Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

کوچۂ سخن اور ’’کوئے ملامت‘‘

$
0
0

( پہلی قسط )

برصغیر کی ثقافتی تاریخ میں بالا خانے یا کوٹھے کا تصورا تنا ہی قدیم ہے جتناکہ خود برصغیر کی تہذیب وثقافت کی روح مانے جانے والے فنون لطیفہ میں بالخصو ص رقص وموسیقی کی تشکیل و پرداخت کا ذکرمغنیاوں اور رقاصاؤں کے بغیر ادھورا نظر آتا ہے۔

محمد حسین آزاد کے مطابق مغلیہ دور کے’’ عہد اکبری‘‘ میںکنچنی (زرنگار اور سنہری )جب کہ لکھنؤکے نوابی دور میں طوائف کے نام سے پکارا جانے والایہ کردار طویل عرصے تک برصغیر کے تہذیبی ورثے کا اٹوٹ انگ رہا۔

رکھ رکھاؤ کے سلیقے، محفلی آداب اور شاعرانہ خوش ذوقی کے حوالے سے ان کے احترام کا یہ عالم تھا کہ بہت سے نامی گرامی شرفاء بھی اپنے صاحب زادوں کو معاشرتی تہذیب، سخنوری کے فن، زبان و بیان کی مہارت اور ثقافتی وضع داری جیسے امور سیکھنے کے لیے نام ور ڈیرہ دار طوائفوں کے ہاں بھیجنا معیوب نہیں سمجھتے تھے۔

شہزادوں اور نوابوں کی کی سرپرستی میںطوائفوں کے ان ڈیروں نے باقاعدہ ایک ایسے ادارے کی شکل اختیار کر لی جہاں گائیکی، رقص،آداب معاشرت، فن گفتگو اور سخن وری جیسے شعبے بطریق احسن پھلتے پھولتے رہے۔ اگرچہ بعد ازآں حالات کی ستم ظریفی، یکے بعد دیگرے فنون لطیفہ کی قدر شناس ریاستوں کے سیاسی زوال اور امتداد زمانہ نے برصغیر کے کلاسیکی فنون میں ان کی شرکت کو اجتماعی شعور سے دور کرتے ہوئے ان کے کردار کو جسم فروشی کے قبیح کاروبار تک محدود کردیا، لیکن ایک زمانے تک برصغیر کے تہذیبی و ثقافتی مراکز رہنے والے لکھنؤ اور دلی کی بذلہ سنجی اور کمال فن میں مشہور یہ طوائفیں ناصرف شعراء کی قدرداں رہیں، بلکہ بہت سی خود بھی شعر گوئی کے ہنر میں کامل مہارت رکھتی تھیں۔

محفل سازی کے اعلٰی اطوار، نفیس الکلامی، نازک ادائی میں رچی بسی ان شائستہ و مہذب طوائفوں کا وجود اردو ادب کی نثری و شعری اصناف میں بھی گراں قدر اور قیمتی اضافے کا موجب بنا۔ اردو نثر میں عبدالحلیم شرر کی کتاب ’’گذشتہ لکھنؤ‘‘ میں ’’پیار‘‘ و نامی طوائف کے ذکر سے شروع ہونے والا یہ موضوع منشی پریم چند کے ’’بازار حسن‘‘ سے ہوتا ہوا جب مرزا ہادی رسوا ؔ کے قلم تک پہنچا تو اردو ادب کو ’’امراؤ جان ادا‘‘جیسا کلاسیکی شاہ کار نصیب ہوا۔

اسی تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے غلام عباس نے ’’آنندی‘‘ اور منٹو صاحب نے ’’کالی شلوار‘‘،’’ہتک‘‘ اور ’’جانک بائی‘‘ جیسے بے مثال اور لازوال افسانے تخلیق کیے۔ دوسری طرف شعری ادب میں ان کے وجود کے ناگزیر ہونے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اردو شاعری کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ مہ لقا چندا بائی بھی بذات خود حیدرآباد دکن کی معروف مغنیہ اور رقاصہ تھیں۔

مرزا غالب ؔکے زمانے کی’’ صاحب جان‘‘ ہو یا اکبرؔ الہ آبادی کے زمانے کی ’’گوہر جان‘‘، ان کا ’’ذکر خیر‘‘ ایک تواتر کے ساتھ عہد بہ عہد شعراء کی آپ بیتیوں، ادباء کی سوانح اور مختلف ادبی یادداشتوں پر مبنی مضامین میں جا بہ جا پڑھنے کو ملتا ہے۔

رقص و آواز کی حسین آمیزش سے مرصع ان فن کاراؤں کی رنگیں بیانی، حاضر جوابی، خوش مزاجی، مصرعہ سازی اور ادب پروری پر مشتمل قابل ذکر چنیدہ واقعات سے مزین یہ مضمون قارئین ادب کے لیے یقیناً باعث لطف بھی ہوگا اور اردو کی رنگارنگ تاریخ میں ایک دل چسپ باب کاضافہ بھی۔

آگرہ کی ایک طوائف، حقیقی نام ’’لکشمی‘‘ تھا مگر مقامی زبان میں ’’لچھمی‘‘ کے نام سے پکاری جاتی تھی۔ خوش کلامی و خوش ذوقی کے ساتھ ساتھ سخن وری کا بھی ذوق رکھتی تھی۔ آگرہ کے ایک بزرگ شاعر ’’سفلی اکبرآبادی‘‘ کی شاگرد تھی۔ سفلی نے اس کے نام لچھمی (جو کہ ہندو عقائد میں دولت کی دیوی کا نام ہے) کا استعمال کرتے ہوئے درج ذیل شعر کہا:

؎ان دنوں لچھمی سے صحبت ہے

آج کل اپنے پاس دولت ہے

مرزا حاتم علی بیگ مہرؔ کے ہاں مشاعرہ تھا۔ ان کے دوست مرزا آغا حسین بھی شریک تھے۔ مرزا صاحب ذ را متشرع مزاج، سنجیدہ طبیعت اور طرح دار قسم کے انسان تھے۔

ان کے سامنے حسن اور خوب صورت آواز کی مالک آگرہ کی مشہور مغنیائیں درگا بائی اور کالی خانم بھی محفل نشیں تھیں۔ دونوں کی نگاہیں بار بار آغا صاحب کی جانب اٹھتیں مگر آغا صاحب کی توجہ ادھر مبذول نہ ہونے پاتی۔ مہر ساری صورت حال بھانپ گئے اور آغا صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے بولے، مرزا صاحب! اس قدر خشکی؟ اس پر مرزا صاحب  جواباً بولے:

؎کبھی ہنس کر ذرا بولے کبھی پیش آئے گالی سے

خدا محفوظ رکھے اس مزاج لاابالی سے

برہمن پوجتے ہیں بت کو، میں مرد مسلماں ہوں

نہ ’’درگا‘‘ سے غرض مجھ کو نہ کچھ مطلب ہے ’’کالی‘‘ سے

مرزا حاتم علی بیگ مہرؔ اکبر آبادی ناسخ ؔکے شاگرد تھے اور اپنے زمانے کے ملک الشعراء تھے۔ ان کی ہمعصر آگرہ میں ایک درگا بائی نامی طوائف تھی جو صنم ؔتخلص کرتی تھی۔

 

درگا بائی کو فن و جمال میں کمال حاصل تھا جس کے باعث مرزا صاحب بھی اس کے دادخواہوں میں شامل تھے۔ ایک مشاعرے میں دونوں اکٹھے ہوئے تو مرزا صاحب نے بڑی لجاجت سے پوچھا،’’درگا بائی مزاج کیسا ہے؟ درگابائی روہانسی ہو کر بولی:

؎غم ہجراں ہے کافی دل لگی کو

یہی مونس ہے میرا اور میں ہوں

مرزا مہرؔ اکھڑی اکھڑی باتیں سن کر کہنے لگے:

؎ذرا آنے تو دے روزقیامت

صنم تو ہے، خدا ہے، اور میں ہوں

شاہجہاں آباد کے کسی محل میں ایک شمع نام کی ایک محل دار تھی۔ جوانی اسی محل کی خدمت میں بتاکر اب بڑھاپے کی جانب مائل تھی، مگر جسم میں پھرتی اور کام میں مستعدی ابھی تک قائم و دائم تھی۔ کسی موزوں طبع نے اس کے نام کی رعایت سے اسے کہا:

؎سر سے پاؤں تک سفیدی آگئی اس پر یہ حال

’’شمع‘‘ سا معشوق دنیا میں نہیں دیکھا چھنال

اس شوخ دیدہ نے بے باکی سے جواب دیتے ہوئے کہا:

؎ پردۂ فانوس میں جلتی ہے عصمت کو سنبھال

کاٹیے اس کی زباں جو ’’شمع‘‘ کو بولے چھنال

دلی کے شہزادوں میں سے ایک کی شادی کی تقریبات چل رہی تھیں۔ تقریبات میں دلی کی ہردل عزیز رقاصہ ’’دوانی جان‘‘ کا مجرا بھی شامل تھا۔

 

دوانی جان طویل عرصے تک کسی بیماری کا شکار رہنے کے بعد کافی نحیف اور جسمانی طور پر کم زور ہو چکی تھیں، مگر ادائیں مضبوط تھیں۔ جب مجرا ختم ہوچکا اور دوانی جان فرمائشی گیت سنا کر اپنی پسند کے گیت گانے لگیں تو دلی کے شاہی خاندان کے فرد مرزا فخر الدین جو مرزا فخروؔ کے نام سے مشہور تھے بولے، ’’بائی جی! ذرا ٹھہرنا، ایک شعر ہوگیا ہے۔ پہلے وہ سن لو اب محفل میں ہر طر ف سناٹا چھا گیا اور مرزا صاحب بلند آواز میں گونجے:

؎گھستے گھستے ہوگئی اتنی قلت

سات آنے کی دو اَنی رہ گئی

محفل میں ایک قہقہہ بلند ہوا اور سب ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوگئے۔

لکھنؤ میں پہلی بار میونسپل کارپوریشن کے انتخابات ہوئے۔ اپنے وقت میں لکھنؤ کی مشہور طوائف اور جان محفل ’’دلربا جان‘‘ بھی امیدوار کے طور پر سامنے آئیں۔ ان کے خلاف کوئی الیکشن لڑنے کے لیے تیار نہ ہوا۔

علاقے کے نیک نام، معزز اور معروف حکیم شمس الدین کو ان کے ساتھیوں نے زبردستی دلربا جان کے مقابل الیکشن لڑنے پر آمادہ کرلیا۔

الیکشن کی تشہیر ی مہم نے زور پکڑا۔ مختلف مقامات پر انتخابی محفلیں سجنے لگیں۔ بطور حمایت دیگر نام ور طوائفیں بھی دلربا جان کے حق میں مجروں کے پروگرام منعقد کرنے لگیں، اور محفلوں میں بے تحاشا عوامی رش بڑھنے لگا تو مخالف امیدوار حکیم صاحب کی تشویش بھی بڑھنے لگی کہ کہیں شکست ہی نہ ہوجائے۔ دوستوں سے مشاورت کے بعد درج ذیل انتخابی نعرہ متعارف کروایا گیا:

؎ہو ہدایت چوک کے ہر ووٹرِ شوقین کو

دیجیے دل ’’دلربا ‘‘کو ووٹ شمس الدین کو

جس کا جواب دلربا جان نے کچھ اس طرح دیا:

؎ہو ہدایت چوک کے ہر ووٹر شوقین کو

دلربا کو ووٹ دیجے، نبض شمس الدین کو

خوش قسمتی نے حکیم صاحب کا ساتھ دیا اور وہ یہ الیکشن جیت گئے۔ لکھنوی تہذیب کے آداب کے پیشِ نظر دلربا جان نے حکیم صاحب کو گھر جا کے جیت کی مبارک باد دی، اور کہا،’’میں الیکشن ہار گئی اور آپ جیت گئے، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، مگر آپ کی جیت سے ایک بات ثابت ہوگئی کہ لکھنؤ میں مرد کم اور مریض زیادہ ہیں۔‘‘

اخباروطن کے ایڈیٹر مولوی انشاء اللہ خان علامہ اقبال کے ہاں ان کے انارکلی بازار والے مکان پر اکثر حاضری دیا کرتے تھے۔ اسی بازار میں چند طوائفیں بھی آباد تھیں۔ میونسپل کمیٹی نے ان کے لیے دوسری جگہ تجویز کی اور انہیں وہاں سے اٹھا دیا۔

اس زمانے میں مولوی انشاء کئی بار علامہ سے ملنے گئے مگر ہر بار یہی ہوا کہ علامہ کہیں گھر سے باہر گئے ہوتے۔ اتفاق سے ایک دن گھر پر مل گئے۔ مولوی صاحب نے از راہ مذاق کہا،’’ڈاکٹر صاحب ! جب سے طوائفیں گلی سے اٹھوا دی گئی ہیں، آپ کا دل بھی یہاں نہیں لگتا۔‘‘ علامہ اقبال نے جواب دیا،’’مولوی صاحب کیا کیا جائے! وہ بھی تو ’’وطن‘‘ کی بیٹیاں ہیں۔‘‘

لکھنؤ کی مشہور گانے والی ’’مشتری بائی‘‘ کا مجرا تھا۔ مشتری اب بہت موٹی ہوگئی تھی۔ پیٹ خاصا باہر نکل آیا تھا، اس لیے رقص چھوڑ کے صرف گانے پر توجہ تھی۔ مگر حاضرین کی پُرزور فرمائش پر اس نے کھڑے ہوکر ہلکے ہلکے دو ایک پھیرے لیے اور ایک غزل۔۔ہوا چاہتا ہے۔۔۔کیا چاہتا ہے۔۔سنائی۔ غزل ختم ہونے کو تھی کہ ایک مقامی شاعر نے پرچی آگے بڑھائی اور کہا ’’بائی جی ذرا یہ شعر بھی پڑھ دیجییِِ‘‘ شعر یہ تھا:

؎حمل نو مہینے کا ہے مشتری کو

کوئی دم میں بچہ ہوا چاہتا ہے

مشتری پرانی گھاگ اور پھر لکھنؤ کی۔ اس نے مسکراتے ہوئے ایک پھیرا لیا اور شعر پڑھ دیا۔ خوب قہقہے لگے۔ پھر مشتری نے کہا ’’حضور! اجازت ہو تو ایک شعر میں بھی پڑھ دوں‘‘، ’’ضرور ضرور‘‘ اس شاعر نے کہا۔ مشتری نے لے اٹھائی اور جھوم کے بولی:

؎کرو کرتا ٹوپی کا سامان صاحب

کہ ہمشیر زادہ جنا چاہتا ہے

فانیؔ بدایونی جن دنوں اٹاوہ میں ٹھہرے ان دنوں اٹاوہ کی ایک مغنیہ او رقاصہ’’نور جہاں‘‘ سے ان کی صاحب سلامت چل نکلی، مگر یہ تعلقات ابھی اپنے شباب پر نہ پہنچے تھے کہ بسلسلہ روزگار فانیؔ کو اٹاوہ سے آگرہ ہجرت کرنا پڑی۔ آگرہ میں فانی جیسے بڑے شاعر کی آمد کی جو دھوم مچی تو آگرے کی پری رو طوائف ’’ستارہ‘‘ نے بھی فانی سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ فانیؔ نے ہچکچاتے، جھجھکتے بالآخر اذن ملاقات بخشا۔ پہلی ملاقات میں ہی فانیؔ ستارہ کے ایسے اسیر ہوئے کہ پھر اس کے دام سے نہ نکل سکے۔

اپنے دفتری امور نمٹانے کے بعد فانیؔ سر شام ستارہ کو طلب کرتے اس سے اپنی غزلیں بہ ترنم سنتے اور پھر گفتگو کا سلسلہ پہروں جاری رہتا۔ میکشؔ اکبر آبادی اس تعلق کے رازداں تھے۔ ستم ہائے روزگار کہ فانی ؔکو با دل نخواستہ آگرہ سے حیدرآباد منتقل ہونا پڑا اور یوں یہ نیا تعلق بھی گردش زمانہ کی نذر ہو گیا۔ چند برس بعد ’’جے پور‘‘ کے ایک مشاعرے میں جب فانی کی ملاقات میکشؔ اکبرآبادی سے ہوئی اور گئے دنوں کا ذکر چھڑا تو فانی نے انہیں یہ شعر سنایا:

؎گرچہ تھی صبحِ آگرہ بے’’نور‘‘

اوج پر تھا مگر ’’ستارۂ‘‘ شام

استاد الاساتذہ شاہ نصیر دہلوی، مہاراجا چندو لال کی دعوت پر حیدر آباد تشریف لے گئے۔ ان کے ایک دوست حیدرآباد کی ’’بخیا‘‘ نامی خوش گلو طوائف پر دل ہار بیٹھے۔ شاہ نصیر کو علم ہوا تو ایک محفل میں جہاں ’’بخیا‘‘ بھی موجود تھی، اس کو مخاطب کرتے ہوئے بولے:

؎جس طرف تو نے کیا ایک اشارہ نہ رہا

’بخیا‘! آہ تری چشم کا مارا نہ رہا

The post کوچۂ سخن اور ’’کوئے ملامت‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>