خون ہماری رگوں میں رواں دواں رہتا ہے اور ہمیں زندگی کی جاودانی اور پیہم روانی کا پیغام دیتا ہے۔ خون اردو ادب کا بڑا معتبر استعارہ ہے۔
اتنا معتبر کہ زندگی کے ہر موڑ پر ہمیں لہو سے نیا راستہ تلاش کرنے کا اشارہ ملتا ہے۔ جب زبان کو گویائی سے محروم کر دیا جائے تو خونِ دل میں انگلیاں ڈبو لی جاتی ہیں اور زبانِ خنجر خاموش ہو جائے تو آستین کا لہو پکار پکار کر قاتل کا پتہ بتا دیتا ہے۔
خون کے استقلال اور مزاج کی پائیداری کا یہ عالم ہے کہ بے داغ سبزے کی بہار دیکھنے کے لیے مدتوں انتظار کرنا پڑتا ہے کیونکہ خون کے دھبے کئی برساتوں کے بعد بھی دامن پر باقی رہتے ہیں۔
خون وہ شعلہ تند ہے کہ اپنی حرارت سے خرمن کو بھسم کر سکتا ہے اسی لیے خون کا لفظ سنتے ہی انسانی ذہن میں خوف اور پریشانی کے منفی تاثرات پیدا ہوتے ہیں مگر جب خون کے عطیے کی بات ہو تو ایثار اور قربانی کے تصورات جنم لیتے ہیں اور انسانی عظمت و تکریم کے نئے باب کھلتے ہیں۔
14 جون، وہ دن ہے جسے عالمی پیمانے پر بلڈ ڈونرز ڈے یا خون کا عطیہ دینے والوں کا دن قرار دیا جاتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے بین الاقوامی ریڈ کراس سوسائٹی اور انجمن ہلال احمر کے تعاون سے 2005ء میں اس دن کو منانے کا آغاز کیا تھا اور آج تک یہ سلسلہ بنا کسی تعطل کے جاری ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس دن کو منانے کے لیے 14جون ہی کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ اس سوال کا جواب بڑا دلچسپ ہے اور اسکا خاص واقعاتی پس منظر ہے۔
کارل لینڈسٹینر (Karl Landsteiner) ایک مشہور طبیب اور ماہر حیاتیات تھا۔ اس کا تعلق آسٹریا سے تھا۔ وہ 14جون1868ء کو پیدا ہوا اور اسکا انتقال 1943ء کو ہوا۔ وہ انتہائی قابل شخص تھا اور اس نے پہلی مرتبہ دنیا کو خون کے مختلف گروپوں کے بارے میں آگاہی فراہم کی۔ اس کی قابلیت کے اعتراف میں 1930ء میں اسے طب کا نوبل پرائز دیا گیا۔
کارل لینڈسٹینر کی تاریخ پیدائش یعنی 14جون کو عالمی ادارہ صحت نے خون کا عطیہ دینے والوں کا دن قرار دیا اور پچھلے 18 برسوں سے اس دن کو عالمی سطح پر منایا جا رہا ہے۔
خون کے مختلف گروپوں کے بارے میں گفتگو کرنے سے قبل بہتر ہے خود خون کا تھوڑا سا تذکرہ ہو جائے ۔ خون آخر ہوتا کیا ہے اور ہمارے جسم میں اس کی موجودگی کا مقصد کیا ہے؟
خون وہ سرخ سیال مادہ ہے جو ہماری شریانوں اور وریدوں میں گردش کرتا ہے اور یہی گردش ہماری زندگی کی ضمانت ہے۔ خون جب رگوں سے باہر آجائے تو اس کی گردش ختم ہو جاتی ہے اور وہ کچھ ہی دیر میں جم جاتا ہے۔ خون کے اسی وصف کے حوالے سے ساحر لدھیانوی نے اپنی مشہور زمانہ نظم کہی تھی جسکا عنوان تھا ’’خون پھر خون ہے‘‘
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے کا تو جم جائے گا
خون پلازما، سرخ و سفید خلیات اور پلیٹ لیٹس پر مشتمل ہوتا ہے۔
پلازما: خون کا سب سے بڑا جز ہوتا ہے۔ اس کے اندر پانی، لحمیات (پروٹین) اور دیگر غذائی اجزاء موجود ہوتے ہیں۔ خون کا 55 فی صد حصہ پلازما پر مشتمل ہوتا ہے۔ سرخ اور سفید خلیات اور پلیٹ لیٹس وہ اجزاء ہیں جو پلازما کے اندر معلق ہوتے ہیں اور خون کے 45 فی صد حصے کی تشکیل کرتے ہیں۔
سرخ خلیات: یہ پورے جسم کو آکسیجن فراہم کرتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائڈ لے کر واپس آتے ہیں۔ خون کے اندر ان کی ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری رہتا ہے اور ان کی زندگی کا دورانیہ چار ماہ یا 120دن ہوتا ہے۔
سفید خلیات: یہ ہمارے جسم کے دفاعی نظام کا اہم ترین حصہ ہوتے ہیں۔ یہ بیرونی حملہ آوروں اور مختلف بیماریوں کے خلاف جنگ لڑتے ہیں۔
پلیٹ لیٹس: یہ جسم سے خون کے اخراج کو روکتے ہیں اور خون بہنے کی صورت میں اسے جمنے میں مدد دیتے ہیں۔
بحیثیت مجموعی خون کے مندرجہ ذیل مقاصد ہوتے ہیں۔
٭پورے جسم کو آکسیجن کی فراہمی اور کاربن ڈائی آکسائڈ کا اخراج
٭مختلف ہارمون اور اہم غذائی اجزاء جسم کے مختلف حصوں تک پہنچانا۔
٭جسم کے خاص درجہ حرارت کو برقرار رکھنا۔
٭کسی بھی زخم کی صورت میں جسم سے خون کے اخراج کو روکنا اور اسے جمنے میں مدد فراہم کرتا۔
٭جسم کے فاضل مادوں کو جگر اور گردوں تک پہنچانا۔
٭بیرونی حملہ آوروں (مثلاً جراثیم اور وائرس) کے خلاف دفاعی جنگ لڑنا اور مختلف امراض سے جسم کو محفوظ رکھنا۔
اب ہمارے سامنے یہ اہم سوال آتا ہے کہ انتقال خون یا بلڈ ٹرانسفیوژن کی ضرورت کب پیش آتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی انسان کو خون اس وقت دیا جاتا ہے جب کسی مرض یا حادثے کی وجہ سے خون میں شدید کمی واقع ہو جاتی ہے اور اس کمی کو محض دواؤں کے ذریعے پورا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ویسے ہمارے جسم میں پانچ سے چھ لیٹر خون موجود ہوتا ہے اور یہ ہمارے جسمانی وزن کے تقریباً آٹھ فی صد کے برابر ہوتا ہے۔
خون میں شدید کمی کی صورت میں مریض کو عمومی طور پر اسی کے گروپ کا خون فراہم کیا جاتا ہے۔ غلط انتقال خون کے نتیجے میں مریض کے جسم میں رد عمل کا خدشہ ہوتا ہے اور یہ ردعمل مہلک بھی ہو سکتا ہے ۔
اس موقعے پر خون کے مختلف گروپوں کا تعارف کرانا بے حد ضروری ہے۔ ہمارے یہاں خون کے گروپوں کو انگریزی حروف تہجی کی بنیاد پر پہچانا جاتا ہے۔ اس طرح چار گروپ ہمارے سامنے آتے ہیں جنہیں اے، بی، اے بی اور او کہا جاتا ہے۔ رہسس سسٹم ) (Rhesus System ان چار گروپوں کو مثبت اور منفی بنیادوں پر مزید تقسیم کر دیتا ہے اور یوں مجموعی طور پر آٹھ گروپ تشکیل پاتے ہیں۔
جن لوگوں کا گروپ مثبت ہوتا ہے ان کے سرخ خلیات پر رہسس اینٹی جن موجود ہوتی ہے جبکہ منفی گروپ کے حامل افراد کے سرخ خلیات پر رہسس اینٹی جن نہیں پائی جاتی ۔ خیال رہے کہ رہسس اینٹی جن Rhesus Antigen ایک قسم کی پروٹین ہوتی ہے۔
دنیا میں 93 فی صد افراد مثبت بلڈ گروپ سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ منفی گروپ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی تعداد 7 فی صد کے قریب ہوتی ہے۔ بلڈ گروپ کی بنیاد پر دنیا کی آبادی کا تجزیہ کیا جائے تو یہ صورت حال سامنے آتی ہے۔
او مثبت گروپ (O+) 42فی صد
اے مثبت گروپ (A+) 31فی صد
بی مثبت گروپ (B+) 15فی صد
اے بی مثبت گروپ (AB+) 5فی صد
او منفی گروپ (O-) 3 فی صد
اے منفی گروپ (A-) 2.5فی صد
بی منفی گروپ (B-) 1فی صد
اے بی منفی گروپ (AB-) 0.5فی صد
دنیا کے مختلف خطوں اور نسلوں میں یہ تناسب مختلف ہو سکتا ہے۔
انتقال خون کے وقت خیال رکھا جاتا ہے کہ مریض کو اسی کے گروپ کا خون مہیا کیا جائے مگر ہنگامی صورت حال میں ماہر ڈاکٹر کی زیر نگرانی دوسرے گروپ کا خون بھی دیا جا سکتا ہے انتقال خون کے کچھ قواعد کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئے۔
٭منفی گروپ کے مریض کو کبھی مثبت گروپ کا خون نہیں دینا چاہئے ، البتہ مثبت گروپ کے مریض منفی گروپ کا خون وصول کر سکتے ہیں۔
٭او گروپ کے لوگ ہر گروپ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو خون کا عطیہ دے سکتے ہیں مگر خود انہیں او گروپ کے علاوہ کوئی اور خون نہیں دیا جا سکتا۔
٭اے بی گروپ سے تعلق رکھنے والے مریضوں کو کسی بھی گروپ کا خون دیا جا سکتا ہے مگر وہ خود سوائے اے بی گروپ کے کسی اور گروپ کے مریضوں کو خون کا عطیہ نہیں دے سکتے۔
٭اے گروپ سے تعلق رکھنے والے افراد بی گروپ کو عطیہ نہیں دے سکتے اور نہ ہی ان سے وصول کر سکتے ہیں۔
٭بی گروپ کے لوگ اے گروپ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو خون کا عطیہ نہیں دے سکتے اور نہ ہی ان سے وصول کر سکتے ہیں۔
٭بعض اوقات ایک ہی گروپ سے تعلق رکھنے والے افراد میں بھی ہلکا ردعمل ظاہر ہو سکتا ہے اس لئے انتقال خون سے قبل لیبارٹری میں یہ تصدیق کرنا لازمی ہے کہ مریض کا خون عطیہ شدہ خون قبول کرنے پر آمادہ ہے۔ لیبارٹری کے تصدیقی عمل کو کراس میچ Cross matchکہا جاتا ہے۔
انتقال خون کا تاریخی پس منظر
1667ء میں دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی انسان کو خون فراہم کیا گیا۔ یہ کام ایک فرانسیسی ڈاکٹر جان باپٹسٹ نے سرانجام دیا۔ اپنے پہلے تجربے میں فرانسیسی طبیب نے ایک بھیڑ کے بچے کا خون انسانی جسم میں داخل کیا۔
آہستہ آہستہ انسانی خون مریضوں کو فراہم کیا جانے لگا۔ اس وقت تک دنیا کو خون کے مختلف گروپوں کا علم نہیں تھا، اس لئے ابتدائی تجربات میں خو ن کی فراہمی سے بہت سارے مریضوں کی جان بچائی گئی مگر غلط گروپ کے خون کی فراہمی کے باعث مریضوں کو خون کے ردعمل کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
بلڈ بینک کا قیام
خون کا ذخیرہ کرنے والا پہلا بینک کینیڈا کے ڈاکٹر ہنری نارمن بیتھون (1890 – 1939) نے قائم کیا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران بینک کے دخیرے سے زخمیوں کو خون فراہم کیا گیا۔
رضاکارانہ طور پر خون کے عطیات کو ذخیرہ کرنے کے لیے 1922ء میں برطانیہ میں پہلا بلڈ بینک قائم کیا گیا۔ ہسپتال میں داخل مریضوں کو خون کی فراہمی کے لیے سوویت یونین نے 1930ء میں پہلی مرتبہ خون کا بینک قائم کیا۔ ڈاکٹر برنارڈ فلانٹس نے 1937ء میں باقاعدہ طور پر بلڈ بینک کی اصطلاح استعمال کی اور امریکہ کے شہر شکاگو میں بلڈ بینک قائم کیا۔
انتقال خون کس لئے؟
بہت سے امراض ایسے ہیں جن میں مبتلا افراد کے لئے باقاعدگی سے خون کی فراہمی کی حاجت ہوتی ہے مثلاً ہمیوفیلیا، تھیلسیمیا، اینمیا، سکل سیل کی بیماری ، جگر کی بیماری، گردوں کے نظام کی خرابی اور سرطان کی مختلف شکلیں۔ حادثات میں زخمی ہونے والوں کو بھی خون کی ضرورت پڑسکتی ہے۔
اسی طرح بڑے آپریشن، امراض نسواں اور بچے کی پیدائش کے موقع پر بھی انتقال خون کی ضرورت ہو سکتی ہے۔
٭ انتقال خون سے پیدا ہونے والی مشکلات
٭مریض حساسیت یا الرجی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ انہیں خارش، بخار، متلی اور قے کی شکایات ہو سکتی ہیں۔
٭اگر مریض کا جسم خون قبول نہ کرے تو فراہم شدہ خون کے سرخ ذرات کی تباہی عمل میں آسکتی ہے۔
٭بعض اوقات فراہم شدہ خون کے سرخ خلیات، مریض کے سرخ خلیات کو تباہ کر سکتے ہیں۔
٭ضرورت سے زیادہ خون کی فراہمی کی صورت میں مریض کے جسم میں خون اور اس کے مختلف اجزاء بطور خاص آئرن یا فولاد کی زیادتی ہو سکتی ہے۔
٭اگر خون صاف ستھرا نہ ہو تو ایڈز اور ہیپاٹائٹس کے وائرس مریض کے جسم میں داخل ہو سکتے ہیں اسی طرح کئی اور امراض کے جراثیم بھی حملہ آور ہو سکتے ہیں۔
٭آتشک یا Syphilisکی بیماری عمومی طور پر جنسی عمل کے ذریعے منتقل ہوتی ہے مگر اس مرض میں مبتلا مریض کے خون سے بھی منتقلی کا امکان ہوتا ہے۔
اب ہم بڑے اہم سوال کی طرف آتے ہیں کہ کون خون کا عطیہ دے سکتا ہے؟
ہر انسان کے جسم میں تین بوتل اضافی خون کا ذخیرہ موجود ہوتا ہے۔ ایک تندرست شخص جسکی عمر 18سے 60سال کے درمیان ہو اور وزن110 پونڈ سے زیادہ ہو ہر تین ماہ بعد خون کا عطیہ دے سکتا ہے۔ خون کا عطیہ دینے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا بلکہ بہتر نتائج برآمد ہوتے ہیں۔
خون میں چکنائی کی مقدار پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے اور انسان کی قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے۔ تین مہینے کے اندر نیا خون بن کر جسم کے ذخیرے میں شامل ہو جاتا ہے۔ ذیابیطس اور بلند فشار خون کے مریض بھی خون کا عطیہ دے سکتے ہیں بشرطیکہ ان کا مرض قابو میں ہو۔
اس موقع پر یہ سوال بھی سامنے آتا ہےکہ کون خون کا عطیہ نہیں دے سکتا؟
٭سرطان یا کینسر کے مریض خون کا عطیہ نہیں دے سکتے بطور خاص وہ مریض جن کا کیمو یتھراپی (Chemo theropy)کے ذریعے علاج ہو رہا ہو۔
٭ہیپاٹائٹس بی اور سی کے مریض
٭ایڈز یا ایچ آئی وی کے مریض
٭دل اور پھیپھڑوں کے امراض میں مبتلا لوگ
٭وہ لوگ جنہیں اعصابی امراض ہوں
٭مختلف جنسی بیماریوں کے شکار لوگ
٭انیمیا یا خون کی کمی کا سامنا کرنیوالے افراد
٭منشیات کے عادی افراد خصوصاً وہ افراد جو انجکشن کے ذریعے نشہ آور ادویات استعمال کرتے ہیں۔
٭خون کے مختلف امراض مثلاً ہمیو فیلیا اور تھیلیسمیا وغیرہ میں مبتلا افراد
٭وہ لوگ جو پچھلے دو دنوں سے بخار اور نزلہ زکام کا شکار ہوں اور اینٹی بایوٹک دواؤں کا استعمال کر رہے ہوں۔ ایسے لوگوں کو ٹھیک ہونے کے بعد 14دن تک انتظار کرنا ہوتا ہے۔
خون کی منتقلی کس شکل میں ہوتی ہے؟
عطیے کے وقت خون اپنی اصل شکل میں ہوتا ہے جو پلازما، سرخ و سفید خلیات اور پلیٹ لیٹس پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس خون کو مکمل خون یا whole Blood کہا جاتا ہے۔ ایک زمانے میں مریضوں کو صرف مکمل خون فراہم کیا جاتا تھا مگر اب یہ رجحان بہت کم ہو گیا ہے۔
اب مکمل خون صرف ان مریضوں کو منتقل کیا جاتا ہے، جن کا ہنگامی طور پر بڑی مقدار میں خون ضائع ہو گیا ہو۔ آج کل اصل خون سے کئی مصنوعات یا Productsتیار کی جاتی ہیں اور ضرورت کے مطابق مریضوں کو فراہم کی جاتی ہیں۔
فی الحقیقت یہ مصنوعات خون کے مختلف اجزاء پر مشتمل ہوتی ہیں جنہیں اصل خون سے علیحدہ کر کے محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ عمومی طورپر چار قسموں کی مصنوعات تیار کی جاتی ہیں۔
٭خون کے سرخ خلیات یا Packed cells
٭پلیٹ لیٹس
٭تازہ منجمد پلازماFresh Frozen Plasma
٭خون کے وہ اجزاء یا فیکٹرز جو خون کو بہنے سے روکتے ہیں اور جمنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
اس طرح ایک شخص کا عطیہ کیا ہوا خون بیک وقت کئی مریضوں کے کام آتا ہے۔
مریض کو خون منتقل کرنے سے قبل لیبارٹری میں عطیہ کئے ہوئے خون کو اچھی طرح جانچا جاتا ہے اور اس بات کا اطمینان کیا جاتا ہے کہ خون محفوظ ہے، اس میں کسی قسم کے جراثیم اور وائرس موجود نہیں ہیں۔ پاکستان میں عموماً پانچ مختلف بیماریوں کے حوالے سے خون کو پرکھا جاتا ہے جن میں ہیپاٹائیٹس بی اور سی، ایڈز، ملیریا اور آتشک یا Syphilisشامل ہیں۔
آخری مرحلے میں ایک لیبارٹری ٹیسٹ کے ذریعے یہ تسلی بھی کرلی جاتی ہے کہ مریض کا خون دوسرے انسان کا خون وصول کرنے پر آمادہ ہے اور کسی قسم کے ردعمل کا خدشہ نہیں ہے۔
پاکستان میں خون کا عطیہ دینے والوں کی تعداد خاصی کم ہے اور لوگ مناسب معلومات نہ ہونے کی وجہ سے خوف ، پریشانی اور مختلف اوہام کا شکار رہتے ہیں، طبی کارکنان کی ذمہ داری ہے کہ عوام الناس کو خون کے عطیے کی اہمیت سے آگاہ کریں اور ان کے شکوک و شبہات کا ازالہ کریں۔ کچھ لوگ شرعی نقطہ نظر سے بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔
اس حوالے سے ہم نے مختلف علماء کی آراء کا جائزہ لیا ہے ۔ اس کے نتیجے میں یہی مشترکہ موقف سامنے آتا ہے کہ خون کا عطیہ دینے میں کوئی شرعی قباحت نہیں بلکہ یہ عین کار ثواب ہے۔خون کا عطیہ دینے سے لوگوں کی جان کا تحفظ ہوتا ہے اور یہی شریعت میں مقصود ہے۔ البتہ خون کا عطیہ دینے کا کام رضاکارانہ طور پر ہونا چاہئے۔ اس حوالے سے ہونے والی خرید و فروخت کا شریعت میں کوئی جواز نہیں۔
یاد رکھیئے! خون کا عطیہ ایسی نیکی ہے جو لوٹ کر ہماری طرف آتی ہے۔ ہمیں آگے آنا ہوگا اور سارے شکوک و شبہات سے نجات حاصل کر کے بڑھ چڑھ کر خون کے عطیات دینے ہوں گے۔ ہماری جانب سے ہونے والی تاخیر کسی کو موت کی دہلیز پر پہنچا سکتی ہے۔
(ڈاکٹر افتخار برنی ماہر نفسیاتی امراض ہیںاور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے مرکزی جنرل سیکرٹری ہیں۔)
The post انتقال خون؛ اہمیت اور احتیاطی تدابیر appeared first on ایکسپریس اردو.