کراچی: آپ بھی سوچ میں پڑگئے ہوں گے کہ یہ کیا عنوان ہوا، بھئی سب کو پتا ہے کہ لُگائی یعنی بیوی کہاں سے آتی ہے۔ (بات کی بات ہے کہ لُگائی بمعنی عورت بھی مستعمل ہے)۔ قارئین کرام! کسی بھی معاملے میں معلومات کے حصول یا یوں کہیے کہ علم حاصل کرنے کی ابتداء ہوتی ہے، لا۔ یعنی۔ نہیں سے;ہم اپنے عجز کا اعتراف کرتے ہیں یہ کہہ کر کہ میں نہیں جانتا، پھر جب کوئی اس کے بارے میں بتاتا ہے، انکشاف کرتا ہے تو اِس لاعلمی کی جگہ لیتی ہے حیرت اور ایک قدم آگے بڑھیں تو رَدّ وقبول کی کشمکش شروع ہوتی ہے، انسان ششدر ہوکر، تذبذب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔اور بعض اوقات کسی وجہ سے،وہ انکشاف یا نئی بات،قبول کرنے کے باوجود اُس کا ذہن پُرسکون نہیں ہوتا کہ یہ کیا اضافہ ہوا،کیسا اضافہ ہوا میری معلومات میں۔
ہم مردوں میں (تمام نہیں تو) اکثر کی زندگی میں سب سے بڑھ کر، غالب اور بھرپور کرداراَدا کرنے والی ہستی، بیوی کی ہوتی ہے جسے خاکسارسہیل نے کئی سال پہلے ”گھریلوسرکار“ کا لقب دیا، دیگر لوگ ’ہوم منسٹر‘ جیسا قدرے ہلکا خطاب دینا ہی کافی سمجھتے ہیں، کہیں کہیں لوگ زوجہ محترمہ یا اہلیہ محترمہ بھی کہہ دیاکرتے ہیں،البتہ،مَلِکہ کہہ کر اپنی اپنی بیویوں کو ’بے وقوف‘ بنانے والے اب گھٹ گئے ہیں اور جدید بھارتی (ٹی وی /فلم کی دین)،بولی ٹھولی کے ا ثر سے ’بے بی‘ کہنے والے بھی نظر آنے لگے ہیں۔
اس سے بھی پُرلطف بات یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے ایک بھارتی ٹی وی چینل پر ایک الہ آبادی پُوربی شخص کی پیش کردہ انوکھی اصطلاح ’ بَوّا‘ (بَوّ، وا) بھی آپ کی معلومات میں اضافے کے لیے حاضر کردوں ;موصوف نے یہ لفظ انگریزی لفظ Babyکو بِگاڑ کر بنایا ہے…..ہاہاہا، مجھے تو لگاتھا کہ پوربی یا بِہاری کا بابو سے ببوا بننا ہی یہاں بھی کارفرما ہے۔
ہمارے یہاں قدیم رواج تویہی تھا کہ بیوی کو احتراماً اس کے اپنے شوہر کی طرف سے بیگم کہہ کر مخاطب کیا جاتا اور کبھی بیگم صاحبہ، دوسرے، (خصوصاً ملازم، غلام، خادم، کنیز، لونڈی، آیااور ماسی) یہی لقب یا عرف استعمال کرتے رہے ہیں۔ ماقبل بھی عرض کرچکا ہوں، مگر اَب بھی دُہرانا ضروری ہے کہ لفظ ’بیگم‘ اصل میں (ترکی زبان میں)پہلے بیغُم تھا یعنی بیغ (سردار، امیر، معزز شخص) کی بیوی جو صاحب ِ مرتبہ خاتون ہواکرتی تھی۔
جب ترکی میں حر ف غین کی جگہ گاف رائج ہوا تو یہ بے گُم ہوگیا یعنی بیگ کی بیوی اور پھر ہماری پیاری زبان میں بے گَم ہوگیا، زبر سے اور اَزراہِ تفنن یار لوگ ’بے غم‘ بھی کہنے لگے۔جدید ترکی میں اس کی جگہ ’حانِم‘ (Haanim)نے لے لی ہے جو ”خانَم“ کی بدلی ہوئی شکل ہے۔(اردو۔ترکی/ترکی۔اردو لغت از ڈاکٹر احمد بختیار اشرف و ڈاکٹر جلال صوئیدان،انقرہ: 2022ء)۔ویسے خانم ترکی، فارسی،اردو اور دیگر زبانوں میں کسی بھی معز ز عورت کو مخاطب کرنے کے لیے بولاجاتا رہا ہے۔بلوچی میں ایک مشہور گانے کے بول میں شامل، ”او خانم! کُجا بِری“ درحقیقت فارسی کی عبارت”اے خانم!کُجا بِرَوِید“(یعنی اے خانم کہاں جاتی ہو) کی بلوچی شکل ہے۔
مختلف زبانوں میں یہ مماثلت بھی موجودہے کہ ایک ہی لفظ بہ یک وقت بیوی کے لیے مخصوص ہے اور موقع محل کے فرق سے کسی بھی عورت کے لیے استعمال ہوسکتا ہے جیسے قدیم اردو میں لفظ بیوی بجائے بی بی، احتراماً بولاجاتا تھا، جبکہ فارسی میں زن دونوں معنوں میں ہے،سندھی میں زال اورپنجابی اور پنجاب کی بعض دیگرزبانوں میں بھی،زنانی جیسے لفظ کاایسا ہی استعمال نظرآتا ہے۔
اردو اور غالبا ً پنجابی میں عورت بمعنی بیوی بھی رائج ہے۔فرینچ میں بھی ایسا ہی ہے۔لفظ Femmeعورت اور بیوی دونوں کے لیے مستعمل ہے۔ویسے ایک اور لفظ ”اے پوز“[épouse]ہے جو عورت، بیوی، دلھن اور کسبی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
[FRANÇAIS-Anglais/English-French, Jean Mergault-Paris: 1971]۔المانوی [German]میں ehefrauکے معنی ہیں بیگم اور شریک حیات، جبکہ frau(فراؤ)سے مراد ہے: بیگم،عورت،کنواری یا شادی شدہ دونوں۔[Langenscheidt Shorter German-English/English-German Dictionary: UK]۔اس لفظ کا مادّہ اخراج Weib(وائیب) اشارہ کررہا ہے کہ کہیں یہودیوں کی دوسری زبان Yiddishمیں موجود لفظ ویب(Wayb)سے متعلق نہ ہوجو شاید انگریزی کے Wifeکا ماخذ ہوسکتاہے۔لطف کی بات یہ ہے کہ انگریزی لغت The Concise Oxford Dictionary-The New Edition for the 1990sکی رُو سے لفظ وائف، قدیم انگریزی میں وِیف تھا، مگر اس کا ماخذ معلوم نہیں، جبکہ اس کا استعمال قدیم دور میں کسی بھی عورت، خصوصاً معمّر اور اَن پڑھ عورت کے لیے ہوتا تھا۔ ہِسپانوی [Spanish]بیوی،شریک حیات اور دلھن کے لیے Eposaاورعورت، مؤنث، خاتون اور معمر عورت کے لیے Mujerمستعمل ہے۔[Español-Inglés/Inglés-Español Diccionario/Dictionary: Edwin B. Williams: Bantam Books-NY: 1989]
ہندی، گجراتی،مراٹھی،نیپالی،اُڑیا اور کنڑ میں (نیزگُرمکھی پنجابی میں) بیوی کو ”پَتنی“ کہتے ہیں جبکہ ہندی الاصل لفظ ”استری“ بنگلہ میں بھی موجودہے۔ملیالَم اور تیلگومیں ’بھاریا‘کا مطلب ہے بیوی۔سِنہالا میں کہتے ہیں، بی رِن، تَمل میں ”مانے وی“۔برمی زبان میں بیوی کو ”تَنّی“ کہاجاتاہے، جبکہ منگول زبان میں بیوی کو ”ایخ نَر“ کہتے ہیں۔
ایشیائی زبانوں میں سب سے دل چسپ اور منفرد مثال جاپانی زبان کی ہے جس میں بیوی کو ” چِی“ کہاجاتاہے،جبکہ چینی میں یہ ”چِیزی“ ہے۔ہمیں تو بچوں کی ”چےِز“ یادآگئی،جسے تتلاکر اُن کے لیے چیزی کی بجائے ”چی جی“ کہاجاتا ہے۔کورین میں اَنائی کہاجاتا ہے۔قازق یا قزاق (قازخ یا قزاخ) زبان میں بیوی کو ”آئل (عائل)“ کہتے ہیں جو عربی الاصل لفظ ہے،(ہمارے یہاں بھی عائلی کی اصطلاح عام ہے، ازدواجی کی جگہ)۔
یہی لفظ ویغور مسلمانوں کے یہاں ’اَء۔یالی‘ ہے، جبکہ قرغیز میں ”اَیالہ (عیالہ)“اور ترکمن میں اَیالی (عیالی)،مگراُزبک میں بیوی کو ”رفیقہ“ یعنی ساتھی کہاجاتا ہے جیسے ہماری اردو میں کہتے ہیں، رفیقہ حیات۔
واٹس ایپ حلقے ’بزم زباں فہمی‘ میں پچھلے دنوں بات شروع ہوئی تھی کہ یہ مؤنث لفظ ” لُگائی“ تومشہور ہے، اس کا مذکر کیا ہے، آیا ”لوگ“ یا کچھ اور۔ بحث چل نکلی تو موضوع کی پرتیں، پیاز کے چھلکوں کی طرح، کھلتی گئیں اور معلوم ہوا کہ ہاں، واقعی ایسا ہی ہے اور اِ س کا مذکر ’لوگ‘ ہی ہے۔ لوگ(بمعنی مرد اور شوہر) ہی سے پہلے لوگائی اور پھر لُگائی بنا۔ (دونوں ہجوں کی تصدیق، ہندی اردو لغت از راجا راجیسور راؤ اصغرؔسے ہوتی ہے)۔ مزید حیرت زا انکشاف یہ ہوا کہ یہ لفظ اردو کی بنیادوں میں شامل ہریانی یا ہریانوی کی دین ہے جسے کھڑی بولی بھی کہا جاتا ہے اور سہواً، رانگڑی۔یا۔رانگھڑی بھی۔(خاکسار سمیت اکثر اہل قلم یہی سہو کرتے رہے ہیں، مگر ہمارے بعض محترم ہریانوی اراکین ِبزم زباں فہمی نے اعتراض کرکے تصحیح کی کہ یہ بولی یا زبان محض رانگڑوں تک محدودنہیں، اس لیے صاحبو! میں بھی رجوع کرتاہوں۔آیندہ ہریانوی کو رانگڑی نہیں کہوں گا)۔
نوراللغات کے اندراج کے مطابق لفظ ’لُگائی‘ ہندوؤں کی نِسائی بولی سے آیا اور اس سے مراد، عورت، بیوی/زوجہ، آشنا عورت اور مَدخُولہ ہے یعنی جس سے بلا عقد نکاح، مباشرت کی جائے۔اردو لغت بورڈ کی مختصر اُردو لغت نے بھی ان مفاہیم کی تائید کی ہے۔ ہریانوی، ہندی اور اردو میں مشترک لفظ لُگائی کو عوامی چالو یا تحتی یا ذیلی بولی(عرف Slang)میں لُغائی بھی کہاجاتا ہے،(بالکل ویسے ہی جیسے لوگ زوجہ کوبگاڑ کر جوجہ کردیتے ہیں)،مگر تعجب ہے کہ ڈاکٹر رؤف پاریکھ کی مرتبہ ”اوّلین اردو سلینگ لغت“ میں لُغائی کا اندراج نہیں۔یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہریانوی میں دلھن کو ”بَؤ“(Ba’oo)کہاجاتا ہے اور ہمارے معزز ہریانوی اراکین بزم زباں فہمی کا یہ لسانی قیاس دل کولگتاہے کہ غالباً یہی لفظ تبدیل ہوکر،اردو میں بہو بنا۔اس بابت مزید جستجو کی تو بندہ یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ فرہنگ آصفیہ اور نوراللغات، بہو کے تذکرے سے یکسر خالی ہیں۔اردو لغت بورڈ کی مختصر اُردو لغت میں مندرجہ ذیل اندراج موجودہے:
بہو(فے پر زبر)، اسم مؤنث: ا)۔بیٹے کی بیوی ب)۔(ہندو) جورُو، بیوی ج)۔محلے میں کسی کے ہاں بیاہ کر آئی ہوئی دلھن، نَوعروس د)۔چھوٹے بچے کا عضوِ تناسُل۔
راقم کو تعجب ہوا کہ لغت کے مرتبین نے محولہ بالا عبارت میں لفظ ’ہاں‘ بمعنی ’یہاں‘ لکھا جو بولی ٹھولی ہے نہ کہ معیاری زبان۔
آگے بڑھنے سے پہلے ہمیں پچھلی معلومات بھی دہرالینی چاہییں۔فرہنگ آصفیہ کے بیان کی رُو سے، لُگائی ہندی الاصل لفظ اورصیغے کے لحاظ سے مؤنث ہے اور اِ س کا مذکر”لوگ“،گنوار لوگوں کے نزدیک ان معنی میں مستعمل ہے،(یہاں معلوم ہوا کہ سید احمد دہلوی صاحب، ہریانی یا ہریانوی کو گنواروں کی بولی ٹھولی سمجھتے اور قراردیتے تھے۔س ا ص)،جبکہ دیگر معانی یا مترادفات میں عورت، استری، زن، بےّر بانی، بیوی، زوجہ، گھروالی، اہلیہ، پتنی، پاتر، پتریا، بِیسوا، کسبی، رنڈی، قحبہ، پہاڑی میں لُگتی شامل ہیں۔آخری انکشاف توجہ چاہتا ہے،پہاڑی بولی (یا اہل زبان کے نزدیک زبان) میں لُگائی کو لُگتی(لام پر پیش کے ساتھ) کہتے ہیں۔
ممتاز محقق، اردوشاعر اور پوٹھوہاری کو زبان قراردینے کی تحریک کے رہنما،نیز پہاڑی سے بخوبی آشنا، محترم عبدالرحمن واصف، مقیم کہوٹہ ن(پاکستان)نے اس انکشاف کی تردید کی اور بتایا کہ ایسا بالکل نہیں، البتہ، پوٹھوہاری میں بیوی کو جنان اور جنانڑی کہتے ہیں (جو پنجابی لفظ زنانی کی ایک شکل ہے)۔اُن کے یہاں ایک اور لفظ بھی بیوی کے لیے بولاجاتا ہے، ٹَبری یعنی ٹبر۔یا۔گھرانے کی سربراہ، جبکہ پوٹھوہاری میں کسی کو خواہ مخواہ تنگ کرنے کو، لَگَت بازی کہاجاتا ہے۔یہ ساری گفتگو براہ راست واٹس ایپ پر ہوئی، جبکہ اسی تحریک کے ایک اور سرکردہ ادیب(نیز نشریات کار)جناب شریف شادؔ کی مرتبہ ”پوٹھوہاری اردو لغت“ میں اس کے برعکس عورت اور بیوی کے لیے ’زنانی‘ اور جمع ’زنانیاں‘ درج ہے۔(ظاہر ہے کہ یہ اور ایسی کئی مثالیں ہیں جو شادؔ صاحب اور واصفؔ صاحب کے درمیان،کسی لفظ کے پنجابی اور پوٹھوہاری ہونے نہ ہونے پر اختلاف کی طرف اشارہ کرتی ہیں)۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ دنیا کی سو سے زائد زبانوں میں بیوی کے لیے متعدد الفاظ مماثل موجودہیں، حتیٰ کہ پنجابی اوراردومیں مستعمل لفظ، زنانی کا ماخذ، فارسی لفظ ’زن‘ تاجیک زبان میں جُوں کا تُوں (کہ وہ اس کی بہن ہے) اور روسی، سربین اور ہمسایہ زبانوں میں اختلاف تلفظ کے ساتھ شامل ہے، مگر جناب اس ضمن میں،پوٹھوہاری کے مخصوص اسماء، شاید ہی کسی دوسری زبان میں موجودہوں۔اردو سائنس بورڈ کی شایع کردہ،نو (۹) زبانی لغت از پروفیسر عبدالعزیز مینگل بھی اس پر گواہ ہے۔
بقول صاحبِ فرہنگ آصفیہ،گنواربولی میں لُگائی کرنا (فعل متعدی)سے مراد ہے، بیوہ سے نکاح کرنا، رانڈ کو گھر میں ڈالنا، اِستری کرنا، عورت کرنا، اکیلے سے دُکیلا ہونا۔اسی طرح گنوار بولی میں لُگائی والا سے مراد ہے متاہل، (شادی شدہ)، بیوی والا، بیا ہا،گھرباری اور گرہستی۔
اب ذر ا ایک تکنیکی لطیفہ ملاحظہ فرمائیں: آن لائن لغت ’ریختہ‘ نے محولہ بالا معانی کے ساتھ لفظ ” لُگائی“ کا اندراج کرتے ہوئے، جدید غزل گو جناب معین احسن جذبی ؔ کی مشہور ِ زمانہ غزل کا ایک شعر بھی چسپاں کردیا، جس میں لُگائی کی بجائے لَگائی کا ذکر ہے جیسے آگ لگانا:
جو آگ لگائی تھی تم نے، اُس کو تو بجھایا اشکوں نے
جو اَشکوں نے بھڑکائی ہے، اُس آگ کو ٹھنڈا کون کرے
ہاہاہا…….لگتا ہے کہ نقل وچسپاں کرنے والے صاحب کے ذہن میں لُگائی کا تصور، ”لگائی بجھائی کرنے والی عورت“ یا ”آگ بھڑکانے والی عورت“کا تھا،ویسے مذاق برطرف! وہاں موجود، انتظامیہ میں شامل، دیوناگری رسم الخط میں متن پڑھنے اور سمجھنے والے حضرات سے ایسی غلطی کا سرزد ہوجانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔اس سے قطع نظر ایک اچھا کام ریختہ ڈاٹ آرگ کی انتظامیہ نے یہ کیا کہ حضرت اظہرؔ بارہ ساداتی کی لکھی ہوئی آٹھ صفحات پر مشتمل نظم بشکل کتابچہ ”لُگائی کا نخرہ“ اَپلوڈ کردی۔اس نظم کے سن تصنیف واشاعت کا حوالہ تو نہیں دیا گیا، مگر اِس کی کتابت دیکھ کر اندازہ ہوتاہے کہ غالباً 1930ء سے 1940ء کے عشرے میں یہ کارنامہ انجام دیا گیا ہوگا جس میں عورت،خصوصاً پاکیزہ،نیکوکار عورت کا مقام بمقابلہ بدکار عورت نمایاں کیا گیا ہے۔ شاعر موصوف شاید میرٹھ میں اپنے مخصوص مزاج کے حامل اور عارضی شہرت کے حامل ہوں۔
یہاں ایک قدیم ہندی دوہا اسی موضوع پر نقل کررہاہوں، شاید آپ کے لیے نیا ہو:
پر ناری پَینی چھُری،مَت کوئی کرے پرسنگ+دس مستک راون گئے،پرناری کے سنگ
یعنی پرائی یا غیر عورت تو خفیہ چھُری کے مانند ہے جس سے کوئی بھی تعلق پیدا نہ کرے توبہتر،کیونکہ دس سروں والا راوَن بھی ایک پرائی عورت کے ساتھ مرگیا تھا (مخزن ِ اخلاق اَز مولوی رحمت سبحانی لودیانوی، اول اشاعت: 1932ء،اٹھارویں اشاعت: 1961ء)
یہاں قارئین کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ معیاری اردو میں رائج لفظ ’لوگ‘ بمعنی مَردُم، اشخاص، خلقِ خدا یا خلقت، اسم مذکر جمع کے لغوی معانی کیا زیرِ بحث ’لوگ‘ بمعنی مرد یا شوہرسے کوئی تعلق رکھتے ہیں۔قصہ یہ ہے کہ بہت سے آدمیوں یا انسانوں کے مجمع یا گروہ کے لیے یہی ہندی الاصل لفظ بولا جاتا ہے جو ہریانوی کی نِسائی بولی میں مرد اور شوہر کے لیے مستعمل ہے،نیز اِس کا ایک اور استعمال کسی کی قوم یا ذات دریافت کرنے کے لیے ہوتا ہے، جیسے ”تم کون لوگ ہو؟“۔اسی باب میں یہ بھی جان لیں کہ ”لوگ لُگائی“ سے مراد ہے، عورت مرد، جبکہ جگ ہنسائی یا جگت ہنسائی کو ”لوگ ہنسائی“ بھی کہاجاتا ہے۔
(یہ بات واضح ہوگئی کہ ہندوستانی ٹیلیوژن چینلز کی دین سے ہمارے یہاں دو آدمی یا اشخاص کی جگہ ’دولوگ‘ اور اسی طرح گنتی گنوانے کا معاملہ بھی اسی پس منظر سے جُڑا ہواہے، ورنہ اب ہمارے یہاں اسے عوامی چالو بولی، تحتی یا ذیلی بولی یا عرف عام میں Slangہی مانا جاتاہے، معیاری زبان نہیں)۔اس لفظ کا تعلق سنسکِرِت کے ”لوک“ سے بھی ہے جو اسم مذکر جمع ہے اور انہی معانی کے ساتھ ساتھ طبقے (زمین وآسمان کے)، جہان اور پَردے کے لیے بھی مستعمل ہے، جیسے سُؤرگ لوک ۔یا۔ دیو لوک یعنی قُدسیوں یا فرشتوں کے رہنے کا مقام یا عالمِ اَرواح۔ عموماً قدیم سنسکرت وہندی کتب کی رُو سے ’لوک‘ کی تعداد سات ہے، جبکہ بعض کے نزدیک یہ چودہ ہیں۔
بات چلی تھی لُگائی سے اور جاپہنچی عالمِین یعنی جہانوں تک، پھر بھی لوگ سمجھتے ہیں کہ بیوی کو اتنی اہمیت دینا ٹھیک نہیں!
The post زباں فہمی نمبر186؛ لُگائی کہاں سے آئی؟ appeared first on ایکسپریس اردو.