کراچی: کیا زمانہ آگیا ہے صاحبو! جسے دیکھو پڑھتا کم، پڑھاتا زیادہ اور سیکھتا کم، سکھاتا زیادہ ہے، بلکہ سِرے سے سیکھے بغیر ہی پٹیا ں پڑھاتا ہے اور چونکہ یہ دور ہے ’نقل وچسپاں‘[Copy-and-paste]اور نقل در نقل بلا استعمال عقل کا، اس لیے اب کسی بھی ٹیلیوژن چینل، ویب چینل، فیس بک، انسٹاگرام، واٹس ایپ، حتیٰ کہ لنکڈاِن کے توسط سے کسی قسم کی صحیح غلط معلومات عام کرنا بہت آسان اور اس کا رَد کرنا بہت مشکل ہے۔
کوئی دو سال سے یہ ’افواہ‘ پھیلی ہوئی ہے کہ ارد و کہاوت ”یہ مُنھ اور مسورکی دال“، بقول ایک جعلی بقراط کے، درحقیقت یوں ہے، ”یہ مُنھ اور منصورکی دَار پھانسی“۔۔۔ آگے بڑھنے سے پہلے،ادھوری بات اُچک کر،میرے نام سے منسوب کرکے پھیلانے والے حضرات کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ صدیوں پرانی کہاوت تبدیل نہیں ہوئی، وہی ہے: یہ مُنھ اور مسورکی دال۔
یہاں تک لکھنے کے بعد مزید ایک پیرا لکھا تو مزید تحقیق عیاں ہوئی اور اُسے حذف کرنا پڑا۔
یہ مختلف بیان بھی ہماری محبوب لغت، فرہنگ آصفیہ سے نقل کرکے پھیلایا گیا اور نقالوں سے ہوشیار کہ انھیں تحقیق کی توفیق نہیں ہوتی۔ مولوی سید احمد دہلوی صاحبِ فرہنگ کا بیان ہے: ”یہ مُنہ (منھ) اور مسوُر کی دال۔ہ (ہندی)۔مُحاورہ: یہ مُنہ اِس کام اور منصب کے قابل نہیں ہے۔ اسی مُنہ سے کہتے ہو کہ ہم یوں کریں گے۔
بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ شاید یہ مَثل اِس طرح تھی کہ یہ مُنہ اور منصور کی دار،یعنی تمہارا(تمھارا) مُنہ اس قابل نہیں ہے کہ کہ تم منصور حلّاج کی طرح، ثابِت قدم رہ کر جان دو“۔ راقم اپنی بساط بھر معلومات کے مطابق یہ کہنا چاہتا ہے کہ اوّل تو اس کہاوت (نہ کہ محاورے) میں منصور حلّاج (ابوالمُغےِث حسین بن منصور ا لحلّاج) کا حوالہ منطقی اعتبار سے کسی طرح،موزوں اور قرین قیاس نہیں لگ رہا، دوم یہ کہ اگر اس تُکّے میں کوئی جان ہوتی تو خود مؤلف موصوف اتنا مختصر بیان کرکے آگے نہ بڑھ جاتے۔
یہاں مجھے بے اختیار وہ مشہور شعر یاد آرہا ہے کہ:
یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہرمدعی کے واسطے دارورَسن کہاں
اسی طرح وہ فارسی شعربھی فوراً ذہن میں آتا ہے:
ایں سعادت بَزور ِ بازُو نےِست
تا نہ بخشَد خدائے بخشندہ
(یہ سعادت قوتِ بازو سے حاصل نہیں ہوتی، حتیٰ کہ خود بخشنے والا خُدا نہ بخشے)
یہ اشعار عموماً کسی کی شہادت کے موقع پر نقل کیے جاتے ہیں،یہ اور بات کہ ہمارے یہاں ’شہید‘ اتنی قسم کے ہیں کہ معاملہ شریعت کے دائرے سے کہیں دورنکل جاتا ہے۔
حسین بن منصور الحلاج المعروف منصور کے متعلق ایک ہندو یوگی رہنما سدھ گُرو نے دعویٰ کیا کہ وہ سیر سیاحت کرتے ہوئے گجرات(ہندوستان) اور پھر پنجاب کے سنت سادھوؤ ں اور صوفیہ سے ملے تو اُنھی کا رنگ اختیار کیا اور مابعد فارس (ایران) واپس جاکر انھوں نے سنسکِرِت کا نعرہ Aham Brahmasmi عربی میں یوں لگایا، ”اَناالحق“ (میں مطلق صداقت ہوں، میں ہی خدا ہوں)یعنی ترجمہ کردیا تھا۔
[https://isha.sadhguru.org/in/en/wisdom/article/mansur-al-hallaj-sufi-mystic]
مزید تفصیل بیان کرنے سے قبل اپنے بزرگ قارئین بشمول اہل علم ودانش کی خدمت میں عرض کردوں کہ میں ہرگز حکایت ِ منصورمیں آج کے نام نہاد روشن خیال وآزادخیال طبقے کا حامی نہیں۔چندمعتبرصوفیہ کرام کی آراء دیکھنے اور فتاویٰ پر سرسری نظر ڈالنے کے بعد، بندہ یہی کہہ سکتا ہے کہ ان کے معاملے میں سکوت بہتر ہے۔اپنے طور پر مُوشِگافی اور داستان یا ناول قسم کی کدو کاوش سے کم علم قارئین کو مزید آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہیے۔
بات کی بات ہے کہ نوراللغات سے بھی فرہنگ آصفیہ کے بیان کی تائید ملتی ہے:”یہ مُنہہ (منھ) اور مسورکی دال۔مَثَل۔ا)۔ اس لائق نہیں۔ اس منصب اور کام کے لائق نہیں۔ب)۔اسی منہہ سے کہتے ہیں کہ ہم یوں کریں گے۔یہ نتیجہ ملا (کنایتاً)بدلے نیکی کے، بدی لی ؎
کہ اس دم آئے وہ اور دے زبانِ یاری تو کہیے
کہ لو دیکھو،نتیجہ یہ ملا، صاحب کی یاری میں (رنگینؔ)“
صاحبِ لغت نے مزید مثالیں بھی یکجا کردی ہیں، دیکھنا چاہیں تو لغت خودملاحظہ فرمائیں۔
کہاوت ”یہ منھ اورمسورکی دال“کے پس منظرکی حکایت کئی طرح مشہور ہے اور اگرآپ آن لائن تحقیق کے دلدادہ ہیں تو شاید اس بات پر بھی یقین کرلیں گے کہ یہ واقعہ مہاراجارنجیت سنگھ سے صحیح منسوب ہے،حالانکہ یہ محض ایک گھڑت ہے اور بس! اب آتے ہیں نسبتاً زیادہ مشہور حکایت کی طرف:
وِکی لغت (آزاد لغت)کا بیان کچھ یوں ہے:”کہتے ہیں کہ کسی بادشاہ کا باورچی ایک نواب کے ہاں نوکر ہوگیا۔ نواب نے اس سے پوچھا، ”تم کیا چیز سب سے اچھی پکاتے ہو؟” وہ بولا، ”مسور کی دال ایسی مزید ار پکاتا ہوں کہ جو کھاتا ہے انگلیاں چاٹتا رہ جاتا ہے۔”
نواب نے کہا، ”اچھا کل ہمارے ہاں دعوت ہے۔ کل ہی مسور کی دال پکا کر دکھاؤ تو جانیں۔” باورچی نے حامی بھر لی۔ اگلے روز شامیانہ بندھا۔ مہمان آئے۔ باورچی نے مسور کی دال طشتری میں نکال کر پیش کی۔ پورا شامیانہ مہک اٹھا۔ نواب صاحب آئے۔ دال چکھی۔ واقعی ایسی ذائقے دار اور مزیدار دال کبھی نہ کھائی تھی۔ اش اش کر اٹھے، لیکن تھے آخر کو کنجوس، خرچ کا خیال آگیا۔ بادشاہ ہوتے تو خرچ کی فکر نہ کرتے، لیکن باورچی بادشاہ کے محل میں کام کر چکا تھا۔ دل کھول کر خرچ کرنے کا عادی تھا۔ اس لیے جب نواب صاحب نے پوچھا کہ دال تو بہت مزے کی ہے، مگر خرچ کتنا اٹھا، تو باورچی کو بہت برا لگا۔ ضبط کر کے بولا، ”دو آنے کی دال ہے، بتیس روپے کا مسالا ہے۔” سستا زمانہ تھا۔
نواب صاحب اتنی مہنگی دال کا سن کر چیخ پڑے، ”کیا کہا! بتیس روپے دو آنے کی مسور کی دال!” باورچی تو بھرا بیٹھا تھا۔ طیش میں آکر جیب سے بتیس روپے دو آنے نکال کر رکھ دیے اور دال کا برتن زمین پر پٹخ دیا اور کہا، ”اونھ! یہ منہ اور مسور کی دال۔” یہ کہہ کر چلا گیا۔ کہتے ہیں کہ دال شامیانے کے جس بانس پر گری تھی وہ کچھ روز بعد مسالے کے اثر سے سر سبز ہوگیا اور اس طرح یہ کہاوت مشہور ہوگئی“۔ ایک اور کتاب ”ایک کہاوت، ایک کہانی“میں اس حکایت کی کچھ مختلف شکل دیکھنے کو ملی۔وہاں یہ لکھا ہوا ہے کہ باورچی نے پچاس روپے اور دو اشرفی خرچ کرکے دال بنائی تھی۔
اس کہاوت کی بنیاد کیسے پڑی، اس بابت بھی بی بی سی (اردو) کی ویب سائٹ پرموجودکسی فاضل کی تحریرمیں شامل یہ قیاس دیکھنے کوملاکہ ”ہو سکتا ہے کہ یہ محاورہ تب(معرض وجودمیں) آیا ہو جب باقی دالوں کے مقابلے میں مسور بہت مہنگی ہو گئی ہو اور ہر کوئی اسے نہ خرید سکتا ہو۔ یوں ان دنوں میں اگر کسی کی تضحیک مقصود ہوتی، تو لوگ کہتے کہ یہ منھ اور مسورکی دال“۔خاکسار کی رائے میں،یہ بہت ہی دوراَزکاربات ہے کیونکہ تاریخ ہند کے سرسری مطالعے سے یہ’انکشاف‘ سامنے نہیں آتاکہ کبھی دالیں اور وہ بھی مسورکی دال اس قدرمہنگی ہوگئی ہو۔لسانی قیاس بھی بہت مطالعے اورسوچ بچارکامقتضی (نہ کہ متقاضی) ہے۔
محولہ مضمون میں کہاگیاکہ”کہا جاتا ہے کہ مسور کی دال ملکہ وکٹوریہ کے پسندیدہ پکوانوں میں سے تھی اور انہیں دال کا سوپ بہت پسند تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے ملکہ مسور بھی کہا جانے لگا۔(خاکسار سہیل کبھی ملکہ وکٹوریہ/وکٹوریا کے متعلق بھی لکھے گا،کیونکہ مولوی سید احمد دہلوی اور علامہ اقبال بھی اُن کی مدح خوانی کرچکے ہیں۔ملکہ مسور اِسی دال کی دوسری قسم ہے جس کے خواص مختلف ہیں)۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ریاست اَوَدھ میں مسور کو ایک نوابی پکوان سمجھا جاتا تھا۔
یوں اس دال اور پھر اس محاورے کو یہ معنی مل گئے۔انھی مضمون نگارنے ایک انگریزی کتاب کے حوالے سے مزیدارشادکیاکہ”سلمیٰ حسین اور وجے ٹھکرال(Vijay Kumar Thukral) اپنی مشترکہ انگریزی تصنیف ’پُل آف پلسِز‘ یا ’دالوں کی کشش‘ Pull of Pulses): (Full of Beansمیں لکھتے ہیں کہ اودھ کے ایک بادشاہ کے دربار میں ایک تباخ(طبّاخ یعنی باورچی: س ا ص) کو خاص طور پر دالیں پکانے کے لیے رکھا گیا تھا۔ لیکن اس شاہی باورچی کی ایک شرط تھی اور وہ یہ کہ بادشاہ سلامت اس کی بنائی ہوئی دال فوراٌ تناول کریں گے اور اسے ٹھنڈا نہیں ہونے دیں گے۔
ایک دن بادشاہ وقت پر دال نہ کھا سکا تو تباخ کو اس قدر غصہ آیا کہ اس نے دال زمین پر انڈھیل(انڈیل) دی اور یہ کہتے ہوئے دربار سے نکل گیا ’یہ منہ اور مسور کی دال‘ یعنی یہ بادشاہ اس قابل نہیں کہ آئندہ اسے کوئی دال پیش کی جائے“۔
اس مشہورمنقولہ تحریرکی بابت خاکسار یہی کہہ سکتاہے کہ ایسے معاملات میں تاریخ عموماسینہ گزٹ پرمبنی ہواکرتی ہے اورا یسے گزٹ، عوام
الناس کی فطری تحریف گوئی سے ہرگزمبرّا نہیں ہوتے۔جتنے منھ، اتنی بات۔یہاں ایک اور دل چسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ انگریزی کتاب کے تعارف میں امیزون کی ویب سائٹ پرمندرج تبصر ے میں لفظ daal اور ترکیبdaal-based کا آزادانہ استعمال کیاگیاہے،یعنی اردوکے الفاظ اس طرح بھی انگریزی میں دخیل ہونے لگے، وہ بھی دال کی محبت میں!
دال کی تعریف میں سید احمد دہلوی نے لکھا:
دال۔ہ۔اسم مؤنث۔ا)۔دَلے ہوئے چَنے مونگ اُڑد وغیرہ جو سالن کے طور پر پکائے جاتے ہیں،ب)۔کھرنڈ، انگورزخم،ج)۔انڈے کی زردی، د) آتشی شیشے کا وہ عکس جس سے آگ لگتی ہے، اجتما ع شعاع، ہ)۔وہ زردی جو پرِند کے بچوں کی بانچھوں میں ہوتی ہے“۔تو آپ نے دیکھا کہ اہل زبان،دال کہہ کر محض اس دال سے مراد نہیں لیتے تھے جسے آج ہمارے یہاں گوشت کی نسبت کم کم کھانا پسند کیا جاتا ہے۔یہ بھی اردو ذخیرہ الفاظ کی وسعت کی ایک مثال ہے۔دالو ں کا ذکر ہمارے مشہور محاوروں اور بعض کہاوتوں میں موجودہے۔
آئیے یاد کرتے چلیں: اُڑد پر سفیدی ہونا،اُڑد۔یا۔ماش کے آٹے کی طرح اینٹھنا،لا میری چنے کی دال،پانڈے جی پچتائیں (پچھتائیں)گے ; وہی چنے کی (دال) کھائیں گے،چھاتی (سِینے) پر مونگ دَلنا،دال بندھنا،جوتیوں میں دال بٹنا/دال جوتیوں میں بٹنا،دال چپاتی،دال چَپّوہونا،دال دَلیا،دال روٹی،دال روٹی سے خوش ہونا،دال روٹی صبرشکر سے کھانا،دال میں کچھ کالا /کالا کالا ہونا،دال گلنا،دال موٹھ والا،دال نہ گلنا،آٹا دال الوبھی ہے،آٹے دال کا بھاؤ بتانا،آٹے دال کا بھاؤکھُلنا،آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہونا
(فرہنگ آصفیہ،اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ از ڈاکٹر عشرت جہاں،فرہنگ اردو محاورات از پروفیسر حسن، اردو محاورے از ڈاکٹر خوشنودہ نیلوفر،ایک کہاوت۔ایک کہانی از علی حسن چوہان)
دالوں کے متعلق اردو کے محاورے اور کہاوتیں یقینا بہت معتبر ہیں، مگر ہم میں کتنے لوگ جانتے ہیں کہ 20دسمبر2013ء کو انجمن اقوام متحدہ کی مجلس عامہ یعنی General Assembly کے اڑسٹھویں اجلاس میں کیے جانے والے فیصلے کے مطابق سال 2016ء کو ’دالوں کا سال‘ قرار دیا گیا تھا تاکہ ان کی افادیت کے متعلق آگہی عام کی جاسکے۔
یہاں آخرمیں ایک اور مسئلے کا ذکر بھی کرتاچلوں۔کچھ الفاظ، تراکیب اور اصطلاحات کا عوامی یا سُوقیانہ استعمال یعنی Slangایسا ہوتا ہے کہ اکثر نفیس لوگوں کی طبع نازک پرگراں گزرتا ہے۔انھی میں ایک ہے ’تشریف‘۔پہلے تشریف کے معیاری زبان میں معانی،ازرُوئے لغات، ملاحظہ فرمائیں:
1۔تشریف۔ع۔بزرگ کرنا، بزرگ رکھنا،عزت کرنا اور فارسی میں بمعنی خِلعت اورلفظ بردن اور آوردن وغیرہ کے ساتھ بمعنی رفتن اور آمدن یعنی جانے اور آنے کے بھی اصطلاحاً مستعمل ہے۔(لغات کشوری از مولوی تصدق حسین رضوی)
2۔تشریف(فت ت، سک ش، ی مع)امث: ا)۔خلعت، وہ پوشاک یا جوڑا جو بادشاہ اور حاکم وغیرہ کسی کو انعام واعزاز کے طور پر عطا کرتا ہے۔ب)۔شرف، بزرگی، عزت، ترجیح]ع[
تشریف آوری: امث۔کسی امیر، معزز یا بزرگ شخص کی آمد۔
تشریف رکھنا(محاورہ): بیٹھنا، ٹھہرنا،قیام کرنا
تشریف فرما ہونا(محاورہ): تشریف لانا، بیٹھنا، آنا
(یہاں راقم یاددلانا چاہتا ہے کہ یہ درحقیقت فارسی الاصل ہے، جب کسی کو بیٹھنے کاکہناہوتوکہتے ہیں: تشریف بِفَرمائید۔ س ا ص)
تشریف لانا(محاورہ): بیٹھنا، آنا
تشریف لے جانا (محاورہ): ا)۔سِدھارنا، رخصت ہونا، جانا ب)۔(مجازاً، نیز، طنزاً)تلف ہوجانا، ختم ہوجانا، باقی نہ رہنا
]مختصر اُردو لغت،اردو لغت بورڈ[
عربی میں اس لفظ کی کھو ج آسان نہیں، کافی تفصیلی بیان ہے جو ”المُنجِد“ عربی۔اردو لغت میں ملتا ہے۔
اب یہ جان لیں کہ چالو بولی ٹھولی یا عوامی یا تحتی بولی [Slang]میں ’تشریف‘ سے مراد ہے انسانی بدن کا نچلا حصہ، نچلا دَھڑ، کولھے۔مثال:
اِس کی تشریف لال کردو، پھر بکے گا ماجرا کیا ہے۔
آخر میں قدرے غیرمتعلق اطلاع (محض احباب کے لیے): گزشتہ دنوں سیالکوٹ کی ایک جامعہ کے شعبہ اردو کی استاد محترمہ عظمیٰ نورین صاحبہ نے مصر کا نجی دورہ کیا۔ خاکسار نے انھیں مصری احباب کے رابطہ نمبر فراہم کیے۔ وہاں اُن کا پُرجوش خیرمقدم کیا گیا اور جامعہ عین شمس، قاہرہ کی معلمہ ڈاکٹر اِیمان شُکری صاحبہ اور ڈاکٹر رِحاب مصطفی صاحبہ نے اردو کی محبت کا مظاہرہ کرتے ہوئے (بقول اُن کے) اپنے استاد، سہیل احمد صدیقی کے لیے کچھ سوغات ہمراہ کی، جس میں اضافہ محترمہ عظمیٰ نورین اور اُن کے بھائی جناب انجم یوسف خان نے کردیا۔ یہ تمام تحائف موصول ہوچکے ہیں۔ بفضلہ تعالیٰ یہ چاروں شخصیات واٹس ایپ حلقے ’بزم زباں فہمی‘ سے منسلک ہیں۔
The post زباں فہمی نمبر 183؛ یہ مُنھ اور مسورکی دال appeared first on ایکسپریس اردو.