قرآن مجید فرقان حمید ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں تاقیامت ہماری راہ نمائی کرتا رہے گا۔
جامع قوانین کا ایسا مجموعہ ہے جو معاشرے کو ہر قسم کی برائی، ظلم و ناانصافی اور جرائم سے پاک کرنے کی بھرپور قوت و صلاحیت رکھتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات کے منصب پر فائز کیا اور باقی مخلوقات پر علم اور لباس کے ذریعے اسے فضیلت عطا فرمائی۔ یہ عظیم نعمت اﷲ رب العزت نے صرف انسانوں کو عطا فرمائی۔
حضور سرور کائناتؐ نے بھی لباس کو اﷲ تعالیٰ کی عظیم نعمت قرار دیا اور اپنے عمل سے اس پر شُکر ادا کرنے کی تلقین کی اور نیا لباس پہننے کی دعا بھی ہمیں سکھائی، مفہوم: ’’سب تعریفیں اﷲ کے لیے ہیں جس نے مجھے یہ لباس پہنایا اور نصیب کیا، بغیر میری کوشش اور قوت کے۔‘‘
آئیے! قرآن و احادیث کی روشنی میں لباس کا مقصد اور اس کی خصوصیات کا ایک مختصراً جائزہ لیتے ہیں۔
سورہ اعراف کی درج ذیل آیت مبارکہ لباس کے معاملے میں انتہائی جامع اور اہم ہے۔
مفہوم: ’’اے اولادِ آدم! ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کے قابلِ شرم حصوں کو ڈھانکے اور تمہارے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہو، اور بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے، یہ اﷲ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے شاید کہ لوگ اس سے سبق لیں۔‘‘
مندرجہ بالا آیتِ مبارکہ میں لباس کے تین اہم مقاصد بیان کیے گئے ہیں۔
1: پہلا مقصد جو سب سے زیادہ اہم ہے کہ اﷲ رب العزت نے انسان کے اندر فطری طور پر حیا اور شرم کا مادہ رکھ دیا کہ وہ اپنے جسم کے ایسے حصوں کو چھپانا پسند کرتا ہے جن کے اظہار کو وہ قبیح سمجھتا ہے۔ حیا ایک ایسی صفت ہے جس کی وجہ سے انسان بڑے سے بڑے رزائل سے بچ جاتا ہے۔ حضور پاکؐ نے ارشاد فرمایا:
’’ہر دین کے لیے کچھ اخلاق ہیں اور اسلام کا اخلاق حیا ہے۔‘‘
حیا وہ قلبی کیفیت اور قوت ہے جو انسان کو بھلائی کی طرف لے جاتی ہے اور برائیوں سے روکتی ہے۔
حضور پاکؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جب تو حیا کھو دے تو جو مرضی میں آئے کر۔‘‘
یعنی حیا کے فقدان سے ایمان بھی ختم ہو جاتا ہے، اسی لیے احمد مجتبیٰؐ کا فرمانِ مبارک ہے:
مفہوم: ’’حیا اور ایمان ساتھ ساتھ ہیں، جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھ جاتا ہے۔‘‘
2: دوسرا مقصد لباس کا یہ ہے کہ وہ جسم کی آرائش اور موسمی اثرات سے بدن کی حفاظت کرتا ہے۔
3: تیسری بات اس آیتِ مبارکہ میں فرمائی گئی ہے کہ ’’بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے۔‘‘
تقویٰ کے لباس سے مراد وہ لباس ہے جو اﷲ رب العزت اور اس کے رسولؐ کے احکامات، ہدایات اور حدود و قیود کے مطابق ہو۔ آئیے! اب اسلامی شریعت کے مطابق ان حدود و قیود پر نظر ڈالتے ہیں۔
عورتوں کے لباس کے لیے خصوصی ہدایات:
حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے، (میری بہن) ’’اسماء بنت ابی بکر رسول اﷲ ﷺ کے پاس آئیں اور وہ باریک کپڑے پہنے ہوئے تھیں۔ آپؐ نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا اور فرمایا، مفہوم: ’’اے اسمائ! جب عورت بلوغ کو پہنچ جائے تو درست نہیں کہ اس کے جسم کا کوئی حصہ نظر آئے، سوائے چہرے اور ہاتھوں کے۔‘‘ (سنن ابی داؤد)
سورہ الاحزاب میں اﷲ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
مفہوم: ’’اے پیغمبر (ﷺ)! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمان عورتوں سے کہہ دو کہ باہر نکلا کریں تو اپنے چہرے پر چادر لٹکا لیا کریں۔ یہ امر ان کے لیے موجبِ شفاعت اور باعثِ امتیاز ہوگا تو کوئی ایذا نہ دے گا۔ خدا بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
سورہ نُور میں بھی عورتوں کے لیے اسی طرح کے احکامات آئے ہیں۔مفہوم: ’’اور (خواتین) اپنے سینوں پر اپنے دوپٹے کے آنچل ڈالے رکھیں۔‘‘
حضرت دحیہ بن خلیفہ کلبیؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کے پاس کچھ چادریں آئیں تو آپؐ نے ان میں سے ایک چادر مجھے عنایت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ اس کے دو ٹکڑے کرلینا، ایک ٹکڑے کا تم اپنا کرتا بنا لینا اور دوسرا ٹکڑا اپنی بیوی کو دینا کہ وہ اسے خمار (اوڑھنی) کے طور پر استعمال کرے گی۔ بیوی سے کہہ دینا کہ اس کے نیچے ایک اور کپڑا لگا لے تاکہ اس میں سے اس کا جسم نظر نہ آئے۔‘‘ (سنن ابی داؤد)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ان احکامات کے بعد عورتوں نے باریک کپڑے پہننے چھوڑ دیے اور موٹے کپڑے پہننے لگیں۔
مندرجہ بالا ہدایات سے یہ معلوم ہوگیا کہ خواتین دوپٹہ اوڑھنے کا اہتمام کریں اور اپنے سر اور سینے کو چھپائے رکھیں۔ دوپٹہ ایسا باریک نہ ہو کہ جس سے سر کے بال نظر آئیں۔ لباس نہ بہت زیادہ تنگ ہونا چاہیے اور نہ ہی باریک ہو کہ جسم نمایاں ہو۔ کسی دوسری قوم کے مشابہ بننے کی کوشش نہ کریں۔ مردوں کی مشابہت اختیار نہ کریں۔
حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے لعنت فرمائی ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کریں اور ان عورتوں پر بھی جو مردوں کی مشابہت اختیار کریں۔ (صحیح بخاری) مشابہت میں لباس، شکل و ہیئت، انداز و عادات سب شامل ہیں لیکن نمایاں ترین چیز لباس ہے۔
حسب استطاعت نفیس اور عمدہ لباس اﷲ کے نزدیک پسندیدہ ہے لیکن اعتدال پسندی سے کام لینا چاہیے اسراف اور استکبار نہیں ہونا چاہیے۔ جیسا کہ حضورؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم:
’’لباس کی سادگی ایمان کی علامتوں میں سے ایک ہے۔‘‘
احادیث کی روشنی میں مردوں کے لباس کے لیے خصوصی ہدایات:
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ حضور پاکؐ نے مردوں کو حکم دیا کہ وہ ریشمی لباس نہ پہنیں۔ جو اس دنیا میں ریشم پہنے گا آخرت میں اس کو نہ پہنچ سکے گا۔ (بخاری و مسلم)
حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ رسول پاکؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم:
’’سونا اور ریشمی کپڑے کا استعمال میری امت کی عورتوں پر حلال اور جائز ہے اور مردوں کے لیے حرام ہے۔‘‘
احادیث کی روشنی سے یہ بات اخذ ہوتی ہے کہ مردوں کے لیے وہ کپڑا حرام اور ناجائز ہے جو خالص ریشم سے بنایا گیا ہو یا اس میں ریشم غالب ہو۔ اگر ایسا نہ ہو تو جائز ہے۔ اسی طرح ایسا کپڑا بھی مردوں کے لیے جائز ہے جو ریشمی تو نہ ہو مگر اس پر نقش و نگار ریشم سے بنائے گئے ہوں مگر بہت تھوڑا۔
سفید لباس خصوصاً مردوں کے لیے آپؐ نے پسند فرمایا۔ آپؐ خود بھی سفید لباس کو پسند کرتے تھے لیکن کئی مواقعوں پر آپؐ نے سبز اور ہلکے نیلے رنگ کے کپڑے بھی زیب تن فرمائے، اس کے علاوہ سرخ دھاری دار چادر اور سیاہ رنگ کا عمامہ بھی زیب تن فرمایا ہے۔
مردوں کو ایسے شوخ اور بھڑکیلے رنگوں کا استعمال نہیں کرنا چاہیے جو عورتوں کو زیب دیتا ہے۔ آپؐ نے بھی عورتوں کے لیے رنگین لباس ہی پسند فرمایا۔
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اﷲ کے نیک بندوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ قیمتی لباس زیب تن کریں کہ یہ دنیا داری اور دکھاوا ہے، لیکن ہمیں اﷲ اور اس کے رسول ﷺ نے جو تعلیم دی ہے اس کے مطابق کسی کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ اﷲ کی دی ہوئی نعمتوں کو اپنے اوپر حرام کرے۔
سورہ الاعراف میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے، مفہوم: ’’اے نبی (ﷺ)! ان سے کہو! کس نے اﷲ کی اس زینت کو حرام کردیا، جسے اﷲ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا اور کس نے خدا کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع کردیں، کہو یہ ساری چیزیں دنیا کی زندگی میں بھی ایمان لانے والوں کے لیے ہیں۔‘‘
عمرو بن شعیب اپنے والد شعیب اور وہ اپنے دادا حضرت عبداﷲ بن عمر بن عاصؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسولؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’اﷲ کو یہ بات محبوب اور پسند ہے کہ کسی بندے پر اس کی طرف سے جو انعام ہو تو اس پر اس کا اثر نظر آئے۔ (جامع ترمذی)
سورہ الاعراف آیت نمبر 31 میں بھی یہ حکم اﷲ باری تعالیٰ نے ان الفاظ میں دیا ہے، مفہوم:
’’اے بنی آدم! ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو۔‘‘
یہاں زینت سے مراد خوب صورت اور مکمل لباس ہے یعنی خدا کی عبادت میں کھڑے ہونے کے لیے صرف اتنا کافی نہیں کہ آدمی محض اپنا ستر چھپا لے بل کہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ حسب استطاعت ایسا لباس زیب تن کرے کہ جس سے ستر پوشی بھی ہو اور زینت بھی۔
حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو کوئی فخر و تکبّر کے طور پر اپنا کپڑا زیادہ نیچا کرے گا، قیامت کے دن اﷲ اس کی طرف نظر بھی نہیں کرے گا۔‘‘ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ کہتے ہیں حضورؐ کا یہ ارشاد سن کر حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا کہ میرا تہہ بند اگر میں خیال نہ کروں تو نیچے لٹک جاتا ہے۔ حضورؐ نے فرمایا: تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو، جو فخر و غرور کے جذبے سے ایسا کرتے ہیں۔ (صحیح بخاری)
علما کرام کی رائے میں اگر ٹخنوں سے نیچا تہہ بند یا پاجامہ تفاخر اور استکبار سے ہو تو حرام ہے اور اسی پر جہنم کی وعید ہے لیکن اگر بے خیالی اور بے توجہی کی وجہ سے ایسا ہو جاتا ہے تو یہ معاف ہے۔
سرور کائنات احمد مجتبیٰؐ نے لباس کے بارے میں یہ بھی حکم دیا، مفہوم: ’’جو شخص کسی مسلمان کو کپڑے پہنا کر اس کی تن پوشی کرے گا تو خدا تعالیٰ قیامت کے روز جنت کا سبز لباس پہنا کر اس کی تن پوشی فرمائے گا۔‘‘ (ابو داؤد)
اﷲ رب العزت ہمیں قرآن و احادیث کے مطابق اپنے لباس کے انتخاب کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین
The post قرآن و احادیث کی روشنی میں احکامات لباس appeared first on ایکسپریس اردو.