(شعبہ صحافت، پنجاب یونیورسٹی لاہور)
عورتوں کو میراث، تعلیم، صحت، اور برابری کے حقوق فراہم کرنے کیلئے معاشرتی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ان کو سماج میں اپنے تناسب کے اعتبار سے مکمل شرکت دینی چاہئے تاکہ ان کا تعلق پورے معاشرتی نظام کے ساتھ قائم ہو۔ حق میراث عورت کا بنیادی حق ہے۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی خواتین کی اکثریت کو ان کے حق کے مطابق وراثت میں حصہ نہیں ملتا۔ وہ لوگ جو بے خیالی میں یا جان بوجھ کر عورت کو حقِ وراثت سے محروم کر کے حرام مال کی جانب جا رہے ہیں، انہیں اس گناہ سے بچنا چاہیے۔
دورِ جاہلیت میں اہل عرب مختلف قبیلوں اور طبقوں میں بٹے ہوئے تھے۔ وراثت میں ان کے ہاں چھوٹے بچوں اور عورتوں کا کوئی حصہ نہ تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے جہاں شرک وکفرکا خاتمہ ہوا اور دیگر تمام باطل رسموں کی اصلاح ہوئی، وہیں یتیموں کے مال اور عورتوں کے حقوق و میراث کے سلسلے میں بھی تفصیلی احکامات نازل ہوئے۔
اسلام سے قبل دنیا کی مختلف تہذیبوں اور معاشروں کا جائزہ لیں اور عورت کی حیثیت کو پہچاننے کی کوشش کریں تو ہم اس نتیجے پرپہنچتے ہیں کہ عورت بہت مظلوم اور معاشرتی و سماجی عزّت و احترام سے محروم تھی۔ اسے تمام برائیوں کا سبب اور قابلِ نفرت تصور کیا جاتا تھا۔ یونانی، رومی، ایرانی اور زمانہ جاہلیت کی تہذیبوں اور ثقافتوں میں عورت کو ثانوی حیثیت سے بھی کمتر درجہ دیا جاتا تھا۔
درحقیقت عورت کی عظمت، احترام اور اس کی صحیح حیثیت کا واضح تصور اسلام کے علاوہ کہیں نظر نہیں آتا۔ اسلام نے عورت کو مختلف نظریات و تصورات کے محدود دائرے سے نکال کر بحیثیت انسان، مرد کے برابر درجہ دیا۔ چوں کہ زمانے کا رواج میراث میں عورتوں کو نظرانداز کرنے کا تھا اس لئے اللّہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں عورتوں کے حقوق کا ذکر خصوصیت سے کیا۔
ان میں ایک عظیم احسان یہ ہے کہ اسلام نے خواتین کو میراث کا حق دیا ہے۔ میراث اس مال کو کہتے ہیں جو مرنے والا بطورِ ترکہ چھوڑ کر جاتا ہے۔
اسلام نے مردوں کی طرح عورت کا بھی میراث میں حصہ متعین فرماکر عورت کی بڑی تکریم کی۔ زمانہ جاہلیت میں عورت حقِ میراث سے محروم تھی بلکہ وہ خود ہی سامانِ میراث تھی۔ عرب کے لوگ عورت کو بھی اپنی وراثت کا حصہ سمجھتے تھے، جس سے قرآن نے منع کیا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ:
ترجمہ:’’ایمان والو! تمہیں حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کو ورثے میں لے بیٹھو‘‘ [النساء :۱۹]
معاشرے میں خواتین کو وراثت سے محروم کرنے کی ایک اہم وجہ وراثت کی ادائیگی کی اہمیت اور عدم ادائیگی کے گناہ سے ناواقفیت بھی ہے۔ علمائے دین اور مذہبی طبقہ کو بالخصوص اس کے متعلق آگاہی دینی چاہیے۔ لوگوں کو بتانا چاہیے کہ قرآن مجید میں وارثوں کا حق ادا نہ کرنے والوں کے لیے کتنے شدید عذاب کی وعید ہے۔
بعض لوگ ملک کے قانون میں اپنے مطلب کے راستے تلاش کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے: ترجمہ: یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں۔ جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرے گا اسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔
اور جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کرے گا اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز کر جائے گا اسے اللہ آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔ [سورہ النساء :۱۳،۱۴]
عورت کا وراثت میں حق اگر مرد کے قبضہ میں ہے تو وہ اس کے پاس امانت کے طور پر ہوتا ہے پھر چاہے عورت بہن ہو، بیٹی ہو، ماں ہو یا پھر بیوی، اس امانت کو عورت کو پہنچا کر ہی خیانت سے بچا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے قرآن پاک میں ارشاد ہے: ترجمہ: اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ‘‘[النساء :۵۸]
کچھ لوگ عورت کو مرد کا تابع سمجھتے ہیں اور کسی بھی جگہ پر عورت کو ملکیت کا حق دینے کے قائل نہیں ہوتے۔ جبکہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ: ترجمہ: ’’اے ایمان والو! اپنے آپس کے مال ناجائز طریقہ سے مت کھاؤ‘‘ [النساء :۲۹] اس آیت میں شوہر کو بھی بیوی کا مال بغیر اجازت خرچ کرنے سے منع کیا گیا ہے اور اس سے عورت کا حقِ ملکیت واضح ہو جاتا ہے۔
اسلام کا قانونِ وراثت عورت کے حق کی تنصیف یا تخفیف نہیں بلکہ حسن معاشرت و معیشت کے قیام کے تصور پر مبنی ہے۔ عورت کا حصہ تقسیمِ وراثت کی اکائی ہے، آپ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر غور فرمائیں: ترجمہ:’’لڑکے کو دو لڑکیوں جتناحصہ ملے گا۔‘‘ [النساء :۱۱] متذکرہ بالا آیت مبارکہ کے الفاظ پر غور تقسیمِ میراث کے بنیادی پیمانے کو واضح کرتا ہے۔
یہاں مرد و عورت کا حصہ وراثت بیان کرتے ہوئے عورت کے حصے کو اکائی قرار دیا گیا کہ ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصوں کے برابر ہے۔
یہ نہیں کہا گیا کہ ایک عورت کاحصہ مرد کے نصف حصہ کے برابر ہے بلکہ تقسیم میراث کے نظام میں عورت کے حصہ کو اساس اور بنیاد بنایا گیا اور پھر تمام حصوں کے تعین کے لئے اسے اکائی بنایا گیا۔ گویا میراث کی تقسیم کا سارا نظام عورت ہی کے حصہ کی اکائی کے گرد گھومتا ہے جو درحقیقت عورت کی تکریم و وقار کے اعلان کا مظہر ہے۔
دوسری بات یہ کہ وراثت میں عورت کا حصہ مرد کے مقابلے میں نصف رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ عورت کو نفقہ اور مہر کے حقوق حاصل ہیں جن سے مرد محروم ہے۔ عورت کا نفقہ صرف اس کے شوہر ہی پر واجب نہیں بلکہ شوہر نہ ہونے کی صورت میں باپ، بھائی، بیٹے یا دوسرے اولیا پر اس کی کفالت واجب ہوتی ہے۔
اسی طرح دوسری جگہ پر جاہلیت کی رسوم کے خلاف اسلام کے امتیازی قانون کو قرآن مجید نے اس طرح بیان کیا ہے: ’’مردوں کے لئے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لئے بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت، اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے۔‘‘ [النساء : ۷]
ان تمام حوالوں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جو حقوق کسی بھی مخلوق کے لیے اللہ نے رکھ دئیے ہیں ان کی نفی کوئی نہیں کر سکتا۔ علاج یہی ہے کہ مسلمان خاص کر عورتیں علم دین حاصل کریں، بصیرت کے ساتھ زندگی گزاریں، دین کا بنیادی علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے، میراث کا تعلق ہر مسلمان سے ہے۔
لہٰذا اس کا علم عوام تک پہنچانا اہل علم کی ذمہ داری ہے۔ خطباتِ جمعہ، دروس، اجتماعات، دینی اجتماع، نجی مجلسیں، عوامی محفلوں اور سوشل میڈیا پر اس کا چرچا ہونا چاہیے۔
تاکہ عوام اس کی اہمیت کو سمجھے۔ لوگوں پر لازم ہے کہ میراث کے سلسلے میں من مانی کرنے کے بجائے اہل علم سے مسئلہ معلوم کریں اور اسی کی روشنی میں میراث تقسیم کریں، اور اللہ سے ڈرتے رہیں۔اللہ تعالیٰ نے ناجائز طریقے سے مال کمانے اور کھانے سے منع فرمایا ہے، لہٰذا ہرقسم کے حرام مال سے بچیں اور یاد رکھیں کہ دنیا وآخرت کی سعادت وکامیابی اور جنت انہیں کو ملے گی جو نیکی کی راہ پر چلتے ہیں اور گناہوں سے بچتے ہیں۔
اللہ ہم سبھی کو میراث کی تقسیم میں شریعت کی اتباع کی توفیق بخشے، اور ناجائز کمائی اور اس کی برائی سے محفوظ رکھے، تاکہ عورتوں کو ان کا حقِ میراث مل سکے اور وہ ایک خوش حال زندگی گزار سکیں۔ (آمین)
The post اسلام میں عورت کا حقِ میراث appeared first on ایکسپریس اردو.