’’بابا! آپ کب تک گھر آئیں گے؟ یہ عید بھی گزر گئی لیکن آپ نہیں آئے۔‘‘ دس سالہ زرش نے روتے ہوئے فون پر اپنے باپ سے گلہ کیا۔
’’میری جان! میری شہزادی بہت جلد آپ کے پاس ہوں گا۔‘‘ انھوں نے ہمیشہ کی طرح تسلی دی کہ وہ بھی کیا کریں مجبور ہیں دو سال پہلے ہی دبئی میں کام ملا اب بار بار چھٹی لے کر تو نہیں آ سکتے تھے۔
’’دیکھو ربیعہ ہماری بیٹی کا بہت خیال رکھا کرو وہ بہت حساس ہوگئی ہے۔‘‘ انھوں نے بیوی کو تاکید کی۔
’’آپ کو کیا معلوم چار بچوں کی کتنی ذمہ داریاں ہیں، انھیں اسکول بھیجنا اور پھر گھر کی الگ پریشانیاں۔‘‘ وہ بھی اپنی جگہ ٹھیک تھی کہ بچوں کی ذمہ داری، گھر کو دیکھنا، سودا سلف لانا، بجلی وگیس کے بل جمع کرانے اور رشتے داروں کے ہاں شادی بیاہ کی تقریبات میں جانا، سب کچھ اسے اکیلے ہی نبٹانا تھا۔
بچے بری طرح نظر انداز ہو رہے تھے، باپ کی کمی کو بری طرح محسوس کر رہے تھے۔ زرش تو بہت چڑ چڑی ہو گئی تھی۔ کسی سے زیادہ بات کرتی اور نہ ہی کھیل کود میں حصہ لیتی۔
’’میں تو شام میں روزانہ سیر کے لیے اپنے بابا کے ساتھ پارک جاتی ہوں۔‘‘ زرش کی سہیلی نے اسے بتایا جسے سن کر زرش مزید دکھی ہو گئی اور اسے اپنے بابا بے تحاشا یاد آئے۔ جب وہ یہاں تھے تو وہ خوب مزے کرتی اور گھوما کرتی تھی۔
پردیس رہنے والوں کے بچے بہت جذباتی ہو جاتے ہیں، انھیں ہر لمحے باپ کی کمی محسوس ہوتی ہے مائیں انھیں سمجھانے لبھانے کی خاطر خواہ کوشش کرتی ہیں، لیکن ان کی زندگی میں ایک خلا رہ جاتا ہے وہ اپنے ساتھی، دوستوں اور سہیلیوں سے قصے سنتے ہیں کہ آج ان کے بابا ان کے لیے کھلونے لائے تھے اور آج وہ آئس کریم کھانے گئے تھے، تو کچھ ننھے منے دل شور مچا کر احتجاج کر کے باپ کی غیر موجودگی کا اظہار کرتے ہیں اور کچھ چپ چاپ کونے میں بیٹھ کر آنسو بہاتے ہیں۔ مائیں اس صورت حال سے نبٹنا سیکھیں اور یہ قبول کریں کہ آپ کے شوہر کی مجبوری ہے کسی شہر یا ملک میں انھیں روزگار تلاش کرنا ہوتا ہے۔
اس موقع پر آپ کو دُہری ذمہ داریاں نبھانا ہوتی ہیں اس لیے کوشش کریں کہ اپنے بچوں کو پہلے سے زیادہ وقت دیں۔ بچوں کے خوب صورت اور یادگار لمحات کو اچھے انداز سے منائیں اور انھیں ساتھ ساتھ سمجھائیں کہ ان کے والد ان کے لیے اتنی محنت کر رہے ہیں، تاکہ ان کا مستقبل محفوظ کر سکیں۔ بچوں کے اسکول میں کوشش کریں ایسا کوئی موقع خالی نہ چھوڑیں کہ جب والدین کو بلایا جائے۔
بچوں کی پوزیشن آئی ہے، تو اس خوشی کو ان کے والد کی طرف سے بھی منائیے۔ اگر والد کوئی خاص طریقے سے پارٹی دیتے تھے، کہیں گھماتے پھراتے تھے، تو کوشش کیجیے کہ ان کی غیر موجودگی میں اس کمی کو پورا کرتے ہوئے بالکل وہی کیجیے ۔ اگر بچوں نے یہ محسوس کیا کہ والد ہوتے تو وہ یہ کرتے یا ویسا کرتے، تو یہ امر ان کے دل میں ایک خلا پید اکردے گا۔
اس خوشی کے موقع پر آپ کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو پہلے سے زیادہ سراہیں ان کی خوشی کو بھرپور انداز سے منائیں اور آج کے جدید دور میں سب کچھ ایک سیکنڈ کے فاصلے پر دور ہے ان کے باپ سے وڈیو کال پر بات کرائیں۔ان کی طرف سے تحفہ دلائیں اور دل جوئی کریں کہ آپ ان کے ساتھ ہیں سب کے بابا شہر سے ملک سے باہر روزگار کے لیے جاتے ہیں اور وہ بالکل اداس نہ ہوں۔ پارک لے جائیں گھر میں کوئی اچھی سی پارٹی کرلیں یا کچھ بچوں کی پسند کی چیز بنا کر بچوں کو کھلائیں اس طرح ان کا ذہن بٹے گا اور وہ کسی نہ کسی سرگرمی میں لگے رہیں گے۔
نفسیاتی تقاضوں کے مطابق بچوں کو جب کسی رشتے کی کمی محسوس ہو اور گھر میں انھیں بھرپور وقت نہ ملے تو وہ چور راستے تلاش کرتے ہیں بری صحبت انھیں بگاڑنا شروع کر دیتی ہے اور وہ اپنی تنہائی دور کرنے کے لیے غلط طریقے اختیار کرنے لگتے ہیں اس لیے توجہ دیں کہ اگر باپ موجود نہیں ہے تو آپ پر دُہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان کے دوست احباب تک رسائی کریں کہ وہ کس طرح کے بچوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں۔
ان کے لیپ ٹاپ پر نظر رکھیں اور ایک اچھے ساتھی اور دوست کی طرح انھیں مجبور کریں کہ وہ سب باتیں آپ کو بتائیں۔ باپ کی دوری کی وجہ سے بہت سے حساس بچے اپنے آپ میں ہی سمٹے رہتے ہیں وہ خود کو بہت الگ سمجھتے ہیں۔
اس لیے ماؤں کو کوشش کرنی چاہیے کہ ایسے بچوں کو بھرپور توجہ دیں اور انھیں اپنی روٹین پر لائیں اور نفسیاتی طریقے اختیار کرتے ہوئے انھیں سمجھائیں کہ فلاں کا والد گھر پر نہیں ہے، لیکن وہ کس طرح خوشی خوشی اپنا سب کام کرتے ہیں اور زندگی کا لطف اٹھاتے ہیں۔یہ بات درست ہے کہ ماں کہاں کہاں اکیلی توجہ دے اسے گھر، اس کے اخراجات سودا سلف اور بہت کچھ دیکھنا ہوتا ہے لیکن بچوں کو بھی توجہ نہ ملے تو وہ مرجھا جاتے ہیں۔
ایسا نہ کریں کہ بچے اگر والد کو یاد کرکے افسردہ ہوں تو الٹا آپ انھیں ڈانٹ پلا دیں۔ یہ ایسے مواقع ہوتے ہیں جب بچے اپنے قریبی رشتوں کو بہت زیادہ یاد کرتے ہیں۔نہ تو خود انھیں ڈانٹیں اور نہ دوسروں سے ڈانٹ ڈپٹ کرائیں، بلکہ انھیں پیار سے سمجھائیں اور باپ کی کمی کو پورا کرنے کی کوشش کریں کیوں کہ جو مٹھاس ماں کے لہجے اور آغوش میں ہوتی ہے وہ اور کہیں دکھائی نہیں دیتی۔
The post دُہری ذمہ داریاں appeared first on ایکسپریس اردو.