پاکستان کے دل شہرِ لاہور میں ایک ایسا قدیم قبرستان بھی ہے، جہاں مسلمان ، مسیحی اور ہندؤ والمیکی ( یا بالمیکی، یہ دونوں نام مستعمل ہیں) سماج کی قبریں ہیں، لیکن حکومت کی عدم توجہ سے اس کی حالت آج کافی خراب ہے۔
یہ قبرستان کئی برسوں تک متنازع رہا ہے جبکہ آج بھی یہاں ایک بزرگ حویلی شاہ کی قبر موجود ہے، جس سے متعلق مسلمان، مسیحی اور والمیکی ہندو دعوی کرتے ہیں کہ یہ بزرگ ان کے مذہب کے ماننے والے تھے۔
لاہور جی ٹی روڈ پر یونیورسٹی آف انجیئنرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے سامنے اور میٹرو اورنج لائن ٹرین اسٹیشن کی جنوبی سمت لاہور میں بسنے والی والمیکی ہندو برادری کا یہ اکلوتا قبرستان ہے۔
اس قبرستان کا داخلی راستہ جی ٹی روڈ پر تھا لیکن جب اورنج لائن میٹروٹرین کا اسٹیشن تعمیر ہوا تو قبرستان کے سامنے حصے کی دیوار چند فٹ پیچھے کرکے لوہے کا گیٹ لگا دیا گیا۔ یہ قبرستان زیادہ بڑا نہیں اور یہاں بمشکل ایک درجن کے قریب قبریں ہیں۔ جبکہ ایک طرف قبرستان کے چوکیدارکی ایک کمرے پر مشتمل رہائش ہے۔
قبرستان کے آدھے سے زیادہ حصے میں ان دنوں کئی کئی فٹ اونچی گھاس اگی ہے، مشرقی جانب کی دیوار بھی گرنے کاخدشہ ہے۔ قبرستان کے اندر ایک قدیم اور بڑا برگد کا درخت ہے، جبکہ ایک طرف مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لئے پختہ جنازہ گاہ بھی بنی ہے۔ قبرستان کے احاطے کی مٹی میں پتھر اور پلاسٹک کے ٹکڑے نظرآتے ہیں۔
زمین اتنی سخت ہے کہ یہاں قبرکھودنا کافی مشقت طلب کام لگتا ہے۔ یہاں بنائی گئیں تمام قبریں ایک جیسی ہیں تاہم دو قبریں پختہ ہیں، جن میں سے ایک سنت بابا سوداگررام کی ہے اور دوسری پختہ قبربابا حویلی شاہ کی ہے۔ تمام قبروں کے سرہانے کی جانب مٹی کے دیئے رکھے گئے ہیں لیکن شاید یہ دیئے کبھی جلائے نہیں گئے۔
یہ قبرستان اس وقت مکمل طورپر ہندو والمیکی برادری کے پاس ہی ہے، تاہم قبرستان میں چند پرانی قبریں ضرور ہیں، جن میں ایک قبر باباحویلی شاہ سے متعلق مسلمانوں اور والمیکی برادری کے مابین تنازع رہا اوربالاخرعدالت نے والمیکی برادری کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔
والمیکی قبرستان سے چند فرلانگ کے فاصلے پر مسلمانوں کا قدیم ترین بدھوکا آوا قبرستان ہے جبکہ اس سے چند فرلانگ پر مسیحی برادری کا ایک بڑا قبرستان واقعہ ہے۔
والیمکی قبرستان کا کچھ حصہ مسیحی برادری کو دیا گیا ہے جہاں ان کی قبریں ہیں۔ لاہورمیں والمیکی برادری کے اس اکلوتے قبرستان کی حالت زارکافی خراب ہے، احاطے کی مٹی میں پتھر اور پلاسٹک کے ٹکڑے مکس ہیں، جس کی وجہ سے قبر کھودنا کافی مشکل ہے، جبکہ بارشوں کی وجہ سے قبرستان کے کچھ حصے میں پانی بھی جمع ہو جاتا ہے، چند پرانے درختوں کی وجہ سے مشرقی دیوار بھی گرنے والی ہے۔
یہاں پانی کا کنکشن توموجود ہے لیکن نلکے نہیں لگائے گئے، جس کی وجہ سے یہاں آنے والی ہندوبرادری کو مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس قبرستان کے بارے میں بات کرتے ہوئے والمیکی ہندوبرادری کے مقامی لیڈر امرناتھ رندھاوا کہتے ہیں کہ انہوں نے قبرستان میں مٹی ڈلوانے، کچھ مرمت اور نلکے لگوانے کے لئے ڈپٹی کمشنرلاہور کو متعدد بار درخواستیں دیں ، اس کے لئے فنڈز جاری بھی کئے گئے لیکن شائد بنا کچھ نہیں۔ مقامی ہندؤں کے مطابق یہ قبرستان 1830ء سے یہاں موجود ہے اور ہندوشیڈول کاسٹ یہاں اپنے پیاروں کی تدفین کرتی ہے۔
لاہور سے تعلق رکھنے والے ہندو رہنما امرناتھ رندھاوا کہتے ہیں کہ عام طور پر ہندو برادی اپنے پیاروں کی چتا جلاتی ہے تاہم شیڈول کاسٹ ہندوؤں کی اکثریت اب اپنے مردوں کی تدفین کرتی ہے۔ پاکستان میں آباد شیڈول کاسٹ میں سب سے زیادہ آبادی بالمیک سماج کی ہے۔ امرناتھ رندھاواکے مطابق والمیکی سماج کے بانی مہارشی سوامی گورو بالمیک تھے۔
گورو بالمیک جی مورتی پوجا کے خلاف تھے چنانچہ والمیکی مندروں میں دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں نہیں ہوتیں۔ یہ لوگ وید پڑھتے اور رامائن کا پاٹھ کرتے ہیں اور اپنے مردوں کو عام ہندوؤں کے برعکس دفن کرتے ہیں۔ امرناتھ رندھاواکہتے ہیں قیام پاکستان کے وقت بالمیکی ہندؤں کی بڑی تعداد پاکستان میں ہی رہ گئی تھی۔ اس کے علاوہ بھیل، دلت اور میگھوار ہندوؤں کی بڑی تعداد بھی یہاں آباد ہے۔
لاہور میں چار سے پانچ ہزار بالمیک ہندوآباد تھے تاہم آج ان کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے۔ شیڈول کاسٹ ہندوؤں کی بڑی تعداد اپنا مذہب چھوڑ کر عیسائیت قبول کرچکی ہے۔ امرناتھ رندھاوا نے بتایا کہ شیڈول کاسٹ ہندؤں کا یہ قبرستان 1830ء سے موجود ہے۔
تاہم مقامی لوگوں نے اس پرقبضہ کر لیا تھا۔ ان کے دادا چوہدری تارا چند رندھاوا تحریک پاکستان میں کافی سرگرم رہے تھے، ان کی قبریہاں موجودہے۔ اس کے علاوہ یہاں بالمیک سماج کے کئی افرادکی قبریں اب بھی موجود ہے جبکہ زیادہ ترقبریں ختم کی جاچکی ہیں۔
مقامی لوگوں نے یہاں قبضہ کرکے ورکشاپ اورجوتوں کی فیکٹری بنادی تھی، لیکن اگست 1992ء میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے قبرستان کا قبضہ واگزارکروانے کے بعد یہ ہندوکمیونٹی کے حوالے کرنے کا حکم دیا تھا۔
اب یہ قبرستان ان کی برادری کے پاس ہی ہے۔ ان کے والد ہیرا لال رندھاوا،بھگت عاشق رام کے بعد انہوں نے اس قبرستان کا قبضہ واپس لینے کے لئے طویل قانونی جنگ لڑی ہے۔
اس قبرستان میں کئی مسیحی افراد بھی دفن ہیں جبکہ یہاں موجود گورگن بھی مسیحی ہے۔ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ یہاں ان مسیحی افرادکی قبریں ہیں جو خود یا ان کے اجداد ہندومذہب چھوڑ کر مسیحی بن گئے تھے۔
قیام پاکستان کے بعد نچلی ذات کے ہندوؤں کو کسی سرکاری ادارے میں نوکری ملتی تھی اور نہ انہیں علاج اور تعلیم حاصل کرنے کی سہولت تھی، جبکہ ان کے برعکس مسیحی کمیونٹی کو یہ سہولتیں میسر تھیں، جس کی وجہ سے والمیکی ہندؤوں نے مسیحی مذہب اختیار کر لیا۔ ان لوگوں کے جو بزرگ پہلے والمیکی مذہب پر فوت ہوئے، ان کی قبریں بھی یہاں ہیں اور جب یہ لوگ مسیحی بن گئے تو پھر ان کی قبریں بھی یہاں بنائی جانے لگیں۔
یہ لوگ اب یہ دعوی کرتے ہیں کہ یہاں ان کے اجداد کی قبریں ہیں اور یہ قبرستان مسیحی برادری کا ہے۔ یہ قبرستان کئی برسوں تک متنازع رہا ہے۔ یہاں موجود ایک قبر اس تنازع کی بنیادی وجہ ہے۔ حویلی شاہ نامی بزرگ کی قبرسے متعلق مسلمان اور مسیحی مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ دعوٰی کرتے ہیں کہ یہ قبر ان کے بزرگ کی ہے جبکہ ہندوؤں کا کہنا ہے کہ بزرگ کا ان کے مذہب سے تھا۔
امرناتھ رندھاوا کہتے ہیں کہ ہندؤں میں بھی شاہ خاندان ہوتے ہیں، حویلی شاہ بھی ہندو تھے لیکن یہاں موجود بعض عناصر نے ان قبر پر کتبہ لگا دیا جس پر مسلمانوں کا کلمہ اور دیگر مقدس الفاظ تحریر ہیں اور یہ دعوی کر دیا گیا کہ یہ بزرگ مسلمان تھے۔
’’ایکسپریس‘‘ نے اس حوالے سے جب چند مقامی مسلمانوں سے تفصیلات جاننے کی کوشش کی توکسی کو بھی ان بزرگوں کے شجرہ نسب بارے معلومات نہیں تھیں تاہم یہ دعوی ضرورکیا جاتا ہے کہ یہ صوفی بزرگ نوشاہی ،قادری سلسلہ سے ہیں۔کتبے پر ان کی تاریخ وفات بھی درج ہے، جو1968ء ہے۔ مقامی شہری پرویز مسیحی کہتے ہیں کہ اس قبرکے حوالے سے مسلمانوں کا دعوی درست نہیں ہے، یہ بزرگ مسیحی تھے تاہم ان کا تعلق اس بالمیک ہندوخاندان سے تھا جس نے اپنا مذہب چھوڑکر عیسائیت قبول کر لی تھی، اس لئے عیسائی برادری یہ دعوی کرتی ہے کہ یہ قبران کے بزرگ کی ہے۔
قبرستان کے مسیحی گورگن شوکت کے مطابق انہوں نے حویلی شاہ کو خود دیکھا تھا، جو محنت مزدوری کرتے اورآتش بازی کاسامان تیارکرتے تھے۔
امرناتھ رندھاوانے بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر اس قبرستان کا قبضہ ہندو برادری کو مل چکا ہے لیکن اس کی حالت انتہائی خراب ہے، اندر جھاڑیاں اگی ہوئی ہیں،یہاں جوتے بنانے کی فیکٹری تھی جس کا ملبہ قبرستان کے اندر ہی موجود ہے، آج بھی اگرقبرکے لئے کھدائی کریں تو پلاسٹک کے ٹکڑے اور ٹوٹے جوتے نکلتے ہیں۔ اس لئے ہم نے حکومت سے اپیل کی تھی کہ قبرستان کی بحالی کے لئے فنڈزریلیزکئے جائیں۔
گزشتہ جنرل الیکشن میں منتخب ہونے والی حکومت نے اس قبرستان کے لئے 20 لاکھ روپے کے فنڈزمختص کئے تھے مگر یہاں کام نہ ہوا اور وہ فنڈز واپس ہو گئے۔
اس کے بعد جب اورنج لائن ٹرین کا منصوبہ بنایا گیاتو 3 کنال 14 مرلہ رقبہ پرمشتمل اس قبرستان کے فرنٹ سے 3 مرلہ کے قریب جگہ اس منصوبے میں شامل کر لی گئی۔ یہاں سامنے کی طرف ایک دیوار بنا کر دروازہ لگا دیا گیا ہے لیکن مزیدکوئی ڈویلپمنٹ نہیں کی گئی۔
اب دوبارہ 10 لاکھ روپے مختص کئے گئے ہیں لیکن بار بار درخواستوں کے باوجود گزشتہ حکومت نے یہ فنڈز جاری کئے اورنہ ہی موجودہ حکومت فنڈز ریلیزکر رہی ہے۔ ہماری حکومت سے التماس ہے کہ قبرستان کی حالت بہتر کی جائے۔ انہوں نے کہا بے شک یہ بالمیک سماج کا قبرستان ہے لیکن اگریہاں کوئی مسیحی اور شیڈول کاسٹ ہندو بھی اپنے مردے دفن کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔
The post لاہورکاانوکھا قدیم قبرستان appeared first on ایکسپریس اردو.