اسلام آباد: قدیم سے جدید عہد تک فحاشی اور عریانی کی حدود و قیود ہر معاشرے میں گو مختلف رہی ہیں مگر اس کے باوجود تمام الہامی اور غیر الہامی مذاہب اس بات پر متفق ہیں کہ حد سے بڑھا ہوا یہ جذبہ کسی بھی سماج اور معاشرت کی فلاح وبہبود کے لیے زہر قاتل ثابت ہو تاہے لیکن کیا کیا جائے۔
اس خوف ناک تنبیہ کے باوجود فحش اور عریاں مواد اور مواقع سے لطف اندوز ہونے کا چسکا انسان کے اندر سے گیا نہیں۔ شاید اسی لیے یہ جذبہ فحاشی اور عریانی سے لطف اندوز ہونے کے لیے کبھی ڈھکے چھپے، کبھی اشاروں کنایوں اور کبھی کھلم کھلا انداز میں سامنے آہی جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس جذبے کی بنیاد جنسی تسکین ہے جو قریباً تمام جان داروں میں ہوتی ہے مگر جب یہ جذبہ فحاشی اور عریانی کی حد میں داخل ہو جاتا ہے تو مخالف جنس کو اپنی جانب متوجہ کرنے سے لے کر جنسی اعضا کی سر عام نمائش (Exhibitionism)سے بھی کہیں آگے نکل جاتا ہے، جس سے سماج اور اخلاقیات کے طے کردہ متفقہ اصول وضوابط ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
اگر ہم اس بات کی تصدیق کرنا چاہیں توہمیں آج بھی انٹرنیٹ کی معلومات سے بھری جدید دنیا میں کچھ تاریک گوشے ایسے بھی نظرآئیں گے، جہاں عریانی اور فحاشی کے ذریعے اخلاقی اقدار کو تباہ وبرباد کرنے کا سارا اہتمام موجود ہے اور اب یہ ہی گوشے پوری دنیا کے لیے ایک گھمبیر مسلہ بن چکے ہیں۔ انٹرنیٹ کی دنیا کا ایک تاریک پہلو آن لائن پورنوگرافی یا فحش ویب سائٹس بھی ہیں جن کے ذریعے بے ہودہ مواد اور فحاشی کا زہر بچوں اور نوجوان نسل کے اندراتارا جارہا ہے۔
آن لائن فحاشی کوآج مغرب کا مسئلہ سمجھ کرآنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں کیوں کہ ٹیکنالوجی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی ، میڈیا کے ذریعے ہر روز معصوم بچیوں کے ساتھ جنسی تشدد اور زیادتی کے واقعات منظر ِعام پرآرہے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بے دار قومیں جدید دنیا کے اس خطرے کو بھانپ چکی ہیں۔ اسی تناظر میں چند دن پہلے جب برطانوی حکومت نے ایک نئے قانون کا اعلان کیا تو یوں محسوس ہوا کہ تمام تر مادر پدرآزادی کے باوجود سماجی ضابطے ابھی اتنے کم زور نہیں ہوئے۔
اس حساس معاملے نے بہت سی فلاحی تنظیموں کو اس وقت چونکا دیا تھا جب لندن میں ایک دس سال کے بچے کو ریپ کیس میں گرفتار کیا گیا۔ اس واقعہ کے بعد بچوں کے تحفظ کی ایک تنظیم کی جانب سے ایک باقاعدہ مہم کا آغاز کیا گیا تھا اورحکومت سے آن لائن فحاشی پر مکمل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ پیش کیا تھا۔ یوں برطانیہ میں فروخت کیے جانے والے کمپیوٹرز میں کمپیوٹر پہلی مرتبہ لاگ آن ہونے پر سوال کیا جاتا ہے کہ کیا آپ کے گھر میں بچے ہیں؟ جواب اگر ہاں ہو تو انٹرنیٹ سروس پروائیڈر والدین کو فلٹر انسٹال کر نے کی ہدایت کرتا ہے۔
اس فلٹر کی مدد سے نہ صرف ایسی ویب سائٹس کو بلاک کیا جا سکتا ہے بلکہ والدین خود اپنے بچوں کی سوشل ویب سائٹس پر بیٹھنے کے اوقا ت بھی مقرر کرسکتے ہیں۔ اس فلٹر کو نصب کرنے والے کی عمر 18 سال سے زائد ہونی چاہیے جس کی پڑتال انٹرنیٹ سروس پہنچانے والی کمپنی کرتی ہے ۔اب والدین کو یہ بات یقینی بنانی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے انٹرنیٹ کے استعمال پر نظر رکھیں۔برطانیہ میں اس قانون کا اطلاق رواں سال کے آخر تک ہوجائے گا۔
نومبر 2013 میں برطانوی اخبار ڈیلی میل میں گوگل کے چیف ایگزیکٹو ایرک شمٹ اپنے ایک مضمون میں لکھا تھاکہ گوگل اور مائیکروسافٹ نے ایسے نئے پروگرام متعارف کروائے ہیں جن کی مدد سے فحش تصاویر کی تلاش کا عمل روکا جا سکے گا۔ ان تبدیلیوں کی وجہ سے بچوں کے جنسی استحصال سے متعلق ایک لاکھ سے زیادہ سوالات کے نتائج حذف کر دیے گئے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جلد ہی 150 سے زیادہ زبانوں میں ان تبدیلیوں کو لاگو کر دیا جائے گا چناںچہ اس کا اثر ساری دنیا پر پڑے گا۔ بچوں کے جنسی استحصال سے متعلق مواد کے بارے میں کمپنی پہلے ہی زیرو ٹالرنس کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور اب وہ رسائی روکنے کے لیے مزید سخت انتظامات کر رہی ہے۔
گوگل اور مائیکروسافٹ نے ایسے مواد فراہم کرنے والے نیٹ ورکس کے خلاف کارروائی میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی اور انٹرنیٹ واچ فاؤنڈیشن کی مدد کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے بھی اس اعلان کا خیرمقدم کیا تاہم ان کا یہ بھی کہناتھا کہ اس پر عمل ہونا چاہیے ورنہ وہ اس سلسلے میں نیا قانون لا سکتے ہیں۔کیے جانے والے اقدامات سے شاید برطانوی حکومت کی تسلی نہیں ہوئی تھی اس لیے نئے قانون کی ضرورت محسوس کی گئی، اب اس قانون کے تحت بالغ فحش مواد رکھنے والی انٹر نیٹ ویب سائٹس کو اس بات کا پابند بنایا جائے گا کہ وہ اپنے’’وزیٹرز‘‘ سے ان کی عمر کا ثبوت ہر حال میں حاصل کریں۔ اس قانون کی ضرورت اس لیے پیش آئی کی جب سوچنے والے ذہن پوچھتے ہیں کہ انٹرنیٹ پربالغان کے حوالے سے موجود فحش مواد تک بچے کس طرح رسائی حاصل کر رہے ہیں؟ فحاشی کا بچوں پرکیا اثر پڑتا ہے یا پھر بچے جنسیات سے متعلق وہ کیا سیکھ رہے ہیں؟ تو ان سوالات کا جواب کسی کے پاس نہیں ہوتا۔آج ان سوالات نے ترقی یافتہ قوموں کو پریشان کر رکھا ہے۔
انٹرنیٹ سے متعلق ’’اوپٹی نیٹ‘‘ کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ انٹرنیٹ کا تقریباً 37 فی صد حصہ فحش اور عریاں مواد پر مشتمل ہوتاہے اور حالیہ برسوں میں تو ایسی ویب سائٹس کی تعداد میں بے پناہ اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسمارٹ فونز اور سوشل میڈیا کے ذریعے ان سائٹس تک رسائی بہت آسان ہو چکی ہے۔
ایک معروف نشریاتی ادارے کی جائزہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ ایک ماہ کے دوران صرف ایک فحش ویب سائٹ کو 112,000 نوجوانوں نے دیکھا جن کی عمریں 12 سے 18 برس کے درمیان تھیں۔ شاید اسی لیے برطانوی حکومت نے فحش ویب سائٹس تک بچوں کی رسائی ناممکن بنانے کے لیے کئی ایک اقدامات شروع کردیے ہیں ۔اب وزیٹرز کو ادارہ برائے ثقافت، میڈیا اور کھیل کی تجاویز کے تحت فحش ویب سائٹس تک رسائی کے لیے کریڈٹ کارڈ یا دیگر دستاویزات سے 18 برس کی عمر کا ثبوت فراہم کرنا ہو گا۔
برطانوی اعدادوشمار کے مطابق ہر 4 میں سے ایک برطانوی بچہ 12 برس یا اس سے بھی پہلے کسی نہ کسی طرح فحش ویب سائٹس سے متعارف ہوجاتا ہے۔ 1000 نوجوانوں میں سے 7.3 فی صد نے پہلی بار 10 برس سے بھی کم عمر میں، 60 فی صد نے 14 برس یا اس سے کم عمری میں فحش مواد تک رسائی حاصل کر لی تھی۔ 62 فی صد کے مطابق غیر متوقع طور پر یا کسی کے اصرار پر ایسی ویب سائٹس دیکھی تھیں۔ 22 فی کا کہنا تھا کہ انھوں نے کی سرچ انجن پر جا کر ایسی ویب سائٹس کو خود تلاش کیا ۔
انٹرنیٹ کے اثرات کے حوالے سے اسکول اساتذہ کی یونین (اے ٹی ایل) کے ایک سروے میں شامل 40 فی صد اساتذہ نے بتایا کہ گذشتہ پانچ برسوں کے دوران طلبا میں جنس کے حوالے سے بات چیت کرنے کے رجحان میں بہت نمایاں اضافہ ہوا ہے مگر اتنی ہی تعداد میں نوجوانوں میں موبائل فون کے ذریعے نازیبا تصاویر اور پیغامات بھیجنے کا رجحان بھی بڑھا۔ اساتذہ کی جانب سے یہ سروے فروری 2014 میں پیش کیا گیا تھا مگرتب برطانوی ہاوس آف لارڈ نے جنس اور تعلقات کی تعلیم کو لازمی بنانے کے ترمیمی قانون کی مخالفت میں ووٹ دیا تھا۔
اگرچہ آن لائن سیفٹی بیش تر ملکوں کے تعلیمی نظام کا حصہ نہیں ہے لیکن ایک نجی تنظیم ’’ لنڈن گرِڈ فار لرننگ‘‘ کی جانب سے انٹرنیٹ کے محفوظ استعمال سے متعلق آگاہی کے ایک پروگرام کے تحت پرائمری اور سکینڈری اسکولز کا دورہ کیا گیا۔ ’’گلوبل سیفر‘‘ انٹرنیٹ ڈے کے موقع پر تنظیم کی طرف سے جاری کردہ سروے میں لندن کے اسکولوں کے 17,000 بچوں سے ان کے آن لائن مشاغل اوردل چسپوں کے بارے میں معلومات لی گئیں، جن میں19 فی صد بچوں نے بتایا کہ انھیں اکثر ایسی ویب سائٹس نظر آتی ہیں جن کو دیکھ کر وہ ہر گز اچھا محسوس نہیں کرتے، 10 فی صد بچوں نے بتایا کہ انھیں اجنبی افراد کی جانب سے نازیبا پیغامات اور تصاویر موصول ہوتی ہیں۔
جائزہ رپورٹ کے مصنف اور تنظیم سے وابستہ کرسٹین اسمتھ نے آن لائن سیفٹی مہم کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ لندن کے بیش تر اسکولوں میں بچوں کو سائبر جرائم اور آن لائن فحاشی اور اسمارٹ فون پرنازیبا تصاویر کے تبادلے جیسے حساس مسائل کا بھی سامنا ہے اور ان کواس امر سے آگاہی فراہم کرنے کے لیے خصوصی کلاسوں کا اہتمام کیا گیا ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ کمرۂ جماعت اس حوالے سے بہترین جگہ ہو سکتی ہے جہاں بچے سیکھنے کے لیے جمع ہوتے ہیں اور ان کے اندر سنجیدگی پائی جاتی ہے مگر والدین پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کی تربیت پر توجہ دیں اور انھیں وقت کے دھارے پر ہی نہ چھوڑیں۔ پاکستان میں گذشتہ پانچ برس کے اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طور پر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی میں اضافہ ہوا ہے۔
چائلڈ پورنو گرافی کے خلاف، فیس بک اور مائیکرو سافٹ کی مشترکہ مہم
انٹرنیٹ پر چائلڈ پورنوگرافی کے خلاف دنیا کے مختلف ممالک میں کارروائیاں جاری ہیں گو کہ اب مائیکرو سوفٹ اور فیس بک نے مشترکہ طور پر اس گھناؤنے کاروبار کے خلاف منصوبہ بندی کا فیصلہ کیا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی دنیا بھر میں انٹرنیٹ پر بچوں کی عریاں فلموں کی ترسیل اور فراہمی روکنے کے حوالے سے کوششیں جاری ہیں جو تا حال وہ کام یابیاں حاصل نہیں ہو کر سکیں جس کی توقع کی جا رہی تھی۔
دونوں کمپنیوں کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں بتایا گیا کہ فیس بک اب مائیکرو سافٹ کا تیار کردہ ایک سافٹ ویئر استعمال کرے گا۔اس کی مدد سے فیس بک پر شائع کی جانے والی تصاویر میں بچوں کی عریاں یا کسی بھی حوالے سے غیر اخلاقی تصاویر کا فوری طور پر پتا چل جایا کرے گا۔ اس سافٹ ویئرکوPhoto DNA کا نام دیا گیا ہے۔ اس سافٹ ویئرکا تعلق بچوں کے اغوا اور زیادتی کے روکنے کے حوالے سے قائم کیے گئے اداروں کے ڈیٹا بیس سے ہو گا۔ اس صورت میں تصویر کو فوری طور پر فیس بک سے ہٹا دیا جائے گا اور مجرموں کے بارے میں حاصل کی گئی معلومات اس ملک کے انویسٹی گیشن اداروں کو پہنچا دی جائے گی۔
مائیکرو سافٹ کے مطابق اب تک اس ٹیکنالوجی کی مدد سے دو ارب سے زیادہ تصاویر کی چھان بین کی جا چکی ہے۔ ان میں سے 2500 تصاویر ان بچوں کی تھیں، جن کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ مائیکرو سافٹ کے مطابق Photo DNA سے اس دوران کوئی بھی غلطی سرزد نہیں ہوئی اور تمام معلومات بالکل صحیح تھیں۔ اس دوران یہ بھی یقین دہانی کرائی گئی کہ اس سافٹ ویئر کا فیس بک کی اسپیڈ پرکوئی اثر نہیں پڑے گا اور فیس بک ایسا کر کے انٹرنیٹ انڈسٹری میں ایک مثال قائم کر رہا ہے۔
سیاست دان اور باپ کی حیثیت سے کام کرنے کا وقت آگیا،چائلڈ پورنو گرائی تک رسائی ناممکن بنانا ہوگی۔ ڈیوڈکیمرون
انٹرنیٹ فحاشی سے متعلق صورت حال میں سنگینی اس وقت پیدا ہوئی جب برطانیہ میں پانچ سالہ اپریل جونز اور بارہ سالہ ٹیا شارپ کے قاتلوں نے بچیوں کواغوا کرنے اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے سے پہلے انٹرنیٹ پر موجودغیر قانونی مواد تک رسائی حاصل کی تھی۔
اب آن لائن فحاشی کے خلاف نئے قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرنے کے لیے حکومت نے تمام انٹرنیٹ کمپنیوں کو اس بات کا پابند بنایا ہے کہ وہ ایسی تمام ویب سائٹس کی سرچ کے نتائج کو بلاک کریں جن میں غیرقانونی فحش مواد موجود ہے جب کہ انھیں ایسا کرنے کے لیے اکتوبر 2014 تک کا وقت دیا گیا ہے اور ساتھ ہی متنبہ کیا ہے کہ اگر انٹرنیٹ کمپنیاں غیر قانونی مواد ہٹانے کیلیے موثر اقدامات کرنے میں ناکام رہتی ہیں تو ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جا سکتی ہے۔
نئے منصوبے کے تحت برطانیہ بھر میں انٹرنیٹ سروس پروائیڈر Isp کی جانب سے صارفین کے لیے ایک آٹومیٹک فلٹرمتعارف کرایا جارہا ہے جس کا مقصد انٹرنیٹ کی تاریک دنیا کے زہر سے بچوں کو بچانا ہے۔ یہ آٹومیٹک فلٹر اسی برس کے اختتام پر تمام گھریلو انٹرنیٹ صارفین کو فراہم کیا جائے گا جب کہ موجودہ صارفین کو اگلے برس تک یہ ہی سروس فراہم کی جائے گی۔ انٹرنیٹ کے ذریعے پھیلنے والی فحاشی کے سد ِباب کے لیے نئے منصوبے سے متعلق بات کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ کمپنیوں کی جانب سے فحش مواد کو ہٹانے کے لیے خاطر خواہ کوششیں نہیں کی جارہی ہیں جو کہ ان کا اخلاقی فرض ہے۔
انٹر نیٹ کی تاریک دنیا میں ایسی بہت سی چیزیں موجود ہیں جن سے بچوں کو براہِ راست خطرہ لاحق ہے جسے ہر حال میں روکنا ہو گا اور ایک سیاست دان اور باپ کی حیثیت سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اب اس معاملے پر کام کرنے کا وقت آگیا ہے۔ ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ انٹر نیٹ پر بچوں کی پورنو گرائی تک رسائی روکنے کے لئے والدین کو زیادہ آگاہی حاصل کرنی چاہیے، پرائم منسٹر کیمرون نے اعتراف کیا کہ وہ خود ابھی تک اس کش مہ کش میں مبتلا ہیں کہ اپنے بچوں کے ساتھ انٹرنیٹ پورن کے خطرات کے بارے میں کس طرح بات کریں، اسکولوں میں سیکس اینڈ ریلیشن شپ ایجوکیشن میں انٹرنیٹ پورن کے ایشو کو حل کرنا چاہیے ۔
تاہم انہوں نے ایجوکیشن سیکرٹری مائیکل گوو سے اتفاق کیا کہ نصاب میں ہول سیل ریفارمر کی کوئی ضرورت نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ہم انٹرنیٹ کے پرابلمز کے بارے میں اپ ٹو ڈیٹ ہیں، میں ایجوکیشن سیکرٹری سے اتفاق کرتا ہوں کہ میں سیکس ایجوکیشن پر نصاب میں ہول سیل ریفارمز نہیں چاہتا، ہمیں ان پوائنٹس کے بارے میں الرٹ ہونا چاہیے اور تبدیلیاں کرنی چاہئیں مگر میرے خیال میں ہول سیل ریفارمز کی ضرورت نہیں۔
ہم سب کو انٹرنیٹ کے متعلق سیکھنا چاہیے، اس کے خطرات کے بارے میں واقفیت حاصل کرنی چاہیے اور بچوں کی رسائی کے ایشو پر معلومات حاصل کرنی چاہییں۔ والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ پورن کے بارے میں گفت گو کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے اور بچوں کی رسائی محدود کرنے کے لیے پیرنٹل کنٹرولز کے استعمال کی آگاہی حاصل کرنی چاہیے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ سکول میں سیکس اینڈ ریلیشن شپ ایجوکیشن اس میں مدد کرسکتی ہے لیکن زیادہ تر کمپیوٹر تک رسائی گھروں پر ہوتی ہے، میں اس صورت حال سے خوف زدہ ہوں، اس لیے ہم سب کو آگاہی حاصل کرنے کی ضرورت ہے، میں خود اپنے بچوں سے اس مسئلے پر بات کرنے پر کش مہ کش میں مبتلا ہوں۔