’’امی جان! آپ کیوں ہمت ہار رہی ہیں ان شااللہ بہت جلد ٹھیک ہو جائیں گی۔‘‘
سائرہ نے اپنی امی کے ہاتھ تھام کر آنکھوں سے لگائے۔ وہ ان کے سامنے رونا نہیں چاہتی تھی کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ اس کی امی جان کی بیماری بہت خطرناک ہوتی جا رہی ہے، انھیں ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا۔
خون کے سرطان نے ان کے جسم کو اندر سے ختم کر دیا تھا۔ گھر کے بزرگ بیمار ہوتے ہیں ناں تو وہ بالکل بچے بن جاتے ہیں بچوں کی طرح وہم کرتے ہیں اور ویسے ہی حساس ہو جاتے ہیں۔
’’بیٹی! معلوم نہیں میری زندگی کتنی ہے؟‘‘ تم میرے پاس بیٹھی رہا کرو۔کوئی دل کا دکھ سکھ مجھ سے کیا کرو۔‘‘ وہ اپنی ساس کی خدمت دل و جان سے کر رہی تھی وہ ان کے کھانے پینے اور خوراک کا خیال رکھتی اور انھیں صاف ستھرا کر کے روزانہ سیر کے لیے لے جاتی تاکہ ان کا دل بہل جائے۔
’’اماں! آپ ایسی باتیں نہ کیا کیجیے۔ بچوں اور گھر کے کاموں میں ایسے الجھ جاتی ہوں کہ بس وقت نہیں نکلتا، لیکن اب ضرور بیٹھا کروں گی۔‘‘ اس کی بات سن کر وہ مسکرا دیں۔
گھر میں بزرگ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہوتے ہیں۔ انھیں سب کچھ دینا اور وقت نہ دینا یہ بالکل ٹھیک نہیں ہے کوشش کیجیے کہ کچھ وقت نکالیے اور ان کے پاس بیٹھیں۔ بیٹیوں کو چاہیے کہ وہ وقت نکال کے میکے آئیں اور اپنے ماں باپ کی خدمت کریں۔
بیٹے اور بہوؤں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ انھیں اچھا کھلانے پلانے کے ساتھ ساتھ ان کا بھرپور خیال رکھیں۔ بڑھاپے میں جی چاہتا ہے کہ کوئی تھوڑی دیر پاس بیٹھے اور ان کی باتیں سنیں۔کوئی پرانی محلے داری کی بات ہو یا ان کے بچپن کے یارانے کی ہو ان کا دل بہل جاتا ہے اور وہ اپنی بیماری اور تکلیف کچھ دیر کے لیے بھول جاتے ہیں۔
جیسے بہت سے گھروں میں بزرگوں کو بچوں کے ساتھ گھلا ملا دیکھ کر ان کے والدین بڑوں ہی کو ’ڈانٹ‘ دیتے ہیں کہ آپ نے بچوں کوکھیل میں لگایا ہوا ہے، اسے اسکول کا کام کرنا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس سے وہ بہت بجھ جاتے ہیں اور مایوس ہوتے ہیں۔ خود کو بے کار ور لاچار محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اس موقع پر آپ کو سلجھی ہوئی بیویوں کا ثبوت دینا ہے۔
اپنے بھائی اور اپنے شوہر کو بتائیے کہ یہ ان کی عمر کی ضرورت ہے، یہ شغل انھیں مصروف رکھتا ہے، وہ خوش رہتے ہیں بلکہ ان کی بیماری بھی ان سے دور رہتی ہے، وہ اپنی تکلیفیں بھول کر ذرا دیر کو مذاق کرلیتے ہیں تو اس میں کیا حرج ہے۔
اس لیے ایسا نہ کیجیے، بچے بھی تو تھوڑی دیر ان کے ساتھ کھیل کود کر خوش ہو جاتے ہیں۔ اس بات کا بہت مثبت نتیجہ نکلتا ہے۔ بیوی کی بات کا اثر تھا کہ اگلے دن نہ صرف انھوں نے اپنے ابا جی کو وقت دیا بلکہ بچوں کو بھی ان کے ساتھ پارک سیر کے لیے بھیج دیا۔
بہت سوں کو شکایت ہوتی ہے کہ اماں! آپ کیوں ہر وقت آنسو بہاتی رہتی ہیں؟ ہم آپ کے لیے کیا کچھ نہیں کرتے؟ وہ جواب میں کہتی ہیں کہ نہیں میری بیٹی بس ایسے ہی دل اداس ہو گیا تھا مجھے فلاں فلاں بچے بہت یاد آرہے تھے۔
آپ ان رشتے داروں کو بلا لیجیے جب کچھ دیر میں وہ آجائیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ ان کا موڈ کتنا اچھا ہوگیا ہے۔ بیٹیاں ماؤں کو بہت یاد آتی ہیں، اگر آپ ان کی خوشی چاہتی ہیں تو ایسے مواقع تلاش کیا کریں جن سے وہ خوش ہو جائیں۔اس طرح ان کے دل میں آپ کی قدر مزید بڑھے گی۔
گھر کے بزرگوں کا اچھی طرح خیال رکھیے، انھیں وقت پر دوائیں اور کھانا دینا اپنی جگہ، لیکن انھیں آپ کے بھرپور وقت اور محبت و توجہ کی ضرورت ہے۔بچوں کے دل میں بھی ایسا احساس پیدا کریں کہ وہ موبائل فون اور انٹرنیٹ پر زیادہ وقت گزارنے کی بجائے اپنے دادا دادی، نانا نانی کے ساتھ بیٹھیے۔ یہ اسی وقت ہوگا جب آپ اپنے بزرگوں پر توجہ دیں گی اور بچوں کے سامنے ان سے محبت سے پیش آئیں گی، تو وہ بھی ان کے پاس بیٹھیں گے اور اپنے دوستوں کے قصے سنائیں گے جسے سن کر وہ محظوظ ہوں گے۔
ورنہ دوائیں کھا کھا کر وہ اکتا جاتے ہیں، بچوں کی توجہ نے انھیں صحت مند رکھا ہوا ہوتا ہے۔ اکثر وہ ڈاکٹر کے پاس جانے سے بہت گھبراتے ہیں، لیکن پوتے کی محبت نے ان کے ننھے سے دل کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں لے لیا تھا۔ رویوں میں رچی بسی محبت اور توجہ کی گھٹی سب کچھ بدل دیتی ہے اور آپ کے آس پاس کے لوگوں کو آپ کا گرویدہ بنا دیتی ہے۔
The post ’کئی زمانوں کی چھایا‘ appeared first on ایکسپریس اردو.