کچھ عرصے قبل مصر کی کشیدہ صورت حال کو قابو میں کرنے اور عوام کو خانہ جنگی کی کیفیت سے نکالنے کے لیے فوجی وردی میں ملبوس سرگرم ہونے والے آرمی چیف عبدالفتاح السیسی بالآخر مصر کے صدر بن گئے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مصر کی سیاسی جماعتوں نے اپنے اندر موجود اختلافات کو اتنا بڑھایا کہ اب سیاسی جماعتوں ہی کو ایوان اقتدار سے باہر ہونا پڑگیا ہے۔ ایک فوجی جنرل نے حالات کی نبض پر ہاتھ رکھ کر خود ہی فیصلہ کرلیا کہ مصری عوام کو درپیش مسائل کا علاج کیا ہے۔
گذشتہ ماہ کے اواخر میں منعقدہ صدارتی الیکشن میں عبدالفتاح السیسی کے مقابل صرف ایک امیدوار تھا، حمدین صباحی، جن کو عوام میں کافی مقبولیت حاصل تھی، لیکن انتخابی نتائج کے مطابق السیسی کے مقابلے میں ووٹروں نے انھیں یکسر نظر انداز کردیا۔ صدارتی انتخاب کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 25,578,233 ووٹروں نے نئے صدر کے انتخاب کے لیے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا اور ملک بھر میں مجموعی طور پر ٹرن آئوٹ 47.5 فی صد رہا۔ السیسی نے 96.91 فی صد ووٹ حاصل کرکے کام یابی حاصل کی۔
ان کے حاصل کردہ ووٹ 2012 میں سابق صدر مرسی کے حاصل کیے گئے ووٹوں سے تقریباً ایک کروڑ زیادہ ہیں۔عبدالفتاح السیسی اب مصر کے صدر بن چکے ہیں اور آئینی طور پر مصری عوام کے مستقبل کے فیصلے انھیں کرنے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ بطور صدر کس طرح ملک میں جاری کشیدگی کو ختم کرنے میں کام یاب ہوتے ہیں۔ ان کے اقدامات مخالفین کو مطمئن کر بھی سکیں گے یا نہیں؟ یہ اور ایسے ہی بہت سے سوالات اس وقت عالمی تجزیہ کاروں، مصر کے حالات سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور خود مصری عوام کے ذہنوں میں ہیں۔
السیسی کے حالات زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں کہ انھوں نے صدارتی محل تک کا سفر کس طرح طے کیا؟19نومبر 1954 کو قاہرہ میں جنم لینے والے عبدالفتاح السیسی کا مکمل نام عبدالفتاح سعید حسین خلیل السیسی ہے۔ السیسی کا بچپن ایسے علاقے میں گزرا جہاں مسلمان، یہودی اور عیسائی آبادی تھی ، یہی وجہ ہے کہ انھیں مختلف مذاہب کے لوگوں سے ملنے، ان کے حالات و رسومات کو سمجھنے کا موقع ملا۔8 بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر ہونے کی وجہ سے السیسی کو شروع سے ہی حاکمانہ انداز اچھا لگتا تھا۔ وہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو بھی رعب میں رکھنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔
السیسی کے والد کی مختلف نوادرات اور پرانی اشیا کی دکان تھی جو سیاحوں کے لیے بہت پرکشش تھی۔ السیسی نے دوسرے بچوں کی نسبت شروع ہی سے کھیلوں کے بجائے اپنی پڑھائی پر توجہ مرکوز رکھی۔ ان کا ایک بھائی سول سرونٹ اور دوسرا جج تھا لیکن السیسی نے فوج کو چنا۔ 1977 میں جب وہ مصری ملٹری اکیڈمی سے پاس آئوٹ ہوئے تو اسی سال السیسی اور انتصار امر کی شادی ہوگئی۔
وہ مصری فوج کی سپریم کونسل کے سب سے کم عمر رکن کی حیثیت سے بھی کام کرچکے ہیں۔ السیسی نے کمانڈر میکنائزڈ انفینٹری بٹالین، چیف آف اسٹاف میکنائزڈ انفینٹری بریگیڈ، کمانڈرمیکنائزڈ انفینٹری بریگیڈ، چیف آف اسٹاف سیکنڈ میکنائزڈ انفینٹری ڈویژن، چیف آف اسٹاف ناردرن ملٹری زون، ڈپٹی ڈائریکٹر ملٹری انٹیلیجنس اور دیگر عہدوں پر خدمات انجام دیں۔ ملٹری اکیڈمی میں عسکری تربیت کے ساتھ ساتھ السیسی نے دنیا کے مختلف اداروں سے فوج سے متعلق مختلف کورسز بھی کیے، جن کی بدولت انھیں عسکری میدان میں آگے آنے میں بہت مدد ملی۔ 12 اگست 2012 کو جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر آرمی چیف بنادیا گیا۔
وہ مسلح افواج کے سپہ سالار کی ذمے داریاں سنبھالنے سے قبل وزیردفاع کی حیثیت سے بھی کام کرچکے ہیں۔ السیسی نے سابق صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انھیں اول نائب وزیراعظم کی ذمے داریاں بھی دی گئیں۔ 26 مارچ 2014 کو انھوں نے آرمی کمان سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ اور صدارتی الیکشن لڑنے کا اعلان کیا۔
گذشتہ سال 28 اپریل کو جنرل سیسی کے اس بیان نے ’’ کسی بھی مصری شہری کو نقصان پہنچانے والا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا‘‘ نئی بحث چھیڑدی۔ صدر محمد مرسی کے مخالفین نے اس بیان سے سمجھ لیا کہ مصری فوج عوام کے ساتھ ہے، جب کہ مرسی کے حامیوں نے اسے اس طرح لیا کہ فوج حکومت کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہونے دے گی۔
صدر محمد مرسی کی حکومت کے خاتمے اور نئی حکومت کے قیام نے مصر میں ہنگامے برپا کردیے۔ مرسی کے حامیوں اور مخالفین کی لڑائی میں درجنوں افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوگئے۔ حالات اتنے کشیدہ ہوگئے تھے کہ مصر کی خبریں دنیا بھر کی توجہ کا مرکز تھیں۔
جولائی 2013 میں حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے بالآخر مصری فوج کے سربراہ جنرل السیسی نے اعلان کردیا کہ سیاسی جماعتیں حالات کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوگئی ہیں، صدر مرسی ناکام ہوگئے ہیں لہٰذا ان کی حکومت کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ مرسی کو معزول کرنے کے بعد السیسی کی قیادت میں مصری فوج نے عدلی منصور کو عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کیا اور اس کے ساتھ ہی اخوان المسلمین کے حامیوں، راہ نمائوں اور کارکنوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ صدر مرسی کے حامیوں کے علاوہ دیگر اسلامی جماعتوں نے بھی ملک میں فوجی حکم رانی کو غیرآئینی کہتے ہوئے مسترد کردیا لیکن فوج برسراقتدار رہی۔
پھر دنیا نے دیکھا کہ مصر میں فوج کی حمایت میں بھی بڑی بڑی ریلیاں نکالی گئیں ، ان ریلیوں کے شرکا نے فوج کی حمایت کا کھل کر اظہار کیا۔
اگست 2013 میں جنرل السیسی نے محمد مرسی کی معزولی کے بعد پہلا انٹرویو دیا، امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ ست گفتگو میں السیسی نے کہا کہ ہم خدا، مصری اور عرب عوام سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم اپنے ملک کی، اپنے عوام کی اور ان کی خواہشات کی حفاظت کریں گے۔
قومی عسکری تقاریب کے دوران جنرل السیسی نے متحدہ عرب امارات، عراق، بحرین، مراکش اور اردن کے وزرائے دفاع کو بھی مدعو کیا۔ ایسی ہی ایک تقریب میں خطاب کے دوران عبدالفتاح السیسی نے اپنے مخالفین کو وارننگ دینے کے انداز میں کہا کہ مصری عوام نہیں بھولے کہ مشکل وقت میں کون ان کے ساتھ رہا اور کون اُن کا مخالف رہا۔ اس موقع پر جنرل سیسی نے تمام عوام کو مبارکباد پیش کی اور ان کا شکریہ ادا کیا کہ عوام نے مشکل صورت حال میں فوج کا ساتھ دیا۔ انھوں نے واشگاف الفاظ میں مصری عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فوج آپ کے لیے ہے اور آپ کے لیے ہم اپنی جانیں بھی قربان کردیں گے۔
مرسی کے مخالفین نے بھی جنرل سیسی کے بیانات اور خطاب کا بھرپور انداز میں خیر مقدم کیا۔ قاہرہ اور دیگر شہروں میں فوج کے حق میں کیے گئے مظاہروں میں لوگوں نے ’’عوام اور فوج ایک ساتھ ہیں‘‘ کے زوردار نعرے بھی لگائے۔ سوشل میڈیا پر بھی ہزاروں مصریوں نے اپنے پروفائل میں جنرل سیسی کی تصاویر لگاکر مصری فوج اور عبدالفتاح السیسی سے اپنی گہری وابستگی کا اظہار کیا۔ چائے کے مگ، دیگر برتن، نمائشی اشیا بھی سیسی کے نام سے تیار کی جانے لگیں، جس سے اندازہ ہورہا تھا کہ لوگ جنرل سیسی کی قیادت کے ساتھ ہیں۔ مختلف ٹی وی انٹرویوز، اخبارات اور جرائد کے ایڈیشنوں میں بھی جنرل السیسی کو بھرپور کوریج دی گئی اور انھیں ’’وادی نیل کی ایک اور اہم شخصیت‘‘ قرار دیا گیا۔
دسمبر2013 میں ٹائم میگزین نے جنرل السیسی کو اپنے سرورق پر جگہ دی اور یہ بھی کہا گیا کہ جنرل السیسی کو عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے اور لوگ انھیں پسند کرتے ہیں۔ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں نے بھی ملک کے آئندہ صدر کے لیے السیسی کی حمایت کا اعلان کیا، جس سے اندازہ ہوگیا کہ آئندہ مصر کی صدارت کون سنبھالے گا؟
سیسی کی حمایت کرنے والی جماعتوں میں نیشنل سالویشن فرنٹ، ریولوشنری فورسز بلاک Revolutionary Forces Bloc، فری ایجپشین پارٹی Free Egyptians Party بھی شامل تھیں جب کہ جن نمایاں شخصیات نے سیسی کے قدم سے قدم ملانے کا اعادہ کیا ان میں سابق صدارتی امیدوار امر موسیٰ، مصر کے سابق صدر جمال عبدالناصر کے صاحبزادے عبدالحکیم عبدالناصر، وزیراعظم حظیم الببلاوی پیش پیش رہے۔مصری عوام کی جانب سے جنرل عبدالفتاح الیسی کو ملک کا صدر بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر مہم بھی چلائی گئی۔ لاکھوں افراد نے السیسی کے حق میں دستخطی مہم میں حصہ لیا۔ مہم کے منتظمین کا کہنا تھا کہ انھوں نے سیسی کے صدر بننے کی حمایت میں تقریباً 26 ملین (2کروڑ 60 لاکھ) افراد کے دستخط حاصل کیے ہیں۔
رواں سال فروری میں مصری اور غیرملکی میڈیا میں یہ خبریں آنا شروع ہوگئیں کہ جنرل عبدالفتاح السیسی عوام کی خواہشات کی وجہ سے صدارتی الیکشن لڑنے کے لیے تیار ہوگئے ہیں۔ گوکہ ابتدا میں مصری فوج کی جانب سے اس بات کی تردید کی گئی لیکن آہستہ آہستہ یہ بات سب پر عیاں ہوگی جنرل السیسی بھرپور عوامی حمایت کے ساتھ صدر بننے جارہے ہیں۔مصری صدر بننے والے سابق جنرل السیسی 3 بیٹوں اور ایک بیٹی کے والد ہیں۔ مذہبی گھرانے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے وہ اپنی مختلف تقاریر میں قرآنی آیات کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ ان کی اہلیہ حجاب میں نظر آتی ہیں۔
عبدالفتاح السیسی کو خاموش طبع جنرل سمجھا اور کہا جاتا ہے اور ان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ سیسی کو تاریخ اور قانون کے مطالعے کا شوق ہے۔عبدالفتاح السیسی کیسے ہیں اور ان کو کن چیزوں کا شوق ہے؟، یہ سوال اب اس لیے بھی مصری عوام کی دل چسپی کا باعث رہے ہیں کیوںکہ اب وہ فوج کی کمان کے بجائے ملک کی باگ ڈور سنبھال چکے ہیں۔سیسی نے صدر کا حلف اٹھانے کے فوری بعد واضح کیا ہے کہ آنے والا دور مفاہمت اور برداشت کی بنیاد پر ہوگا۔ تاہم جو لوگ تشدد میں ملوث رہے ہیں، ان سے کوئی نرمی یا رعایت نہیں ہوگی۔
نومنتخب صدر کے اس اعلان نے ان کے حامیوں میں جوش و خروش پیدا کیا ہے، تو سیسی کے مخالفین کو خدشات و تحفظات کے ساتھ ساتھ نئے صدر پر تنقید کا موقع بھی مل گیا ہے۔ سیسی نے کابینہ میں تبدیلیوں کا بھی سلسلہ شروع کردیا ہے، جب کہ سابق صدر محمد مرسی کی جماعت اخوان المسلمین کے کارکنوں اور راہ نمائوں کے خلاف مختلف انداز میں کریک ڈائون بھی شروع ہے جس سے مصر کی سیاسی صورتحال کافی کشیدہ ہوگئی ہے۔ اخوان المسلمین اور محمد مرسی کے حامی حکومت کے ہر اقدام کو اپنے خلاف کارروائی قرار دے رہے ہیں۔
السیسی کے صدر بننے کے بعد سے لے کر اب تک مرسی کے حامیوں کے خلاف سرکاری سطح پر کارروائیاں جاری ہیں اور عدالتوں سے انھیں سزائیں دی جارہی ہیں۔ بہت سے لوگوں کو سزائے موت دی گئی ہے، جب کہ سیکڑوں لوگوں کو طویل عرصے کے لیے پابند سلاسل رکھنے کے احکام جاری ہوئے ہیں۔ سزائیں پانے والوں میں ملک پر کئی دہائیوں تک حکومت کرنے والے سابق صدر حسنی مبارک کے خلاف تحریک چلانے والے کارکن اعلیٰ عبدالفتاح بھی شامل ہیں، جنھیں دیگر 25 افراد کے ساتھ 15برس قید کی سزا دی گئی ہے۔
غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق عبدالفتاح کے وکیل کے کا کہنا ہے کہ یہ سزا انھیں احتجاج کے حوالے سے ملکی قانون کی خلاف ورزی اور دیگر الزامات پر سنائی گئی ہے۔ عبدالفتاح 2011 میں حسنی مبارک کے خلاف چلنے والی تحریک کے نمایاں ترین کارکن تھے۔ یہ فیصلہ سابق فوجی سربراہ عبدالفتاح السیسی کے عہدہ صدارت سنبھالنے کے3 روز بعد سنایا گیا ہے۔ دریں اثناء عبدالفتاح کی والدہ لیلیٰ صوئف نے کہا ہے کہ عبدالفتاح کو عدالت میں اپنا موقف پیش کرنے کی اجازت نہیں دی گئی، جب کہ عبدالفتاح اور ان کے وکلاء عدالت کے باہر تھے مگر انھیں اندر جانے نہیں دیا گیا۔ سیسی کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف کارروائیاں نومنتخب صدر کی ایما پر کی جارہی ہیں۔
دوسری جانب سیسی کے حامی تاحال نئے صدر کی کام یابی کا جشن منانے میں مصروف ہیں۔ ان کی رائے ہے کہ عبدالفتاح السیسی ہی ملک کو مشکلات سے نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ السیسی مصر اور مصری عوام کو درپیش چیلینجوں کا کس طرح مقابلہ کرتے ہیں۔ بہت سارے چیلینج، بہت سی مشکلات سیسی کے ساتھ ہی ایوان صدر پہنچ گئی ہیں۔ عوام کی خواہش ہے کہ صدر سیسی ان کے مطالبات پورے کرنے اور حالات زندگی کی بہتری کے لیے فوری اور موثر اقدامات کریں، ان مطالبات کو پورا کیا جائے جن کی خاطر وہ تین سال قبل تحریراسکوائر میں جمع ہوئے تھے۔
صدر سیسی کے لیے سب سے بڑا چیلینج مصری معیشت کو درست سمت میں لے جانا ہے۔ عرب دنیا میں مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے بعد معاشی لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ نومنتخب صدر سیسی ملک بھر میں بڑھتی بیروزگاری کے خاتمے اور نوجوانوں میں اس حوالے سے پیداشدہ بے چینی کے ازالے کے لیے کیا اقدامات کرتے ہیں۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق اگر مصری معیشت بہتر خطوط پر رواں ہوگئی تو یقینی طور پر اس کا کریڈٹ صدر سیسی کو جائے گا۔ بیروزگاری ختم کرنے اور لوگوں کا معیار زندگی بلند کرنے سے بھی صدر سیسی کے حامیوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا، لیکن اس کے لیے انھیں ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔
معیشت اور بیروزگاری کے بعد ایک اہم معاملہ مخالفین کو اپنے ساتھ لے کر چلنا ہے، اگر صدر سیسی نے کچھ ایسے اقدامات کیے جن سے اپوزیشن کو انتقام کی بو نہ آئے اور مفاہمت کی فضا پیدا ہوسکے تو یہ سابق مصری جنرل کی بڑی کام یابی ہوگی۔ اب یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ مصر کی حکومت اور عوام ساتھ ساتھ ہیں یا لوگوں میں ایک بار پھر بے چینی پیدا ہورہی ہے۔ اب امتحان صدر سیسی کی دوراندیشی، فیصلہ سازی اور جرأت مندانہ اقدامات کا ہے، اب انھیں صرف عسکری میدان ہی میں نہیں بل کہ سیاسی، سفارتی، سماجی اور معاشی میدان میں خود کو منوانا ہوگا۔