بانسوں پر استوار ایک چھوٹا سا سائبان بطور جائے پناہ۔۔۔ اور اس سے ملحقہ نیم کھلی اراضی میں کچھ مویشی۔۔۔ چھے، سات بھینسوں اور گایوں کے علاوہ کچھ بکریاں اور بھیڑ بھی اس چھوٹے سے ریوڑ میں شامل۔۔۔ ماحول کا گہرا سکون اس بات کا غماز کہ یہ علاقہ شہر سے پرے۔۔۔ کسی بکری کی منمناہٹ اور کبھی کسی مرغے کی بانگ اس خاموشی کو راہ فرار دکھاتی۔۔۔۔ کچھ ٹہلتی ہوئی بطخیں بھی اپنی بولیوں سے اس سکوت کو فنا کرتیں۔۔۔ کبھی کسی کتے کی آواز بھی اس سہفتے میں گونج کے رہ جاتی۔۔۔
یہ منظر ابراہیم حیدری اور کورنگی کے درمیانی علاقے میں موجود اس جگہ کا ہے، جس کی رکھوالی تین بہنیں شمع، ثمرین اور شہزادی کرتی ہیں۔ تینوں اپنے ماں، باپ کی سب سے بڑی اولاد۔ والدین نے انہیں شروع سے بیٹوں کی طرح رکھا، تو انہوں نے بھی حقیقتاً بیٹے بن کے دکھایا۔ سات بہن بھائیوں میں، ان تین بہنوں کے بعد ایک بھائی شہزادہ ہے، جس کے بعد دو بہنیں اور ایک بھائی ہے۔
شہزادہ ابھی بہت چھوٹا تھا، اس لیے تینوں بہنیں اپنے آبائی پیشے میں والد کا ہاتھ بٹانے لگیں۔۔۔ ان کا تعلق راجھستان (ہندوستان) کی راجپوت چوہان برادری سے ہے، جو کافی بڑی تعداد میں اس شعبے سے منسلک ہے۔ شمع، ثمرین اور شہزادی کے بچپن میں ان کے ہاں تیس، چالیس بھینسیں تھیں۔ باڑہ بھی ان کے گھر کے قریب محمود آباد میں ہی تھا۔ روزانہ لگ بھگ ڈھائی من کے قریب دودھ نکلتا۔ قرب وجوار کے گھروں میں دودھ پہنچانے کے لیے بھی تینوں بہنیں اپنے باپ کا بازو بنتیں۔ اسی لیے ان کے والد نے ثمرین اور شہزادی کو موٹر سائیکل چلانا بھی سکھائی۔ دودھ فروخت کرنے کے لیے اپنے ٹھیے پر بھی یہ والد کے ساتھ ہوتیں۔
ان کی آزمائش آٹھ سال قبل جب شروع ہوئی، جب ضلعی حکومت نے آبادیوں میں باڑوں کی ممانعت کی، جس کی بنا پر انہیں محمود آباد سے نکل کر ابراہیم حیدری کے نزدیکی بے آب وگیاہ ویرانے میں آنا پڑا۔ شہر کی آبادی سے پرے یہ علاقہ شمع اور ان کی بہنوں کے لیے کسی کڑے امتحان سے کم نہ تھا۔ اپنے محلے میں اور کسی اجنبی علاقے میں جا کر کام کرنے میں زمین، آسمان کا فرق تھا۔ ایک طرف آبادی سے دور کا علاقہ، اور پھر یہاں مویشیوں کی دیکھ بھال کے لیے ہمہ وقت کسی نہ کسی کی موجودگی بھی ناگزیر۔۔۔! لیکن تینوں بہنوں نے جواں مردی کا مظاہرہ کیا، اور یہاں بھی پہلے کی طرح اپنی تمام ذمے داریوں کو بہ خوبی نبھایا۔
یہ کام محدود اوقات کار اور چھٹی کی قید سے آزاد ہے۔ تینوں میں سے کسی نہ کسی بہن کا باڑے میں ہونا لازم ہے۔ اگر کسی خوشی، غمی میں شریک ہونا پڑے، تب بھی ایک یہاں ٹھہرتی ہے اور باقی لوگ چلے جاتے ہیں۔ 24 گھنٹوں میں تینوں نے اپنے اپنے اوقات کار تقسیم کر رکھے ہیں۔ پرامن اور بے امن حالات سے بے نیاز انہیں ہر صورت میں یہاں آنا ہوتا ہے۔ 2007ء میں بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد جب حالات خراب ہوئے، تو انہیں گھر سے باڑے تک پیدل آنا، جانا پڑا۔
باڑے کی گھر سے دور منتقلی کے بعد والد کی بیماری ایک اور آزمائش بن کر آئی۔ اب ایک طرف کام کی مکمل ذمہ داری ان پر آن پڑی تو دوسری طرف معاشی تنگی نے بھی مسائل کھڑے کیے۔۔۔ بیمار والد کے علاج معالجے کے لیے انہیں 30 کے قریب بھینسیں فروخت کرنا پڑیں، فقط سات بھینسیں رہ گئیں، جس کی بنا پر ان کا کام بھی سکڑتا چلا گیا اور ان کو اپنے روزانہ کے 35 کے قریب گاہک چھوڑنا پڑے۔ دو سال پہلے طویل علالت کے بعد ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ اب کاروبار کی مکمل ذمہ داریاں تینوں بہنوں کے کندھوں پر آگئی، تاہم اب ان کا چھوٹا بھائی شہزادہ بھی ان کا مددگار ہے، بہنوں کو روزانہ لانا لے جانا اسی کی ذمہ داری ہے، جس کے بارے میں بہنیں کہتی ہیں کہ ’’یہ ہمارا ہر حکم بجا لاتا ہے، ڈانٹ ڈپٹ اور مارپیٹ پر بھی اف نہیں کرتا۔‘‘
روزانہ 30 کلو کے لگ بھگ دودھ نکلتا ہے، جو محمود آباد میں موجود مستقل گاہکوں کے گھروں میں پہنچاتے ہیں۔ دودھ کی ترسیل کے لیے ان تینوں بہنوں میں سے کوئی ایک بہن شہزادہ کے ساتھ موٹر سائیکل پر گھروں پر دودھ دینے جاتی ہے۔ خالص دودھ بھی وہ بازار کے بھائو پر ہی فروخت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دودھ کے کام میں دکان داروں کو زیادہ منافع ملتا ہے، کیوں کہ ہمیں بھینسوں کی بیماری اور مر جانے کی صورت میں نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ 15 برسوں میں بھینسیں پانچ سے چھے گنا منہگی ہو چکی ہیں۔
خالص دودھ کی عام دست یابی کے سوال پر انہوں نے بتایا کہ بہت سے دکان دار خالص دودھ فروخت کرتے ہیں اور بہت سے ملاوٹ بھی کرتے ہیں۔ اکثر دکان داروں نے اب مشینیں لگا رکھی ہیں۔ اسٹیل کی گول دیو ہیکل یہ مشینیں 24 گھنٹے چلتی رہتی ہیں، جس سے دودھ کی کریم نکال لی جاتی ہے۔ دوسری طرف لوگوں کو بھی اب خالص دودھ کی پہچان نہیں۔۔۔ دودھ کو جوش دیتے وقت جب وہ پتیلی یا دیگچی کے پیندے میں ’’لگتا‘‘ ہے، تو وہ شکایت کرتے ہیں کہ یہ دودھ تو جل رہا ہے! جب کہ انہیں نہیں پتا کہ یہ خالص دودھ کی نشانی ہے۔
کام کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’’تنگی ضرور ہے، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ضروریات پوری ہو رہی ہیں، کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانے پڑ رہے۔‘‘
ایک عورت ہونے کے باوجود انہوں نے اس سمت آنے والی ہر مشکل اور پریشانی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ والد انہیں پڑھانا چاہتے تھے، لیکن انہوں نے اپنے شوق اورذمہ داری کے باعث اسی کام کا حصہ بننا قبول کیا۔ خاندان میں کبھی کسی عورت نے اس طرح کام نہیں کیا، اس لیے شروع میں لوگوں نے کافی باتیں بھی بنائیں۔ اب بھی یہ کہتے ہیں کہ ان لڑکیوں نے جانوروں میں اپنی زندگی خراب کی ہوئی ہے، مگر ان کی نظر میں یہ زندگی بہت اچھی ہے کہ وہ اپنے گھر کی کفالت کر رہے ہیں۔۔۔ کسی کے محتاج تو نہیں، بس، ان کے لیے یہی سب سے بڑا اطمینان ہے۔ لوگوں کی لب کشائی کو تو نہیں روکا جا سکتا۔ ہم نے کبھی لوگوں کی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ بقول ثمرین کے بغیر کسی چھٹی اور وقفے کے 24 گھنٹے کی ذمہ داری پر محیط یہ شعبہ پہلے ہمارا شوق تھا اور اب مجبوری بن گیا ہے۔
تیسرے نمبر کی بہن شہزادی کہتی ہیں کہ ’’یہ جیسا بھی ہے، ہمارا اپنا کام ہے۔ اگر کہیں ملازمت کر رہے ہوتے، تو ہم دوسروں کے تابع ہوتے، ہماری تو گُھٹّی میں ہی یہ کام پڑا ہوا ہے، اس لیے بہت آسانی سے تمام کام کر لیتے ہیں۔‘‘ دوسری طرف منجھلی بہن ثمرین کا موقف ہے کہ کبھی بہت تھک جائیں یا بیمار ہوں، تو بے زار ہو کر سوچتے ہیں کہ کاش پڑھ لکھ لیتے اور کوئی ملازمت کر رہے ہوتے، تو آج کم سے کم ہمیں کوئی چھٹی تو مل جاتی۔ شمع اور شہزادی پانچویں، جب کہ ثمرین تیسری کلاس تک تعلیم حاصل کر سکیں۔۔۔ بھائی نے آٹھویں جماعت تک تعلیمی مدارج طے کیے۔ معاشی ذمہ داریوں مزید تعلیم کی راہ میں حائل ہوئیں، البتہ اب یہ اپنی دو چھوٹی بہنوں اور بھائی کو پڑھا رہے ہیں۔
زندگی کے کٹھن ترین لمحے کے بارے میں جاننا چاہا، تو انہوں نے بتایا کہ ’’والد کی وفات سے بڑا دکھ اور مشکل اور بھلا کون سی ہو سکتی ہے۔‘‘ تینوں بہنیں اپنے والد سے بہت زیادہ قریب تھیںاور ہر مشکل اور پریشانی بلا جھجھک ان سے کہہ دیتی تھیں۔ پیشے کی کٹھنائیوں کے ذکر پر انہوں نے بتایا کہ خدانخواستہ جب کوئی بھینس مر جاتی ہے، تو انہیں بہت زیادہ دکھ ہوتا ہے۔
ایک بھینس کی قیمت ایک سے ڈیڑھ لاکھ تک ہے، اس لیے یہ قلبی تکلیف کے ساتھ ہمارا ایک بڑا معاشی نقصان بھی ہوتا ہے۔ یہ دکھ کوئی اور نہیں سمجھ سکتا۔ اسی لیے ہم کسی کو کچھ نہیں بتاتے۔۔۔ بس اکیلے ہی بیٹھ کر رو لیتے ہیں! گھر کے معاملات میں بھی والد کے بعد والدہ نے ان تینوں بیٹیوں کو ہی فیصلہ ساز بنایا ہے۔ والدہ گھر پر ہی رہتی ہیں، باہر کے کام بھی بیٹیوںکے ذمے ہیں۔ کاروبار سے لے کر کنبے کے مسائل اور دیگر معاملات میں بھی وہی کوئی قدم اٹھاتی ہیں۔
اپنی امی کو حج کرانا اور چھوٹے بہن بھائیوں کی تعلیم مکمل کرانا ان کی بڑی خواہش ہے۔ اس کے علاوہ اگر حالات اچھے ہو جائیں، تو گھر کی ازسرنو تعمیر اور اپنی دودھ کی دکان کرنے کا خواب بھی پورا کریں گی۔
’’کبھی زنانہ کپڑے بھی نہیں پہنے!‘‘
معاشی میدان میں مردوں کی طرح کھڑی ہونے والی تینوں بہنوں نے کبھی زنانہ کپڑے نہیں پہنے۔ شمع، ثمرین اور شہزادی کو شروع سے ہی مردانہ کپڑے پہننے کی عادت ہے۔ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں بھی وہ مردانہ شلوار قمیص ہی زیب تن کرتی ہیں۔
جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ لڑکیوں اور خواتین کو نت نئے اور انواع اقسام کے کپڑے پہننے کا شوق ہوتا ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ عورتیں ایسے کپڑے کیسے پہن لیتی ہیں، ہم سے تو نہیں پہنے جاتے۔ البتہ ان کی چھوٹی بہنیں زنانہ کپڑے ہی پہنتی ہیں۔
یہ ہمارے بچے ہیں۔۔۔!
’’رانو بالکل اپنی ماں پر گئی ہے۔۔۔ اس کی پیدایش کے ایک دن بعد ہی اس کی ماں مر گئی تھی، اس لیے یہ ہمارے ہاتھوں کی پلی ہے۔۔۔ اس کے ساتھ لیلیٰ بھی بڑی نازوں سے پلی ہے۔ گلابو ہمارے ہاں سب سے پرانی ہے۔ چاندنی صرف ہم سے ہی مانوس ہے اور کسی اور کو قریب پھٹکنے بھی نہیں دیتی!‘‘
’’رانو‘‘ ایک بکری اور ’’لیلیٰ‘‘ ایک بھیڑ کا نام ہے، جب کہ ’’گلابو‘‘ اور ’’چاندنی‘‘ بھینسیں ہیں۔ یہاں ریوڑ میں موجود ہر جانور کا ہی کچھ نہ کچھ نام رکھا ہوا ہے۔ ثمرین کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے بچوں کی طرح ہیں۔ یہ ان کی آوازیں بھی سمجھتے ہیں اور اشارے بھی۔ ان کی بکری رانو تو ان کی چارپائی پر آکر سو جاتی ہے اور یہاں صفائی ستھرائی کا بھی بہت خیال رکھتی ہے۔
ڈاکٹر عامر لیاقت سے ملنا ہے!
تینوں بہنیں معروف ٹی وی میزبان ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی بہت بڑی پرستار ہیں۔ انہیں ڈاکٹر عامر لیاقت کی نعتیں بہت پسند ہیں۔ ان کے سوال وجواب کے پروگرام بھی بڑے اہتمام سے دیکھتی ہیں۔ اب ان سے ملنے کی اشد خواہش ہے۔ اس کے علاوہ مایا خان بھی ان تینوں بہنوں کی متفقہ پسند ہیں۔
’’سب ہمارے چچا اور ماموں۔۔۔‘‘
شمع کہتی ہیں کہ یہاں مختلف قومیتوں کے لوگ رہتے ہیں۔ قریب کوئی گھر ہے اور نہ ہی کوئی خاندان بستا ہے۔ سب ہی باڑے ہیں، لیکن ہم سب کو ماموں اور چچا کہہ کر پکارتے ہیں۔ ہمیں بھی سب بہت عزت واحترام دیتے ہیں۔ آٹھ برسوں سے الحمدللہ بہت سکون سے رہ رہے ہیں، کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ البتہ اب یہاں ارد گرد کی زمینوں پر تعمیرات کا کام شروع ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے انہیں تشویش ہے کہ شاید اب انہیں یہ جگہ بھی چھوڑنا پڑے۔