17مئی کو چیٹ جی پی ٹی کی مالک کمپنی ’اوپن اے آئی‘ کے چیف ایگزیٹو سیم آلٹمین نے امریکی سینٹ کی کمیٹی کے سامنے یہ بیان دیا کہ مصنوعی ذہانت کو ریگولرائز کیا جانا چاہیے۔
وہ یہ بیان مصنوعی ذہانت کے ممکنہ خطرات کے حوالے سے بحث میں ریکارڈ کروا رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت کے نتیجے میں سامنے آنے والے امکانات کو پرنٹنگ پریس کی ایجاد کی طرح دنیا کو مؤثر طریقے سے تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس بات پر انہوں نے بہرحال اتفاق کیا کہ اس کے ممکنہ خطرات سے نمٹنا بھی ضروری ہے۔ ایک امریکی سینیٹر نے بھی بالکل اسی طرح کے خطرے کی نشان دہی کی۔ ان کے خیال میں اس بات سے انکار نہیں کہ مصنوعی ذہانت کے کافی انقلابی اثرات ہو سکتے ہیں لیکن یہ بالکل ایٹم بم کی طرح خطرناک بھی ہے۔
’چیٹ جی پی ٹی‘ کی ایجاد نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک طوفان برپا کیا ہے۔ 30 نومبر 2022ء کو آغاز کرنے والے اس پلیٹ فارم نے ہر شعبہ ہائے زندگی پر اپنا اثر ڈالا ہے اور مختصر عرصے کے دوران ٹیکنالوجی، صحت، تعلیم، تجارت، کاروبار اور بینکنگ سے تعلق رکھنے والے صارفین کی تعداد 10کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔
’چیٹ جی پی ٹی‘ ایک طاقت ور اے آئی ٹول اور کمپیوٹر لینگوئج ماڈل ہے جو کہ انسانوں کی طرح گفتگو کر سکتا ہے اور سوالوں کے جواب دے سکتا ہے۔ اب یہ پروگرام تصاویر اور ویڈیوز کو بھی پراسیس کر سکتا ہے، سادہ کاغذ پر دیے گئے ڈیزائن کے مطابق ویب سائٹ ڈیزائن کر سکتا ہے۔ اس کو تین ارب لفظوں کی مدد سے تیار کیا گیا ہے۔
اس میں فیڈ کیے گئے ڈیٹا کی یہ مقدار ظاہر کرتی ہے کہ یہ کام کتنے بڑے پیمانے پر کیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ انسانوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے بھی یہ مسلسل سیکھ رہا ہے اور خود کو اپ گریڈ کر رہا ہے۔ روزمرہ کے معمولی مسائل جیسا کہ ای میلز یا پیغامات لکھنے کے ساتھ ساتھ یہ پیچیدہ کام جیسا کہ آڈٹ وغیرہ کرنا بھی سر انجام دے رہا ہے۔
اس کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے کافی کمپنیز نے ’چیٹ جی پی ٹی‘ کو اپنے پروگرامز کا حصہ بنایا جیسا کہ مائیکروسافٹ کے ’بنگ‘ سرچ انجن کو اس کے ساتھ لنک کر دیا گیا ہے۔ سنیپ چیٹ نے جب اس کو اپنی ایپ میں شامل کیا تو اس کی شہرت مزید پھیل گئی۔
جہاں پہلے اس کو صرف پڑھے لکھے لوگ استعمال کر رہے تھے، اس ایپ میں آنے کے بعد عام لوگوں نے بھی اسے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس میں ایک بڑا عنصر اس کی مقامی زبانوں کو سمجھنے کی صلاحیت اور مزاح سے بھر پور جواب دینے کی اہلیت تھی۔ یہ رومن اردو میں بہت اچھے سے بات کر سکتا ہے۔
پاکستان میں کچھ دن تو سوشل میڈیا پر اس کا خوب چرچا رہا۔ ہر کوئی ’چیٹ جی پی ٹی‘ کے ساتھ بات کر کے اس کے اسکرین شاٹس شئیر کر رہا تھا۔ کافی لوگوں کے لیے یہ نا قابل یقین اور حیران کن تھا۔
میرے ایک دوست کے نزدیک اس سب کے پیچھے کوئی انسان بیٹھے تھے جو اس کو چلا رہے تھے۔ کافی تگ ودو کے بعد میں اس کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہو ا کہ ایسا کچھ نہیں ہے اور یہ خودکار طریقے سے کام کرنے والا سوفٹ وئیر ہے۔
اگرچہ ایجادات کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے کا امتیاز ہوتی ہیں، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ان کو کنٹرول کیا جائے۔ اس وقت یہ اور بھی ضروری ہو جاتا ہے جب اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ ’اے آئی‘ مشین، اپنے اور انسان کے تعلق کو آقا اور غلام کے تعلق میں بدل سکتی ہے۔
یہ تصویر اس وقت کچھ واضح ہوتی ہے جب ہم انسان اور موبائل کے تعلق کو دیکھتے ہیں۔ صبح بستر سے اٹھنے سے لے کر رات سونے تک ہم اپنا زیادہ تر وقت فون پر گزار رہے ہوتے ہیں۔ اپنی چھوٹی سے کے کر بڑی ضروریات تک کے لیے ہم بہت حد تک اس پر انحصار کر تے ہیں۔
یہ ہماری زندگی کے دوسرے پہلوؤں کو بھی متاثر کرتا ہے کیونکہ موبائل فون کے استعمال میں کوئی اصول و ضوابط یا ریگولیشنز نہیں ہیں۔ بالکل اسی طرح اگر مصنوعی ذہانت کے لیے بروقت قوانین نہ بنائے گئے تو یہ بڑی حد تک ہم پر بہت جلد غالب آ جائے گی۔
اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ مصنوعی ذہانت کے بہت سے فوائد ہیں لیکن دوسری طرف اگر اس کو ریگولرائز نہیں کیا جاتا تو اس کے سیاسی، معاشرتی، معاشی اور عسکری میدانوں میں نقصانات بھی ہیں۔ سیاسی میدان میں یہ چیٹ بوٹس مختلف امیدواروں کی عوامی مقبولیت کا اندازہ لگانے میں مدد دے سکتے ہیں۔
اے آئی مختلف سیاسی رہنماؤں کو باخبر کمپین چلانے، ویب سائٹس اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس چلانے، لوگوں سے بات چیت کرنے، ان کے سوالات کے جواب دینے، اور مطلوبہ مواد تیار کرنے میں مدد کرسکتی ہے۔ جنریٹو اے آئی عوامی حمایت کا اندازہ لگا سکتی ہے اور انتخابات کے نتائج سے قبل از وقت آگاہ کر سکتی ہے۔
یہ مصنوعی ذہانت کے میدان سیاست میں کچھ مثبت استعمالات ہیں ، تاہم ان ریگولیٹد اے آئی (بغیر ضابطے کے) سیاسی رہنماؤں کی کردار کشی، عوامی رائے کو متاثر کرنے، اور حقائق کو مسخ کر کے کسی کی حمایت اور کسی کی مخالفت میں استعمال ہو سکتی ہے۔
جب چیٹ جی پی ٹی سے سیاسی کمیونیکیشن اور جمہوریت پر مصنوعی ذہانت کے اثرات کے بارے پوچھا گیا تو اس کے خیال میں اے آئی میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ تزویراتی اور سیاسی کمیونیکیشن پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ نتیجتاً یہ بات ضروری ہو جاتی ہے کہ اے آئی کو استعمال کرتے وقت اخلاقیات کو مدنظر رکھا جائے اور پالیسی ساز ان خطرات کو مدنظر رکھیں۔ ’چیٹ جی پی ٹی‘ کے یہ جواب دینے کی وجہ یہ تھی کہ ڈیٹا کی مدد سے اسے تشکیل دیا گیا ہے۔
جوں جوں ہر روز زیادہ سے زیادہ ڈیٹا تخلیق ہو رہا ہے ، یہ پروگرامز اور زیادہ ذہین ہوتے جائیں گے۔ یہ سیاسی رہنماؤں کی جھوٹی، جعلی یا مسخ شدہ تصاویر بنا سکتا ہے جیسا کہ کچھ روز قبل یوکرینی صدر ولادی میر زیلنسکی کی روس کے سامنے سرنڈر کرنے کی ویڈیو بنائی گئی تھی۔
اے آئی اور چیٹ بوٹس کو غلط معلومات اور جعلی خبروں کو پھیلانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور اسے عوام میں پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا کے الگورتھم میں ہیرا پھیری کی جا سکتی ہے۔ یہ عوامی تحفظ کے حوالے سے ناقابل یقین حد تک تشویشناک بات ہے۔
مزید یہ کہ اے آئی معاشی میدان میں پیداواری صلاحیت اور کارکردگی بڑھانے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق آئندہ دس سالوں کے دوران جنریٹو اے آئی سے سالانہ عالمی جی ڈی پی میں 7.0 فیصد اضافہ متوقع ہے۔
جنریٹو اے آئی ماڈلز جیسا کہ گوگل کابارڈ اور چیٹ جی پی ٹی کے پاس اعلیٰ درجے کی ذہانت ہے جو کہ زیادہ تر انسانوں کے پاس نہیں ہوتی۔ یہ چیز ایک اور خطرے کو جنم دیتی ہے۔ کیا اے آئی انسانی ملازمتوں پر قبضہ کر سکتی ہے؟ اگرچہ اے آئی بہت سے شعبوں میں انسانوں کی مدد کر رہی ہے لیکن یہ خطرہ مسلسل موجود ہے کہ یہ انسانوں کا متبادل ثابت ہو گی۔
جب عام ڈرائیورز نے ایک وقت میں اوبر اور کریم کی وجہ سے ملازمتوں سے ہاتھ دھوئے تھے، اس بات کا امکان ہے کہ خودکار کاروں کی آمد سے اوبر اور کریم کے ڈرائیور ملازمت سے محروم ہو جائیں گے۔
مصنوعی ذہانت مکمل طور پر انسانوں کی جگہ نہ بھی لے لیکن یہ نئی تکنیکی اور غیر تکنیکی ملازمتیں تخلیق کرتے ہوئے کچھ ملازمتوں کو بے کار بنا سکتی ہے۔ جو لوگ ان تبدیلیوں کو اپنانے یا سیکھنے کے لیے تیار نہیں وہ خسارے میں رہیں گے۔
اسی طرح چیٹ جی پی ٹی مختلف سماجی شعبوں میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ سب سے نمایاں تعلیمی شعبے میں اس کا استعمال ہے۔ طلباء بڑے پیمانے پر اسے اپنی اسائنمنٹس بنانے یا مضامین کا خلاصہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اس سے جہاں طلباء پر بوجھ کم ہوا ہے وہیں پروفیسرز پر بوجھ بڑھ گیا ہے۔ اے آئی سے تیار کردہ مواد کو انسانوں کی لکھی ہوئے تحریر سے فرق کرنا مشکل ہے۔ یونیورسٹی آف کیمبرج کی تحقیق کے مطابق اے آئی پر مکمل انحصار تعلیمی شعبے کو متنازع بنا دے گا اور مصنوعی ذہانت اس کی سالمیت کے لیے خطرہ ہوگی۔
ان کے خیال میں محض آئیڈیاز تخلیق کرنے کے لیے اس کا استعمال تو مددگار ہو سکتا ہے لیکن کلی طور پر اس پر منحصر ہونا غلط ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ درسگاہوں میں ایمانداری اور میرٹ کو یقینی بنانے کے لیے ان ٹولز کو ریگولرائز کیا جائے۔
اگرچہ سویلین معاملات میں تو اے آئی کا استعمال بہت حد تک ہے، یہ عسکری شعبے میں بھی بہت مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ امریکی محکمہ دفاع کے ایک اہلکار کے مطابق اے آئی ملٹری سوفٹ وئیرز کو تیار کرنے میں بہت مدد کر سکتی ہے۔
ان کے مطابق اس سے قبل ڈویلپرز اور کوڈرز کو اس کے لیے قائل کرنا کافی مشکل ہوتا تھا۔ فیصلہ سازی، تدابیر اختیار کرنے، دفاعی حکمت عملی بنانے اور مختلف سینسرز سے حاصل شدہ ڈیٹا کا تجزیہ کرنے میں اے آئی مددگار ہو سکتی ہے۔ اسے ابھرتی ہوئی عسکری ٹیکنالوجیز جیسے کہ ڈرون، میزائل، جیٹ، ٹینک وغیرہ میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
مہلک خود کار ہتھیاروں کے نظام میں جنریٹیو اے آئی کا استعمال سب سے زیادہ خطرناک ہوگا کیونکہ یہ ہتھیار ایک بار فعال ہونے کے بعد خودکار طور پر لوگوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
اس سے احتساب، ذمہ داری اور شفافیت کے بارے میں خوف پیدا ہوتا ہے کہ کون ذمہ دار ہو گا اور کس کا احتساب ہو گا۔ اس لیے اس کو ریگولیٹ کرنا بہت ضروری ہو جاتا ہے، کیونکہ وقت کے ساتھ اے آئی زیادہ ذہین ہو سکتی ہے اور انسانوں کو نظرانداز کرتے ہوئے آزادانہ اقدامات کر سکتی ہے۔
اگرچہ اٹلی نے چیٹ جی پی ٹی پر پابندی لگا ئی تھی جو کہ اب ہٹا لی ہے، لیکن بہت سے ممالک جنریٹو اے آئی کو ریگولیٹ کرنے والے قوانین متعارف کرانے سے گریزاں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح کے قوانین انہیں ٹیکنالوجی کی دوڑ میں پیچھے دھکیل سکتے ہیں۔ تیز رفتار ترقی کے دور میں، ٹیکنالوجی پر پابندی لگانے کی بات چیت غیر متعلقہ اور غیر منطقی ہے اور تکنیکی طور پر ترقی یافتہ ریاستوں کے مفاد میں نہیں ہے۔
لہذا، پابندی کے بجائے ضوابط اور قوانین پر زور دینا ضروری ہے، جیسا کہ اوپن اے آئی کے سی ای او اور سیلیکون ویلی کے دوسرے ممبران نے کیا ہے۔ سینڈفورڈ یونیورسٹی کے 2023ء کے انڈیکس کے مطابق، عالمی سطح پر تقریباً 37 بل قانون کی شکل میں پاس کیے گئے، لیکن یہ قوانین قومی سطح پر مصنوعی ذہانت کے محدود پہلوؤں کو ریگولیٹ کرتے ہیں۔
عالمی سطح پر اے آئی میں مقابلہ بڑھ رہا ہے اور اس کو ریگولرائز کرنے والی آوازیں پست ہو رہی ہیں یا بہت کم ہیں جس کا مستقبل میں نا قابل تلافی نقصان اٹھانا پڑھ سکتا ہے۔ باقاعدہ قوانین اور ریگولیشنز ہی اس بات کو یقینی بنا سکتی ہیں کہ اے آئی کا استعمال مثبت اور انسانیت کے لیے فائدہ مند ہو، ناں کہ ایٹم بم کی طرح تباہ کن۔
The post کیا مصنوعی ذہانت خطرناک ہو سکتی ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.