ہمیں رات کے آخری پہر اٹھ کر تتلیوں کے دیس کے پار تو نہ جانا تھا مگر پھر بھی ہم سب خوش تھے۔
ہم جانتے تھے کہ وہاں نہ تو پیلے پھول ہوںگے جو اس حبس والے موسم میں ہماری آنکھوں کو ٹھنڈک دے سکیں اور نہ اس سر زمین کا موسم ایسا تھا کہ بدن کو راحت کا سامان میسر آ سکے۔
نہ تو وہاں رتی گلی جیسی کوئی جھیل تھی جس بارے ہمیں گمان ہو کہ وہاں پریاں ہوں گی اور نہ ہی وہاں سفید برفیں تھیں۔ مگر پھر بھی ہم سب اس زمین کی جانب سفر کر رہے تھے کیونکہ اس میں آبشاریں تھیں، بلندی سے گرتے نیلے پانیوں کے گیت تھے اور سب سے بڑھ کر وہاں ایک قلعہ تھا جہاں کسی دیو نے کسی پیاری پری کو قید نہ کیا ہوا تھا بلکہ وہاں کچھ پری زاد (ہمارے فوجی جوان) تھے جو قریب بیٹھے دیو (انڈیا) کو مزید قریب آنے سے روکے ہوئے تھے۔
کہنے والے اسے ”باغسر ” کہتے تھے مگر ہمارے لیے تو یہ جنت کے ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑا ہی تھا۔ ہمارے لیے تو یہ آبشاروں کی سرزمین سماہنی ہی تھی جو اپنے اندر سدھیری، سندوعہ، کھنہ اور نہ جانے کون کون سی آبشاریں لیے ہوئے تھی۔ تو ہم سب آج سماہنی کے علاقے باغ سر جا رہے تھے۔
باغ سر او باغ سر
ہم صبح سویرے مرالہ شہر میں دریائے چناب پر بنے ہیڈ پر سے گزر رہے تھے۔ وسیع پاٹ پر پھیلے دریائے چناب پر طلوعِ آفتاب اور غروب آفتاب کا منظر ہیڈ مرالہ کے مقام پر دل کو موہ لینے والا ہوتا ہے۔
کیا فقط ایک صبح کا منظر ہی خدا کی نشانیاں بیان کرنے کو کافی نہیں؟ سورج کی صرف ایک باریک سی نوک افق سے نکلنے کی دیر ہوتی ہے اور ایک منٹ کے اندر اندر سورج صاحب مکمل طور پر اپنی گول مٹول من موہنی صورت اور اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ چمک رہے ہوتے ہیں۔ پتا نہیں شعاعوں کا یہ کیا چکر ہے کہ سورج جب طلوع ہو رہا ہو تو تصاویر بے پناہ خوب بنتی ہیں۔
سورج تصویر میں صاف صاف نظر آ رہا ہوتا ہے مگر جونہی پورا طلوع ہوجاتا ہے تو پھر کیمرے سے پکڑا نہیں جاتا۔ شعاعیں شاید بکھر جاتی ہیں۔ ایسے ہی بیٹھے بیٹھے بات ذہن میں آئی کہ جب انسان بھی اپنی معراج پر پہنچتا ہے تو وہ بھی سنبھالا نہیں جاتا۔ ایک اچھا انسان بھی طلوع ہونے کے بعد بنی نوع کے لیے اسی طرح سودمند ہوتا ہے جیسے خدا کی یہ آیت سورج۔
شاید کہ وادیِ سماہنی تک جانے کے اور بھی راستے ہوں مگر مجھے تو فقط ایک ہی راستہ معلوم ہے جو گجرات اور بھمبر روڈ سے ہوتا ہوا وادیِ سماہنی میں جاتا ہے۔ وادیِ سماہنی جو آزاد کشمیر کی سب کی بڑی وادی ہے، جس کا آخری گاؤں ”باغ سر” ہے۔ باغ سر یعنی کہ باغوں اور پانیوں کی سرزمین۔
تیموری اور چنگیزی نسل سے تعلق رکھنے والا ظہیر الدین بابر نے جب پہلی بار ہندوستان پر پہلے حملے کا سوچا تو وہ کوئی شہنشاہ یا بادشاہ نہیں تھا بلکہ ایک چھوٹی سی ریاست ”فرغنہ” کا مالک تھا جو اس نے اپنے باپ سے وراثت میں پائی تھی۔ ظہیرالدین بابر کا اپنی ریاست میں یہ عالم تھا کہ اپنی ہی ریاست میں اُس سے زیادہ، اس کی آس پاس کی ریاستوں کی عمل داری تھی۔
اسی لیے مایوسی کے عالم میں ظہیر الدین بابر 1519 میں اپنی ریاست سے نکلا اور ہندوستان پر پہلا حملہ کیا۔ پے در پے شکستوں کے بعد بالآخر 1526 میں ظہیر الدین بابر نے پانی پت کے مقام پر ابراہیم لودھی کو شکست دے کر ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی جس میں موجودہ بنگلادیش، بھارت اور پاکستان تو شامل تھے مگر کشمیر شامل نہیں تھا۔ کشمیر اس وقت ایک الگ ریاست تھا۔ ایک مکمل داخلی اور خارجی طور پر آزاد ریاست جس کی سرحدیں چین اور ہندوستان سے ملتی تھیں۔ بابر کشمیر سے مکمل طور پر نا آشنا تھا۔
ایسے میں کسی نے بابر کے کان میں چغلی کی کہ پنجاب کے اوپر ایک جنت نظیر علاقہ ہے جسے کشمیر کہا جاتا ہے، جہاں بادشاہ کو ہیرے جواہرات تو شاید نہ مل سکیں مگر موسم ایسے ملیں گے جو بادشاہ کے دل کو خوش کر دیں گے۔ بابر نے کشمیر کو حاصل کرنے کی کوشش کی مگر بہت سے اندرونی مسائل کی وجہ سے وہ اس جانب مکمل توجہ نہ دے سکا اور دنیائے فانی سے رخصت ہو گیا۔ بابر کے بعد جب ہمایوں حکم راں بنا تو شیر شاہ سوری نے اسے ناکوں چنے چبوا دیے اور ہندوستان سے بے دخل کر دیا۔
مغلیہ سلطنت کو ایک بار پھر جلال الدین محمد اکبر نے ہندوستان میں نہ صرف پروان چڑھایا بلکہ کشمیر پر بھی حملے شروع کر دیے۔ کشمیر میں اس وقت چَک خاندان کی حکومت تھی۔ اکبر نے کشمیر پر کُل تین حملے کیے۔ پہلے دو حملوں کے دوران اکبر کی فوجوں کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا مگر 1586 میں جب اکبر کی فوج نے کشمیر پر دوبارہ حملہ کیا تو یوسف شاہ چَک کو شکت ہوئی۔ کشمیر پر اس وقت یوسف شاہ چَک کی حکم رانی تھی جس کی بیوی ہبہ خاتون کے نام سے مشہور تھی۔
ہبہ خاتون جس کا اصل نام زون تھا، جس کا کشمیری زبان میں مطلب ہے ”چاند سی خوب صورت۔ ” ظاہر سی بات ہے وہ بہت خوب صورت تھی۔ اسی لیے اسے یہ نام دیا گیا۔ ہبہ خاتون کو بلبلِ کشمیر بھی کہا جاتا ہے کیوںکہ یہ ایک خوبصورت آواز کی ملکہ تھی جو اپنے گیت خود لکھتی اور پھر انھیں گاتی۔ ہبہ خاتون ایک کسان کی بیٹی تھی مگر اس کی خوب صورت آواز اور شکل و صورت پر فدا ہو کر یوسف شاہ چک نے اس سے شادی کی۔
بادشاہ اکبر اور یوسف شاہ چَک کے درمیان لڑی جانے والی تیسری اور فیصلہ کن جنگ کے بعد اکبر نے یوسف شاہ کو صلح کی پیش کش کی اور اپنے ساتھ دہلی چلنے کو کہا۔ ہبہ خاتون اکبر کی اس چال کو بھانپ گئی۔ اس نے یوسف شاہ کو دہلی جانے سے منع کیا مبادا وہاں اکبر یوسف شاہ کو مار ڈالے یا زندان میں ڈال دے۔
یوسف شاہ نے ہبہ خاتون کی بات رد کر دی۔ اس نے سیالکوٹ میں جو کہ کشمیر کو سرمائی مقام تھا، اکبر بادشاہ سے ملاقات کی اور سیالکوٹ سے ہی دہلی روانہ ہوگیا۔ دہلی پہنچ کر اکبر نے یوسف شاہ کو بہار بجھوا دیا جہاں وہ موت تک قید میں رہا۔ یوں 1586 میں کشمیر بھی ہندوستان میں ضم ہوگیا۔
کتابوں میں ہے کہ اکبر چکوٹھی کے راستے پنجاب سے سری نگر جاتا تھا جب کہ جہانگیر لاہور سے سیالکوٹ، سیالکوٹ سے بھمبر، باغ سر اور پونچھ سے ہوتے ہوئے سری نگر جایا کرتا تھا۔ جہانگیر نے ہی باغ سر کے علاقے میں ایک قلعہ تعمیر کروایا جسے قلعہ باغ سر کہا جاتا ہے۔ قلعہ باغ سر کی تعمیر کے بارے دو روایات ہیں۔ ایک یہ کہ اسے مہاراجا رنجیت سنگھ وزیراعظم سردار دھیان سنگھ نے جو کہ کشمیر کے مہاراجا گلاب سنگھ کا بھائی تھا، نے تعمیر کروایا تھا۔ دوسری روایت جہانگیر کے بارے میں ہے۔
قلعے کی بیرونی فصیل اور مینار مغلیہ طرز کے ہیں جب کہ قلعے کا اندرون اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ اسے سکھ دور میں تعمیر کیا گیا۔ غالب امکان یہی ہے کہ سکھوں اور مغلوں دونوں نے اس قلعے کو تعمیر بھی کیا اور استعمال بھی کیا۔
تین دروازوں، 28 بیرونی کمروں اور 42 اندورنی کمروں کے ساتھ یہ قلعہ آج بھی اپنی اصلی حالت میں قائم ہے۔ قلعے کا داخلی دروازہ مقبوضہ جموں کی طرف ہے، اس لیے بار بار کی گولہ باری سے یہ تباہ ہو چکا ہے۔ قلعہ باغ سر عین لائن آف کنٹرول پر واقع ہے۔ قلعے کی فصیل پر کھڑے ہو کر آپ دوسری طرف کے کشمیر کو بہ آسانی دیکھ سکتے ہیں۔ ہر مغل بادشاہ کی طرح جہانگیر بھی ایک عیاش حکم راں تھا۔
اپنی سالانہ تعطیلات کے سلسلے میں جب مغل بادشاہ جہانگیر کشمیر میں موج مستیاں کر رہا تھا تو کثرتِ شراب نوشی کے باعث جہانگیر صاحب کی گرتی ہوئی صحت اس قدر گری کہ پاکستانی روپے کو بھی پیچھے چھوڑ گئی اور بالآخر جہانگیر صاحب باغسر کے علاقے میں وفات پا گئے۔
بہت سے لوگ سرائے سعد آباد کے بارے کہتے ہیں کہ وہاں جہانگیر کا انتقال ہوا تھا جس کا پرانا نام رام گڑھ ہے۔ اب مسئلہ یہ درپیش تھا کہ جہانگیر صاحب کی نعش کو لاہور کیسے لے جایا جائے کیوںکہ ملکہ نور جہاں نہیں چاہتی تھی کہ بادشاہ کے انتقال کی خبر اس کے لاہور پہنچنے سے پھیلے۔ وہ کسی صورت بھی شاہ جہان کو تحت پر نہیں دیکھنا چاہتی تھی مگر شاہ جہان کی قسمت میں بادشاہت لکھی تھی تو وہ اسے مل کر رہی. مغل دور کی ”حکمت” تو پوری دنیا میں مشہور تھی۔
اب تو یہاں کی حکمت فقط گری ہوئی عمارتوں کو پھر سے کھڑا کرنے کے کام آتی ہے بس۔ تو اس وقت کے حکماء نے جہانگیر کا تقریباً پوسٹ مارٹم کیا، اندورنی اعضا باہر نکالے اور انھیں قلعے کے اطراف میں دفن کر کے نعش کو لاہور بھیج دیا گیا۔ یہاں ایک نیلی قبر میں مغل بادشاہ جہانگیر کے اندرونی اعضاء دفن ہیں۔ انتہائی سادے لفظوں میں یہ کہ یہ بھی مقبرہِ جہانگیر ہی ہے۔ تاریخ میں جہانگیر کے انتقال کی تاریخ 28 اکتوبر 1627 درج ہے.
”قلعہ باغسر کے بارے مجھ جیسے فتوری ذہن کے لوگوں کے لیے چند اچھی باتیں”
قلعے کو مکمل طور پر ہر خاص و عام کو وزٹ کرنے کی اجازت ہے۔ آپ اکیلے بھی اس علاقے کی سیاحت کے لیے جا سکتے ہیں جب تک کہ ایل او سی پر سکوت ہے، اس علاقے میں آپ آزادی سے گھوم سکتے ہیں۔
چوںکہ قلعے کی پچھلی جانب جو پہاڑی ہے، اس کے پار بھارتی مقبوضہ کشمیر ہے، اس لیے یہ پورا علاقہ حساس ہے. آپ قلعے کے کسی بھی اندرونی حصے کی تصویر نہیں بنا سکتے، مگر فصیل کی تصویر بنانے کی اجازت ہے۔
باغسر کا علاقہ چوںکہ عین ایل او سی پر واقعی ہے، اس لیے باغسر کا علاقہ ایک چھاؤنی کی حثیت رکھتا ہے، لہٰذا اس پورے علاقے کی کہیں سے بھی اگر آپ تصویر لیتے پائے گئے تو پھر آپ کی خیر نہیں۔
آپ جلدازجلد قلعہ کی سیاحت کے لیے جائیں باقی ”حفاظتی تدابیر” آپ کو قلعے میں موجود فوجی بھائی ساتھ ساتھ بتاتے رہیں گے۔
ایک اور شدید مزے کی بات۔ آپ چپ چاپ قلعے میں داخل ہوں اور قلعے تمیز و تہذیب کے ساتھ وزٹ کرتے رہیں اور پھر باہر نکل جائیں۔ ہمارے جوان اپنے اپنے کمروں میں بیٹھے اپنا کام کرتے رہیں گے۔ آپ کو کچھ بھی نہیں کہیں گے اور آپ کو بھی اندر جھانک جھانک کر السلام علیکم وعلیکم سلام نہیں کرنا۔ بس چپ چاپ اپنا کام کریں اور اچھے بچوں کی طرح باہر نکل جائیں۔
آپ کو قلعہ میں کسی بھی جگہ بیٹھنا نہیں، بس چلتے جائیں۔ کوئی آپ کو کچھ نہیں کہے گا. اگر کسی جگہ آپ بیٹھ گئے تو کہیں نہ کہیں سے آپ کو آواز پڑ جائے گی کہ چلو بھائی نکلو یہاں سے۔ ہاں البتہ فصیل پر کھڑے ہو کر آپ نہ صرف اطراف کا بلکہ ایل او سی کا بھی بھرپور جائزہ لے سکتے ہیں۔
مزید خوش آئند بات یہ کہ ایل او سی کی جانب قلعے کی جو فصیل ہے، اس پر دوربین بھی رکھی گئی ہے جسے آپ استعمال کر کے بھارتی مقبوضہ چوٹیاں دیکھ سکتے ہیں
باغ سر آپ عام گاڑی پر نہیں جا سکتے۔ اس کے لیے آپ کو 4*4 کی جیپ درکار ہے یا پھر موٹر سائیکل۔ راستہ ٹوٹا ہوا نہیں ہے، بلکہ سرے سے ہے ہی نہیں۔ صرف بڑے بڑے پتھر ہیں اور ان ہی پر چل کر اوپر جانا ہے۔ مجھے قوی یقین ہے کہ جب اکبر نے یہ قلعہ بنوایا ہو گا، تب اس سڑک کی حالت کہیں زیادہ بہتر ہو گی۔
قلعہ باغ سر کے راستے میں ہی دو واٹر فال پڑتی ہیں۔ ایک سدھیڑی واٹر فال اور دوسری سندوعہ واٹر فال۔ دونوں ہی بہترین ہیں اور آپ کا دل خوش کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس لیے جب بھی آپ باغ سر جائیں، ان دونوں واٹر فالز کو ضرور وزٹ کریں۔
The post باغ سر appeared first on ایکسپریس اردو.