بنیادی انسانی حقوق مانگنا ’تعصب‘ نہیں!
خانہ پُری
ر ۔ ط ۔ م
ہمیں شدید حیرت ہوتی ہے کہ جب بنیادی انسانی حقوق، برابری، انصاف اور کسی بہت سادہ اور مسلّمہ سے اخلاقی اور انسانی اصول کی بات کرنے پر لوگ ہم پر جانب داری، ’تعصب‘ اور اس سے بھی بڑھ کر کسی سیاسی جماعت سے وابستگی اور کسی سیاسی راہ نما سے ’عقیدت‘ جیسے الزام عائد کر دیتے ہیں۔۔۔!
کسی بھی دیانت دار صحافی اور متوازن لیکھک کے لیے ایسا کوئی بھی الزام اس کی ایک عرصے کی تپسیا، نیک نامی کی ساری ’کمائی‘ کو بٹّا لگانے کو اچھا خاصا مہلک وار ہوتا ہے۔
سو، یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کسی بنیادی حق اور کسی معمولی سے منطقی سوال پر ہمارے لیے یہ سب سننا کس قدر تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔۔۔ ہم نے خود ایک طویل عرصے تک اس موضوع کو دبائے رکھا کہ چلیے کام چلتے رہنے دیجیے، کیوں کہ جو ہمیں جانتے ہیں۔
وہ خوب جانتے ہیں کہ ہم کون ہیں، کیا ہیں۔۔۔؟ ہمارا نظریہ اور فلسفہ کیا ہے؟ یا ہم کس قسم کے رجحانات رکھتے ہیں، لیکن نہیں صاحب، اس سماج میں، اس جھوٹ اور سچ کی لڑائی میں اب یہ ناگزیر محسوس ہوتا ہے کہ اس پر ذرا کھل کر اور بہت اچھی طرح وضاحت کردی جائے اور اعلانیہ ایسی افسوس ناک الزام تراشی کرنے والوں سے اچھی طرح اس کا جواب بھی لیا جائے کہ وہ جو ہماری کسی بات پر لاجواب ہوکر ہمارے لیے جو کچھ کہہ دیتے ہیں، اور بہت سے احباب جو مروّت، مصلحت یا اور کسی سبب ہمیں کچھ کہتے تو نہیں، لیکن سمجھتے کچھ یہی ہیں، ان سے بھی پوچھا جائے کہ بتائیے، ہم کہاں غلطی پر ہیں؟
تو بات کچھ یوں ہے کہ ہمارا تعلق ایک قطعی غیرسیاسی گھرانے سے ہے، باقاعدہ یہ وضاحت اس لیے ضروری ہے کہ ہم نے جو بھی اکتساب کیا ہے، وہ اپنی تعلیم، تجربات ومشاہدات اور مطالعے کی مرہون منت ہے۔۔۔ اگرچہ جو احباب ہمیں آج پڑھتے اور سنتے ہیں۔
وہ اس حقیقت پر شدید حیرت کا اظہار بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انھیں اس بات پر قطعی یقین نہیں آتا۔ اسی طرح بہت سے ’ادھار کھائے‘ بیٹھے ہوئے احباب ہمیں باقاعدہ ’’کارکن‘‘، ’’جانب دار‘‘ اور ’’متعصب‘‘ تک بھی قرار دے دیتے ہیں۔
خیر، معاملہ یہ ہے کہ ہمارے گھر پر ہمارے باقاعدہ سیاست میں حصہ لینے کی ممانعت ضرور تھی، لیکن سیاسی امور پر گفتگو اور خبروں اور حالات حاضرہ سے آگاہی اور تبادلہ خیال رہتا تھا، جس نے براہ راست ہمیں فائدہ ضرور پہنچایا لیکن صرف معلومات کی حد تک۔ اور پھر میٹرک کے بعد جب ہم کالج اور یونیورسٹی گئے تو ’دنیا‘ دیکھ کر سب کچھ معلوم ہوتا چلا گیا کہ ہم، ہمارا شہر اور لوگ کون ہیں؟ اور یہاں ہمارے عملی مسائل اور مشکلات کیا ہیں؟
ساتھ ہی ملازمتوں کے تجربات نے بھی سیاسی فکر کو پختہ کرنے میں بہت مدد فراہم کی۔ مختلف کالم نگاروں اور لکھنے والوں کے انداز، ان کے لب ولہجے، جانب داری اور استدلال پر تنقیدی نقطۂ نظر ابھرنے لگا اور یہی پھر ہمارے موجودہ موقف، بیانیے اور طرزِ فکر کے تسلسل کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوا۔
ہم اس ملک کی پانچویں قوم سے تعلق رکھتے ہیں، جسے ’مہاجر‘ کہا جاتا ہے۔ اب ’یار لوگوں‘ سے پہلا ’جھگڑا‘ یہیں سے کھڑا ہوجاتا ہے، ان کی تیوریاں چڑھ جاتی ہیں، مزاج بگڑ جاتے ہیں۔ خیر سے مملکت خداداد میں اس شناخت اور اسے کوئی قوم نہ ماننے والوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی موجود ہے۔
ہمارا موقف یہ ہے کہ جب آئین اور قانون ہمیں اپنی شناخت کا حق دیتا ہے، تو پھر کسی اور کے لیے یہ لائق ہی نہیں ہے کہ وہ جبری طور پر ہمیں اپنی آبائی شناخت ترک کرنے پر مجبور کرے یا کسی اور شناخت کا حصہ بننے کی صلاح دے۔
ہر قوم کی اپنی الگ شناخت ہے، اب کوئی بھی سیاسی جماعت اور سیاسی قائد کچھ بھی کہتا رہے، ہمارا بنیادی موقف یہی تھا، ہے اور رہے گا، جو اس کی تائید کرے گا، ہم اس کو سراہیں گے اور جو اس شناخت کے حق کا مخالفت کرے گا، ہم اعلانیہ اس کی مدافعت کریں گے۔ آپ بتائیے کہ کیا یہ تعصب ہے۔۔۔؟
’مہاجر‘ شناخت کے ساتھ دوسرا معاملہ مہاجر قوم کے مساوی بنیادی حقوق کا ہے۔ ہمارا یہ موقف ہے کہ ’مہاجر قوم‘ کو مکمل طور پر وہی حقوق حاصل ہونے چاہئیں، جو ملک کی باقی چار قوموں کو حاصل ہیں، بہ شمول اپنے الگ صوبے کے۔۔۔ اور قیام پاکستان سے لے کر اس ملک کو قائم رہنے کے لائق بنانے اور اس ملک کی زمین پر برابر کا حق حاصل ہونے تک کے لیے ہمارے پاس تمام تاریخی دلائل بھی موجود ہیں۔
اس مرحلے پر بھی ہم اس بات سے بے پروا ہیں کہ کوئی سیاسی جماعت اسے مانتی ہے یا نہیں۔ ہم ہمیشہ اپنے اس نقطۂ نظر پر موجود رہیں گے۔ اب اس میں کون سی غداری، تعصب یا غیرآئینی بات ہے؟ بطور پاکستانی ہمیں اپنی علاحدہ شناخت کا بھی حق ہے اور اس ملک کے اندر رہتے ہوئے اپنے الگ صوبے اور مساویانہ حقوق مانگنے کا اختیار بھی حاصل ہے۔ کیا اپنی قوم کے لیے مساوی حق مانگنا غداری ہے۔۔۔؟
اسی طرح کسی سیاسی جماعت کو اگر ریاستی جبر کے ذریعے سیاسی سرگرمیوں سے محروم کیا جاتا ہے، مبینہ طور پر اس کے لوگوں کی وفاداریاں تبدیل کرا کے اس کے ’دھڑے‘ بنائے جاتے ہیں، تو یہ امر سو فی صد غلط ہے۔
یک طرفہ سیاسی آزادی اور عوام میں اپنی جڑیں رکھنے والی کسی بھی سیاسی قوت کو انتخابی عمل میں حصہ لینے کی آزادی نہ دینا مکمل طور پر غیر آئینی اور غیر جمہوری عمل ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت سے کسی کو بھی اختلاف ہوسکتا ہے، وہ بہ صد شوق اپنی الگ سیاسی جماعت بنانے اور پھر انتخاب لڑنے کا مکمل اختیار بھی رکھتا ہے۔
لیکن کسی دوسری سیاسی قوت کو کچل کر اس پر من پسند لوگوں کو لا کر بٹھا دیا جائے تو یہ عمل کیسے جائز اور قانونی ہو سکتا ہے۔۔۔؟ اگر آپ کہتے ہیں کہ فلانی سیاسی جماعت یا اس کے کسی دھڑے کو عوام میں مقبولیت حاصل نہیں، تو پھر تو آپ کو تو پہلی فرصت میں انھیں کھلی سیاسی آزادی دینی چاہیے، تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔
تاہم ملک میں کہیں بھی بے امنی اور لاقانونیت کے خلاف ریاست اور ریاستی اداروں کو ہمیشہ ہی چوکنا رہنا چاہیے، اور آج بھی کسی بھی سیاسی جماعت اور سیاسی راہ نما کو بنا ڈومیسائل اور قومیت کے فرق کے قانون کے آگے سرنگوں رکھنا چاہیے، اور قانون اور ریاست کے خلاف کسی بھی عمل کو مکمل طور پر روکنا چاہیے، لیکن اس کی آڑ میں کسی بھی جماعت یا گروہ کے بنیادی سیاسی اور آئینی حقوق سلب کرلینا قطعی طور پر درست نہیں۔
ہم تمام سیاسی قوتوں کو قانون کے دائرے میں سیاسی سرگرمیوں کا حق دینے کی بات کرتے ہیں، تو اس پر بھانت بھانت کے انسانی حقوق کے نام لیوا سے لے کر مذہبی سوچ رکھنے والوں تک کے منہ ٹیڑھے ہوتے ہیں اور انھیں لگتا ہے کہ ہم کسی کی حمایت کر رہے ہیں یا ’سیاسی‘ ہو رہے ہیں۔ بنیادی انسانی حق کے لیے تو سب کو بات کرنی چاہیے۔
یہی صحافت کا اصول بھی ہے اور ہماری تعلیم اور ہمارا شعور بھی ہمیں یہی سکھاتا ہے، لیکن نہیں، ہمارے سارے ’پڑھے لکھے‘ اس بات پر الٹا ہمیں ہی موردِالزام قرار دیتے ہیں، آپ بتائیے کہ کیا ہمارا موقف غلط ہے؟
۔۔۔
ایسا لگتا تھا کہ پڑھ کر نوکری مل جائے گی!
محمد علم اللہ، نئی دہلی
کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے جیسے ابھی پچھلے پل محسوس ہو رہا تھا کہ شادی بھی ایک نمٹائے جانے والا کام ہے، جس کے نمٹانے میں لگاتار تاخیر ہوتی جا رہی ہے۔
جسے سماج کا شہری نوکری میں تاخیر تصور کریں گے۔ اسے ہم جیسے نو جوان جی رہے ہیں اور سماج میں اپنی جگہ بنانے کی جدوجہد میں دوچار ہو رہے ہیں۔
اگر آج تک جتنے بھی امتحانات دیے ہیں، اس کے مطابق خود کو ’پڑھا لکھا‘ تسلیم کرلیا جائے، تب ہمیں یہ سوال کس سے کرنا چاہیے، کس سے اس ضمن میں عام و خاص کی زبان میں دریافت کرنا چاہیے کہ اگر حکومت نے بچپن سے ہم پر کئی ہزار روپے پھونک دیے، اس کے بعد بھی ہم خود کو کہیں کھڑا کیوں نہیں کر پا رہے ہیں؟
ملک کی راج دہانی کی اس یونیورسٹی سے اچھے نمبروں سے کام یابی حاصل کرنے کے باوجود ہم پس منظر میں کہیں نہیں ہیں۔ یہاں سے پڑھنے کا خواب کم سے کم ’جنوبی ہند‘ میں تو دیکھے ہی جاتے ہیں۔ اگر اس طرح انسانی وسائل کی فراہمی میں ہم لوگوں پر عام لوگوں کا سرمایہ ضایع ہوتا رہا، تب ہمیں ایسے ان فٹ، بے کار اورنکما بنائے رکھنے کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے۔
یہ ذمے داری ہم خود ڈھوئیں یا ہمیں کم نوکر یوں والے ملک میں نوکری نہ ملنے کے لیے ہی گڑھا گیا ہے! لگتا تھاہم اس لیے پڑھ لکھ رہے ہیں کیوں کہ تعلیم یافتہ ہو جانے کے بعد نوکری لگ جائے گی۔ نہیں پتا تھا کہ پڑھنا اور ملازمت حاصل کرلینا ایک ہی سکے کے دو پہلو کبھی نہیں رہے۔
پتا ہے اقتصادی کی دلیل اتنی ہی پُھس پُھسی ہیں اور ان کا مطلب صرف کچھ ہی خاص اداروں میں آمدنی، نقصان اور بھاری سال میں کام یاب گھریلو اشیا کی شرح سے زیادہ نہیں ہے۔ ہم تو ا س مانگ پر کی والے نظریے میں کہیں سے بھی فِٹ نہیں ہو پائے۔
ہمیں باہر پھینکا نہیں گیا، اس کی سبک رفتار شے نے خود ہی ہمیں باہر کر دیا۔ ایسے ہوتے جانے میں خود ہماری حصے داری ہے۔ ہمیں نہیں معلوم۔ پھر بھی اس صورت حال کا الزام ہم اپنے اوپر سب سے زیادہ لیتے ہیں۔ اور یہ اپنے سر لینا پڑتا ہے۔ ان برسوں میں لگاتار ایسے ہونے کی ایک قیمت قائم ہو چکی ہے، مگر کہاں دے رہی ہیں۔
اٹھائیس سال کی عمر میں کسی بھی امتحان کے ہو جانے کے بعد نتیجوں کا انتظار کرنا لاٹری کا ٹکٹ خریدنے کے بعد انعامی نمبر لگ جانے والے جوئے کی طرح ہے۔ یہ بالکل کسی فلم کی ابتدا میں دکھائی جانے والی ’وضاحت‘ کی طرح ہو گیا ہے، جس کا ہماری ضرورت، کام کی نوعیت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ بس ان سب کو صرف اعتماد بناتے رہنا ہے۔
ان سب کے درمیان ہم لگاتار ’مس فِٹ‘ ہوتے جا رہے ہیں۔ کسی ایسی مشین کا پرزہ بنتے جا رہے ہیں، جو کسی کاری گر نے شاید غلطی سے بنا دیے۔ اب بن گئے ہیں، تو ایک طرف رکھے پڑے ہیں۔ ہم شاید وہ پہلے پرزے ہیں، جو اس مشین میں لگیں گے، جو شاید کبھی نہیں چلے گی۔
اس نکتے پر آکر بار بار اپنے بے حس ہونے کا احساس گھیرے، تو اس میں ہم کہاں سے غلط ہیں۔ یہ سارے عوامل ہمیں باہر کھدیڑ رہے ہیں۔
۔۔۔
صد لفظی کتھا
لا تعلقی
رضوان طاہر مبین
’’یہ بات بارہا ثابت ہوئی ہے کہ ان کی سیاست نے بہت نقصان دیا۔۔۔!‘‘
ثمر نے کہا۔
’’مبارک ہو، انھوں نے سیاست چھوڑ دی ہے۔۔۔!‘‘
امر نے خبر سنائی۔
’’اور سیاست سے مکمل لاتعلقی۔۔۔!‘‘
امر نے بھوئیں اُچکاتے ہوئے کہا۔
’’گویا اب ہماری سیاست درست ڈگر پر آجائے گی۔‘‘
ثمر نے امید ظاہر کی۔
’’کہا ہے کہ اب اپنے گھر اور بچوں کو وقت دوں گی!‘‘
امر نے جواب دیا۔
’’کون۔۔۔؟؟‘‘ ثمر نے بے چینی سے پوچھا۔
’’ارے، میں ان خاتون سیاست داں کی بات کر رہا ہوں۔۔۔!‘‘
یہ کہہ کر امر نے اپنا موبائل ثمر کے آگے کر دیا۔
۔۔۔
کیا ویسٹ انڈیز کوئی ملک ہے؟
امجد محمود چشتی
ویسٹ انڈیز کا نام سنتے ہی کسی طاقت وَر اور بڑے ملک کا تصور ذہن میں آتا ہے، مگر آپ سن کر حیران ہوں گے کہ ویسٹ انڈیز کو ئی ملک ہی نہیں، بلکہ بحراوقیانوس میں ’کیریبئن سی‘ کے آس پاس بکھرے ہوئے سات ہزار جزیروں پر مشتمل علاقے اور ایک مضبوط کرکٹ ٹیم کا نام ہے ۔
ان جزیروں کے صرف دو فی صد علاقے پر انسانی آبادی ہے، جو لگ بھگ ساڑھے چار کروڑ ہے۔ یہاں 13 آزاد اور 18 محکوم ریاستیں آباد ہیں، جو جنوبی امریکا کے شمالی ساحل پر پھیلی ہوئی ہیں۔
ان ریاستوں میں جمیکا، بارباڈوس، کیوبا، ہیٹی، انگوئلا، مونٹسیرٹ، ڈومینیکا، اروبا، بونیر، گیانا، سینٹس کِٹس، گرینیڈا، ٹوباگو ٹرینیڈاڈ اور با ہا ماس شامل ہیں۔ 1496ء میں کولمبس دنیا کے مشرقی حصے ’انڈیز‘ یعنی بھارت وغیرہ کی تلاش میں دنیا کے مغربی حصے میں جا پہنچا اور اسے ہی انڈیا سمجھ لیا۔ تاہم حقیقت کا جب علم ہوا تو اسے ویسٹ انڈیز (غرب الہند) کا نام دے دیا۔ اسے کرئیبین بھی کہتے ہیں، کیوں کہ یہاں ’کیریب‘ نام کا قبیلہ آباد تھا۔
اسی نسبت سے وہاں کے سمندر کو ’کیرئبین سی‘ کہتے ہیں۔ نئے براعظم امریکا میں برطانیہ نے قدم جمائے تو ان دنوں کرکٹ کا سحر دنیا پر چھایا ہوا تھا، لہٰذا اس خطے میں بھی کرکٹ کا کھیل مقبول ہونے لگا۔ تاہم کسی ایک ریاست یا جزیرے کے لیے اپنی کرکٹ ٹیم بنانا مشکل تھا۔ اس لیے پہلی بار باربا ڈوز، گیانا اور ٹرینیڈاڈ کی ریاستوں نے 1900ء میں کرکٹ ٹیم تیار کر کے انگلینڈ بھیجی۔ بعد ازاں 1926ء میں انگلینڈ نے بارباڈوز میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ میچ کھیلا جو انگلینڈ نے بہ آسانی جیت لیا۔ 1950ء میں خطے کے تمام جزائر سے اچھے اچھے کھلاڑیوں کا انتخاب کر کے ایک مضبوط ٹیم تشکیل پائی۔
1970ء کی دہائی میں اس مشترکہ ٹیم کو بین الاقوامی طور پر تسلیم کر لیا گیا اور اس ٹیم نے 1975ء میں دنیا کو پَچھاڑ کر پہلا کرکٹ ورلڈکپ جیت لیا۔
1990ء تک ویسٹ انڈین ٹیم ناقابل تسخیر تھی اور اسے ’کالی آندھی‘ کہا جاتا تھا۔ ویسٹ انڈیز چوں کہ ایک قوم نہیں، بلکہ قوموں کا مجموعہ ہے اور اس کی سب سے بڑی پہچان کرکٹ ہے، لہٰذا اس کے جھنڈے پر گیند، بلا اور وکٹ کی علامات بنی ہوئی ہیں۔
بین الاقوامی مقابلوں میں میچ کے آغاز پر کرکٹ ٹیموں کے ممالک کے ترانے پڑھے جاتے ہیں، مگر ویسٹ انڈیز کے لیے کرکٹ ترانہ گایا جاتا ہے۔ سیاحت کے حوالے سے بھی ویسٹ انڈیز پسندیدہ جگہ ہے۔
The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.