بقرعید کے موقع پر بھی عیدالفطر کی طرح دعوتوں کا سلسلہ رہتا ہے۔ اس میں یہ بات مختلف ہوتی ہے کہ یہ سلسلہ عید کی چھٹیوں کے بعد بھی جاری رہتا ہے، بلکہ اس میں نمکین ذائقوں سے آراستہ دسترخوان بھی ایک الگ جھپ دکھا رہا ہوتا ہے۔
اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ مہمانوں سے زیادہ تو اس میں دسترخوان کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ کیا پک رہا ہے؟ کس طرح کے پکوان ہیں؟ کیسا ذائقہ ہے؟ اور کس کس طرح تیار کیا گیا ہے وغیرہ۔ اکثر یہی سوالات مہمانوں اور میزبانوں کے درمیان گفتگو کا موضوع رہتے ہیں۔
بالخصوص گھر کی نئی بہوؤں کے ہاتھ کے ذائقے بطور خاص مہمانوں کو پیش کیے جاتے ہیں اور اس کی خصوصی طور پر تعریف کی جاتی ہے۔
کنبے میں شامل ہونے والی اس نئی فرد کے لیے یہ کلمات یادگار بھی ہوتے ہیں اور اسے نئے گھر کا حصہ بننے میں مدد فراہم کرتے ہیں، ایک اپنائیت کی شاخ پروان چڑھ جاتی ہے۔ مہمانوں کی انواع اقسام کے کھانوں سے تواضع کرنا اور مہمانوں کا میزبانوں کی خاطر مدارات سے لطف اندوز ہونا عیدالاضحی کا ایک منفرد رنگ اور انداز ہے۔
گوشت سے بنے ہوئے لذیذ پکوان مہمانوں کی تواضع کے ساتھ ساتھ دسترخوان کی رونق بھی بڑھاتے ہیں۔ تواضع کا یہ انداز اہل خانہ کے علاوہ مہمانوں کے دل میں بھی گھر کر جاتا ہے۔ خواتین خانہ کو سب سے زیادہ خوشی ہوتی ہی اسی وقت ہے، جب اہل خانہ اور مہمانان ان کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھا کر خوش ہوتے ہیں اور تعریف بھی کرتے ہیں، جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ اگر وہ گھر کی بہو کی پہلی عید ہو تو پھر اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
خاص تہوار پر مہمانوں کی تواضع کے لیے روایتی اور غیر روایتی اقسام کے پکوان ہمارے اس دسترخوان کا حصہ ہوتے ہیں۔
نت نئے ذائقوں کا تعاقب کرنے والے اس موقع پر بھی کچھ نئے کھانوں کو متعارف کراتے ہیں، جس سے دسترخوان کی رونق اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ دراصل دسترخوان اسی وقت بھرپور ہوتا ہے، جب کھانا کھانے والے اس سے اچھی طرح لطف اندوز ہو رہے ہوں۔
بقرعید کے موقع پر عموماً گوشت کے جو روایتی کھانے پسند کیے جاتے ہیں، اس میں کلیجی، گردے، پائے اور مغز سر فہرست ہیں، کیوں کہ یہ بقرعید کے علاوہ عام دنوں میں کبھی کبھی ہی کسی گھر میں پکتے ہیں، لیکن یہ ایک ایسا تہوار ہے کہ جب ہر گھر میں ہی ان پکوانوں کا خصوصی اہتمام ہو رہا ہوتا ہے، یا پھر دوسرا موقع جب گھر میں خیر سے کسی بچے کے عقیقے کا مرحلہ ہو تب ایسا ہوتا ہے۔
مٹھاس بھی نمکین پکوانوں کے ساتھ بہت ضروری سمجھی جاتی ہے۔ عید کی مناسبت سے میٹھا بھی تیار کیا جاتا ہے، جس کے بعد دسترخوان گویا تمام لوازمات سے پورا ہو جاتا ہے۔ عیدکی یہ دعوت ایک طرف سب سے ملاقات کا موقع فراہم کرتی ہے، تو دوسری جانب گوشت کی وافر مقدار ہونے کے باعث مختلف پکوان تناول کرنے کا یہی بہترین موقع ہوتا ہے، جہاں خواتین اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے بہترین کھانے تیار کرتی ہیں۔
دراصل خواتین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ عیدالاضحی کے موقع پر انواع اقسام کے کھانے خود تیار کریں اور مہمانوں سے داد وصول کریں۔ اس موقع پر اکثر خواتین گوشت کے پکوانوں کی نت نئی تراکیب بھی آزماتی ہیں تاکہ مہمانوں کو نت نئے ذائقوں سے لطف اٹھا سکیں اور تادیر اس دعوت کو یاد رکھیں۔
گوشت کے پکوانوں کی نئی تراکیب اگر آپ دعوت کے موقع پر آزما رہی ہیں، تو زیادہ مناسب یہ ہوگا کہ پہلے یہ تھوڑی مقدار میں دعوت سے پہلے تیار کر لیں، جو آپ کے لیے اس لحاظ سے زیادہ بہتر ہو گا کہ اس طرح آپ کو اچھی طرح علم ہو جائے گا کہ اسے کیسے پکانا چاہیے اور اس میں کیا کمی بیشی ہے، پھر اس کا تعین کرنا بھی آسان رہے گا کہ دعوت میں یہ ذائقہ پسند کیا جائے گا یا نہیں؟ اچھا ہوگا کہ گھروالوں کو بھی چکھائیں اور ان کی رائے لیں۔
اس طرح دعوت کے موقع پر مزے دار پکوان مہمانوں کی تواضع کے لیے تیار ہوں گے۔ خوشی کے ہر خاص موقع پر آپ کا ہر اہتمام خاص ہی ہوگا، تو خاص طور پر عید کے لیے منتخب کردہ نت نئی پکوانوں کی تراکیب کو ضرور آزمانا چاہیے۔
یہاں ہم یہ بھی کہنا چاہیں گے کہ یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ دعوت عید کے تین دنوں میں ہی کی جائے۔ اکثر ان تین دنوں میں بھرپور دعوت اس لحاظ سے مشکل ہوتی ہے کہ سب ہی کو ملنے ملانے جانا ہوتا ہے، قربانی کی تھکن علاحدہ ہوتی ہے۔
اسی لیے اکثر ایسی دعوتوں میں بہت سے لوگ غیر حاضر ہو جاتے ہیں۔ اس لیے عید کے تین دن گزر جانے کے بعد کسی دن کا انتخاب کر لیں، پھر مہمانوں کی تعداد اور دسترخوان کی وسعت کا فیصلہ کریں۔ آپ کی مجوزہ فہرست طعام میں کون کون سے کھانے منتخب کیے گئے ہیں، جو دعوت کے روز مہمانوں کے روبرو چُنے جائیں گے۔ اس کے بعد ان کھانوں کی مناسبت سے تمام تیاری کریں۔ کھانے کے اجزا اور اس کے لوازامات کو پورا کریں، ساتھ ہی تمام برتن اور دسترخوان وغیرہ بھی نکال لیں۔
دعوت والے روز، باورچی خانے کے امور کچھ پہلے سے نمٹا کر خود بھی تیار ہو جائیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بد انتظامی کے نتیجے میں آپ کے کام پورے ہی نہ ہوں اور مہمانوں کی آمد شروع ہو جائے۔ مہمانوں کی آمد سے قبل کھانوں کی مکمل تیاری، برتنوں کی ترتیب، گھر کی صفائی، اہل خانہ کی تیاریاں اور خود آپ کی اپنی تیاری ہو جائے، تو مہمانوں پر آپ کی سلیقہ مندی اور سگھڑاپے کی دھاک بیٹھ جائے گی۔
اس کے برعکس اگر مہمانوں کی آمد ،کھانا تیار نہ ہو، گھر بکھرا ہوا ہو، چیزیں بے ترتیب ہوں، باورچی خانے میں آپ کی حالت ملازمہ جیسی ہو اور ایک افراتفری کا عالم ہو، تو مہمانوں پر آپ کی غیر سلیقہ مندی کا تاثر پیدا ہوگا، جو آپ یقیناً نہیں چاہیں گی۔ اس لیے دعوت کا اہتمام بھی پورے اہتمام سے کریں، تاکہ یہ دعوت مہمانوں کو تادیر یاد رہے۔
The post دعوت کیسی ہونی چاہیے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.