اس مضمون کا عنوان دیکھ کر آپ سوچیں گے ’’صابری برادران اور ڈاکٹر؟‘‘ عجیب سی بات معلوم ہوتی ہے لیکن یہ حقیقت ہے۔ کیسے؟ اسے آگے چل کر منکشف کریں گے۔
اس سے قبل ہم قوالی اور اِن برادران کے بارے میں بات کریں گے کہ کس طرح دونوں بھائیوں نے اس صنف کو، اس فن کو زندہ رکھا اور اِس کے طفیل دین کا تنفس جاری رکھا رہا۔دیگر علمائے دین و مفتیان متین اور اولیاء اللہ کی خدمات بھی بلاشبہ نہایت اہم رہیں ہیں لیکن موسیقی کی صنف میں یہ اعزاز صرف قوالی کو حاصل ہے۔
پس منظر: صابری برادران کا تعلق مشرقی پنجاب کے شہر کلیانہ میں گائیکوں اور سازندوں کے گھرانے سے تھا۔ صابری برادران کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ اُن کا تعلق میاں تان سین کی نسل سے ہے۔
اگرچہ کبھی کسی نے اس پہلو سے صابری برادران کے بارے میں تحقیق نہیں کی۔ غلام فرید کی ولادت سنہ 1930ء میں ہوئی جب کہ مقبول فرید کی ولادت سنہ 1945ء میں ہوئی۔ اس طرح دونوں بھائیوں کی عمروں میں 15 برس کا فرق تھا۔
تقسیم ہند کے بعد اِن کا خاندان کراچی کے ایک مہاجر کیمپ میں منتقل ہوگیا جس کی حالت نہایت دگرگوں تھے۔ اس کیمپ کے ماحول نے خود غلام فرید کی صحت کو بھی دگرگوں کردیا اور وہ شدید بیمار ہوگئے۔
ڈاکٹروں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ یہ بچہ کبھی قوالی نہیں گا سکے گا۔ تاہم، والد صاحب کی جانب سے تفویض کی گئی۔ ایک سخت ریاضت کے بعد، جو ذکر پر مشتمل تھی، آپ اس قابل ہو گئے کہ دوبارہ قوالی گا سکیں۔
دونوں بھائیوں میں موسیقی کا فن پیدائشی طور پر موجود تھا، چناںچہ دونوں بھائیوں کو موسیقی کی ابتدائی تربیت خود اُن کے والد عنایت حسین صابری صاحب نے دی۔ غلام فرید قیام پاکستان سے پہلے ہی استاد کلن خان کی قوال پارٹی میں شامل ہوچکے تھے اور پہلی مرتبہ سنہ 1946ء میں، جب ان کی عمر محض16برس تھی، اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ یہ کلیانہ (موجودہ ہریانہ، انڈیا) میں ر مبارک شاہ کے سالانہ عرس کا موقع تھا۔
مقبول احمد میں موجود فن کو اُن کے اسکول میں ایک استاد نے دریافت کیا جنھوں نے عنایت حسین صاحب کو مشورہ دیا کہ وہ لڑکے کو موسیقی کے میدان میں آگے بڑھائیں۔ چناںچہ مقبول فرید نے اپنے فن کا پہلا عوامی مظاہرہ سنہ 1955ء میں محض گیارہ برس کی عمر میں کیا۔ اس کی وجہ اُن کے بہنوئی صاحب تھے جنھوں نے کراچی کے ایک تھیٹر میں گانے کی نوکری دلائی تھی۔ یہی مقبول احمد کی جانب سے ان کے فن کا پہلا مظاہرہ بھی تھا۔
تاہم، اُن کے گروہ کی پہلی عوامی کارکردگی کا مظاہرہ، سنہ1956ء میں جمیل امروہی کے گھر پر منعقدہ عرس کی تقریب میں ہوا جہاں انہوں نے بہت سے قوالوں کی موجودگی میں ’’دو عالم با کاکل گرفتار داری‘‘ گائی۔
غلام فرید سے بھی پاکستان کے ایک امیر تاجر نے نائٹ کلب میں شراکت کی پیشکش کی لیکن غلام فرید نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ وہ صرف قوالی گانا چاہتے ہیں اور اس طرح انھوں نے اس پیش کش کو ٹھکرا دیا۔
اس کے علاوہ جن لوگوں نے انھیں موسیقی میں متعارف کرایا اُن میں استاد رمضان خان، استاد فتح الدین خان اور استاد لطافت حسین خان بریلی والے نے کرایا جب کہ روحانی تربیت حضرت حیرت شاہ وارثی نے کی۔
بعد ازآں سنہ1956ء میں، فرید صابری بچہ قوال پارٹی میں شامل ہوگئے جسے مقبول صابری نے تشکیل دیا تھا۔ مقبول فرید نے اپنے بڑے بھائی کے احترام اور محبت میں اپنا نام واپس لے لیا اس طرح یہ پارٹی غلام فرید صابری قوال اور ہم نوا بن گئی لیکن خیرخواہوں کے اصرار پر مقبول فرید کا نام ایک مرتبہ پھر اس پارٹی کے نام میں شامل کردیا گیا اور یوں پارٹی کا نیا نام غلام فرید صابری مقبول احمد صابری قوال اور ہمنوا ہو گیا، لیکن سنہ1975ء میں امریکا کے دورے کے دوران، اُن کے پروموٹر بیٹ گورڈن نے تجویز کار کہ بینڈ کا نام بہت طویل ہے چناںچہ اسے تبدیل کر کے صابری برادران (The Sabri Brothers) کردیا گیا جو غلام فرید صابری کے انتقال کے وقت تک جاری رہا۔
فنی عروج: صابری برادران نے اپنے کیریئر کا آغاز صوفیاء کے مزارات اور نجی محفلوں میں قوالیوں سے کیا لیکن اُن کی پہلی باضابطہ ریکارڈنگ سنہ 1958ء میں EMI پاکستان نے کی۔ یہ قوالی اردو زبان میں تھی اور اس کے بول تھے ’’مر ا کوئی نہیں ہے تیرے سوا‘‘، جو بعد ازآں، سنہ1965ء میں پاکستانی فلم ’’عشقِ حبیب‘‘ میں پیش کی گئی۔
سنہ 1970ء کی دہائی میں صابری برادران کو مزید عروج حاصل ہوا اور وہ پاکستان ٹیلیویژن کارپوریشن کی فہرست میں ’’درجہ اوّل‘‘ رکھنے والا واحد قوالی گروہ بن گئے۔
سنہ 70ء کی دہائی میں ہی صابری برادران نے اپنی مقبول ترین قوالیاں جاری کیں جن میں ’’بھردو جھولی مری یامحمدؐ‘‘ شامل تھی، دیگر مقبول قوالیوں میں ’’تاج دارِِحرم‘‘، ’’اوشرابی چھوڑ دے پینا‘‘، ’’خواجہ کی دیوانی‘‘، اور ’’سر لامکاں سے طلب ہوئی‘‘ شامل تھیں۔
صابری برادران امریکا، یورپ اور دیگر مغربی ممالک میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے والے پہلے قوال تھے۔ وہ مغرب میں قوالی کے پہلے نمائندے تھے جنھوں نے نیویارک کے کارنیگی ہال میں، سنہ1975ء میں فن کا مظاہرہ کیا۔ اس کے پروموٹر بیٹ گورڈن تھے۔
صابری برادران نے سنہ 1975ء میں ایشیا سوسائٹی کے پرفارمنگ آرٹس پروگرام کے تحت امریکا اور کینیڈا میں فن کا مظاہرہ کیا جسے بروکلین کالج ٹیلی ویژن سینٹر میں ریکارڈ کیا گیا۔ سنہ 1975ء میں صابری برادران نے ایک مرتبہ پھر دورہ کیا اور لائیو محفلوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔
صابری برادران نے سنہ1976ء کو رائل البرٹ ہال، لندن، میں ورلڈ آف اسلام فیسٹیول میں بھی فن کا مظاہرہ کیا۔
سنہ1977ء میں، صابری برادران نے ہندوستان کا دورہ کیا اور وہاں کی محافل میں بالی ووڈ کی متعدد مشہور شخصیات شریک ہوئیں۔
مغرب میں فن قوالی کا کام یاب مظاہر ہ پیش کرنے پر نیویارک ٹائمز نے اپنے ایک جائزے ان کی البم کو ’’درویشوں کے رقص کے برابر‘‘ اور ’’موسیقی کی پیشکش‘‘ قرار دیا۔
سنہ 1979ء میں جاری ہونے والی بولی ووڈ کی فلم ’’سلطان الہند خواجہ غریب نواز‘‘ میں ، ایک قوالی ’’آفتاب رسالتؐ مدینے میں ہے‘‘ پیش کی گئی۔ اسی عنوان سے ایک میوزک ویڈیو بھی پیش کی گئی جس نے غیرمعمولی قبولیت حاصل کی۔
مقبولیت کی وجوہات: صابری برادران کی مقبولیت کی مختلف وجوہات تھیں جن میں سے اہم ترین وجہ کلام کا انتخاب تھا۔ انھوں نے امبر وارثی، بیدم وارثی سمیت کئی عاشقان رسولؐ کا کلام بصورت قوالی پیش کیا۔
غلام فرید خود بھی شاعری کرتے تھے۔ علاوہ ازیں انھوں نے قوالی کے فن کو موسیقی کے حوالے سے بھی ترقی دی اور اپنی پارٹی میں نت نئے آلاتِ موسیقی کا اضافہ کیا۔ صابری برادران قوالی میں مختلف تجربات بھی کرتے رہتے تھے جن میں سے ایک غلام فرید کی موٹی آواز اور بلند آہنگ میں لفظ ’’اللہ‘‘ کی ادائی تھی اور یہ بھی اُن کے مداحوں میں بے حد مقبول ہوگئی۔
علاوہ ازیں، دونوں بھائی سینے میں دل بھی رکھتے تھے چناںچہ جنوبی افریقہ میں جب ان کی لائیو محفل موسیقی سے متاثر ہو کر شیورلیٹ نے انھیں ایک خودکار گاڑی تحفے میں دی تو برادران نے وہ کار غریب بچوں کی بہبود کے لیے عطیہ کردی۔
اس کے علاوہ اسی دورے پر لائیو محفل موسیقی کی آمدنی بھی جنوبی افریقہ میں قحط سے نجات کے لیے عطیہ کر دی۔ سنہ 1972ء میں بھی دونوں بھائیوں نے ابوظبی میں پاکستانی چلڈرن اسکول کی تعمیر کے لیے ایک فلاحی محفل موسیقی میں شرکت کی۔ اُسی سال انگلینڈ کے مختلف شہروں مثلاً لندن، بریڈ فورڈ، برمنگھم وغیرہ میں فن کا مظاہرہ کیا اور ان پروگراموں کی آمدنی پاکستان میں زلزلہ ریلیف فنڈ میں عطیہ کی گئی۔
نجی زندگی اور انتقال: غلام فرید صابری نے اصغری بیگم نامی خاتون سے، 18 برس کی عمر میں شادی کی جن سے پانچ بیٹے اور چھے بیٹیاں پیدا ہوئیں۔
مقبول صابری نے دو شادیاں کیں۔ پہلی بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ سنہ1977ء میں مقبول احمد صابری نے دوسری شادی کی، جس سے ایک بیٹا شمائل اور بیٹیاں آئمہ شاہ ، گلرُخ، کنزیٰ اور تونانزا پیدا ہوئیں۔ فاطمہ نامی، مقبول فرید کی، دوسری بیوی ہندوستانی نژاد تھیں۔ یہ شادی جنوبی افریقہ میں ہوئی۔ پہلی بیوی، مقبول فرید کی زندگی میں ہی وفات پا گئی تھیں۔
اعزازات و انعامات: اگرچہ صابری برادران کو ملنے والے اعزازات و انعامات کی فہرست بہت طویل ہے تاہم ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
سنہ1977ء میں غلام فرید صابری اور مقبول احمد صابری دونوں کو صدرہندوستان اور صدرپاکستان نے ’’بلبلِ پاک او ہند‘‘ کا خطاب دیا۔
سنہ1978ء میں، صابری برادران و ہمنوا کے لیے ، صدر پاکستان کی جانب سے تمغۂ حسن کارکردگی۔
سنہ1980ء میں غلام فرید صابری اور مقبول احمد صابری کے لیے بھارت کی جانب سے ’’خسرو رنگ‘‘ ایوارڈ۔
سنہ1981ء میں غلام فرید صابری کے لیے ریاست ہائے متحدہ کی وفاقی حکومت کی طرف سے ’’اسپرٹ آف ڈیٹرائٹ‘‘ ایوارڈ۔
سنہ 1983ء میں دونوں بھائیوں کے لیے ’’چارلس ڈی گال‘‘ ایوارڈ۔
یونیورسٹی آف آکسفرڈ کی جانب سے ’’ڈاکٹریٹ‘‘ اعزازی ڈگری۔ دونوں بھائیوں کو یہ ڈگری علامہ اقبال کا شہرۂ آفاق کلام ’شکوہ‘ اور ‘ جواب شکوہ‘ گانے پر دی گئی تھی۔ اس طرح یہ دونوں بھائی ’ڈاکٹر‘ بھی بن گئے۔
وراثت امجد فرید صابری: غلام فرید صابری کے سب سے بڑے صاحب زادے امجد صابری نے خود کو اپنے والد اور چچا کا حقیقی وارث ثابت کیا۔ امجد فرید صابری 23 دسمبر 1976ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔
انھوں نے بھی محض نو سال کی عمر سے اپنے والد سے قوالی سیکھنا شروع کی اور سنہ 1982ء میں پہلی مرتبہ اپنے والد کے ساتھ اسٹیج پر پرفارم کیا۔ انھوں نے ہندوستان، امریکا اور یورپ کا متعدد بار سفر کیا جہاں وہ قوالی کے ’’راک اسٹار‘‘ کہلاتے تھے۔ بعد ازآں، سنہ 1996ء میں، امجد نے اپنے بھائیوں اور دوستوں کے ساتھ اپنا گروپ شروع کیا، جس کا پہلا البم ’’بلغ العلی بکمالہ‘‘ تھا۔ اسے سنہ1997ء میں جاری کیا گیا۔ان کی سب سے اہم مناجات ’’کرم مانگتا ہوں‘‘ ہر دل کی آواز ہے۔
صابری کا آخری میوزیکل پروجیکٹ کوک اسٹوڈیو کے ساتھ تھا۔ انہوں نے سیزن 9 کی قسط 7میں راحت فتح علی خان کے ساتھ ایک شان دار قوالی ’’آج رنگ ہے‘‘ پیش کی۔ اس پلیٹ فارم پر یہ امجد کی پہلی اور آخری کارکردگی تھی۔
22جون، 2016ء کو کراچی میں مارننگ ٹی وی شو ختم کرنے کے بعد جس میں ان کی آخری نعت میں یہ الفاظ شامل تھے کہ ’’قبر اندھیری میں گھبراؤں گا جب تنہا‘‘ تھے۔ پروگرام سے واپسی پر لیاقت آباد میں دو موٹر سائیکل سواروں نے اُن کی گاڑی پر فائرنگ کر دی، جس سے وہ شدید زخمی ہو گئے اور کچھ دیر بعد عباسی شہید اسپتال میںامجد کا انتقال ہوگیا۔ ان کا قتل ان کے والد کے نام سے منسوب انڈر پاس کے قریب ہوا۔
اپنے بزرگوں کی طرح امجد صابری نے متعدد ایوارڈ اور اعزازات حاصل کیے جن میں حکومت پاکستان کی جانب سے ’’تمغۂ حسن کارکردگی‘‘ اور سنہ 2018ء میں بعد ازمرگ ’’ستارۂ امتیاز‘‘ دیا گیا۔ یہ پاکستان کا سب سے بڑا شہری اعزاز ہے۔ اس کے علاوہ، کولڈ پلے کی، سنہ 2019ء میں جاری ہونے والی البم، ’ایوری ڈے لائف‘ کے ٹریک ’’چرچ’’ میں بھی امجد صابری کی آواز نمایاں ہے۔
افسوس کے مقبول فریدصابری کا کوئی بچہ اس میدا ن میں سامنے نہ آسکا۔
اپنے فن کے حوالے سے صابری برادران غیر معمولی صلاحیت کے مالک تھے۔ ان کے منہ سے نکلا ہر کلام اور ان کے آلات موسیقی سے نکلی ہر دھن مقبول ہوئی۔ صابری برادران کو عزت و شہرت تو اردو میں پیش کی گئی قوالیوں سے ملی لیکن دونوں بھائیوں نے فارسی سمیت دیگر مقامی زبانوں میں بھی کلام پیش کیا اور مقبولیت حاصل کی۔
فن قوالی میں دونوں بھائیوں کی کارکردگی اور مقام کو دیکھتے ہوئے متعلقہ محققین کو چاہیے کہ وہ صابری برادران کے بارے میں مزید تحقیق کریں اور ان کے مزید کمالات کو سامنے لائیں۔
The post دو بھائی باکمال appeared first on ایکسپریس اردو.