گرمی سے بچاؤ کے لیے قدرتی خوراک
ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث دور حاضر میں جہاں موسم گرم طویل تر ہوتا جا رہا ہے، اسی طرح سخت موسم کے اثرات سے خود کو بچانا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ہر ذی روح گرمی کے اثرات بد سے بچنے کی فکر اور کوشش میں ہے۔ گرمی کے موسم میں پیاس، پسینہ اور گھبراہٹ کے تاثرات عام طور پر پائے جاتے ہیں۔
پسینہ گوکہ انسانی بدن کے لئے صحت مندی کی علامت ہے، کیوں کہ یہ انسانی جسم سے مضر اور فاضل مادوں کو خارج کرنے کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے لیکن بعض اوقات بداحتیاطی سے مفید اجزاء بھی بدن انسانی سے خارج ہو جاتے ہیں، جو پھر جسمانی کمزوری کا باعث بنتا ہے۔ ایسے میں جسمانی توانائی کو برقرار رکھنا نہایت ضروری ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے سب سے پہلے غذا پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایسے پھلوں کا استعمال زیادہ کریں، جن میں پانی کی مقدار زیادہ اور ان کی تاثیر ٹھنڈی ہو۔ یہاں ہم آپ کو ایسی غذاؤں کے متعلق آگاہ کریں گے جن کے استعمال سے گرمی کو مات دی جا سکتی ہے۔
تربوز:عرصہ دراز سے بچوں اور بڑوں کے پسندیدہ پھل تربوز سے زیادہ کوئی چیز انسانی جسم کو گرمی کی حدت کے مضر اثرات سے بچاؤ میں فوقیت نہیں رکھتی۔ تربوز میں 90 فیصد پانی ہوتا ہے اور یہ انسانی جسم کو پانی کی کمی کا شکار نہیں ہونے دیتا۔ تربوز میں وٹامن اے اور سی شامل ہونے کے علاوہ یہ کینسر اور دل کی بیماریوں کے بچاؤ میں بھی نہایت مفید ہے۔
خربوزہ:پانی کی بھرپور مقدار رکھنے والا خربوزہ انسانی جسم کو ڈی ہائیڈریشن سے بچاتا ہے۔ خربوزے میں کیلوریز اور پوٹاشیم کم مقدار ہونے کی وجہ سے یہ وزن میں کمی کا بھی باعث بنتا ہے۔
ترش پھل:مالٹا، انگور اور لیموں جیسے ترش پھل بہت زیادہ ٹھنڈی تاثیر رکھتے ہیں۔ مزیدار ذائقوں کے علاوہ یہ پھل آپ کو صحت مند اور جوان بنائے رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ترش پھل نظام انہضام کو بہتر بنا کر عمومی صحت کو برقرار رکھتے ہیں۔
کھیرا، گاجر، سلاد اور پودینہ:پھلوں کے علاوہ ٹھنڈی تاثیر رکھنے والی سبزیاں بھی موسم گرما میں انسانی جسم کے لئے نہایت مفید ہیں۔ ہمارے ہاں بہت ساری ایسی سبزیاں پائی جاتی ہیں، جو جسمانی درجہ حرارت کو کم ہونے روکے رکھتی ہیں۔ایسی سبزیوں میںکھیرا، گاجر، سلاد اور پودینہ شامل ہیں جن میں پانی کی ایک خاص مقدار شامل ہوتی ہے جو خون کو پتلا اور جسمانی درجہ حرارت میں کمی لاتی ہیں۔
مشروبات:سبزیوں اور پھلوں کے علاوہ مشروبات کا چناؤ بھی عقلمندی سے کیا جائے۔ ایسے مشروبات استعمال کئے جائیں، جو صرف ذائقے کے لئے نہ ہوں بلکہ جسم میں نمکیات کی کمی کو بھی پورا کریں۔
لہسن: دماغ کے کینسر کے لیے اکسیر
واشنگٹن میں کی گئی تازہ ترین تحقیق کے مطابق لہسن کسی بھی طرح کے مضر اثرات کے بغیر دماغی کینسر کے خاتمہ کیلئے نہایت مفید ہے۔ کینسر جرنل میں شائع ہونے والی نئی تحقیق میں محققین کا کہنا ہے کہ لہسن نہ صرف دماغ میں کینسر کی پیدائش بلکہ اسے پھیلنے سے روکنے کیلئے بھی مدافعتی آکسیجن پیدا کرتا ہے۔
دماغ کے کینسر کے علاج کیلئے عمومی طور پر کیموتھراپی یا ریڈی ایشن کا سہارا لیا جاتا ہے جو بدقسمتی سے دماغ کے خلیوں کو بھی مار دیتی ہے، پھر یہ علاج بھی تقریباً 15ماہ تک چلتا ہے۔ مزید برآں کیموتھراپی کا سہارا لینے والے کینسر کے 90فیصد مریض علاج کے 10سے 15سال بعد فوت ہو جاتے ہیں۔ نئی تحقیق اس حوالے سے شاندار ہے کہ لہسن کے ذریعے کینسر کے علاج میں دماغی خلیے محفوظ رہتے ہیں۔ امریکہ میں کی جانے والی ایک اور تحقیق میں کہا گیا ہے کہ لہسن میں پائے جانے والے اجزاء اینٹی بائیوٹک ادویات سے سو فیصد زیادہ موثر ثابت ہو سکتے ہیں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ لہسن کے باقاعدہ استعمال سے قوت مدافعت بڑھتی ہے جو کینسر سے بچاؤ میں بے حد معاون ثابت ہوتی ہے۔ لہسن میں موجود سلفر کے اجزا جسم کی قوت مدافعت کو بڑھاتے ہیں جبکہ متعدد وبائی امراض کو روکنے میں بھی معاون ثابت ہوتے ہیں۔
یاد رہے کہ سبزیوں میں لہسن کو (فوائد کے حوالے سے) نمایاں مقام حاصل ہونے کی وجہ سے گزشتہ 20 برسوں کے دوران اس پر کم و بیش 3 ہزارتحقیقات کی جاچکی ہیں۔غذائی اجناس پر ہونے والی نئی تحقیق کے مطابق بلڈپریشر کی بیماری کے علاج میں لہسن کا استعمال کسی بھی دوائی سے کئی درجے بہتر ہے۔
یہ حیران کن تحقیق گزشتہ روز پاکستان جرنل آف فارماسیوٹیکل سائنسز میں شائع ہوئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ لہسن کا استعمال بلڈپریشر کے ایسے مریضوں کے لئے بھی نہایت مفید ہے، جنہیں ہائپر ٹینشن (خون کا غیرمعمولی دباؤ) کا مرض بھی لاحق ہو۔ ہائپر ٹینشن ایک ایسا مرض ہے جس کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک میں موت کی شرح ایک فیصد ہے۔ ہائپر ٹینشن کو خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے جو ہارٹ اٹیک کا باعث بھی بنتا ہے۔ لہسن دراصل قدیم و روایتی طریقہ علاج میں بھی امراض قلب کے مریضوں کے لئے اکسیر سمجھا جاتا تھا۔
طبی ماہرین نے لہسن کی افادیت جس میں کولیسٹرول یا خون کو گاڑھا کر دینے والے چکنے مادے کو کم کرنے اور بلند فشار خون کے علاج کے طور پر قدرت کے اس تحفے کو کبھی بھی بے اثر نہیں سمجھا۔ طبی ماہرین کے مطابق درحقیقت 12سوایم جی پر مشتمل لہسن کی خوراک بلڈپریشر کم کرنے کے لئے مارکیٹ میں دستیاب معروف دوائی سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ آج جہاں ہائی بلڈ پریشر یا بلند فشار خون کے لئے مختلف ادویات کا استعمال عام ہو گیا ہے، وہاں طبی سائنس کے شعبے میں ریسرچ کرنے والے ترقی یافتہ ممالک میں بھی محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس ضمن میں لہسن کا استعمال نہایت مفید ہے۔
ہلدی نفسیاتی امراض کے لیے مفید اور زود اثر
لندن میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق گوکہ مسائل زندگی کو بامقصد ، دلچسپ اور سرگرم رکھتے ہیں لیکن اگر یہ مسائل ذہنی صحت سے متعلق ہوں تو جینا مشکل بھی کر دیتے ہیں اور انسان جب اپنے مسائل کے سامنے ہار مان لیتا ہے تو اس کا ذہن بیمار ہونے لگتاہے جس کی وجہ سے اس میں کئی قسم کی ذہنی و نفسیاتی بیماریاں پیدا ہونے لگتی ہیں۔
نفسیاتی و ذہنی بیماریوں کے علاج کے لئے مارکیٹ میں بے شمار ادویات موجود ہیں لیکن حال ہی میں ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق ڈپریشن کے علاج میں ہلدی روایتی ادویات سے کہیں زیادہ فائدہ مند ہے۔ درد اور زخموں کے علاج وغیرہ کے لئے ہلدی کا استعمال تو قدیم زمانوں سے کیا جا رہا ہے، جس کا ذکر قدیم مذہبی کتب میں بھی ملتا ہے لیکن نئی سائنسی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ہلدی الزائمر(دما غی بیماری) اور ڈپریشن کے علاج میں بھی نہایت معاون ثابت ہوتی ہے۔ محققین کی تحقیق کے دوران ہلدی کے جادوئی مرکبات سامنے آئے ہیں۔
محققین نے ڈپریشن کے علاج میں ہلدی اور پروزک (نفسیاتی بیماری کے علاج کی دوائی کا نام) کے اثرات جاننے کے لئے 60 مریضوں پر ایک تحقیق کی، جنہیں تین گروپوں میں تقسیم کردیا گیا۔ 6ہفتوں کے کورس میں ایک گروپ کو صرف پروزک (20ایم جی)، دوسرے کو صرف ہلدی کا مرکب اور تیسرے کو پروزک اور ہلدی کا مرکب دونوں دیئے گئے۔
تحقیق کے نتائج میں یہ بات سامنے آئی کہ پروزک اور ہلدی کا مرکب اکٹھا لینے والوں میں 77.8فیصد، صرف پروزک لینے والوں میں 64.7فیصد جبکہ صرف ہلدی کا مرکب استعمال کرنے والوں میں 62.5 فیصد بہتری آئی لیکن ان نتائج کے باوجود محققین ہلدی کو سب سے زیادہ فائدہ مند قرار دیا ہے ۔
کیوں ہلدی کے حوالے سے مثبت چیز یہ ہے کہ اس کے استعمال سے پروزک کے برعکس کوئی ضمنی اثرات (سائیڈ ایفیکٹ) رونما نہیں ہوئے۔ ان نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے محققین نے ہلدی کو پروزک سے کہیں زیادہ بہتر قرار دیا ہے۔ انڈہ، سبزی، مچھلی کے ساتھ ہلدی کا استعمال انسانی صحت کے لئے بہت مفید ہے کیوں کہ یہ نہ صرف متعدد بیماریوں سے بچاتا ہے بلکہ پہلے سے موجود بیماری کے علاج میں بھی معاونت کرتا ہے، لہذا ہلدی کو روزمرہ کی غذاؤں کا ضرور حصہ بنایا جائے۔
نیم اور چقندر… حسن وصحت کے خزانے
سائنسی تحقیق جڑی بوٹیوں کے حوالے سے آئے روز نت نئے انکشافات کر رہی ہے، حال ہی میں نیم کے درخت پر ہونے والی نئی ریسرچ نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ جلد، بالوں اور عمومی صحت پر حیران کن مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ نیم اور تلسی کے پتوں کو پیس کر یا ان دونوں کے پاؤڈر کو عرق گلاب میں ملا کر چہرے پر لگانے سے کیل مہاسوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔
نیم کے پتوں میں شامل مرکبات جلد سے جھریوں کے خاتمے اور اسے نرم و ملائم بنانے میں نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ نیم کے پتوں کے تیل کا استعمال جلد کو نہ صرف ملائم بناتا ہے بلکہ بڑھتی عمر سے جلد میں پڑنے والی جھریوں کے خاتمے میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔ آنکھوں کے گرد پڑنے والے سیاہ حلقے انتہائی بھدے دکھائی دیتے ہیں، جن سے خصوصاً خواتین کو شدید پریشانی کا سامنا ہوتا ہے تو اس مشکل کا آسان اور مکمل حل بھی نیم کے پتوں میں مضمر ہے۔ چہرے کو تازہ پانی سے دھونے کے بعد نیم کا پاؤڈر آنکھوں کے گرد پڑنے والے سیاہ حلقوں پر لگائیں اور 15منٹ بعد دوبارہ چہرہ دھو لیں۔
روزانہ اس مشق سے آپ سیاہ حلقوں کے خاتمہ میں واضح فرق محسوس کریں گے۔ روشن اور دمکتی جلد کے لئے نیم، (پھول کی) پتی کے پاؤڈر ، دہی اور دودھ کو ملا کر لگائیں اور 15منٹ بعد دھو لیں تو آپ دیکھیں گے کہ کیسے آپ کی جلد نکھرتی چلی جائے گی۔ شلجم کی مانند معروف ترکاری چقندر کے بارے میں ایک نئی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ اس میں اینٹی ٹاکسڈ پوٹینشل (عمل تکسید کو روکنے کی صلاحیت) بہت زیادہ ہے، جو نہ صرف علاج بلکہ بیماریوں سے بچاؤ کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اس ترکاری کے حیرت انگیز فوائد نے دنیا کی بڑی بڑی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو اپنی طرف راغب کر لیا ہے۔
چقندر میں موجود اجزاء (اینٹی ٹاکسڈ) آنکھوں سمیت جسم کے تمام حصوں کی صحت کے لئے نہایت مفید ہے۔ یہ تحقیق کرنے والے ایریزونا ہومیوپیتھک کے صدر اورامریکن ہومیو پیتھی میڈیکل کالج کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ایڈورڈ کونڈروٹ کا کہنا ہے کہ ’’چقندر کے ذریعے ہمیں آنکھوں کی بیماریوں کے قدرتی علاج میں بہت بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے، رنگوں سے بھرپور خوراک رنگین بصارت دے گی‘‘۔ منہ کی کسی بھی بیماری کے لئے چقندرکے رس کا ایک کپ (جو5سو ایم جی نائٹریٹ پر مشتمل ہوتا ہے) نہایت فائدہ مند ہے۔
مزید برآں چقندر کے جوس کا ایک کپ پینے سے بلڈ پریشر کو 10درجے تک کم کیا جا سکتا ہے جبکہ بعض افراد میں یہ جوس کا کپ بلڈپریشر کو نارمل سطح پر بھی لے آتا ہے۔ ماہرین کے مطا بق چقندر میں موجود نائٹریٹ خون کی نالیوں کو کھلا کرتا ہے اور بہاؤ کو بڑھاتا ہے جبکہ انجائنا میں مبتلا بہت سے مریضوں کو نائٹریٹ والی ادویا ت کی ہی ضرورت پڑتی ہے۔ واضح رہے کہ بلڈ پر یشر ایک ایسی بیماری ہے، جس پر کنٹرول نہ کیا جائے تو یہ ہارٹ اٹیک اور فالج کا باعث بن سکتی ہے۔
موبائل فون میں بیکٹیریا، ٹوائلٹ میں لے جانے سے گریز کریں
باتھ روم میں فون ساتھ لے کر مت جائیں کیوں کہ ایسا کرنے سے آپ صحت کے مسائل سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ حفظان صحت کے عالمی دن کے حوالے سے سینٹ جوزف ہیلتھ کیئر انفیکشن کنٹرول سینٹر میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس میں سینٹر کی منیجر اینی بیالاچوسکی نے سمارٹ فون اور ٹیبلیٹس پر اپنی تحقیق کے بارے میں شرکاء کو آگاہ کیا۔
بیالاچوسکی کا کہنا ہے کہ الیکٹرانکس کی اشیاء کا مختلف کیمیکلز اور سپرے کے پاس ہونا انسانی صحت کے لئے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔
قریب ہی موجود کیمیکلز کے باعث موبائل کی شعاعوں سے ایک خاص قسم کا بیکٹیریا (E.coli) جنم لیتا ہے جو انسان کو فلو میں مبتلا کردیتا ہے، یہ مختلف امراض کی پرورش کا باعث بھی بن سکتا ہے، لہٰذا ہمیں اس بارے میں فکر مند ہونا چاہیے۔
بدقسمتی سے اس بارے میں تحقیقات کا دائرہ کار محدود ہے کہ ہمارے ہاتھ میں موجود آلات سے نکلنے والی شعاعیں ہمیں کتنا اور کس طرح نقصان پہنچا رہی ہیں۔ اینی مزید کہتی ہیں کہ برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق یہاں ہر 6 میں سے ایک موبائل میں یہ بیکٹیریا (E.coli) موجود ہے۔