’’خیر بخش دوم کی زندگی اپنے بزرگوں کی تقلید ہے، جن میں اس کا دادا خیر بخش اعظم جس نے انیسویں صدی میں برطانوی حکومت کے خلاف بلوچ مزاحمت کی راہ نمائی کی اور اس کا باپ مہراﷲ خان مری جس نے 1947ء کے انتقالِ اقتدار سے قبل کے عشرے میں برطانیہ کے خلاف زیرِزمین سیاسی تحریک کی قیادت کی، شامل ہیں۔……پچاس کے پیٹے میں، دبلا پتلا، دراز قد، خوش فہم، فہم و فراست کا مالک اور گم راہ کن حد تک حلیم الطبع مری ایک خوش بیان مقرر اور قوم پرست تحریک کا مؤثر نقیب ہے۔
تاہم اسے روز مرہ کی سیاسی سرگرمیوں اور مشکلات میں اکثر اوقات متذبذب اور بعض مقام پر سادہ لوح پایا گیا ہے۔ وہ بین الاقوامی دانش ورانہ ذوق کا مالک ہے (ٹائم، نیوز ویک، لندن اکنامسٹ اور ان کے ساتھ ساتھ مارکسسٹ جریدوں کا بھی مطالعہ کرتا ہے ۔) 1972ء کی سیاسی جلاوطنی سے قبل دوبار امریکا اور برطانیہ کا دورہ کر چکا ہے۔ تاہم اس کا طرزِ زندگی ہر لحاظ سے بلوچ ہے۔ وہ روایتی لباس پہنتا ہے، حتیٰ کہ بیرونِ ملک مغربی ممالک میں بھی۔ وہ مرغوں کی لڑائی کا اَزحد شوقین ہے ، جو بلوچوں کا وقت گزارنے کا روایتی مشغلہ ہے۔
تیسری دنیا کے دوسرے قوم پرستوں کے بر عکس، جن کی نظریاتی راہ عام طور پر کالج کی تعلیم کے دوران ہی متعین ہوجاتی ہے، مری نے سیاسی میدان میں تاخیر سے قدم رکھا۔ اس کے سابق ہم جماعت جو اُسے ایچی سن کے زمانے سے جانتے ہیں، مری کو آزادی سے قبل ہندوستان کے مخصوص حکم راں طبقے کے خوش مزاج، خوش قسمت اور کھلندڑرے جوان کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ پاکستان میں ہندوستان کا سفیر شنکر باجپائی اُسے 1977ء کے سفارتی استقبالیے میں بمشکل پہچاننے میں کام یاب ہوا۔ باجپائی یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ جس زندہ دل نوجوان کو وہ جانتا تھا، اب حساس سیاسی مجتہد میں تبدیل ہوچکا ہے جو پانچ سالہ قید، تین سال ایوب انتظامیہ کے ہاتھوں اور دو سال بھٹو کے تحت، کے گہرے نفسیاتی اور جسمانی نشان لیے ہو ئے ہے۔‘‘
یہ وہ اولین تعارف ہے جو ہمیں بلوچستان کے اس اہم ترین راہ نما سے متعلق پڑھنے اور جاننے کو ملتا ہے۔ اور یہ تعارف سن اَسی کی دَہائی میں ’بلوچ نیشنل ازم اِن افغانستانز شیڈو‘ نامی کتاب لکھنے والے معروف امریکی صحافی اور تجزیہ نگار سیلگ ہیریسن نے کروایا۔ اس کتاب میں خیر بخش مری سے متعلق شامل باب ان کی شخصیت، حالات اور افکار کا نہ صرف اولین بلکہ بہترین تعارف ہے۔ سیلگ ہیریسن کے بقول متذبذب، سادہ لوح، گم راہ کن حد تک حلیم الطبع اور اور شاہ محمد مری کے بقول ’فلاسفر‘ کنفیوز اور جان بوجھ کر کنفیوز‘ کے القابات پانے والا بلوچ سیاست کا یہ سحر آفریں کردار، اپنی شخصیت کے گرد پُراسراریت کا ایک ہالہ اوڑھے، دس جون کی رات مستقل خاموشی اختیار کرتے ہوئے منوں مٹی تلے جا سویا۔جس قدر اس شخصیت نے خود اپنے متعلق ابہام پیدا کیے رکھا۔
پاکستان اور بلوچستان کی سیاست میں اس کا تذکرہ اسی ابہام لیکن احترام کے ساتھ ہمیشہ ہوتا رہے گا۔ یہ دل چسپ تضاد ہے کہ نہ صرف پورے پاکستان بلکہ بلوچستان میں بھی ان کی سیاست، نظریات اور حکمت عملی سے کلی طور پر اتفاق نہ کرنے کے باوجود ان کے مخالفین بھی ان کے کردار اور کمٹ منٹ کی تحسین کیے بنا نہیں رہ سکتے۔ سخت گیر مؤقف رکھنے والا یہ آدمی اپنے مزاج میں اس قدر حلیم الطبع اور منکسرالمزاج واقع ہوا تھا کہ اس سے ملنے والا کوئی بھی شخص بہ آسانی یہ ماننے پہ تیار نہ ہوتا کہ یہ بلوچستان کے سب سے بڑے اور جنگ جو قبیلے کا سربراہ ہے۔
خود اُنھوں نے ایک بار ایک ٹی وی انٹرویو میں، میزبان کے اس سوال پر کہ ’اگر آپ سیاست داں نہ ہوتے تو کیا ہوتے؟‘ کہا تھا،’میری خواہش تھی کہ میں کسی اسکول میں ماسٹر ہوتا اور بچوں کو پڑھاتا۔‘ اور پھر اپنی اس خواہش کی تکمیل انھوں نے یوں کی کہ نوے کی دَہائی میں افغانستان سے جلاوطنی کے خاتمے کے بعد کوئٹہ میں واقع اپنی رہائش گاہ پر ’حق توار‘ (صدائے حق) کے نام سے ایک اسٹڈی سرکل چلانا شروع کردیا۔
یہ سن دوہزار کے ابتدائی برسوں میں تب تک جاری رہا، جب تک کہ پرویزمشرف نامی طالع آزما نے ایک قتل کے مقدمے میں ملوث کر کے انہیں جیل میں نہ ڈال دیا، جہاں سے رہائی کے بعد وہ کراچی میں واقع اپنی بیٹی اور داماد کے گھر میں منتقل ہوگئے اور یہیں عمر تمام کی۔معروف ترقی پسند ادیب اور سیاسی کارکن احمد سلیم حال ہی میں شایع ہونے والی اپنی کتاب ’بلوچستان، صوبائی خودمختاری سے بے اختیاری تک‘ میں اس اسٹڈی سرکل سے متعلق لکھتے ہیں کہ اُس زمانے میں کوئٹہ جانا ہوا تو ’حق توار‘ کے اسٹڈی سرکل میں شرکت کی خواہش ظاہر کی، لیکن انھیں مرکزی دروازے سے ہی یہ کہہ کر واپس کردیا گیا کہ مری صاحب کسی پنجابی سے ملنا پسند نہیں کرتے۔
اس سخت سلوک کے باوجود احمد سلیم نے لکھا کہ ’اس سلوک پر جذباتی ہونے کی بجائے میں احتراماً وہاں سے لوٹ آیا کیوںکہ میرے ساتھ اس سلوک کی ان کے پاس ٹھوس وجوہات تھیں، میں ان کے اس رویے کے پس منظر سے آگاہ تھا اور ان کی خفگی کو جائز سمجھتا تھا۔‘یہ درست ہے کہ سردار خیر بخش مری کا یہ رویہ جبلی نہیں بلکہ معروضی تھا۔ یہی مری کسی زمانے میں پنجابی کامریڈوں کے ساتھ ایک ہی پارٹی میں کام کرتے رہے۔ ملک گیر جماعت نیشنل عوامی پارٹی کے صوبائی صدر رہے اور اسی کے پلیٹ فارم سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر بھی منتخب ہوئے۔ یہ قصہ سیلگ ہیریسن نے کچھ یوں بیان کیا ہے؛
’’مری، انتخابات میں قومی اسمبلی کی ایک بلوچ نشست پر منتخب ہوا اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کے مختصر دورحکومت میں اس کا صدر منتخب ہوا۔ تاہم اسلام آباد سے متعلق اس کے نقطۂ نظر میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ 1973ء میں جب بزنجو نے بھٹو کے آئین پر دست خط کردیے تو مری نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ اس کی خودمختاری کی شقیں ناکافی اور بے معنی ہیں۔ مری کے انکار کو بعدازاں بلوچ اکثریت کی تائید حاصل ہوئی ۔جب بھٹو نے بیک جنبشِ قلم صوبائی حکومت توڑ ی اور مرکزی قیادت کو گرفتار کر لیا۔
جب جنرل ضیا نے بلوچ قیادت کو رہا کیا تو مری بصد ردو کد مینگل اور بزنجو کے ساتھ اسلام آباد سے مذاکرات پر تیار ہوا اور کسی بھی سمجھوتے کی بنیاد کے طور پر چند بڑی پاکستانی مراعات پر اصرار کرتا رہا۔ اس کا اصرار تھا کہ بلوچوں کو نئی فوجی انتظامیہ کی اُس وقت تک حمایت نہیں کرنی چاہیے جب تک ضیا بلوچستان سے فوج کے مکمل انخلا اور فوجی معرکوں میں نقصان اٹھانے والوں کے لیے معاوضے کی ادائیگی کے لیے تیار نہیں ہوجاتا۔ جب ضیا نے یہ تجاویز ماننے سے انکار کردیا تو مری کا مؤقف ایک بار پھر درست ثابت ہوا، اور ایک طرح سے وہ بلوچ مفادات کے مضبوط نگہبان کی صورت اختیار کر گیا۔‘‘
بلوچ مفادات کا یہ نگہبان سن ستر کے پارلیمانی تجربے کے بعد پھر کبھی لوٹ کر اس کوچے کی جانب نہ گیا۔ حیدرآباد سازش کیس میں دورانِ اسیری ہی ان کے اپنے ساتھیوں سے فکری اختلافات ہوگئے۔ یہ اختلاف اس قدر بڑھ گئے کہ نیپ کی قیادت جب حیدرآباد سازش کیس سے رہا ہو کر نکلی تو ان کی راہیں الگ الگ ہوچکی تھیں۔ ’بابائے بلوچستان‘ کہلائے جانے والے غوث بخش بزنجو سے اختلاف رکھنے والے نواب خری بخش مری آخر تک انھیں سیاسی استاد مانتے رہے۔
سن دو ہزار آٹھ میں ایک نجی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں انھوں نے اعتراف کیا کہ وہ بزنجو صاحب کو ’ماسٹر‘ کہا کرتے تھے، اور آج بھی سیاسی میدان میں انھیں اپنا استاد سمجھتے ہیں…ایسا استاد جس کی وہ تادیر فکری پیروی نہ کر سکے۔پاکستان میں بائیں بازو کی عوامی سیاسی تنظیم کی بنیاد رکھنے والے میرغوث بخش بزنجو سے اختلاف کے باوجود نواب مری خود کو بائیں بازو کے نظریات سے الگ نہ کر پائے۔ ابتدائی عہد سے لے کر آخری عمر تک وہ خود کو ایک مارکسسٹ کہلوانے سے کبھی نہ کترائے۔ امریکی صحافی نے ان سے ہونے والی اولین ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا؛
’’ہماری کوئٹہ میں ملاقات کے دوران اگرچہ مری نے لینن کا روایتی بیج تو نہیں لگایا ہوا تھا، لیکن اس نے بڑی شدومد سے لینن کی تصانیف میں اپنی دل چسپی کا اظہار کیا اور وضاحت کی کہ ان پر جوں کا توں عمل کرنا اس کے نزدیک ضروری نہیں۔ اس نے کہا؛’میں ان کے علاوہ کسی بھی اور کے، جن کی میں عزت کرتا ہوں، بیج لگا سکتا ہوں، مثلاََ گوتم بدھ۔ جو کچھ میں نے لینن میں دیکھا مجھے اور کہیں نظر نہیں آیا۔ لیکن اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ مجھے اس پر یا اس کی تصانیف پر اندھا اعتماد ہے۔ مارکسزم، لینن ازم نے مجھے سیاست کو سمجھنے میں مدد دی ہے، لیکن ’اشتراکی‘ (سوشلسٹ) ہونا آسان نہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ میں اس پر پورا اُترتا ہوں۔‘
مری، مارکس اور لینن کے نظریات کو بلوچ معاشرے میں ’قومی اشتراکیت‘ کے طور پر اپنانے کی بات کرتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ کوئی بھی اگر یہ سمجھتا ہے کہ بلوچستان کی مشکلات مغربی طرز کی یہودی ریاست کے قیام کے ذریعے حل ہو سکتی ہیں، تو وہ غلطی پر ہے۔ اگر کسی کا خیال ہے کہ پارلیمانی جمہوریت کے ذریعے کوئی بلوچوں کو ’بلوچستان‘ پلیٹ میں سجا کر پیش کر دے گا تو مجھے اس پر شک ہے۔ قانون کے ذریعے یہ سب کچھ ہو، تو مجھے اس پر بھی یقین نہیں۔ اگر ہمیں اپنے حقوق چاہئیں تو یہ معمول کے مغربی طریقوں سے حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ میرے خیال میں سرمایہ دارانہ قوم پرستی متروک ہوچکی ہے۔ آج غریب اپنی آزادی کے لیے اپنے زمیندار یا جاگیردار کی راہ نمائی تسلیم نہیں کرے گا۔ اسے یقین دلانا ہو گا کہ نئی ریاست میں اسے اقتصادی حقوق ملیں گے، جس کا مطلب یہ ہے کہ لینن یا مارکس کی تعلیمات میں سے کچھ کو اپنانا ہو گا۔‘‘
دو ہزار بارہ اور پھر تیرہ میں دیے گئے اپنے آخری انٹرویو میں انھوں نے بالترتیب واضح انداز میں کہا،’بلوچستان کا مستقبل سوشل ازم ہو گا‘ نیز یہ کہ،’بلوچوں کو سوشلسٹ تعلیم کی ضرورت ہے۔‘ یہ باتیں ہم نے ان سے ہونے والی طویل گفت گو میں خود بھی سنیں۔ گفت گو کے معاملے میں کم گوئی کے لیے معروف خیر بخش مری مطالعے کے معاملے میں ’’بسیار خور‘‘ تھے۔ مقامی اور ملکی سطح کے علاوہ عالمی سطح کے اہم ذرائع ابلاغ کا باقاعدگی سے مطالعہ کرنے کے ساتھ بالخصوص بلوچستان سے متعلق کتابیں نہایت ذوق و شوق سے پڑھتے تھے۔ ان کا یہ معمول صاحبِ فراش ہونے تک جاری رہا۔
ان کی وفات سے چار سال قبل ہم چند دوست جب ان سے ملنے کے لیے گئے تو تازہ ترین کتابوں پر ان کی گفت گو ہمارے لیے حیران کن تھی۔ اور حیران کرنے دینے کی صلاحیت ان میں بدرجہ اتم موجود تھی ۔ مثلاً یہ بات کتنے ہی قارئین کے لیے حیران کن ہو گی کہ سن ستر کی دَہائی میں بلوچستان میں قایم ہونے والی نیپ کی پہلی جمہوری حکومت کے پہلے پارلیمانی اجلاس میں بلوچستان میں سرداری نظام کے خاتمے کے لیے ایک قرارداد پیش کی گئی، اور یہ قرارداد نواب خیر بخش مری نے پیش کی، جس کی وزیر اعلیٰ سردارعطا اللہ مینگل نے تائید کی، لیکن پیپلزپارٹی کے اراکین نے اسے مسترد کر دیا۔
(تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو، بی ایم کٹی کی مرتب کردہ غوث بخش بزنجو کی سوانح حیات’اِن سرچ آف سلوشن‘، جس کا اردو ترجمہ ہما انور نے ’مقصد سیاست‘ کے نام سے کیا ہے )آخری ایام میں گو کہ وہ اپنے مؤقف میں مزید سخت گیر ہوتے چلے گئے، لیکن یہاں تک پہنچنے کے لیے انھوں نے طویل وقت لیا، اور اس دوران انھیں اس راستے پر جانے سے روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔
اَسی کی دَہائی میں ان سے ملنے والے ہیرسن نے لکھا،’’جب میں نے تجویز پیش کی کہ سپر پاورز کے جوئے تلے آزادی حاصل کرنے کے مقابلے میں پاکستان سے تصفیہ قابلِ ترجیح ہے، تو مختصر وقفے کے بعد اُس نے جواب دیا ؛ ’’ اگر پنجابی یا پاکستانی حکومت بلوغت اور پختگی کے انداز میں حقیقت پسندی اور اس تفہیم کے ساتھ کہ بات چیت کے لیے تیار ہے تو پھر ہم بھی تصفیے کے لیے ہمیشہ کی طرح تیارہیں۔‘‘افسوس کہ ریاستی سطح پرنہ صرف مستقل تصفیے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ نواب مری کی زندگی تمام ہونے کی صورت میں تصفیے کی یہ صورت ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکی۔
نواب مری کی رحلت بلوچستان کے سیاسی ایوان میں کسی زلزلے سے کم نہیں، جس کے آفٹر شاکس تادیر محسوس کیے جاتے رہیں گے، اور ظاہر ہے کہ اس سے ملکی سیاست کے ایوان بھی متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکیں گے۔
اصلاحات کی کبھی مخالفت نہیں کی: خیر بخش مری (از، سیلگ ہیریسن)
’’مری اپنے دفاع میں کہتا ہے کہ اس نے مری علاقے میں اصلاحات کی کبھی مخالفت نہیں کی، بلکہ اُس نے اِس کے پسِ پشت مرکزی حکومت کے استحصالی اور سیاسی مقاصد کو مد نظر رکھا ہے۔ اس سلسلے میں اس نے اَموکو (Amoco) اور دوسرے غیرملکی اداروں کی طرف سے مری علاقے میں تیل کی تلاش کی مہم کا ذکر کیا اور اطمینان کا اظہار کیا کہ مری مزاحمت تاحال تیل کی تلاش اور منسلکہ سڑک کی تعمیر روکنے میں کام یاب رہی ہے۔ مری نے کہا؛’’بگٹی علاقے میں جو کچھ ہوا، ہمارے سامنے ہے۔ وہاں گیس دریافت ہوئی جس کا 80 فی صد دوسروں کو دولت مند بنانے کے لیے بلوچستان سے باہر چلا جاتا ہے۔
ہم یقیناً اپنے علاقے میں ترقی چاہتے ہیں، لیکن یہاں اصلاحات اور ترقی مخصوص انداز اور رفتار سے درکار ہے جو ہمارے علاقے کے حالات کی مناسبت سے ہو۔ ہم جب حکومت میں تھے تو ان سب کاموں کا آغاز کیا گیا تھا، لیکن وہ نہیں چاہتے کہ ترقی کا کام ہماری گرفت میں ہو۔ وہ ہمارے نقطۂ نظر کو سمجھے بغیر یہ سب کچھ اپنے طریقۂ کار کے مطابق کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ اس نے وضاحت کی کہ مسئلہ یہ نہیں کہ آیا ترقیاتی کام کیے جائیں یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ ترقی، خودمختاری کے ساتھ کی جائے یا اس کی عدم موجودگی میں استحصال کا نیا نام اب ترقی رکھا گیا ہے۔
(مصنف کی کتاب ’بلوچ نیشنل ازم ان افغانستانز شیڈو‘ سے اقتباس)
زندگی نامہ (از، شاہ محمد مری)
نواب مری (پیدائش کاہان ، 28 فروری 1929ء ) ابھی دودھ پیتے بچے تھے کہ والدہ کا انتقال ہوگیا۔ کنیزوں اور سوتیلی ماؤں کے دودھ اور دیکھ بحال کی بدولت مرنے سے بچے رہے۔ اُن کا نام ان کے دادا کے نام پر رکھا گیا جو ایک زبردست سام راج دشمن سردار تھے۔ 1933 ء میں ابھی محض چار سال کے تھے کہ والد (سردارمہر اﷲ خان) کا انتقال ہوگیا۔ قبیلہ دودا خان کی قائم مقام سرداری میں چلا گیا اور کم سن خیر بخش دوہری یتیمی کی گود میں۔ انگریز نے اس توقع پر (چیفس کالج لاہور میں) تعلیم و تربیت کی کہ دادا (خیر بخش اول) کے برعکس ایک ’سدھرا نواب‘ میسر ہوگا، مگر یہ نوجوان (1950 ء میں سردار بنا۔ سردار جو قبیلے کا سماجی، معاشی، آئینی اور سیاسی سربراہ ہوتا ہے) انگریز کے کام بھی نہ آیا اور انگریز کے بعد کے جاں نشینوں کو تو یہ شخص بہت منہگا پڑا۔
نواب خیر بخش مری اپنے بلوچ سیاسی رفیقوں اور غیربلوچ آٹھ سیاسی پارٹیوں کے متحدہ محاذ میں پاکستانی سیاست کے نشیب و فراز سے گزرے۔ اس کے ہر ذائقہ اور رنگ سے تجربہ لیتے رہے۔ پارلیمنٹ کے ممبر رہے اور ایسے نتائج حاصل کرتے رہے جو خالصتاً اُن کے اپنے تھے۔ بالخصوص1960 ء کی دہائی کے آخری نصف اور 1970ء کی دہائی کے پہلے نصف پر مشتمل اُن کی زندگی کے دس سال بہت تیزرفتار اور بنیادی فیصلوں کے سال رہے۔ فوجی کارروائیوں، مارشلاؤں، جیلوں، مذاکرات، بحثوں اور مطالعے نے نواب مری کی معلمی کی۔ گو کہ انہوں نے ووٹ اور پارلیمنٹ کی سیاست کبھی ترک نہ کی مگر اُسے واحد حل جاننے سے وہ دُور ہی ہٹتے گئے۔
حتیٰ کہ مشرف کے آخری الیکشن میں انہوں نے پارلیمانی سیاست کو حتمی طور پر بے کار قرار دیتے ہوئے اس میں اپنی طرف سے کوئی امیدوار کھڑا نہ کیا۔ چناںچہ ’’ ون یونٹ توڑ دو‘‘ سے سیاست شروع کی، (آج پشیمانی سے اُس کا تذکرہ کرنے کے باوجود) نیپ میں سیاست کرتے رہے۔ حیدرآباد سازش کیس بھگتا۔ فرانس، برطانیہ اور افغانستان میں جلاوطن رہے۔ سرخ و سفید چہرہ اور مثالی صحت پر داڑھی سفید ہوگئی، پیر نے لاٹھی کے سہارے کا بنادیا۔ عمر 90 سال کی حد میں داخل ہوگئی…… تب ہوتے ہوتے وہ حتمی طور پر ایک نکتے تک پہنچے۔
نواب خیر بخش مری کے انٹرویوز
طبعاً کم گو خیر بخش مری کے خیالات و افکار سے واقفیت کا واحد مؤثر و مستند ذریعہ ان کے وہ انٹرویوز ہیں جنھیں ایک نوجوان سیاسی کارکن نے مرتب کر کے سن دو ہزار گیارہ میں کوئٹہ سے کتابی صورت میں شایع کیا۔ اس کتاب کا پیش لفظ نواب مری ہی کے قبیلے کے ایک سپوت، بلوچستان کے نام ور ترقی پسند دانش ور ڈاکٹر شاہ محمد مری نے لکھا۔ جس قدر اہم یہ کتاب ہے، اسی قدر اہم اور خوب صورت ڈاکٹر مری کا لکھا ہوا پیش لفظ ہے، جس آغاز ہی نہایت دل چسپ ہے۔ نواب مری کی شخصیت اور اس کتاب کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے مذکورہ پیش لفظ کے اولین پیراگراف سے ایک اقتباس پیش ہے؛
’’ بے شک اختلاف رکھ کر پڑھیے مگر یہ سوچ کر پڑھیے کہ یہ ایک عام فرد اور ایک عام لیڈر کے انٹرویو نہیں ہیں۔ یہ بلوچستان سے انٹرویو ہیں، بلوچستان کی حالیہ تاریخ سے انٹرویو ہیں۔ اس لیے کہ یہ بندرعباس سے لے کر تونسہ تک کے بلوچوں کے مقبول ترین اور معتبرترین شخص سے انٹرویو ہیں۔ بلوچوں کی ایک بہت بڑی تعداد ان کی سیاست، اہداف اور حکمت عملی کی بہت ساری جزئیات سے متفق نہ ہوتے ہوئے بھی انہی کی طرح سوچتی ہے۔
یہ ایسے شخص کے انٹرویوز ہیں جس کی قیادت پر اُن تمام لوگوں کو اعتماد ہے جنہیں ایک چیلینج درپیش ہے؛ انقلابی پراسیسوں اور آزادی پہ یقین رکھنے والا چیلینج۔ اور اس شخص نے اُن لاکھوں انسانوں کے اعتماد کو ابھی تک صحیح سالم رکھا ہوا ہے۔ وہ بھی بلوچستان میں، جہاں ایلیٹ طبقہ اور سردار حب الوطنی کے کسی بھی احساس سے محروم ہیں اور جو خود ہی اپنی مادرِوطن کے خلاف عمل کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اُس طبقے سے خود کو جدا رکھنا اور ایک دو نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کے اعتماد کو برسوں تک قائم رکھنا غیرمعمولی کام ہوتے ہیں۔ خیر بخش ایک غیرمعمولی انسان ہے۔ اس کے انٹرویوز اس لیے غور سے پڑھنے چاہییں۔‘‘