ملک کو درپیش مختلف چیلنجز میں سے ایک بڑا چیلنج معاشی بدحالی ہے۔
اس کے بدترین اثرات کے باعث ملکی تاریخ کی سب سے زیادہ مہنگائی ہوچکی ہے، عوام سراپا احتجاج ہیں، حکومت کی جانب سے مفت آٹا و سہولیات دینے کی کوشش کی جارہی ہے مگر اس کے باوجود لوگوں کا جینا دو بھر ہوگیا ہے۔
اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ’’موجودہ معاشی صورتحال اور ماہ رمضان میں مہنگائی کی حالیہ لہر‘‘ کے موضوع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، سول سوسائٹی کے نمائندوں اور ماہرین معاشیات کو مدعو کیا گیا۔ان سے ہونے والی گفتگو نذرر قارئین ہے۔
رافعہ حیدر
(ڈپٹی کمشنر لاہور )
حالیہ مہنگائی کی ایک بڑی وجہ سیلاب ہے جس میں زرعی اجناس تباہ ہوگئی اور ملک کو نقصان ہوا۔ سندھ، جنوبی پنجاب، بلوچستان، خیبرپختونخوا میں پھل اور سبزیاں سیلاب کی نذر ہوگئی لہٰذا ماہ رمضان میں ان کی ڈیمانڈ کو پورا کرنا ایک بڑا چیلنج تھا۔
سب کو معلوم ہے کہ رمضان میں پھل، سبزیوں و اجناس کی ڈیمانڈ زیادہ ہوجاتی ہے اور ایک خود ساختہ مہنگائی بھی ہوتی ہے جس پر ناجائز منافع خوروں کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے ، جرمانے اور سزائیں دی جارہی ہیں۔
ا س حوالے سے لاہور میں پرائس کنٹرول مجسٹریٹس کی تعداد بڑھا کر 100کر دی گئی ہے جو مختلف مارکیٹوں و علاقوں میں چھاپے مار رہے ہیں اور کارروائیاں کر رہے ہیں، اربن یونٹ بھی خلاف ورزیوں کی رپورٹ دیتا ہے، جس پر کارروائی کی جاتی ہے۔ میں نے مجسٹریٹ کا ٹارگٹ کم کرکے حقیقی بنایا ہے جو قابل عمل بھی ہے اور اس سے ان کی کارکردگی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
حکومت کی جانب سے عوامی آگہی کیلئے ’’قیمت ایپ‘‘ موجود ہے جس میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں اپ ڈیٹ کی جاتی ہیں، وہاں شکایت بھی کی جا سکتی ہے، ہماری ہیلپ لائن بھی موجود ہے، اس پر بھی شکایت درج کروائی جا سکتی ہے، شکایت موصول ہونے پر بروقت کارروائی کی جاتی ہے اور لوگوں کی سہولت کو یقینی بنایا جاتا ہے۔
حکومت پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر تشہیر کے ذریعے لوگوں کو آگاہی دے رہی ہے، تاجروں، آجروں اور شہریوں کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ اور اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ ضلعی انتظامیہ صوبائی حکومتیں اور وفاق مل کر کام کر رہے ہیں۔
ہم نے رمضان سے پیشگی ہی اشیائے ضروریہ کی ڈیمانڈ کو مد نظر رکھتے ہوئے مارکیٹس تک ان کی رسائی یقینی بنائی، کراچی میں کارگورکے ہوئے تھے، ان کو بروقت ریلیز کروایا۔ ہم نے لاہور کی سطح ہر ممکن اقدامات کرکے بہترین انتظامات کیے ہیں۔ ہم نے اشیائے ضروریہ کی ڈیمانڈ کے مطابق ان کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے اقدامات کیے۔
ہم نے تاجروں کی ایسوسی ایشنز کے ساتھ میٹنگز کی، معاملات طے کیے۔ سبزی و پھل منڈیوں میں معاملات مارکیٹ کمیٹیوں پر نہیں چھوڑے بلکہ وہاں بھی مجسٹریٹ روزانہ کی بنیاد پر جاتے ہیں، بولی کے وقت موجود ہوتے ہیں اور پرائس کنٹرول میکنزم کو یقینی بناتے ہیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، احساس پروگرام میںرجسٹرڈ افراد کو آٹے کے تین تھیلے مفت دیے جارہے ہیں۔
لاہور میں ان کی تعداد 12 لاکھ 28 ہزار ہے، مختلف علاقے کے لوگ بھی لاہور آجاتے ہیں لہٰذا یہ تعداد بڑھ جاتی ہے۔ اسی طرح جس خاندان کی آمدن 60ہزار سے کم ہے اور وہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹرڈ نہیں، اسے ایک تھیلہ دیا جائے گا، ان کی تعدا د 1 لاکھ 96 ہزار کے قریب ہے۔ لاہور میں 40 پوائنٹس پر مفت آٹا فراہم کیا جا رہا ہے، اب تک 6 لاکھ سے زائد خاندانوں کو 15 لاکھ تھیلے دیے جا چکے ہیں، ابھی مزید کام جا رہی ہے۔
ماڈل بازاروں میں گھی، آئل، چینی و غیرہ سستے داموں فراہم کی جا رہی ہیں، ہم لوگوں کو ماہ رمضان میں سہولت دینے کیلئے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں۔ ہماری فلاحی ریاست ہے، ہمیں لوگوں کی فلاح کیلئے کام کرنا ہے۔
این جی اوز بہت سارا کام کرتی ہیں، مخیر حضرات بھی اپنی مدد آپ کے تحت کام کرتے ہیں، اگر این جی اوز کو علاقے بتائے جائیں اور وہاں کی ڈیمانڈ کے مطابق کام دیا جائے تو بہتری آسکتی ہے،ا س طرح وسائل بھی ضائع نہیں ہونگے اور صحیح معنوں میں کام بھی ہوسکے گا۔ ہمارے ہاں مسائل زیادہ ہیں، یہ ایک دن میں حل ہونے والے نہیں البتہ سمت کا تعین ضروری ہے۔ اگر ہم درست سمت میں مسلسل کام کرتے رہیں تو مسائل سے چھٹکارہ پایا جاسکتا ہے ۔
ڈاکٹر قیس اسلم
(ماہر معاشیات )
قدرتی وسائل سے مالامال اور دنیا کی سب سے بڑی نوجوان آبادی والا ملک ہونے کے باوجود ہماری معاشی بدحالی افسوسناک ہے۔
ریاست کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار اس بات پر ہے کہ اس میں رہنے والے افراد کی حالت بدلی یا نہیں۔ وہ تمام افراد جن کے معیار زندگی میں گزشتہ 7دہائیوں میں بہتری نہیں آ سکی، ان کیلئے یہ ریاست ناکام ہوچکی ہے۔ جائزہ لیں تو نظر آتا ہے کہ 23 کروڑ آبادی میں سے محض چند فیصد افراد کی زندگی میں بہتری آئی ہے اور وہ ملک کی اشرافیہ ہے جبکہ باقی عوام بری طرح پس رہے ہیں اور ملک میں اتار چڑھاؤ سے متاثر ہوئے ہیں۔
تعلیم کی بات کریں تو صرف 5 فیصد اشرافیہ کے بچے اچھی اور معیاری تعلیم حاصل کر رہے ہیں، باقی کے 5 فیصد کو دکھاوے کیلئے تعلیم دی جا رہی ہے جو غیر معیاری ہے۔
سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی آبادی کو بغیر تعلیم اور ہنر چھوڑ کر ملکی ترقی کا خواب کیسے دیکھا جا سکتا ہے؟ہم تو خوش قسمت ہیں کہ نوجوان زیادہ ہیں، یورپ و دیگر ممالک میں تو یوتھ کی ڈیمانڈ زیادہ ہے، وہاں ادھیڑ عمر افراد کی آبادی زیادہ ہے۔
ہمیںنوجوانوں کی صورت میں ملنے والی نعمت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں 6 ماہ سے 1 سال تک کے سکل بیسڈ کورسز کروائے جائیں، گلف و دیگر ممالک کی ضرورت کے حساب سے تعلیم اور سکلز دے کر وہاں بھیجا جائے، اس سے انہیں نہ صرف روزگار ملے گا بلکہ ملک میں پیسہ بھی آئے گا جس سے معیشت مستحکم ہوسکتی ہے۔
ہمارا سارا نظام امپورٹ بیسڈ ہے، بجلی بنانے کیلئے تیل امپورٹ کرتے ہیں، کھانے کا تیل، اجناس، صنعتوں کے لیے مشینری و دیگر ضروری مال، باہر سے آتا ہے، ہمیں ایکسپورٹ بیسڈ پالیسی بنانا ہوگی۔ SMEs کو مضبوط بنانا ہوگا، ان کی بہترین برانڈنگ کی جائے، آرٹ اینڈ کلچر سے جوڑا جائے، مقامی صنعت کو فروغ دیا جائے اور بیرون ممالک اشیاء بھیج کر معیشت کو مضبوط بنایا جائے۔ہم نے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارت کو فروغ نہیں دیا۔
افغانستان کو ہم سمجھتے ہیں کہ تجارت کا فائدہ نہیں، ایران کے ساتھ امریکا کے دباؤ کی وجہ سے نہیں کرتے، بھارت کے ساتھ دشمنی ہے، چین کے ساتھ ہم نے سڑک بنائی مگر اس کا فائدہ نہیں اٹھایا۔ افسوس ہے کہ حکومتوں نے سی پیک منصوبے کے حوالے سے ادارے ہی نہیں بنائے، چین کو بھی ہم نے ناراض کر لیا۔ ہم کھانے کا تیل انڈونیشیا سے درآمد کرتے ہیں، انڈونیشیا ایک پراڈکٹ کی وجہ سے دنیا کی 16و یں بڑی معیشت ہے۔
افسوس ہے کہ ہمارے ارباب اختیار نے معیشت اور اداروں کو گروی رکھ دیا ، ڈویلپمنٹ اپروچ کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے، نجی شعبہ لوگوں کو روزگار دیتا ہے، اسے فروغ دینا چاہیے۔
اس وقت ملک میں 7 حکومتیں ہیں، جن کی مراعات، اخراجات زیادہ ہیں، ایک طرح کے ادارے وفاق اور صوبوں میں موجود ہیں، مقامی حکومتوں کا نظام غائب ہے جو لوگوں کے مسائل ان کے گھر کی دہلیز پر حل کرتا ہے، بہتر گورننس پر کام کرنا ہوگا۔ زراعت ہماری جی ڈی پی کا 22 فیصد ہے جس میں 2,2 فیصد جنگل اور مچھلیاں ہیں، 3 فیصد فوڈ فارمنگ، 3 فیصد کیش کراپس، 2 فیصد سمال فارمنگ و دیگر شامل ہیں۔انڈسٹری ہمارے جی ڈی پی کا 27 فیصد ہے جس میں 17 فیصد لارج سکیل ہے۔
5.5 فیصد معدنیات ہیں جن پر ہم نے توجہ نہیں دی۔ ہمیں نجی شعبے کو فروغ دینا ہوگا، یہ انجن آف گروتھ ہے، SMEs کو سپورٹ کرنا ہوگا۔ ہم نے معیشت کو دستاویزی کرنے کیلئے نقصان کیا۔ لوگوں کو سکول، ہسپتال و ایسے منصوبوں پر کام کرنے کیلئے مراعات دی جائیں، عوام دوست پالیسیاں بنائی جائیں اور مثبت سمت میں آگے بڑھا جائے۔
بشریٰ خالق
(نمائندہ سول سوسائٹی )
معاشی بحران نے ہر شخص کو متاثر کیا ہے مگر یہ بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ کون کون سے طبقات ہیں جو زیادہ متاثر ہوئے اور ان کیلئے زندگی موت کا مسئلہ بنا ہوا ہے، ان کی تعلیم، صحت، خوراک جیسے مسائل سنگین ہوچکے ہیں۔
عالمی پیمانے کے مطابق2 ڈالر روزانہ سے کم کمانے والا غریب ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جس کے لیے قیادت اور دنیا کو سوچنا ہے، پالیسی بنانی ہے اور انہیں غربت سے نکالنا ہے۔ پاکستان میں 2 ڈالر روزانہ سے کم آمدنی والے افراد کی تعداد 8 کروڑ سے زائد ہے جو تشویشناک ہے۔ حالیہ مہنگائی کی لہر نے ان لوگوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
مہنگائی کا براہ راست اثر سب سے زیادہ خواتین پر ہوا ہے، ان کے مسائل بڑھ گئے ہیں۔ خواتین نے امور خانہ داری بھی چلانا ہوتے ہیں، وہ جب خاوند سے خرچ چلانے کیلئے رقم کا مطالبہ کرتی ہے تو کم آمدنی کی وجہ سے خاوند ان پر غصہ نکالتا ہے، جسمانی تشدد کا نشانہ بھی بناتا ہے۔ خواتین خود بھی پریشان ہیں کہ انہیں معلوم ہے مہنگائی کے دور میں خاوند کی آمدن کم ہے، جس میں گزارہ مشکل ہے لیکن انہیں گھر کے معاملات چلانے کیلئے مجبوراََ خاوند سے مطالبہ کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح خواتین نفسیاتی دباؤ کا شکار بھی ہو رہی ہیں۔
معاشرے کے متاثرہ طبقات کی بات کی جائے تو محنت کش خواتین، ڈومیسٹک ورکرز، ہوم بیسڈ ورکرز، لیڈی ہیلتھ ورکرز، خواجہ سرائ، جسمانی طور پر معذور افراد، بچے، بوڑھے، سب ہی بری طرح پس رہے ہیں، بچے اور بوڑھے غذائیت کی کمی کا شکار ہیں، ادویات ، خوراک سمیت ان کی ضروریات زندگی پوری نہیں ہو رہی جس سے مسائل بڑھ رہے ہیں۔
بچے اور بوڑھے خاندان کے دیگر افراد پر انحصار کرتے ہیں، جس خاندان میں 6سے 10 افراد ہیں، وہاں لوگوں کی زندگیاں شدید متاثر ہورہی ہیں، کم آمدنی کی وجہ سے ان کی صحت خطرے میں ہے، خوراک و دیگر معمولات زندگی بھی ان کیلئے چیلنج ہے۔ محنت کش خواتین کو 100 روپے سے200 روپے تک روزانہ معاوضہ ملتا ہے، ڈومیسٹک ورکرز کو ماہانہ 3 سے 4 ہزار روپے ملتے ہیں، یہ انتہائی کم آمدن ہے۔
ہمارے ہاں لوگوں کے مسائل کی ایک بڑی وجہ سوشل سیفٹی نیٹ کا پائیدار ماڈل نہ ہونا ہے، اس پر توجہ دینا ہوگی، ایک ایسا ماڈل بنانا ہوگا جو سب کی شمولیت کے ساتھ سب کا معیار زندگی بہتر بنائے۔ افسوس ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود سبزی، پھل، اناج، دودھ، گھی و دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں 100 سے 150 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ غریب آدمی چائے کے ساتھ روٹی کھاتا تھا، اب چائے بھی اس کی پہنچ سے دور ہوگئی ہے۔
مہنگائی کی وجہ سے جہاں خواتین و دیگر طبقات کے مسائل سنگین ہوئے ہیں وہیں بچوں کی مشکلات بھی بڑھ گئی ہیں۔
چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے گزشتہ برسوں میں جو کام ہوا وہ محنت ضائع جا رہی ہے۔ بدترین مہنگائی اور معاشی صورتحال کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو کام پر بھیجنے کیلئے مجبور ہیں اور اب پھر سے چائلڈ لیبر میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارا نظام بری طرح ناکام ہوچکا ہے۔
اس میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، احساس پروگرام جیسے منصوبوں میں بے شمار مستحق افراد شامل نہیں، سسٹم کے نقائص دور کرکے انہیں اس دائرہ کار میں لانا ہوگا۔
افسوس ہے کہ آٹے کے حصول میں لوگوں کی زندگیاں جا رہی ہیں، لوگ آٹا لینے جاتے ہیں لاشیں اور ٹوٹی ہوئی ہڈیاں لے کر آتے ہیں،لوگوں کی عزت نفس مجروح ہو رہی ہے مگر کسی کو کوئی خیال نہیں آرہا۔ ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام و احساس پروگرام میں بیوہ اور شادی شدہ خواتین کیلئے تو گنجائش موجود ہے مگر اکیلی خاتون کیلئے نہیں، یعنی ایسی خاتون جو غیر شادی شدہ ہے اس کو یہ سہولت حاصل نہیں ہے، اس پر کام کرنا ہوگا۔ پنجاب میں سوشل پروٹیکشن اتھارٹی موجود ہے مگر ابھی بھی بہت سارے سوشل گروپس نظر انداز ہو رہے ہیں، انہیں سسٹم میں شامل کرنا ہوگا۔
ہمارا ٹیکس کا نظام لوگوں کیلئے مشکلات پیدا کر رہا ہے، ہر غریب، فقیر، مستحق فرد بھی ’جی ایس ٹی‘ کی صورت میں ٹیکس دے رہا ہے، سوال یہ ہے کہ ریاست انہیں کیا دے رہی ہے؟ اشرافیہ کو تو اب بھی مراعات مل رہی ہیں جبکہ پس صرف غریب طبقہ رہا ہے، حکومت کو اشرافیہ کی مراعات ختم کرنا ہونگی اور غریب کو سہولت دینا ہوگی۔
عبدالخالق
(ماہر معاشیات )
پاکستان کا شمار دنیا میں بدترین مہنگائی والے ممالک میں ہوچکا ہے۔ سی پی آئی انڈیکس میں ملکی تاریخ کی سب سے زیادہ مہنگائی ہوچکی ہے، ایسی مہنگائی صرف جنگوں کے دوران ہی ہوتی ہے، ہم عام حالات میں یہ صورتحال دیکھ رہے ہیں۔
ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ ملک ڈیفالٹ ہوچکا ہے، بس اعلان کرنا باقی ہے، دنیا بھی ہمیں اسی تناظر میں دیکھ رہی ہے۔ دنیا میںبدترین معاشی دباؤ اور قرضوں میں ڈوبے ہوئے 54 ممالک ہیں، ہمارا ان میں شمار کیا گیا ہے اور اس وقت ہم سری لنکا والی لائن میں کھڑے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمارے مسائل ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین ہورہے ہیں۔ آئی ایم ایف ہمارے ساتھ کھیل رہا ہے،ا س سے پیکیج ملتا ہوا دکھائی نہیں دیتا، وہ اسی طرح شرائط کے بعد شرائط رکھتا رہے گا، ہم پر دباؤ بڑھتا رہے گا مگر ملے گا کچھ نہیں۔ سعودی عرب نے بھی اپنی پالیسی تبدیل کر لی ہے، دیگر دوست ممالک بھی ہمارے ساتھ تعاون نہیں کر رہے۔
ایک چین ہی باقی بچا ہے جس سے تھوڑی بہت امید ہے وگرنہ اس وقت دنیا میں کوئی بھی ہماری مدد کو تیار نہیں ہے۔ ہمارے معاشی مسائل کی ایک بڑی وجہ غلط پالیسیاں ہیں۔ ہم نے امپورٹ بیسڈ پالیسیاں بنائی، ایکسپورٹ پر توجہ نہیں دی۔
امپورٹ پر بھی بے جا ٹیکس لگایا، لوگوں کو سہولیات نہیں دی، پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا، عالمی مہنگائی کی لہر نے بھی یہاں مہنگائی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا، سیاسی عدم استحکام اور اندرونی انتشار کی وجہ سے بھی ہم بدترین مسائل کا شکار ہوئے۔ اس طرح مختلف فیکٹرز ہیں جن کے باعث ہم اس صورتحال سے دوچار ہیں۔
ہمیں سمجھنا چاہیے کہ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام ممکن نہیں لہٰذا سب کو سیاسی استحکام کیلئے کام کرنا ہوگا، اخراجات کم کرنا ہونگے، اشرافیہ کی مراعات ختم کرنا ہونگی ، ایکسپورٹس کو فروغ دینا ہوگا، امپورٹس کی حوصلہ شکنی کرنی ہوگی، پروگریسیو ٹیکسیشن کرنا ہوگی اور ایک مثبت سمت دیکر ملک کو آگے بڑھانا ہوگا۔
قرضوں کے حصول کیلئے پارلیمنٹ سے منظوری کو لازمی بنایا جائے وگرنہ ہم مزید قرضوں میں ڈوبتے رہیں گے اور ملک مزید مشکلات سے دوچار ہوتا رہے گا۔ ہمیں جرمنی کے تجربے سے سیکھتے ہوئے خودانحصاری کی پالیسی کو فروغ دینا ہوگا، اگر ہم نے ایسا کر لیا تو ملک اپنے پاؤں پر کھڑا ہوجائے گا۔ ماہ رمضان میں مہنگائی ہمارے ہاں معمول بن گیا ہے۔
اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوچکا، ہمیں من حیث القوم اپنے رویے تبدیل کرنا ہونگے۔ہمارے ہاں مسائل کی ایک بڑی وجہ ماحولیاتی تبدیلی اورا س سے جڑے عوامل ہیں۔ گزشتہ برس اندازہ لگایا گیا تھا کہ ملک میں قحط سالی، مہنگائی، پانی کا مسئلہ سمیت بے شمار چیلنجز زور پکڑیں گے مگر اس پر کام نہیں ہوا۔ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث آنے والے سیلاب نے ہمیں بری طرح متاثر کیا۔ ماحولیاتی چیلنجز ابھی بھی ختم نہیں ہوئے،ا س حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔
The post معاشی بہتری کیلئے سیاسی استحکام ناگزیر، خودانحصاری کی پالیسی اپنائی جائے! appeared first on ایکسپریس اردو.