’جنوبی چاند‘ تک رسائی اور’جنوبی ایشیا‘ ’جنوبی ہند‘ اور ’جنوبی افریقا‘ کی مماثلت!
23 اگست 2023ء کو ہندوستان کا خلائی راکٹ ’چندریان3‘ چاند تک نہ صرف کام یابی سے پہنچا، بلکہ وہ چاند کے جنوبی حصے تک پہنچنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا، بتایا جاتا ہے کہ ’جنوبی چاند‘ مستقل تاریکی میں رہتا ہے۔
اب اس کے ماحول اور سطح کے حوالے سے نئی معلومات ملنے کی امید ہے۔ ہندوستان مجموعی طور پر چاند تک رسائی پانے والا دنیا کا چوتھا ملک بن چکا ہے۔ وہ اب مستقبل میں جاپان اور امریکا کے ساتھ خلائی تعاون بڑھائے گا اور اگلے سال امریکی خلائی ادارے ’ناسا‘ کے ساتھ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن کے قیام کے حوالے سے بھی ساتھ ہوگا۔
ساتھ ساتھ روس نے بھی ’جنوبی چاند‘ تک پہنچنے کوشش کی، لیکن اس کا خلائی مشن چند روز قبل ہی تباہی سے دوچار ہوگیا، جب کہ ہندوستان قسمت کی یاوری سے اپنی تیسری کوشش میں کام یابی سے ہم کنار ہوا۔
گویا ’جنوبی چاند‘ پر جنوبی ایشیائی ملک ہی کو سب سے پہلے رسائی ملی اور اس کے وزیراعظم نریندر مودی بھی اس لمحے ’جنوبی افریقا‘ کے دورے پر تھے اور تو اور راکٹ ’ستیش دھون اسپیس سینٹر‘ (SDSC) سے اپنے سفر پر روانہ ہوا، اتفاق سے یہ بھی ’جنوبی ہندوستان‘ کی ریاست آندھرا پردیش میں واقع ہے۔ 14 جولائی 2023ء کو روانہ ہونے والا ’چندریان تھری‘ کا یہ سفر چالیس دن بعد اپنی منزل تک پہنچ سکا۔
جس کے بعد اب ہمارے ہاں بھی یہ سوالات اٹھنے شروع ہوگئے ہیں کہ ہمارا خلائی تحقیقی ادارہ ’سپارکو‘ اس حوالے سے ابھی کتنے دور ہے؟ جماعت اسلامی کے سینٹیر مشتاق احمد نے اس حوالے سے ایک چِٹھی بھی لکھ دی ہے کہ انھیں اس حوالے سے ’سپارکو‘ کی کارکردگی اور مستقل میں خلائی منصوبے کے حوالے سے بھی بتایا جائے۔
بات تو یہ ہے کہ ہمیں ’حریف‘ ملک سے تعلیم وتحقیق میں بھی سبقت رکھنے کی سعی کرنی چاہیے، ہر چند کہ ہمارے رنگ روپ، اٹھنا بیٹھنا اور کھانا پینا کچھ زیادہ مختلف نہیں، لیکن وہاں جمہوری سیاسی نظام مضبوط ہے، ہماری طرح وڈیرہ شاہی اور ’’وغیرہ وغیرہ‘‘ غلبے نہیں، 75 برسوں میں وہاں ایک بار بھی فوجی حکومت نہیں آئی، وہاں کی سیاسی قیادتوں کو کبھی اس طرح جلا وطن نہیں ہونا پڑا، جیسا ہمارے ہاں عام ہے۔
ہماری طرح ان کی بھی دو بڑی سیاسی جماعتیں ہیں، لیکن ان میں صرف کانگریس میں موروثی یا خاندانی اجارہ داری ہے، موجودہ حکم راں ’بھارتیہ جنتا پارٹی‘ اس ’بیماری‘ سے بالکل پاک ہے۔
پھر ستم تو یہ ہے کہ وہاں بھی کوئی ’تیسرا‘ برآمد ہوا تو وہ ’عام آدمی پارٹی‘ کے اروند کیجیروال جیسا نکلا کہ جس نے ’دلی سرکار‘ میں آتے ہی وہاں عوام کے لیے پانی، بجلی اور گیس جیسی بنیادی سہولتیں مفت کر دیں۔۔۔! جب کہ ہمارے پانی، بجلی، گیس تو چھوڑیے، یہاں تو ہر گزرتے دن کے ساتھ عام آدمی کا سانس لینا دوبھر ہوا ہے۔
ہمارے ہاں بھی ’تبدیلی‘ کے نام پر ’تیسری‘ جماعت برسراقتدار آئی، مگر وہ بھی کم وبیش پہلی دونوں جماعتوں جیسی ہی نکلی، نتیجتاً بربادی در بربادی ہمارا مقدر بنی ہوئی ہے اور آگے بھی کوئی امید نظر نہیں آتی!
خبرنامے میں شادی کی پیش کش!
امریکی خاتون خبر خواں کورنیلا نکلسن (Cornelia Nicholson) کو خبرنامے کی ایک ریکارڈنگ کے دوران ان کے دوست نے شادی کی پیش کش کردی، جسے انھوں نے قبول کر لیا۔ امریکی ریاست ٹینیسی (Tennessee) سے تعلق رکھنے والی یہ خاتون چینل ’لوکل تھری نیوز‘ سے وابستہ ہیں۔ انھوں نے جب خبریں پڑھتے ہوئے کسی ’خصوصی رپورٹ‘ کا ذکر کیا، تو اس وقت انھیں شادی کی پیش کش کرنے والے نیگل اسٹوڈیو میں داخل ہوئے اور ان سے گفتگو شروع کردی اور کیمرا ان کی جانب گھوما، جیسے کسی طے شدہ منظر کا احاطہ کر رہا ہو، پھر نیگل نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر روایتی طریقے سے کورنیلا کو گُل دستہ اور منگنی کی انگوٹھی پیش کی۔
اس کے بارے میں پتا چلا کہ باقی عملے نے یہ سارا منصوبہ کورنیلا نکلسن سے پوشیدہ رکھا تھا۔ خبروں میں یہ ’اسپیشل رپورٹ‘ شامل نہیں تھی، اور اس ’’رپورٹ‘‘ کا ذکر وقت کے وقت ہی چُپکے سے ان کی خبروں میں شامل کر دیا گیا۔ کورنیلا کو اس غیرمتوقع منظر نے جذباتی کر دیا، وہ کہتی ہیں کہ میں فرطِ جذبات سے رونے والی تھیں۔ ان کے منگیتر نے ناظرین کو بتایا کہ چار سال قبل کس طرح وہ دونوں خبروں کے اس سفر میں ملے تھے، اس لیے اب انھوں نے سوچا کہ یہ بات کہنے کے لیے یہی موقع اور جگہ بہتر رہے گی۔
انھوں نے اپنی منگیتر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ حیران کن اور باصلاحیت شخصیت کی مالک اور بہت روشن ہیں، جب آپ آکر سب کو ہنساتی ہیں، تو اجالے بکھر جاتے ہیں اور آپ کے ناظرین یہ بات جانتے ہیں۔ بعد میں کورنیلا نے ’ٹوئٹر‘ پر اپنے تمام دفتری ساتھیوں کے لیے ان سے چھپا کر یہ سب کرنے پر اظہار تشکر کیا اور کہا کہ یہ ایک مکمل دن تھا۔
’کاغذی اِسٹرا‘ میں زہریلا کیمیکل ہے؟
ماحول دوست سمجھی جانے والی کاغذی ’اِسٹرا‘ میں ممکنہ طور پر زہریلے کیمیکل کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے، جو انسانوں کے ساتھ جنگلی حیات اور ماحول کے لیے بھی خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔
کاغذی اِسٹرا کو ضرر رساں پلاسٹک کی اِسٹرا کے مقابلے میں ماحول دوست سمجھا جاتا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ 2020ء میں برطانیہ میں اس پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ یورپ میں ہونے والی ایک ابتدائی تحقیق میں 90 فی صد کمپنیوں کے کاغذی اِسٹرا میں یہ زہریلے مواد پائے گئے، اور وہ اجزا جو دنیا بھر میں تین سال قبل ممنوع کر دیے گئے تھے۔
انسانی جسم میں اس کیمیکل کی وجہ سے کولیسٹرول، تھائیرائیڈ، جگر، گردے اور سرطان وغیرہ جیسے موذی امراض کے خدشات پیدا ہو سکتے ہیں۔
یہ مضر اجزا کاغذی اِسٹرا سے محلول یا پانی کو باہر نکلنے سے روکنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ کاغذ کی اِسٹرا میں شامل مضر PFAS گھر سے باہر استعمال ہونے والی اشیا، کپڑوں اور نون اسٹک برتنوں میں استعمال کیا جاتا ہے، کیوں کہ یہ نمی، گرمی اور داغ وغیرہ کے مقابل چیزوں کو بہتر رکھتی ہے۔
یہ مشاہدے امریکا اور بیلجیم وغیرہ میں فروخت ہونے والی اِسٹرا میں کیے گئے ہیں، جس کے بعد ماہرین نے صارفین کو اسٹیل کی اِسٹرا استعمال کرنے کی ہدایت کی۔
دوسری بات یہ بھی کہی گئی کہ کاغذی اِسٹرا کو ماحول دوست تو کہتے ہیں، لیکن یہ پودوں اور بانس وغیرہ سے حاصل شدہ اجزا سے تیار کی جاتی ہے۔ پہلے اسے پلاسٹک کی اِسٹرا سے بہتر بنا کر پیش کیا جاتا تھا، لیکن اس تحقیق کے بعد ضروری نہیں ہے کہ یہ بات درست ہو۔
137 لڑکوں کے مقابلے میں صرف 100 لڑکیاں!
خطے کے دیگر ممالک کی طرح نیپال میں بھی بیٹی کے مقابلے میں بیٹے کی چاہ زیادہ پائی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں وہاں بالخصوص ہندوستان سے جڑے ہوئے اضلاع میں لڑکوں اور لڑکیوں کے تناسب میں بہت زیادہ بگاڑ پیدا ہو گیا ہے۔
ضلع دھنوشا میں سب سے زیادہ تفاوت ہے، یہاں 137 لڑکوں کے مقابلے میں 100 لڑکیوں کی پیدائش ریکارڈ کی گئی ہے، دیگر 25 اضلاع میں بھی کم سے کم فرق 115 لڑکوں تک پایا گیا ہے۔ نیپال کے بڑے شہروں میں قبل از پیدائش صنف جاننے کی سہولت دست یاب ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیٹیوں کو پیدائش سے پہلے ہی موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے۔
2002ء میں نیپال میں پیدایش سے قبل بچوں کو ختم کرنے کو قانونی بنایا گیا اور اسے خواتین کے حقوق اور خودمختاری کے لیے سنگ میل بتایا گیا تھا۔
اب ماہرین کہتے ہیں کہ فطری شرح پیدائش 105 لڑکوں پر 100 لڑکیوں کی ہے، لیکن نیپال کی مردم شماری اس سے کہیں زیادہ صنفی خلا کو واضح کر رہی ہے۔ یہ صنفی عدم توازن مستقبل میں برے اثرات مرتب کرے گا۔
کم از کم دو ہندوستانی زبانیں پڑھانے کی تجویز
ہندوستان کے ’نیشنل کریکلم فریم ورک‘ (این سی ایف) کی جانب سے جماعت نہم اور دہم میں دو اور یازدہم اور بازدہم (گیارہویں اور بارہویں) میں بالترتیب تین زبانیں لازمی پڑھنے کی تجویز دی گئی ہے، جس میں سے دو زبانیں ہندوستانی ہونا ضروری ہیں۔ یہ تجاویز ابتدائی طور پر عوامی ردعمل جاننے کے لیے جاری کی گئی ہیں۔
مختلف آرا اور تجاویز آنے کے بعد انھیں بہتر کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ ایک طرف مختلف ریاستوں نے وفاقی نصابی ادارے کی سفارشات کو نافذ کرنے کے لیے تیاری نہ ہونے کا کہا ہے تو دوسری طرف انتہاپسند جماعت ’راشٹریہ سوک سنگھ‘ (آر ایس ایس) سے منسلک تنظیموں نے گیارہویں اور بارہویں جماعت کے لیے ہندوستانی زبانوں پر زور نہ دینے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
ہندوستان کی بعض ریاستوں کو پہلے ہی دسویں کلاس تک اپنی زبانیں پڑھانے کا اختیار ہے، جیسے مہاراشٹر میں مراٹھی اور مغربی بنگال میں بنگالی وغیرہ۔
بھارتی ٹیکس! بنگلا دیش پاکستانی پیاز منگائے گا
بنگلادیشی حکومت نے پاکستان سمیت نو ممالک سے پیاز منگانے کی اجازت دے دی ہے۔ ایک بنگلا دیشی اخبار نے خاص طور پر پاکستان کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے، جس کے مطابق سب سے زیادہ 11 ہزار 820 ٹن پیاز پاکستان سے منگائے جائیں گے، جب کہ چین سے2 ہزار 400، مصر سے 3 ہزار 910، قطر سے 1100، ترکی سے 2 ہزار 110، برما سے 200، تھائی لینڈ سے 33، نیدر لینڈ سے چار اور متحدہ عرب امارات تین ٹن منگائے جائیں گے۔
اس قدم کی وجوہات وہی ہماری جیسی ہیں، یعنی منڈی میں کال پڑنے کے سبب بھاؤ میں بلند اضافہ۔ اب بنگلا دیش اور ہماری ساجھے داری کا ذکر نکلے، تو کچھ اہل دل احباب کی آنکھ میں آنسو آ ہی جاتے ہیں، اب ہمارے ’سابق ہم وطن‘ منگوا بھی پیاز ہی رہے ہیں، یعنی اِسے کتریے تو بھی آنکھوں سے آنسو نکلتے ہیں۔
اگرچہ ہمیں ایک طرف ’برآمدات‘ میں بڑھوتری کا اطمینان ہے، وہیں سابقہ تجربات کے مطابق، بطور عوام ہمیں یوں معلوم ہوتا ہے کہ اب ہماری سبزی منڈی سے ضرور پیاز اٹھ جائے گا یا اس کے بھاؤ بڑھنے لگیں گے، ممکن ہے پھر اس کے لیے وہی مرحوم دلاور فگار کے ’کُلیے‘ یعنی ’لے کے رشوت پھنس گیا ہے دے کے رشوت چھوٹ جا‘ کے مصداق برآمد کے بعد پیاز درآمد کر کے حل نکالا جائے۔
ماضی میں ہم چینی اور گندم وغیرہ کے باب میں اس کے ’’کام یاب‘‘ تجربے کر چکے ہیں کہ پہلا ساری فصل باہر بھیج ڈالی اور پھر پتا چلا کہ ہمارے لیے بھی باقی نہیں تو باہر سے دوبارہ منگالی! خیر سے ’بااثر طبقوں‘ نے اس سارے عمل سے بہت ’فیض‘ اٹھایا۔ رہا قومی خزانہ، تو اب اس کا کیا ہے، اسے اگر کوئی خسارہ ہوا ہو، تو ’اُن‘ کی بلا سے۔۔۔ اور ساتھ یہ بھی جانتے جائیے کہ بنگلا دیش کے اس عمل کا ’کارن‘ ہندوستان کی جانب سے پیاز پر 40 فی صد برآمدی ڈیوٹی عائد کیا جانا ہے، جو انھوں نے اپنے ہاں کے نرخ برقرار رکھنے کو لگائی ہے۔
ہم ناحق جذباتی ہوئے، لیکن اس کے پیچھے بنگلا دیش کی واضح مالی منفعت نکلی، یعنی دنیا میں تعلقات معاشی فوائد ہی کے سہارے چلتے ہیں۔ اور اب دنیا ہی سے کیا شکوہ، اب تو ہماری ساری زندگی کے تعلقات کا انحصار ہی اسی پر ہو گیا ہے۔
The post نگری نگری appeared first on ایکسپریس اردو.