڑے کا یہ احتجاج کسی کھیل تماشے سے زیادہ تھا بھی نہیں۔ وہ بھی دوسروں کی طرح دل بہلا رہے تھے۔ کچھ دن گزرے اور اس نہ ختم ہو نے والے تماشے پر شہر سے آنے والے ایک فلسفی کی نظر پڑگئی ۔

فلسفی چوہدری کے دوست کا مہمان تھا، دوست کے دوست سے بے تکلفی ہو ہی جاتی ہے۔ چوہدری صاحب نے فلسفی کو چھیڑا، ’’صاحب شوق فرمائیں گے؟ فلسفی نے چوہدری کو دیکھا اور پھر گھوڑے کو دیکھا اور پھر چوہدری کے چہرے کو دوبارہ دیکھا، جس پر سجی ہوئی معنی خیز مسکراہٹ بڑی بڑی مونچھوں سے بھی چھپ نہیں پا رہی تھی۔

واضح تھا کہ چوہدری فلسفی کا جواب جانتا ہے، مگر یہ کیا؟ اس نے کہا ’’جی میں گھڑسواری جانتا ہوں۔‘‘، ’’گھڑ سواری پر کوئی کتاب پڑھی ہو گی؟‘‘ چوہدری نے دوسرا حملہ کیا۔ ’’آپ نے گھڑ سواری پر کوئی کتاب پڑھی ہے، چوہدری صاحب؟ جی نہیں۔

اس جواب پر فلسفی مسکراتے ہوئے کہنے لگا دیکھیے کمی رہ گئی ناں، خیر اس گھوڑے کو زین پہنائیے، میں اسی پر سواری کروں گا۔ چوہدری شرارت ضرور کرنا چاہتا تھا، مگر فلسفی کے قتل کا کوئی ارادہ نہیں تھا، وہ گھبرا گیا، ’’ارے بھئی آپ ہمارے مہمان ہیں، آپ کے لیے ہم کوئی بھی سدھایا ہوا گھوڑا منگوا لیتے ہیں۔

ٹوٹی ٹانگ لیکر شہر جائیں گے کیا؟ ہم فلسفی ہیں، ہماری ٹانگ نہیں ہماری بات کو اہمیت دیجیے، وہ بہ ضد رہا۔ چوہدری تادیر اسے سمجھاتا رہا، مگر اپنی ساری عقل، سارا تجربہ اور اپنا سارا علم یک جا کر کے بھی وہ ایک ایسی دلیل ایجاد نہیں کر پایا کہ فلسفی کو قائل کر سکے۔ بالآخر گھوڑے کو زین پہنادی گئی۔

فلسفی اعتماد سے آگے بڑھا اور بڑے اطمینان سے گھوڑے کی کمر سہلانے لگا، پھر اس کی گردن کے ایک مخصوص حصے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگا کہ ’’یہ وہ جگہ ہے، جہاں ہاتھ لگائو تو گھوڑا خود سپردگی پر آمادہ ہو جاتا ہے۔‘‘ چوہدری نے کہا یہ تو میں بھی جانتا ہوں۔

’’ٹھیک سے نہیں جانتے، دیکھیے میں کیسے کر رہا ہوں، ایسے، اس طرح سے دیکھیے کیسے ’گھر دامادوں‘ والی عاجزی آگئی ہے اس میں۔‘‘ فلسفی کی بات پر چوہدری جھنجلا کر کہنے لگا ’’ارے بھئی، ہمیں سکھا رہے ہیں، ہم کئی دہائیوں سے گھوڑے پال رہے ہیں۔ ایک شخص ساری زندگی اسکول میں رہا، مگر ان پڑھ ہی رہا جانتے ہیں کیوں؟‘‘

’’جی کیوں؟‘‘ چوہدری نے بیزاری اور انہماک کے ملے جلے انداز میں پوچھا۔

’’کیوں کہ چوہدری صاحب، وہ وہاں گھنٹی بجاتا تھا۔‘‘ اور یہ کہتے ہوئے فلسفی ’ارتغرل‘ کی طرح گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہو گیا۔ وہاں موجود انسانوں ہی نہیں گھوڑوں کے لیے بھی یہ بات حیران کن تھی کہ اس اڑیل گھوڑے نے فلسفی کو اپنی پشت پر ایسے سوار ہونے دیا، جیسے وہ صدیوں سے اسی کا منتظر ہو۔ گھوڑا دھیرے دھیرے چلنے لگا، تو فلسفی نے بلند آواز میں یہ مصرع پڑھا ’’ایّام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر‘‘ اور پھر جوش میں گھوڑے کو ایڑھ لگا دی۔

وہ سرپٹ دوڑنے لگا۔ کچھ لمحوں تک تو ایسا محسوس ہوا جیسے وہ گھوڑا دوڑا رہا ہو، مگر جلد ہی ذہین فلسفی نے بھانپ لیا کہ یہ گھوڑا اتنا جاہل ہے کہ لگام کھینچنے اور چھوڑنے کا مطلب بھی نہیں جانتا، میں تو گھڑ سواری جانتا ہوں، یہ گھوڑا قابو سے نکلا جا رہا ہے، تو صرف اس لیے کہ یہ گھڑ سواری نہیں جانتا، فلسفی کی خود کلامی جاری رہی، ’’ نہیں میں نے کوئی غلطی نہیں کی، اگر کسی نے غلطی کی تھی، تو اس پہلے آدمی نے کہ جس نے گھڑسواری کا آغاز کیا۔

جانور اپنی فطرت پر ہوتا ہے اور فطرت کو تابع کرو تو وہ انتقام لیتی ہے، مگر یہ انصاف نہیں کہ سارا انتقام مجھ ہی سے لیا جائے، گھوڑا بہت ہی تیز دوڑ رہا تھا، ایسا لگتا تھا کہ آزادی کی خواہش نے گھوڑے کی رفتار کو چار گنا بڑھا دیا ہو، فلسفی بھی آخر انسان تھا گھبرا گیا اور گھبراہٹ میں انسان کو وہ لوگ یاد آتے ہیں، جو اس کے دل کے بہت قریب ہوں، وہ چلانے لگا۔ ’’تجھے فوکو کی قسم رک جا۔۔۔! تجھے کانٹ کا واسطہ۔۔۔! رالس کی قسم، رک جا۔۔!‘‘ ، مگر گھوڑا بھی ہماری طرح ان عظیم لوگوں سے ناواقف تھا، وہ دوڑتا ہی رہا، پہلے گھوڑا قابو سے باہر ہوا اور پھر جذبات سے۔ ’’تینوں تیری ماں دی قسم ہے، رک جا اوئے!‘‘ گھوڑا شاید غیرمقامی تھا۔

فلسفی کی دل کی زبان بھی بے اثر رہی، اس نے مدد کے لیے دائیں بائیں دیکھا، دور دور تک کوئی نہیں تھا، بس ایک چٹیل میدان اور وہ اور گھوڑا، فلسفی نے سوچا اگر میں یہ فرض کرلوں کہ یہاں میں بھی نہیں ہوں، نہیں نہیں پھر تو گھوڑے کی رفتار اور بڑھ جائے گی اور اگر میں یہ فرض کر لوں کہ گھوڑا نہیں ہے، تو شاید میں گھوڑے کے تھکنے تک ذہن کو کسی عظیم کائناتی مسئلے میں الجھا سکوں، مگر اس طرح ہلتے ہلتے کوئی کیسے کچھ فرض کر سکتا ہے۔

اسے اس شخص پر بہت غصہ آرہا تھا جس نے گھڑ سواری جیسی واہیاتی کی ابتدا کی تھی اس نے سوچا انسان گھوڑوں کو تابع نہ کرتا تو یقیناً انسانوں پر ہی سوار ہوتا، انسان جتنے بھی جاہل ہوں، گھوڑوں سے پہلے تھک تو جاتے ہیں، ہم کبھی اپنے اجداد کی تاریخی غلطیوں کے اثرات سے نہیں نکل سکتے۔ تو کیا کیا جائے؟ یہ کہنا غلط تھا کہ بہت دیر ہوگئی تھی اور ڈر یہی تو تھا کہ گھوڑا جس رفتار سے منازل طے کر رہا تھا دیر ہوگئی تو کہیں پل صراط ہی پر نہ لے جائے۔

یہ خیال آتے ہی وہ منہ ہی منہ میں کوئی عربی فلسفہ پڑھنے لگا۔ گھوڑا دوڑتا رہا، دوڑتا رہا، دوڑتا رہا اور بحرظلمات سے ذرا پہلے اس کا سانس پھول گیا۔ یوں معاملہ قابو میں آنے لگا، کیا مجھے گھوڑے سے اتر جانا چاہیے، اتنی دور واپس کیسے جائوں گا، چلو اس کا انتظام ہو بھی گیا، تو چوہدری کو غلط کیسے ثابت کر پائوں گا، کسی کو غلط ثابت کرنے میں جو مزہ ہے، کیاایسا اطمینان کسی اور کام میں مل سکتا ہے۔

اس سفر میںفلسفی کو ایک غورطلب کائناتی مسئلہ مل ہی گیا، تھکا ہوا پیاسا گھوڑا اب بہت دھیرے دھیرے چل رہا تھا، کچھ دیر بعد تالیاں گونجنے لگیں، تو خیالوں میں گم فلسفی نے اطراف پر نظر دوڑائی۔ گھوڑا دھیرے دھیرے واپس اصطبل کے قریب آرہا تھا، فلسفی نے اپنا سانس بحال کیا ، اپنے اعصاب کو یک جا کیا پھر وہ اپنی شان کو سمیٹتے ہوئے زندہ بنا ٹوٹے گھوڑے سے اتر کر چوہدری کی پھٹی ہوئی آنکھوں میں گھستا چلا آیا۔ ’’چوہدری صاحب کتاب بھجوادوں گا پڑھ لیجیے گا۔‘‘ اور چوہدری بے چارہ مجسم لاجواب تھا، لاجواب ہی رہا۔ خیر اس رات بزرگ گھوڑے سکون کی نیند سوئے کہ پھر اصطبل میں بغاوت کی بو جو نہیں تھی۔

انھیں اپنی اگلی نسل بھی محفوظ دکھائی دے رہی تھی، مگر کہانی ختم نہیں ہوئی تھی۔ اگلے دن اصطبل میں پیدا ہونے والے گھوڑوں نے پہلی بار اس جنگلی گھوڑے سے بات کی کہ بھائی کیا ماجرا ہے؟ تم تو کسی کو قریب نہیں آنے دیتے تھے۔

اس شخص سے اتنی عزت سے کیو ں پیش آئے؟ گھوڑے نے جواب دیا کہ عزت دینے میں پہل اس نے کی تھی، کیا تم لوگوں نے دیکھا نہیں کہ وہ ہمیں اور چوہدری صاحب کو ایک ہی نظر سے دیکھ رہا تھا۔ گھوڑے کے اس ایک جملے نے نوجوانوں میں ایسا احساس خودی پیدا کر دیا کہ پھر کسی نے کسی کو اپنی پیٹھ پر سوار نہیں ہو نے دیا، بس فلسفی کا انتظار کرتے رہے۔

تخلیق انفرادی عمل ہے!

محمد علم اللہ، نئی دہلی

شاید تم اس تک بہت دن بعد پہنچو۔۔۔ سو میں بھی اپنی ڈائری اپنی آپ بیتی سے بھر رہا ہوں۔ تو یہ میرے لیے بھی کہا گیا ہے۔ کہیں پڑھا تھا، تخلیق کار کبھی بھی کسی خیال کے تئیں نہیں، اس وقت کے سماج کے تئیں گواہ ہوتا ہے، جس میں وہ رہ رہا ہے۔ اسے میرے تنہائی کی بستی کا انسان ہی تصور کرنا۔

ہم تخلیق میں کتنے ہی نجی ہوں اور کتنے سماجی، یہ ہمارا انفرادی عمل ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ کہیں سے کوئی آکر ہمیں سند تفویض کرے۔ یہ ادارہ جاتی ہونے جانے کی سہولت کے بالکل الگ ہے۔ ہر خیال، نظریہ، فکر، ایسے ہی ایک ’ادارہ‘ ہے، جس کے اپنے بنے بنائے ڈھانچے ہیں۔

ہم ان میں ڈھلنے کو تیار نہیں ہیں۔ اب تو قطعی نہیں۔ یہ ہمارا حق ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اپنے ماضی کے دنوں میں ہم نے سماجی اقدار کو دھیان میں رکھ کر لکھنا شروع کیا، مگر آج بالکل ابھی۔ اگر اس کی کسوٹی پر مجھے ’نہ‘ کہہ دیا جائے تو مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔

جس نظریے یا  فکر سے متاثر ہوکر وہ تخلیق کو ’’پونجی واد‘‘ سے لڑنے کا ہتھیار قرار دے رہے ہیں۔ اس فکر سے الگ یہ اکیلے ہوتے جانا کم زوری نہیں ہے۔ ہم اس دور کی حکومت، نظم ونسق اور اس میں خرابی کا حصہ نہیں ہیں۔ ہماری تنہائی اس کے خلاف بر سرپیکار ہے۔

جہاں اس دنیا کے سارے سکون ثابت ہوتے جا رہے ہیں، وہیں کہیں ہم بھی چھپے اور دبے لہجے میں اپنی بات کہہ رہے ہیں۔ بھلے ہمارا طریقۂ کار الگ ہو۔ یہ انفرادیت کا پیش کردہ طریقۂ کار نہیں ہے۔ یہ نظریۂ فکر کے مطابق سمٹ جانے کا انکار ہے۔

ہم ان کئی تخلیق پاتے نظریہ سازوں کے رویہ جات کو سمجھتے کی کوشش کررے ہیں۔ ہماری تقسیم کا طریقۂ کار ویسا نہیں ہے۔ یہ کسی بھی طرح سے تبدیلی کی طرف جھکنے والا نظریہ نہیں ہے، بلکہ یہ فکری بنیادوں پر انتہا ئی کمزور طریقہ ہے۔

 

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles