اردو زبان پر عربی، فارسی، ہندی سمیت بہت سی زبانوں کے واضح اثرات نظر آتے ہیں۔
اردو روزمرہ میں عربی اور فارسی زبان و بیان کی آمیزش دیگر زبانوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے، بالخصوص فارسی کو اگر اردو کی مادری زبان کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ اردو نے گفتگو کرنا، شعر کہنا، داستاں لکھنا، طرزتحریر میں لفظی دروبست پر خصوصی توجہ دینا،سب فارسی ہی سے سیکھا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ فارسی زبان کی بہت سی لفظی تراکیب، محاورات، ضرب الامثال اور اشعار طویل عرصے تک بکثرت زیر ِ استعمال رہنے سے اب باقاعدہ اردو زبان کا نا گزیر حصہ بن چکے ہیں۔ اردو زبان میں فارسی محاورات کے استعمال پر اگرچہ بہت سے تحقیقی و تنقیدی مضامین تحریر کیے گئے ہیں تاہم اس موضوع کی وسعت باقاعدہ ایک مکمل تحقیقی مقالے کی متقاضی ہے۔
اردو میں مستعمل فارسی محاورات سے ایک محاورہ ’’در جواب آں غزل‘‘ ہمارے اس مضمون کا موضوع ہے۔ تمام تر تحقیقی ذرائع بروئے کر لانے کے باوجود اس محاورے کے حقیقی ماخذ کے بارے میں حتمی دریافت نہیں ہوسکی، تاہم اس کے روزمرہ عمومی استعمال کے حوالے سے دیکھا جائے تو ’’جب کسی علمی و غیرعلمی نوعیت کے اعتراض کا جواب تحریری صورت میں دینا مطلوب ہو تو متعلقہ جوابی مضمون کے عنوان کے لیے اسی محاورے کا انتخاب کیا جاتا ہے۔‘‘
زیرنظر مضمون میں ہم نے پہلی بار اردو کے شعری ادب سے مختلف شعراء کے (ارادی و غیرارادی طور پر) کہے گئے ایسے اشعار اور غزلوں کا انتخاب کیا ہے جو ’’درجواب آں غزل‘‘ یا ’’درجواب آں شعر‘‘ کے طور پہ تحریر کیے گئے۔ امید ہے کہ یہ انتخاب شاعری کے با ذوق قارئین کے لیے دل چسپی سے معمور اور اردو زبان و بیان کے محققین کے لیے ایک نئے تحقیقی سفر کا سنگِ میل ثابت ہوگا۔
آغا شاعرؔ قزلباش دہلوی کے انار کلی، لاہور میں قیام کے دوران علامہ اقبال ؔکے ساتھ خاصے دوستانہ مراسم رہے۔ باہمی احترام اور دوستی کے کے اس تعلق کے باوجود آغا شاعر ؔ، علامہ اقبال کے فلسفیانہ نظریات سے اختلاف رکھتے تھے، جس کا اظہار انہوں نے علامہ اقبال کے شعری مجموعے ’’بال جبریل‘‘ میں شائع ہونے والی علامہ اقبال کی پہلی غزل کا جواب لاہور کے معروف ادبی رسالے ’’ہمایوں‘‘ کے جون ۱۹۳۷ کے شمارے میں’’ نوائے سروش‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی اپنی ایک غزل میں کیا۔
مذکورہ غزل اقبال کی کہی گئی غزل کی زمین میں ہی لکھی گئی۔ آغا شاعر ؔکے نظریاتی اعتراضات کس حد تک موثر ہیں اس کا فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہوئے ہم دونوں غزلیں پیش کیے دیتے ہیں:
علامہ اقبالؔ
میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں
فلسفہ ہائے الاماں بتکدہ ِصفات میں
حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیلات میں
میری نگاہ سے خلل تیری تجلیات میں
گرچہ ہے میری جستجو دیر و حرم کی نقشبند
میری فغاں سے رستخیز کعبہ و سومنات میں
گاہ میری نگاہِ تیز چیر گئی دلِ وجود
گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں
تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا
میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں
آغا شاعرؔ قزلباش
خاک کا مرتبہ ہے کیا ؟ مس ہو یم ذات میں
سایہ سا سجدہ ریز ہوں جلوہ گہہ صفات میں
نور کا شائبہ کجا میرے تخیلات میں
میری نگاہ گرد ہے تیری تجلیات میں
دیر و حرم کی جستجو!! توبہ کر!! آہ بے ادب
ارض و سماء کا فرق ہے کعبہ و سومنات میں
میری نگاہ ِ تیز کیا؟ میرا عدم میرا وجود
میں تو ہوں غرق رات دن اپنے توہمات میں
مجھ کو مٹا کے دھر دیا آہ میرے غرور نے
میں ہی تو ایک زخم ہوں سینہ کائنات میں
ناصرؔ کاظمی اور صابرؔ ظفر:
ناصرؔ کاظمی مرحوم کی ایک غزل نے عوامی سطح پہ بہت پزیرائی حاصل کی ۔مگر ناصرؔ کاظمی کے رفقاء میں شامل کراچی کے شاعر صابرؔ ظفر نے غزل میں چھپے ان کے کرب کو محسوس کیا اور شاعرانہ انداز میں ان کو اپنی دوستی اور محبت کا یقین جوابی طور پہ غزل تحریر کر کے دیا۔
غزل
نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤںکس کے لیے
جس دھوپ کے دل میں ٹھنڈک تھی وہ دھوپ اسی کے ساتھ گئی
ان جلتی بلتی گلیوں میں اب خاک اڑاؤں کس کے لیے
وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا
اب ایسے ویسے لوگوں کے میں ناز اٹھاؤں کس کے لیے
اب شہر میں اس کا بدل ہی نہیں کوئی ویسا جانِ غزل ہی نہیں
ایواں غزل میں لفظوں کے گلدان سجاؤںکس کے لیے
مدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گھر کی فضا
ان خالی کمروں میں ناصر اب شمع جلاوں کس کے لیے
ناصرکاظمی
در جوابِ آں غزل
نئے کپڑے بدل اور بال بنا تیرے چاہنے والے اور بھی ہیں
کوئی چھوڑ گیا یہ شہر تو کیا تیرے چاہنے والے اور بھی ہیں
کئی پلکیں ہیں اور پیڑ کئی، محفوظ ہے ٹھنڈک جن کی ابھی
کہیں دور نہ جا مت خاک اڑاتیرے چاہنے والے اور بھی ہیں
کئی پھولوں جیسے لوگ بھی ہیں انہی ایسے ویسے لوگوں میں
تو غیروں کے مت ناز اٹھا تیرے چاہنے والے اور بھی ہیں
بے چین ہے کیوں اے ناصر تو بے حال ہے کس کی خاطر تو
تو نئی غزلوں کے لفظ سجا تیرے چاہنے والے اور بھی ہیں
کہتی ہے یہ شام کی نرم ہوا پھر مہکے گی اس گھر کی فضا
نیا کمرہ سجا نئی شمع جلا تیرے چاہنے والے اور بھی ہیں
صابر ظفر
ابن انشائؔ اور قتیلؔ شفائی:
معروف مزاح نگار اور منفرد انداز کے شاعر ابن انشاء ؔنے اپنی ایک غزل میںجب شہر سے کوچ کرنے کی ٹھانی تو ان کے احباب میں سے قتیل ؔشفائی نے اپنے لفظوںکے ذریعے ان کی ڈھارس کچھ اسطرح بندھائی جو اپنی مثال آپ ہے۔
غزل
انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کا لگاناکیا
وحشی کو سکوں سے کیا مطلب جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا
اس دل کے دریدہ دامن کو دیکھو تو سہی سوچو تو سہی
جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا
شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا زنجیر پڑی دروازے میں
کیوں دیر گئے گھر آئے ہو گوری سے کرو گے بہانہ کیا
پھر ہجر کی لمبی رات میاں، سنجوگ کی تو یہی ایک گھڑی
جو دل میں ہے لب پہ آنے دو شرمانا کیا گھبرانا کیا
اس روز جو ان کو دیکھا ہے اب خواب کا عالم لگتا ہے
اس روز جو ان سے بات ہوئی وہ بات بھی تھی افسانہ کیا
اس حسن کے سچے موتی کو ہن دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں
جسے دیکھ سکیں پر چھو نہ سکیں وہ دولت کیا وہ خزانہ کیا
جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں کیوں بن میں نہ جا بسرام کریں
دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا
ابنِ انشاء
در جوابِ آں غزل
یہ کس نے کہا تم کوچ کرو؟ باتیں نہ بناؤ انشاء جی
یہ شہر تمہارا را اپنا ہے یہاں آؤ جاؤ انشاء جی
جتنے بھی یہاں کے باسی ہیں سب کے سب تم سے پیار کریں
کیا ان سے بھی منہ پھیرو گے یہ ظلم نہ ڈھاؤ انشاء جی
کیا سوچ کے تم نے سینچی تھی یہ کیسر کیاری چاہت کی
تم جن کو ہنسانے آئے تھے ان کو نہ رلاؤ انشاء جی
تم لاکھ سیاحت کے ہو دھنی اک بات ہماری بھی مانو
کوئی جا کے جہاں سے آتا نہیں اس دیس نہ جاؤ انشاء جی
بکھراتے ہو سونا حرفوں کا تم چاندی جیسے کاغذ پر
پھر ان میں اپنے زخموں کا مت زہر ملاؤ انشاء جی
اک رات تو کیا وہ حشر تلک رکھے گی کھلا دروازے کو
کب لوٹ کے تم گھر آؤ گے سجنی کو بتاؤ انشاء جی
نہیں صرف قتیل کی بات یہاں کہیں ساحر ہے کہیں عالی ہے
تم اپنے پرانے یاروں سے دامن نہ چھڑاؤ انشاء جی
شعر کا جواب شعر سے دینے کے دل چسپ واقعات:
ریاست لکھنؤ کے ادب پسند اور ادب نواز فرمانروا نواب آصف الدولہ کی بیگم شمس النساء بھی شاعرہ تھیں اور شرم ؔتخلص اختیار رکھا تھا۔ بیگم شمس النساء اکثر اوقات نواب آصف الدولہ کے کہے گئے اشعا رکے جواب میں اشعار کہا کرتی تھیں جو فکر و خیال اور ادبی لطف سے بھرپور ہوا کرتے تھے۔ مثلاً نواب آصف الدولہ کو تعمیرات کا بہت شوق تھا اور اسی شوق کے پیش نظر انہوں نے اپنے ایک شعر میں کہا:
؎جہاں میں جہاں تک جگہ پائیے گا
عمارت بناتے چلے جائیے گا
اس کا جواب میں بیگم شرم نے کچھ یوں دیا:
؎نہ کرو فکر عمارت کی کوئی زیرِفلک
خانہ دل جو گرا ہو اسے آباد کرو
نواب صاحب کا ایک اور شعر ملاحظہ ہو:
؎ساقیا مے یوں پلا دے کہ بہکتے جائیں
برق کی طرح جدھر جائیں چمکتے جائیں
اس پر بیگم شمس النساء نے لکھا:
؎اتنے کم ظرف نہیں ہم کہ بہکتے جائیں
مثل گل جائیں جدھر جائیں، مہکتے جائیں
ایک شاعر نے لکھنؤ کے آخری فرمانروا جانِِ عالم واجد علی شاہ اخترؔ کے دربار میں شعر پڑھا:
؎اہلِ جوہر نہیں جھکتے ہیں کسی کے آگے
ٹوٹتی ہے وہی تلوار جو فولادی ہو
ہر سمت سے داد و تحسین کی صدائیں بلند ہوئیں۔ جب ذرا شور تھما تو دربار میں موجود دوسرے شاعر نے جانِ عالم کو متوجہ کرتے ہوئے کہا حضور خانہ زاد بھی جواباً کچھ عرض کرنا چاہتا ہے!!! اجازت ملنے پر یوں گویا ہوا:
؎ نیک و بد سب سے جھک کے ملتے ہیں
دونوں ناکوں پہ تیغ کستی ہے
خواجہ حیدر علی آتشؔ نے ایک محفل میں مطلع پڑھا:
؎جاں بخش لب کے عشق میں ایذاء اٹھائیے
بیمار ہو کے نازِ مسیحا اٹھائیے
محفل میں موجود سبھی حاضرین نے حسب زوق داد و تسلیمات پیش کیے مگر آتش کے چہیتے شاگرد د پنڈت دیا شنکر نسیم ؔچپکے بیٹھے رہے۔ استاد کی نگاہ پڑی تو استفسار کیا کہ ’’تم کچھ کہنا چاہتے ہو؟‘‘جس پر پنڈت دیا شنکر نے دست بستہ عرض کیا کہ’’حضور!! اگر میں اس مضمون کو نباہتا تو یوں کہتا:
؎منت دلا کسی کی نہ اصلا اٹھائیے
مر جائیے نہ نازِ مسیحا اٹھائیے
آغا کلبِ حسین نادر ؔڈپٹی کلکٹر تھے۔ سرکاری ملازمت کے ساتھ ساتھ شعر و سخن کا مشغلہ بھی جاری رکھا۔ چناںچہ اپنے ذوقِ شاعری کا اظہار درج ذیل شعر میں کیا:
لوگ کہتے ہیں کہ فنِ شاعری منحوس ہے
شعر کہتے کہتے میں ڈپٹی کلکٹر ہو گیا
کسی من چلے نے اس شعر کا جواب یوں لکھا:
تیری قسمت میں لکھی تھی بادشاہی ہند کی
شعر کہتے کہتے تو ڈپٹی کلکٹر رہ گیا
عالم میں انتخاب شہر دلی میں مشاعرہ اپنے شباب پر تھا۔ بہزاد ؔلکھنوی غزل سرا تھے۔ غزل کا مطلع تھا:
؎تیرے عشق میں زندگانی لٹا دی
عجب کھیل کھیلا جوانی لٹا دی
غزل ختم ہوئی۔ بہزاد نے غزل کا مطلع دہرایا اور واپس اپنی نشست پر چلے گئے۔ ابھی ناظم مشاعرہ کچھ کہنے بھی نہ پایا تھا کہ ایک نوجوان سامع تیزی سے اسٹیج کی جانب لپکا اور مائک کے سامنے بیٹھ کر بڑ ے اطمینان سے کہنے لگا، ’’سامعین!شعر عر ض ہے:
؎محبت میں جاتے ہیں دین اور ایماں
بڑا تیر مارا جوانی لٹادی!!!
لفظ تیر پہ زور دیا اور اشارہ بہزاد صاحب کی طر ف کیا۔ بہزاد صاحب مسکرا رہے تھے اور سامعین پرزور تالیوں سے اس نوجوان کو داد دے رہے تھے۔ یہی نوجوان آگے چل کر محشرؔ بدایونی کے نام سے مشہور ہوئے۔
فانیؔ بلگرامی سرکاری دورے پر الہ آباد گئے۔ چند روز بعد اکبرؔ الہ آبادی سے ملاقات کا شر ف حا صل ہوا۔ دعا سلام کے بعد دوران گفتگو اکبر نے شکایتی انداز میں فانیؔ سے کہا:
؎دونوں ہاتھوں سے بجا کرتی ہے تالی اکبرؔ
ہم اکیلے ہی محبت کو نبھائیںکیونکر؟؟
مدعا یہ تھا کہ آپ بھی رہ و رسم رکھا کیجیے۔ فانیؔ اس وقت تو پاس ادب سے خاموش رہے، مگر جب رخصت ہونے لگے تو اکبرؔ کے ملازم خاص کو ایک کاغذ پر درج ذیل شعر لکھ کر دیا کہ اکبرؔ کی خدمت میں پیش کیجیے گا:
؎چٹکی تو بجا کرتی ہے اک ہاتھ سے فانیؔ
تالی نہ سہی وہ کبھی چٹکی تو بجاتے
لکھنؤ کے ایک معروف استاد شاعر نے شعر کہا:
؎خط کبوتر کس طرح لے جائے بام یار پر؟؟
پر کترنے کو لگی ہیں قینچیاں دیوار پر
تو دلی کے ایک غیرمعروف شا عر نے اس مشکل کا حل کچھ اس طرح پیش کیا:
؎خط کبوتر اس طرح لے جائے بام یار پر
خط کا مضموں ہو پروں پر، پر کٹیں دیوار پر
انشاء اللہ خان انشاء ؔنے مطلع کہا:
؎کیا فائدہ خالی جو ملاقات کی ٹھہرے
تب خوش ہو مرا دل کہ جب اس بات کی ٹھہرے
جس پر بسنت سنگھ نشاط کی بیگم جو کہ شاعرہ تھیں اور بے غم ؔتخلص کرتی تھیں نے جواب میں ایک مطلع کہا:
؎خالی ہی اگر اس سے ملاقات کی ٹھہرے
کافر ہو جو پھر چاہے کہ اس بات کی ٹھہرے
مرزا غالبؔ نے کہا:
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
جس کے جوا ب میں میر جعفر علی خان اثرؔ کا ایک شعر ہے:
عشق اور عشق سے مطلوب کہ ہو چارہ کار !!
درد کا بھی کہیں ممکن ہے دوا ہو جانا؟؟
میر انیس ؔنے فرمایا تھا:
؎ؔ خیالِ خاطرِ احباب چاہیے ہر دم
انیسؔ ٹھیس لگے نہ ان آبگینوں کو
قابل اجمیری میر انیسؔ کی اس ناصحانہ فرمائش کا جواب اس انداز میں تحریر کرتے ہیں:
؎خیالِ خاطرِ احباب اور کیا کرتے
جگر پہ زخم بھی کھائے شمار بھی نہ کیا
مرزا غالبؔ کا مشہور ِ زمانہ شعر ہے:
؎ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تک کو خبر ہونے تک
جب کہ عبدالحمید عدمؔ کا جواب شعر ہے:َ
؎ہم تمہیں اپنی خبر دیں بھی تو کیا سوچ کے دیں
ہم کو رہنا ہی نہیں تم کو خبر ہونے تک
جلیلؔ مانک پوری کا شعر ہے:
؎کچھ اس ادا سے آپ نے پوچھا مرا مزاج
کہنا پڑا کہ شکر ہے پروردگار کا
کاظم جاوید ؔلکھنوی نے اپنے اس شعر میں جلیل کی مجبوری کا یوں جواب دیا:
؎آتے ہیں لے کے غیر کو وہ پوچھنے مزاج
کیونکر کہوں کہ شکر ہے پروردگار کا؟؟
بہزاد ؔلکھنوی نے لکھا تھا کہ:
دیوانہ بنا نا ہے تو دیوانہ بنا دے
ورنہ کہیں تقدیر تماشا نہ بنا دے
جس پہ اظہارؔ رامپوری نے جواباً تحریر کیا:
دیوانہ بنا دے کبھی فرزانہ بنا دے
وہ عشق ہی کیا ہے جو تماشا نہ بنا دے
بسملؔ صابری نے اپنی ایک غزل میں لکھا:
پھول رہ جائیں گے گلدانوں میں یادوں کی نذر
میں تو خوشبو ہوں ہواؤں میں بکھر جاؤں گا
جس کے جواب میں پروین ؔشاکر نے لکھا کہ:
وہ تو خوشبو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا
مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا؟
معروف نغمہ نگار اور انقلاب پسند شاعر ساحرؔ لدھیانوی نے اپنی مشہور نظم تاج محل کا اختتام درج ذیل شعر کی صورت میں تحریر کیا:
؎اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
جس کے جواب میں دلی کے ہی ایک شاعر ادیم ؔانصاری نے ایک نظم تحریر کی جس کا آخری شعر کچھ اس طرح تحریر کیا:
؎ایک شاعر نے تخیٔل کا سہارا لے کر
پیار کی زندہ نشانی کا اڑایا ہے مذاق
The post در جواب آں غزل؛ جواباً نظم، غزل اور شعر کہنے کی دل چسپ روایت appeared first on ایکسپریس اردو.