دوپہر کی تپتی اور جھلستی ہوئی دھوپ میں بسوں کے دھکے کھا کر جب وہ گھر میں داخل ہوئی، تو کچھ اَن جانی خواتین کو اپنی ماں اور بھاوج کے ساتھ محو گفتگو دیکھ کر ایک لمحے کو وہ ٹھٹھک گئی، لیکن جیسے ہی اس کی نظر ایک مخصوص چہرے پر پڑی، اسے سارا معاملہ سمجھ میں آگیا۔۔۔ یعنی شاہدہ خالہ آج پھر رشتہ کروانے کے لیے کسی کو لائی تھیں۔
وہ انھیں بے دلی سے سلام کرتے ہوئے اپنے کمرے میں جا چکی تھی۔ اس طرح کے حالات اسے سخت ذہنی اذیت کا شکار کر رہے تھے۔
گھر میں کچھ عرصے کے وقفے بعد یہی معاملہ زیر بحث آنے لگا تھا کوئی بھی اس کی کیفیت کو سمجھنے کے لیے تیار نہ تھا کچھ لمحے بعد ہی اس کے کمرے تک ان خواتین کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں تھیں، جو بہت آسانی سے ’باڈی شیمنگ‘ کے ساتھ ساتھ اس کی پڑھائی پر بھی اعتراض کر رہی تھیں، لیکن انھیں کوئی بھی جواب نہیں دے پا رہا تھا۔
اس کے بعد کیا باتیں ہوتی رہیں اور کب انھوں نے رخصت لی، اسے علم نہ ہو سکا، کیوں کہ وہ تھکن اور آئے دن کے منفی رویوں کے باعث ذہنی طور پر پریشان ہونے کے باجود وہ نیند کی وادی میں جا چکی تھی۔ اسے بلانے کسی کا نہ آنا اس بات کی پیشگی اطلاع تھی کہ اس کا دھان پان ہونا ان خواتین کو پسند نہیں آیا تھا۔
رامین کو شادی کرنے پر کوئی اعتراض نہ تھا، لیکن وہ روایتی لڑکیوں سے قدرے مختلف تھی اس کا مختلف ہونا لوگوں کی نظر میں بہت بڑی خامی لگتی تھی، وہ اسے کتابیں پڑھنے کی وجہ سے دماغی خلل قرار دیتے تھے اور اسے بے وقوف اور جذباتی کہنے میں کوئی لحاظ نہ رکھتے۔
بالکل یہ بے وقوفی ہی تھی جو فضول کی روایت کی پیروی کرنے پر یقین نہیں رکھتی تھی، جس میں لاکھوں کا سامان دے کر یوں ثابت کیا جائے، گویا لڑکی کسی ایسے سیارے پر قیام کا ارادہ رکھتی ہے، جہاں ضرورت کی کوئی چیز میسر ہی نہیں اور تعلیم کی دولت اور ذہنی ہم آہنگی کو اہمیت دینا بھی اس کی عقل پر ماتم کرنے کے لیے کافی تھا۔
اسی نوعیت کے حالات یا تھوڑے سے فرق کے ساتھ اکثر گھروں میں دیکھے جاتے ہیں لیکن کوئی انھیں سنجیدگی سے سمجھنے کے لیے تیار نہیں، شادی کے معاملات میں زیادہ تو لڑکے لڑکیاں سمجھوتا کر لیتے ہیں، جو رشتہ جذباتی اور محبت کے ساتھ بنانا چاہیے۔
وہ اکثر سمجھوتے اور مجبوری کی نذر ہو جاتا ہے، جو آنے والی زندگی میں ناچاقیاں ہی پیدا کرتا ہے، ہوں بہ ظاہر خوش حال نظر آنے والا جوڑا کئی طرح کی رنجشیں اور شکوے اپنے اندر پال رہا ہوتا ہے، یوں کہیں سے بھی محبت کے جذبات پھوٹتے ہوئے نظر نہیں آتے اور زندگی ایک مشکل سفر لگنے لگتا ہے۔
جیسے جیسے وقت بدلتا ہے اس کے تقاضے بھی بدلتے رہتے ہیں، ہر نسل اپنے بعد والی نسل سے ہمیشہ شاکی ہی رہی ہے اور یہی شکایت ’جنریشن گیپ‘ کا باعث بنی رہی اکثر والدین یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہم اپنی زندگی میں ان کی ذمہ داری پوری کرنا چاہتے ہیں والدین کی محبت اور فکر سے انکار کسی صورت ممکن نہیں،, لیکن ایک طرف ہم اپنی اولاد کو نئے دور کے مطابق چلنا سکھا رہے ہوں دوسری ہی طرف انھیں بے بنیاد روایات کی طرف بھی دھکیلیں یہ تضاد کئی مسائل کو جنم دینے لگتا ہے۔
ہم خود میں اتنا حوصلہ نہیں رکھتے کہ اولاد خاص طور پر لڑکیوں کے شادی سے متعلق خیالات کو سن سکیں۔ انھیں تمام خوابوں اور خواہشات کا گلا گھونٹ کر اپنے بتائے گئے رشتوں پر ہامی بھرنے کی تلقین کرتے ہیں کیوں کہ ہم لوگوں کی باتیں سننا گوارا نہیں کرتے۔ ہم سماجی بائیکاٹ سے ڈرتے ہیں گویا اپنی اولاد کے ساتھ کھڑے ہوکر ہم کوئی بہت بڑا گناہ کرنے والے ہوں۔
ایک طرف دنیا روز بہ روز ترقی کی منازل طے کر رہی ہے دوسری ہی جانب ہم اپنے بچوں کو جذباتی طور پر دباو کا شکار کر کے انھیں ان چاہی زندگی گزارنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اب وہ وقت آچکا ہے کہ ہم بدلتے ہوئے وقت کے تبدیل شدہ حقائق کو تسلیم کریں اور یہ جانیں کہ مقابلے کی فضا نے انھیں ذہنی طور پر الجھا رکھا ہے۔
تیزی سے بدلتے حالات کے ساتھ دوڑنا بہت مشکل ہے، اس صورت میں ہمارا یوں جذباتی بلیک میل کرنا ان کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔
لہٰذا اولاد کو اپنے قریب کر کے اس کے خیالات جانیں اس کے وجود کو کسی بھی طرح رد نہ کریں اور انھیں اتنا اعتماد ضرور دیں کہ وہ ہمارے سامنے اپنی بات کہنے سے پہلے کسی ڈر یا جھجھک کا شکار نہ ہوں۔ ممکن ہے یہ قدم ہمارے گھروں میں سکون کی فضا قائم کردے۔
The post رشتہ کرانے کے طور نہ بدلے۔۔۔! appeared first on ایکسپریس اردو.