عید الفطر کا دن رنجشوں کو مٹانے اور نفرتیں ختم کرنے کا دن ہے، روٹھے ہوؤں کو منانے کا دن ہے۔ یہ تہو ار اتحا د ِ مسلمہ کا دن ہے، یہ دن جذبہ ایثا ر و قر بانی کا مظہر ہے ۔ اپنی اناؤں اور تکبر کو توڑ نے کا دن ہے ۔ اپنی زندگیوں کو دین ِاسلام کی اصل روح کے مطا بق ڈھالنے کے عہد کا دن ہے۔
ر مضان المبارک کی مشق کو سار ا سا ل جاری رکھنے کے عہد کا دن ہے۔ ایک اُ مت ، ایک جسم و جان اور ایک اکائی بننے کا دن ہے۔ یہی عید الفطر کا فلسفہ ہے یہی دین ہے ، یہ اللہ تعا لیٰ اور اسکے رسولﷺ کا حکم ہے ۔ یہ ایک ایسا اسلامی تہوار ہے کہ جس کا ہر پہلورو شن ہے۔
زکوٰۃ کے بعد فطرِانہ کی ادا ئیگی کا پورا ایک فلسفہ موجود ہے کہ اسلام میں دُ کھ بھی سا نجھے ہو تے ہیں ، خو شیاں بھی سا نجھی ہوتی ہیں ، ایک فردبھی دُ کھی یا اُ داس نہیں ہونا چاہیے، کسی کو مالی دشواری نہیں ہونی چاہیے ، آپ کے ما ل پر دوسروں کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا آپ کا اپنا ہے۔ اپنی خوشیوں میں سب کو شریک کرنا اس مقدس تہوار کی روح ہے۔ خود غرضی کا بُت پاش پاش کرنے کا حکم ہے، ایک اُ مت کا فلسفہ بالکل واضح ہے۔ مگر اب ایسی فضا ہی نظر نہیں آتی ۔
اُ مت میں دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ قوم تقسیم در تقسیم نظر آتی ہے۔ چا ند تو وہی ہے مگر ہم غلط سمت ِ کی طر ف مڑ چکے ہیں۔ جس زمانے میں آبادیاں کم ہوتی تھیں تو سارے شہر کو کُھلے میدان میں نمازِ عید ادا کرنے کا حکم تھا کہ سب لوگ ایک ہی جگہ اکٹھے ہوں ۔
سب مسلمان ایک دوسرے سے جّڑ ے ہوئے نظر آئیں ۔ اتحاد ویگانگت کے روح پرور مناظر نظر آئیں، مگر اب ایسا نہیں ہے، اب ہم سب تنہا تنہا ہو چکے ہیں۔ بکھرنے کا عمل شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ انفرادیت جذبہ اجتماعیت پر غالب آ چکی ہے۔ اس کے ذمہ دار سیاستدانوں سمیت تما م بالادست طبقہ ہے۔
سیا سی اختلافات کی وجہ سے رمضان کا تقدس ہی نظر نہیں آیا؟
ماہ ر مضان المبارک کا فلسفہ اور احکامات بالکل واضح ہیں۔ اس مہینے کو اللہ تعا لیٰ نے اپنا مہینہ قرار دیا ہے، یہ ماہ عبادات، بندگی ، اطاعت اور نفس پر کنٹر ول کا مہینہ ہے۔ اس ماہ مبارک میں نیکیوں کا جس قدر اجّر ہے گناہوں کی بھی اتنی ہی سزا ہے۔ گالی کا جواب دینے کی اجازت نہیں ہے بلکہ حکم ہے کہ اگر کوئی گالی بھی دے تو روزے دار اُ سے گا لی کا جواب دینے کی بجائے صر ف یہ کہہ دے کہ ’’ میں روزے سے ہوں ‘‘
اس رمضان میںتمام ٹی وی چینلز پر زیادہ تر سیاستدان ایک دوسرے کو بُرا بھلا کہنے اور الزامات لگانے میں مصروف نظر آئے۔ نمازوں اور تراویح کے اوقات میں یہی سب کچھ ہوتارہا۔ پورا ماہ ِرمضان اسی بحث میں گزر گیا کہ ’’ الیکشن ہوں یا نہ ہوں‘‘ قوم کو اتحاد کی تلقین کرنے کی بجائے نفرت کی خلیج وسیع کی گئی۔ یہ سیاستدان اپنے آ پ کو لیڈر یعنی ’’ راہنما ‘‘ بھی کہتے ہیں۔کیا قوم کی راہنما ئی کا یہی طر یقہ ہے یہی طرز ِ سیاست ہے؟کیا اپنے پیروکا روں کو انتشار کی تعلیم دینا سیاست ہے؟
اس سال ر مضان کا تقدس نظر ہی نہیں آیا، گذ شتہ سالوں کی بہ نسبت اس سال نما زیوں اور تراویح پڑھنے والوں کی تعداد میں بھی کمی نظر آئی ۔ وجہ یہ تھی کہ ہمارے ’’ راہنما ‘‘ دین کا درس دینے کی بجائے قوم کو تقسیم کرنے میں مصروف تھے۔ باہم متحارب ہو نے کیلئے اُ کسا رہے تھے، ایک دوسرے کے خلاف دشنام طرازی میں مصروف تھے، ایک دوسرے پر الزامات لگائے جا رہے تھے، ہر بات میں ڈھٹائی کا مظاہر ہ کیا جا رہا تھا۔
کیا اس عید پر ہمارے ’’ رہنما ‘‘ باہمی رنجشوںکو بُھلا دیں گے؟
پوری قوم مہنگائی، مسائل اور بے یقینی کی صورتحال کی چِکی میں پسِ چکی ہے۔ ایک دوسرے پر الزامات اور دشنام طرازی کی سیاست سے قوم کو کسی قسم کا ریلیف نہیں مل رہا۔ اسی قوم نے ان ’’راہنماؤں‘‘ کو مان اور عزت بخشی ہے۔ یہی قوم ماہ رمضان میں بھی ان ’’ راہنماؤں ‘‘کے جلسوں میں شریک ہوتی رہی ہے۔ اُ مید کی آ خری کرنیں بھی بُجھ رہی ہیں۔
تمام سیاستدان اپنی انّا ؤں کے اسیر ہیں، اگر یہ سیاستدان ملک و قوم کے مخلص ہیں تو اس دن سارے گلے شکوے اور رنجشوں کو بُھلا کر ایک دوسرے کو گلے لگا لیں۔ پّرانی تما م باتیں بھول جائیں، ذاتی مفادات کو پس پُشت ڈال دیں۔ اجتماعی مفادات کا کلچر اپنائیں کہ یہی دینِ اسلام کی تعلیم ہے، یہی عید الفطر کی روح ہے۔ یہی اللہ اور اس کے رسولﷺ کا حکم ہے، یہی اس مظلوم اور پِسی ہوئی عوام کی خواہش ہے۔
عید مِلن پا رٹیاں بھی مخصوص طبقے تک محدود ہو گئی ہیں
کچھ عر صہ پہلے تک اس تہوار کی ایک خصوصیت عید مِلن پارٹیاں تھیں کہ جب سا را کنبہ اور سارا خاندان ایک جگہ اکٹھا ہوتا تھا کہ سب کو ایک جگہ ایک دوسرے سے ملنے کا موقع مِلنا تھا ، آ پس کے سلوک اتفاق اور محبت میں اضا فہ ہوتا تھا ، عید مِلن پارٹیوں کا اصل فلسفہ تو یہی ہے کہ خاندان کے تمام افراد کو ایک جگہ اکٹھا کیا جائے، اگر کسی کو ایک دوسر ے سے کوئی گلہ و شکوہ بھی ہو تو ان کی رنجشیں دُور ہو جائیں، تمام کدوتیں ختم ہوں ۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق قرابت داری مضبوط ہو جائے۔
قرابت داری جوڑنے کا بڑا اجّر اور رضاِ خدا ہے۔ جبکہ قرابت داری توڑ نا اللہ تعالیٰ کے غصے کا باعث ہے۔ عید الفطر روٹھے ہوؤں کو منانے کا دن ہے۔ مگر اب مہنگائی اس قدر ہو چکی ہے کہ یہ روایت بہت کمزور ہو رہی ہے۔ اس سال عید مِلن کی تقریبات بہت کم ہو رہی ہیں ، گھر یلو اخراجات ہی پو رے نہیں ہو تے ، بِلوں اور پٹرول کی قیمتوں نے بھی کمر توڑ دی ہے، اب تو ایک مہمان کا آ نا ہی ناگوار گزرتا ہے، کجا کہ پو رے خاندان کی دعوت کی جائے۔ اب یہ روا یت بھی متمول افراد تک محدود وہو رہی ہے۔
اشیاء ،آ رائش و زیبائش کی خریداری بھی بہت کم رہی
خواتین کی جیولری ،چوڑ یاں اور بناؤ سنگھا ر کا کاروبار کرنے والوں نے بتایا کہ اس سال صرف تیس فیصد خرید و فروخت ہوئی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ لوگوں کے مالی حالات بہتر نہیں ہیں، ملبوسات اور کپڑے بھی کم فروخت ہوئے کہ مہنگائی کی وجہ سے یہ لوگوں کی قوتِ خرید سے باہر ہو چکے ہیں۔
اسی عید پر وہ روایتی گہما گہمی اور جوش نظر نہیں آیا۔ معاشی ’’سقراطوں اور بقراطوں‘‘ نے قوم سے عید کی خوشیاں بھی چھین لی ہیں۔ اسی عید کا چاند دُکھوں اور محرومیوں کے اُ فق سے طلوع ہوا ہے، پہلے تو صرف ایک طبقے کا شمار ہی بے بس، بے کس اور مستحق افراد میں ہوتا تھا، اب تو آبادی کا بہت بڑا حصہ مستحقین میں شامل ہو چکا ہے۔ دوسروں کو اپنی خوشیوں میں شریک کرنے والے اب اس بات کے منتظر ہیں کہ دوسرے انھیں اپنی خوشیوں میں شامل کریں۔ !!!
عید الفطر! زندگی ازسر نو شریعت کے مطابق شروع کرنے کا دن
دین ِاسلام میں عید الفطر کا دن نہایت اہمیت کا حامل ہے ، یہ دن محض کھیل تماشوں کا تہوار نہیں ہے ۔ یہ دن محض ماہ رمضان کے روزے اور عبادات کا اجّر ملنے کا دن نہیں ہے ، یہ دن محض فِطرانہ ادا کرنے کا بھی دن نہیں ہے ، محض خو شیاں منانے کا دن بھی نہیں ہے۔
عید الفطر کا دن نئی ذ مہ داریوں کو سنبھالنے کا دن ہے۔ رمضان المبارک میں مسلمانوںکو ازسر نوشریعت پر عمل کرنے کی جو تربیت اور توبہ کی تو فیق دی جاتی ہے ۔ اس کا تقاضا تو یہی ہے کہ ر مضان کے بعد بھی زندگی ایسی ہی گز اری جائے جیسا کہ رمضان المبارک میں مظاہرہ کیا جاتا تھا ، کہا جاتا ہے کہ جس نے دین کے احکامات پرعمل کر کے بعد میں اُسے ترک کیا تو گویا اس نے ارتداد کا ارتکا ب کیا ۔
The post عید الفطر، اتحاد ِامت، یگا نگت اور جذبہ ِ ایثار کا تہوار appeared first on ایکسپریس اردو.