کراچی: بات سننے میں ذرا گراں گزرے گی، مگر کہے بغیر چارہ بھی نہیں کہ عید تو پہلے منائی جاتی تھی، اب ہم ’گزارتے‘ ہیں اور بس۔ روایات دم توڑگئیں، کہاں وہ عید کارڈ، عید میلے، عید ملن، وہ شوخیاں شرارتیں، وہ طرح طرح کی حکایتیں، احباب کی محفلیں۔بزرگ بھی اب وہ نہیں رہے کہ جن کے دم سے رونق ہواکرتی تھی اور بچے تو خیر بچے ہی ہیں، انھیں کیا کہے کوئی۔ معیشت کی خستہ حالی (یا ہم ایسوں کی تباہ حالی) سے قطع نظر، عیدی کا پرانا تصور تو اپنی جگہ برقرارہے،وصول کرنے والے بھی گھر گھر موجود ہیں، مگر حال یہ ہے کہ رمضان المبارک کے روزوں کی خوشی میں منائی جانے والی عید کہیں گم ہوچکی ہے۔
لوگ باگ ساری ساری رات بازاروں میں گزارتے ہیں یا ٹی وی /موبائل/لیپ ٹاپ /کمپیوٹر/ٹیبلٹ اسکرین کو گھورتے ہوئے، اکثر فرضی ومجازی، غیر حقیقی اور کچھ حقیقی ’اپنوں‘ کو اظہارِ الفت کے پیغامات بھیج بھیج کر تھکتے ہوئے…اور پھر بہت سے لوگ اتنے تھک جاتے ہیں کہ نماز ِ عید پڑھنے کی بجائے دن چڑھے تک سوتے رہتے ہیں، کیونکہ آرام بھی بہت ضروری ہے۔ہمارا کام ہے کہ ہم وہ ساری باتیں دُہرائیں اور پڑھ پڑھ کر سنائیں،خصوصاً اس نئی نسل کو جسے دنیا میں ایک ہی کام آتا ہے، وہ ہے ”سماجی ارتباط“ یعنی Socialization۔جب یہ اصطلاح واقعی عملاً کچھ تھی اور مثبت اقدار کی عکاس تھی، تب یہ لوگ نہیں تھے اور اب انٹرنیٹ کا دور دورہ ہے یعنی سب کچھ ’مجازی‘ [Virtual]۔….. ع ہرچندکہیں کہ ہے،نہیں ہے والی صورت حال ہے، خلوص کے معاملے میں!
عیدی کی بات ہوئی تو لگے ہاتھوں کچھ بیان اُس کی تعریف کاہوجائے:
عیدی۔اسم مؤنث: (۱)۔ عید کا انعام، عیدکا خرچ جو بچوں کودیاجائے۔(۲)۔وہ نظم جو استادلوگ بچوں کو عیدسے ایک روز قبل، کسی خوش نما کاغذپر لکھ کر عیدکی مبارک باد دیتے ہیں اور اس میں حق استادی وصول کرتے ہیں۔(۳)۔وہ مٹھائی اور نقدی وغیرہ جو عید کے دن سسرال سے آئے یا سسرال میں بھیجی جائے۔(۴)۔وہ خوش نما کاغذجس پر عید کے اشعار یا قطعہ لکھتے ہیں۔
؎ میں وہ مجنوں ہوں کہ میرا کاغذِ تصویربھی
مثلِ عیدی باعثِ خوشنودی ئ اطفال ہے
(ذوقؔ)
استاد ذوقؔ کو داد دیجئے کہ ایک طرف اپنے آپ کو مجنوں قراردے رہے ہیں جو ظاہر ہے کہ بچوں کے لیے آسان فہم اصطلاح نہیں اور دوسری طرف یہ بھی دیکھیے کہ عیدی کو بچوں ہی کی خوشنودی کا سبب قراردے رہے ہیں یعنی یہ نہیں کہ اس کا تعلق کہیں لیلیٰ یا اُس کے گھرانے سے جوڑدیتے۔یہ ہوتا ہے عصری تقاضوں کے ساتھ ساتھ کسی نکتے کا عمدہ بیان! …..تعجب ہے کہ عیدی کے تین دیگر معانی کہیں گم ہوگئے ہیں اور آج اگر کسی اچھے پڑھے لکھے شاعر، ادیب یا کسی اور معتبر شخص سے بھی پوچھیں تو بہت مشکل ہے کہ وہ ایک سے دوسرا معنی بتاپائے۔
یہ ہوتا ہے کسی لفظ، ترکیب، اصطلاح، محاورے، کہاوت یا فقرے کا رِواج کہ معانی محدودہوکر رہ جائیں، خواہ مُثبَت ہوں یا منفی۔اسی طرح چالو عوامی بولی یا تحتی بولی یا ذیلی بولی عُرف Slangکا معاملہ بھی ہے جس کا ذکر گاہے گاہے،زباں فہمی میں ہوتا رہتاہے۔
جب عید کارڈوسیع پیمانے پر چھپا کرتے تھے اور ہرکوئی حسب ِ استطاعت، سستے مہنگے ہر طرح کے عیدکارڈ خرید کراپنے اعزہ، دوست احباب اور واقفین کوبذریعہ ڈاک بھیجا کرتا تھا تب کچھ ایسے اشعار ان کارڈز پر چھپے ہوئے نظر آتے تھے:
دیکھا ہلا ل عید تو احساس یہ ہوا
لو ایک سال اور جدائی میں کٹ گیا
۔۔٭۔۔۔
ہلال عید کا ہم باہم دیکھتے ہیں
گلے مِل رہی ہیں ہماری نگاہیں
۔۔٭۔۔۔
ہلال عید کودیکھو تو روک لو آنسو
جوہوسکے تو محبت کا احترام کرو
۔۔٭۔۔۔
تیری پیشانی پہ تحریر پیام عید ہے
شام تیری کیا ہے، صبح عیش کی تمہید ہے
غیرمعیاری اشعار کا دور بہت بعد میں آیا اور پھر آگیا تو چھاگیا انٹرنیٹ جس نے ہر معاملے میں عوام وخواص کا ذوق تباہ کردیا۔آج کتابی مواد سے زیادہ، آن لائن مواد ہی بطور سند استعمال اور پیش ہورہا ہے۔ہم بھی کرتے ہیں، اشدّ ضرورت کے تحت، مگر یہ نہیں کہ کتابوں کے مطالعے سے ہاتھ ہی اٹھالیے ہوں۔
اچھی اردو کا لطف اٹھانا ہے اور عید ہی کے موضو ع پر عمدہ اشعار سے حظ اٹھانا چاہتے ہیں تو مشاہیر سخن کے اشعار ملاحظہ فرمائیں:
کلام برموضوع ِعید:نظیرؔ اکبرآبادی
یوں لب سے اپنے نکلے ہے اب بار بار آہ
کرتا ہے جس طرح کہ دل ِبے قرار آہ
ہم عید کے بھی دن رہے امیدوار آہ!
ہو جی میں اپنے عید کی فرحت سے شاد کام
خوباں سے اپنے اپنے لیے سب نے دل کے کام
دل کھول کھول سب ملے آپس میں خاص و عام
آغوش خلق گل بدنوں سے بھرے تمام
خالی رہا پر ایک ہمارا کنار آہ!
کیا پوچھتے ہو شوخ سے ملنے کی اب خبر
کتنا ہی جستجو میں پھرے ہم اِدھر اُدھر
لیکن ملا نہ ہم سے وہ عیار،فتنہ گر
ملنا تو اک طرف ہے عزیزو کہ بھر نظر
پوشاک کی بھی ہم نے نہ دیکھی بہار آہ!
رکھتے تھے ہم امید یہ دل میں کہ عید کو
کیا کیا گلے لگاویں گے دل بر کو شاد ہو
سو تو وہ آج بھی نہ ملا شوخ حیلہ جو
تھی آس عید کی سو گئی وہ بھی دوستو
اب دیکھیں کیا کرے دلِ امیدوار آہ!
اس سنگ دل کی ہم نے غرض جب سے چاہ کی
دیکھا نہ اپنے دل کو کبھی ایک دم خوشی
کچھ اب ہی اس کی جورو تعدّی نہیں نئی
ہر عید میں ہمیں تو سدا یاس ہی رہی
کافر کبھی نہ ہم سے ہوا ہمکنار آہ!
اقرار ہم سے تھا کئی دن آگے عید سے
یعنی کہ عید گاہ کو جاویں گے تم کو لے
آخر کو،ہم کو چھوڑ گئے ساتھ اور کے
ہم ہاتھ ملتے رہ گئے اور راہ دیکھتے
کیا کیا غرض سہا ستم انتظار آہ
کیوں کر لگیں نہ دل میں مرے حسرتوں کے تیر
دن عید کے بھی مجھ سے ہوا وہ کنارہ گیر
اس درد کو وہ سمجھے جو ہو عشق کا اسیر
جس عید میں کہ یار سے ملنا نہ ہو نظیرؔ
اس کے اُپر تو حیف ہے اور صد ہزار آہ!
(اُپَر: اوپر)
ہر شب، شب ِبرات ہے، ہرروز عیدہے
سوتا ہوں ہاتھ گردن ِ مِینا میں ڈال کر
(آتشؔ)
(پہلا مصرع یوں غلط مشہورہے: ہرروز، روز ِعیدہے، ہر شب، شبِ برات)
اللہ رے صبح ِعید کی، اُس شوخ کو خوشی
شانہ ہے اور زلف ِ مُعَنبر تمام رات
(آتشؔ)
خدا شاہد ہے مجھ کو عید ہوتی
گلے سے تو نے لپٹایا توہوتا
(ممتازؔ)
سب لوگ دیکھتے ہیں کھڑے چاند عیدکا
مشتاق ہوں میں رشک قمر تیری دیدکا
(بہادرشاہ ظفرؔ)
آپ تو حق میں مِرے ہوگئے اب عید کا چاند
کہ برس دن میں ادھر آج کرم تم نے کیا
(معروفؔ)
کب سے شب فراق ہوں مشتاق دید کا
خورشید ہوگیا ہے مجھے چاند عید کا
(داغؔ)
گر میکدے میں عید منائی تو کیا ہوا
ایسا ہی شیخ تیر ا دوگانہ قضا ہوا
(داغؔ)
ماتم ِ غیر میں تمھیں دیکھا
ورنہ یہ عید کس کے گھر نہ ہوئی
(داغؔ)
یقیں جاں اس کو اے قاتل اسی دن عید ہوجائے
گلا جس روز رکھ دوں مَیں تِری تیغ ہلالی پر
(اسیرؔلکھنوی)
کبھی دکھاتا ہے صورت میں برسویں دن
غرض وہ مہر ِ لقا، چاند عید کا ٹھہرا
(اسیرؔلکھنوی)
عید رمضاں ہے آج با عیش و سرور
ہم کو بھی ادائے تہنیت ہے منظور
اس عید سعید کی خوشی میں حضرت
قومی بچوں کو یاد رکھیے گا ضرور
(اسمٰعیل میرٹھی)
غرّہ شوال! اے نورنگاہ روزہ دار
آکہ تھے تیرے لیے مسلم سراپا انتظار
(علامہ اقبال)
پیام عیش ومسرت ہمیں سناتا ہے
ہلال عید ہماری ہنسی اڑاتا ہے
(علامہ اقبال)
چاک دامن کو جودیکھا تو ملا عید کا چاند
اپنی تصویر کہا ں بھول گیا عید کا چاند
اُن کے اَبروئے خمیدہ کی طرح تیکھا ہے
اپنی آنکھوں میں بڑی دیر چُبھا عید کا چاند
جانے کیوں آپ کے رُخسار مہک اُٹھتے ہیں
جب کبھی کان میں چُپکے سے کہا عید کا چاند
دُور ویران بسیرے میں دیا ہو جیسے
غم کی دیوار سے دیکھا تو لگا عید کا چاند
لے کے حالات کے صحراؤں میں آجاتا ہے
آج بھی خُلد کی رنگین فضاء عید کا چاند
تلخیاں بڑھ گئیں جب زیست کے پیمانے میں
گھول کر دَرد کے ماروں نے پیا عید کا چاند
چشم تو وُسعت ِ افلاک میں کھوئی ساغرؔ
دل نے اک اور جگہ ڈھونڈ لیا عید کا چاند
(ساغرؔ صدیقی)
ہوتی تھی مجھ کو عید سمندرمیں اُس گھڑی
ٹھیرا جہاز جب کوئی ٹاپو نظر پڑا
(نامعلوم)
قتل کی سُن کے خبر،عید منائی مَیں نے
آج جس سے مجھے ملناتھا گلے مل آیا
(نامعلوم)
اردو لغات میں عید سے متعلق مندرجات بھی بہت دل چسپ ہیں اور انھیں یادکرنے اورکرانے کی ضرورت ہے، کیونکہ نئی نسل کو تو ”عیدمبارک“ کے سواء کچھ معلوم ہی نہیں:
محاورے میں عیدکاچاندہونا سے مرادوہ شخص جسے مدت دراز کے بعد، عین حالت انتظار یا حالت اشتیاق میں دیکھاجائے۔
عیدمنانا: معنی بالکل صاف ہے۔
عیدہونا یا ہوجانا(فعل لازم): عیدکاتہوارہونا،نیزانتہائی خوشی ہونا،مرادبرآنا۔
عید کے پیچھے چاندمبارک۔کہاوت: تہوارگزرنے کے بعدمبارک باددینا
عید کے پیچھے ٹر۔کہاوت: برات کے پیچھے دھونسا۔وقت گزرجانے کے بعد، یا، بے موقع کسی کام کا کرنا، کیوں کہ جب تہوار نکل گیا تو خوشی کیسی اور جب برات چڑھ چکی تو باجے کس کام کے۔(ٹرپنجاب کا ایک میلہ تھا جوعید کے دوسرے روز باغوں میں منایاجاتاتھا، یہ بعد میں دہلی میں بھی ہونے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ اہل پنجاب باسی عیدکو ”ٹرو“ کہتے ہیں۔)
ہمارے یہاں گاؤ ں دیہات میں یہ روا ج بھی عام ہے کہ عید کے دن پیداہونے والے بچے کا نام عیدیا عیدو رکھ دیا جائے۔یہ نام لڑکیوں کا بھی رکھا جاتا ہے۔ یادش بخیر! یہ معاملہ فقط پنجاب تک محدودنہیں، بلکہ سندھیوں اور شِیدی مکرانیوں /بلوچوں میں بھی عیدو نام کے لوگ ہوتے ہیں، انٹرنیٹ پر عیدو چانڈیہ اور عید وخان بگٹی نامی شعراء کا کلام بھی دستیاب ہے اور ”کراچی کی ماں“ لیاری میں ایک علاقے کا نام بھی اسی سے جُڑا ہوا ہے: عِیدو ُلین[Eidu-lane]۔یہ سلسلہ عالم اسلام کے دیگر ممالک میں بھی پایا جاتا ہے، جیسے دروغ برگردن راوی، یوگینڈا کے سابق صدرجناب عیدی امین(مرحوم) کا یہ نام اسی لیے تجویز ہوا کہ وہ عید کے دن پیداہوئے تھے۔
ہم سب کویہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ عید الفطر کا تعلق، رمضان شریف کی بطریق احسن عبادت گزاری کے ساتھ، اختتام سے ہے یعنی روزے دار اس اَمر کی خوشی مناتے ہیں کہ ہم نے اپنے رب کی اطاعت کے اظہار کے لیے پورا مہینہ، بکثرت عباد ت کی۔دوسری بات یہ کہ اگر آپ خوشبو کے شوقین ہیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ایک بیش قیمت اور تیز عطر کا نام عُود ہے۔عید کا مادّہ استخراج ہے عُود۔ عُود کالغوی مطلب ہے، لَوٹ کرواپس آنے والی چیز، چونکہ عیدسال پورا ہونے پردوبارہ آتی ہے، اس لیے اسے یہ نام دیا گیا۔اور عید کی خوشیا ں مناتے مناتے ہوئے سنت رسول (ﷺ) کی اتباع کرنے والے، حسبِ توفیق و استطاعت، مختلف قسم کی خوشبوؤں کی طرح، عُودجیسی مہنگی خوشبو بھی استعمال کرتے ہیں۔جب ہم کم ازکم ایک معاملے میں دل سے خوش ہوجائیں کہ ہم نے اپنی بساط بھر کوشش سے اپنے رب کو راضی کرنے کے لیے بکثرت یا حتیٰ المقدور عبادت کرلی تو پھر بھول جائیں کہ دنیا کے کتنے مسائل اور غم وآلام نے ہمیں گھیراہواہے۔آئیے عید منائیں، غم مِٹائیں!
(نوٹ: اس کالم میں خاکسارنے اپنے ہی ایک پرانے مضمون سے خوشہ چینی کی جو روزنامہ ایکسپریس میں بسلسلہ سخن شناسی، اتواری اشاعت کا حصہ بنا تھا، 2017ء میں عیدالفطر کے موقع پراور پھر زباں فہمی نمبر 97بھی میرا ہی لکھا ہوا تھا جس میں اس کابڑا حصہ شامل ہوا اور آج بھی یہاں نقل کے لیے کارآمد ہے)۔
The post زباں فہمی 184؛ عید منائیں، غم مٹائیں appeared first on ایکسپریس اردو.