اللہ تعالیٰ نے انسان کو صاحبِ فہم و ذکا اور بااختیار بنایا، پھر اپنا نائب قراردے کر زمین پر بھیجا۔ قدرت کی طرف سے انسان کو پانچ خصوصی حسیات بھی عطا کی گئی ہیں، جنھیں حواس خِمسہ کہا جاتا ہے۔
یہ حسیات، باصرہ (دیکھنے کی حس)، سامعہ (سْننے کی حس)، ذائقہ (چکھنے کی حس)، شامہ (سونگھنے کی حس) اور لامسہ (چْھونے کی حس) کہلاتی ہیں۔ انسان قدرت کی طرف سے ملنے والی صلاحیتوں کا استعمال کرتا ہے اور ان صلاحیتوں کے باہمی تعاون اور ہم آہنگی سے زندگی کا سفر کام یابی سے آگے بڑھتا ہے۔
انسان پیدائش کے بعد آہستہ آہستہ سیکھتا ہے کہ اپنی صلاحیتوں کا استعما ل کس طرح کرنا ہے۔ بدقسمتی سے کچھ بچّوں میں صلاحیتوں کا باہمی تعاون کم زور پڑ جاتا ہے۔ یہ بچّے اپنے ماحول اور لوگوں کو صحیح طورپر سمجھ نہیں پاتے اور آٹزم نامی عارضے میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
آٹزم ایک اعصابی ونفسیاتی مرض ہے، جس کا تعلق ذہنی بالیدگی اور نشوونما سے ہوتا ہے۔ یہ مرض پیدایشی طور پر موجود ہوتا ہے اور اس کے اثرات دوسال کی عْمر سے قبل ہی ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ آٹزم میں مبتلا بچّوں کی گفتگو، سماجی تعلقات اور رویّے متاثر ہوتے ہیں۔ یہ بچّے ذرا مختلف انداز میں دْنیا کے سامنے آتے ہیں اور سب سے الگ اور تنہا دکھائی دیتے ہیں۔ ان بچّوں میں درج ذیل علامات و شکایات پائی جاتی ہیں۔
٭عام بچوں کے ساتھ میل جول میں مشکلات اور تنہائی پسندی
٭ اپنا مطلب سمجھانے یا اپنی بات کہنے میں دشواری
٭ گفتگو کے دوران مقابل کی آنکھوںمیں نہ دیکھنا
٭ مخصوص الفاظ یا جملے دہراتے جانا
٭ نام سے پکارے جانے پر جواب نہ دینا
٭ مزاج میں غیرمعمولی جارحانہ پَن
٭بغیر وجہ کے رونا یا ہنسنا
٭خوف اور خطرے کی سمجھ نہ ہونا
٭مسلسل ایک ہی چیز یا کھلونے سے کھیلنا
٭کھلونا گاڑی کے پہیوں یا کسی اور شے کو باربار گھماتے جانا
٭ بعض مخصوص اشیا سے غیر معمولی لگاؤ ہونا
٭اپنے ماحول میں کسی تبدیلی کو برداشت نہ کرنا
٭ دوسروں کے درد اور تکلیف کو نظرانداز کرنا
٭ محبّت کا جواب محبّت سے نہ دینا اور گلے لگنے یا گود میں آنے سے گریز کرنا
٭ کسی بھی شے کو دیکھنے، سْننے، چکھنے، سونگھنے اور چْھونے پر غیر متوقع اور شدید ردِّعمل کا اظہار
٭ ہاتھوں اور جسم کو بلاوجہ ہلانا اور چکر دینا
آٹزم کی تشخیص، علامات و شکایات کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ کسی بھی قسم کے لیبارٹری ٹیسٹ یا ایکس رے وغیرہ سے آٹزم کی موجودگی کو ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے۔ آٹزم کو ایک زمانے میں آٹسٹک ڈس آرڈر (Autistic Disorder) کہا جاتا تھا۔ ماہرین نے محسوس کیا کہ آٹزم سے ملتی جلتی علامات کئی امراض میں پائی جاتی ہیں۔
اس بنیاد پر فیصلہ کیاگیا کہ ان تمام امراض کو ایک ہی تشخیص اور عنوان کے ساتھ دیکھا جائے گا۔ نفسیاتی امراض کی تعریف وتقسیم پر مشتمل امریکن سائیکٹرک ایسوسی ایشن کی کتاب ڈی ایس ایم “Diagnostic and Statistical Manual” کا پانچواں ایڈیشن 2013ء میں شائع ہوا، جس میں ایک نئی تشخیص آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر Spectrum Disorder Autism متعارف کروائی گئی۔
اس تشخیص کے تحت کئی بیماریوں کو یک جا کردیا گیا اور مرض کی شدّت کے لحاظ سے تین درجے مقرر کردیے گئے، انھیں لیول ایک، لیول دو اور لیول تین قراردیا گیا۔ یہ سوال بڑا دِل چسپ ہے کہ لفظ اسپیکٹرم کا استعمال کیوں کیا گیا؟ اصل میں اسپیکٹرم ان سات رنگوں کے مجموعے کو کہا جاتا ہے، جو قوس قزح میں پائے جاتے ہیں۔
اسپیکٹرم ان رنگوں کو علیحدہ کرکے دکھاتا ہے۔ آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر ان تمام لوگوں کے لیے حوالہ بن گیا، جو آٹزم میں مبتلا ہوتے ہیں، مگر ان کے تجربات ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔
آٹزم کی اہمیت کو اقوامِ متحدہ نے کئی برس قبل محسوس کر لیا تھا۔ 18 دسمبر 2007ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے متفقہ طورپر ایک قرارداد منظورکی، جس میں فیصلہ کیا گیا کہ ہر سال 2اپریل کو آٹزم کا عالمی دِن منایا جائے گا۔ پچھلے پندرہ سالوں سے دْنیا بَھر میں آٹزم کا دِن منانے کا سلسلہ جاری ہے۔
اس دِن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ عوام الناس کو آٹزم کے بارے میں صحیح آگاہی فراہم کی جائے اور مریضوں کی معیاری اور بروقت نگہداشت یقینی بنائی جائے۔
اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے عالمی ادارہ صحت نے گزشتہ سال ایک رپورٹ شائع کی، جس کے مطابق دْنیا میں ایک فی صد بچّے آٹزم کے مرض میں مبتلا ہیں۔ بیماریوں کی روک تھام کے لیے قائم امریکی ادارے سی ڈی سی (Centre for Disease Control and Prevention) کے اعدادوشمار اور زیادہ چونکا دینے والے ہیں۔ اس ادارے کے مطابق ہر 44 میں سے ایک بچّہ آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر میں مبتلا ہے۔
یہ عارضہ پوری دْنیا میں پایا جاتا ہے اور ہر ذات، رنگ، نسل اور علاقے کے لوگ آٹزم کا شکار ہوتے ہیں، البتہ لڑکوں میں آٹزم کے مریض لڑکیوں کے مقابلے میں چارگنا زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ اعدادوشمار سی ڈی سی کی مارچ 2022ء میں جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق ہیں۔
آٹزم کے مریضوں کی تعداد میں دِن بہ دِن تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اس وقت ریاست ہائے متحدہ امریکا کی صْورتِ حال یہ ہے کہ بچّوں کے سرطان، ذیابیطس اور ایڈز کے مجموعی مریضوں سے زیادہ آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر کے مریض موجود ہیں۔
اس مرض کی وجہ سے معاشی دباؤ بھی بہت بڑھ جاتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق آٹزم کے ایک مریض کی موجودگی سے خاندان پر سالانہ 60 ہزار ڈالر کا بوجھ پڑتا ہے۔ جلد تشخیص اور بروقت علاج کی صْورت میں معاشی دباؤ میں دوتہائی کمی واقع ہوسکتی ہے۔ پاکستان میں آٹزم کے مریضوں کی مجموعی تعداد کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تین سے پانچ لاکھ بچّے آٹزم سے متاثر ہیں۔
’’آٹزم کا مرض کیوں پیدا ہوتا ہے؟‘‘ اس بارے میں تیقن سے کوئی بات نہیں کہی جا سکتی۔ ماہرین نے کچھ ممکنہ وجوہ بیان کی ہیں، جو درج ذیل ہیں:
٭یہ مرض موروثی ہوتا ہے اور خاندانی طور پر منتقل ہوتا ہے
٭ بھائی بہنوں میں کوئی آٹزم کا مریض موجود ہو، تو اس مرض کا امکان بڑھ جاتا ہے
٭بیک وقت دو یا دو سے زائد بچّوں کی پیدائش
٭ قبل از وقت بچّے کی پیدائش
٭ پیدائش کے وقت بچّے کے وزن میں کمی، حمل کے دوران کوئی پیچیدگی
٭ ماں غذائیت کی کمی میں مبتلا ہو
٭ حمل کے وقت والدین کی عْمر زیادہ ہو
٭ نشوونما کے ابتدائی دنوں میں دماغ میں کوئی نقص واقع ہوا ہو
٭ کچھ ادویات کے مضر اثرات
٭ وائرس کا کوئی حملہ اور ماحولیاتی آلودگی کے اثرات
کچھ لوگ یہ امکان ظاہر کرتے ہیں کہ والدین کے غلط رویّے سے آٹزم کا مرض پیدا ہوسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ والدین کے رویّے کا اس مرض سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حمل سے پہلے، حمل کے دوران یا بچّے کی پیدائش کے بعد والدین کا رویّہ اس مرض کے پیدا ہونے میں کوئی کردار ادا نہیں کرتا۔
پیدائش کے بعد ہر بچّہ نشوونما اور ارتقا کے مختلف مراحل سے گزرتا ہے۔ ان مراحل کا تعلق بچّے کی عْمر سے ہوتا ہے۔ اگر ان مراحل سے مناسب آگاہی ہو تو آٹزم کی بروقت تشخیص کی جاسکتی ہے۔ یہ مراحل بڑے دِل چسپ ہوتے ہیں اور ذیل کی سطور میں ہم مختصراً ان کا تذکرہ کررہے ہیں۔ خیال رہے کہ ہم جسمانی نہیں ذہنی نشوونما کے حوالے سے بات کررہے ہیں:
٭آٹھ نو ماہ کی عْمر میں بچّے کو اجنبی لوگوں کے سامنے گھبراہٹ ہوتی ہے، جسے Stranger Anxiety کہا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ دوسال کی عْمر تک جاری رہتا ہے۔ آٹزم کے بچّوں میں عموماً اس قسم کی گھبراہٹ نہیں پائی جاتی۔ انھیں اجنبیوں کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
٭نام لے کر پکارنے پر نو ماہ کی عْمر میں بچّہ خوش گوار ردِّعمل ظاہر کرتاہے۔ آٹزم کی صْورت میں یہ ردِّعمل مفقود ہوتا ہے۔
٭نو ماہ کی عْمر میں اگر بچّہ خوشی، اْداسی، حیرت اور غصّے کے تاثرات چہرے سے نہ ظاہر کرے، تو آٹزم کا خدشہ ہوسکتا ہے۔
٭ 12 ماہ کی عمر میں بچہ بڑے شوق سے دوسرے بچوں کیساتھ کھیلنا شروع کر دیتا ہے۔
٭ 12 ماہ کی عْمر ہی میں بچّہ جسمانی اشاروں کا بہ کثرت استعمال کرتا ہے۔ مثلاً ہاتھ ہلا کر الوداع کہنا۔
٭18 ماہ کی عْمر میں بچّہ اپنی پسند، دِل چسپی اور شوق کا برملا اظہار کرتا ہے۔
٭ اگر کسی دوسرے شخص کو تکلیف پہنچے، تو 24 ماہ کے بچّے کو بھی تھوڑا احساس ہوتا ہے۔ آٹزم کی صْورت میں بچّہ لاپروائی اور بے اعتنائی ظاہر کرتا ہے۔
٭ اگر 36 ماہ یا تین سال کی عْمر تک پہنچنے کے بعد بچّہ دوسرے بچّوں میں کوئی دِل چسپی ظاہر نہ کرے، تو یہ تشویش کی بات ہوگی۔
٭48 ماہ یا چارسال کی عْمر میں بچّے اداکاری کرکے اپنے آپ کو اہم شخصیت یا ہیرو کے رْوپ میں پیش کرتے ہیں۔ مثلاً سْپر مین یا اسپائڈر مین کی اداکاری کرنا۔
٭ پانچ سال کی عْمر میں بچّے دوسروں کے سامنے اکثر گانا گانے یا رقص کرنے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر میں مبتلا بچّوں کے ساتھ گفتگو کے کافی مسائل ہوتے ہیں۔ ان بچّوں میں عموماً بولنے کی صلاحیت کافی تاخیر سے پیدا ہوتی ہے۔ ایک عام بچّہ گفتگوسیکھنے کے جن ارتقائی مراحل سے گزرتا ہے، ان سے واقف ہونا ہمارے لیے فائدے مند ہوگا۔
٭ ایک سال سے پندرہ ماہ تک کا بچہ وہ الفاظ بولنا سیکھ لیتا ہے، جو دو آوازوں سے مل کر بنتے ہیں۔ مثلاً ماما، بابا اور پانی وغیرہ۔٭ 18 ماہ کی عْمر میں بچّوں کے الفاظ کا ذخیرہ 20 سے 30 تک ہوتا ہے۔ انھیں ہاں اور نہیں کا فرق سمجھ میں آجاتا ہے۔ ٭ دوسال کی عْمر میں بچّوں کے الفاظ کا ذخیرہ 50 سے 100 تک پہنچ جاتا ہے۔
وہ دو لفظوں میں اپنی خواہش کا اظہار کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ مثلاً پانی دو، باہر چلو، روٹی لاؤ وغیرہ۔ ٭ تین سال کی عْمر میں بچّے تین چار الفاظ پر مشتمل جملہ بولنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ ٭ چار پانچ سال کی عْمر کا بچّہ اپنی بات کا صحیح طور پر اظہار کرسکتا ہے اور اس کی بات اہلِ خانہ کے علاوہ اجنبی لوگ بھی سمجھ لیتے ہیں۔
ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ گفتگو میں تاخیر کی بے شمار وجوہ ممکن ہیں اور بہت سے عام صحت مند بچّے بھی تاخیر سے بولنا سیکھتے ہیں۔ اس قسم کی ایک دو علامات کی بنیاد پر حتمی تشخیص نہیں کی جاسکتی۔ ہمیں اسپیکٹرم کے باقی رنگوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے۔
آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر کے مریضوں میں بعض اوقات دیگر جسمانی وذہنی امراض بھی پائے جاتے ہیں۔ مثلاً حساسیت یا الرجی، دَمہ، مرگی، نظامِ انہضام اور کھانے پینے کے عوارض، نیند کے عوارض، ادراک و شعور کے مسائل، اْداسی اور گھبراہٹ۔ آٹزم کے مریضوں میں عام لوگوں کے مقابلے میں مرگی کے دوروں کا دس فی صد زیادہ امکان ہوتا ہے۔
آٹزم کے دس فی صد مریضوں میں کوئی نہ کوئی موروثی یا اعصابی مرض پایا جاتا ہے۔ آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر کے مریضوں کی اوسط عْمر 54 سال ہوتی ہے، جب کہ ان کے ہم عمر دیگر افراد 70سال کی عْمر تک پہنچ جاتے ہیں۔ گویا آٹزم کے مریض عام لوگوں کے مقابلے میں 16 سال کم جیتے ہیں۔
آٹزم کی حتمی تشخیص کے لیے لازمی طور پر کسی ماہر ڈاکٹر یا ماہرِنفسیات سے رجوع کرنا چاہیے۔ خوش گمانی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمیں اس تلخ حقیقت کو قبول کرنا ہوگا کہ ایسی کوئی دوا موجود نہیں ہے، جو اس مرض کا جڑ سے خاتمہ کردے۔ یہ مرض کسی نہ کسی شکل میں پوری زندگی کا احاطہ کرتا ہے۔
اس تلخ حقیقت کے باوجود صْورتِ حال مایوس کْن نہیں ہے اور سرنگ کے دوسرے کنارے پر بَھرپور روشنی موجود ہے۔ اس مرض کی شدّت تمام لوگوں میں یکساں نہیں ہوتی۔ مرض میں مبتلا لوگوں کی کثیر تعداد کو مناسب تعلیم و تربیت فراہم کی جاسکتی ہے اور وہ بَھرپور طریقے سے کام یاب زندگی گزار سکتے ہیں۔ آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر کا علاج کثیر جہتی ہوتا ہے اور اس کی مندرجہ ذیل صْورتیں ممکن ہیں۔
٭آٹزم کے ساتھ موجود جسمانی و ذہنی امراض کا معیاری علاج کیا جائے۔
٭آٹزم کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات کا علاج کیا جائے۔
٭مریض کی ضرورت کے لحاظ سے مختلف اقسام کے نفسیاتی علاج یا سائیکو تھراپی کا اہتمام کیا جائے۔
٭بات چیت اور گفتگو سکھانے کا علاج یا سپیچ تھراپی کی سہولت مہیا کی جائے۔
٭ پیشہ ورانہ علاج اور تربیت Therapy Occupational شروع کی جائے۔
٭ مریض کی تعلیمی ضروریات مدِّ نظر رکھتے ہوئے تمام ممکنہ خدمات فراہم کی جائیں۔
٭ مریض کے اہلِ خانہ کی آگاہی اور حوصلہ افزائی کے لیے باقاعدہ کوشش کی جائے۔
آٹزم کے مریض ہماری خصوصی توجّہ اور محبّت کے مستحق ہوتے ہیں۔ یہ دوسرے بچّوں سے ذرا مختلف مگر بڑے معصوم ہوتے ہیں اور اپنے آپ میں گم رہتے ہیں، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اپنی ذات کے صحرا میں بھٹکتے رہتے ہیں۔
یہ بچّے دوسروں سے باتیں کرنے کے بجائے اپنی تنہائی سے گفتگو کرتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ آٹزم کے مریض زندگی بَھر صحیح گفتگو نہیں کر پاتے۔ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ مریضوں کی اکثریت وقت کے ساتھ الفاظ کے استعمال کا ڈھنگ سیکھ لیتی ہے اور پچاس فی صد مریض روانی سے گفتگو کرنے کا ہنر جان جاتے ہیں۔ آٹزم کے بچّے اندر سے بے رحم نہیں ہوتے۔
وہ دوسروں کی مدد کرنا چاہتے ہیں، مگر اپنے حقیقی جذبات کا اظہار نہیں کر پاتے۔ سماجی رابطوں کا بھی یہی معاملہ ہے۔ یہ لوگ تعلقات بنانا چاہتے ہیں، مگر اس ہنر سے واقف نہیں ہوتے۔
آٹزم کے مریضوں کے بارے میں یہ عمومی تصوّر پایا جاتا کہ یہ مریض Retardation Mental یا ذہنی پس ماندگی کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ تصوّر درست نہیں ہے۔ آٹزم کے مریض ذہانت کے اعتبار سے غیر معمولی ہوسکتے ہیں۔ اوسط درجے کے ذہین ہوسکتے ہیں اور ان کی ذہانت معمولی درجے کی بھی ہوسکتی ہے۔
بلاشبہ کچھ مریض ذہنی پس ماندگی کا بھی شکار ہوتے ہیں۔ آٹزم کے مریضوں کا ذہن انتہائی تخلیقی ہوسکتا ہے اور وہ سائنس اور فنونِ لطیفہ کی بْلندیوں پر جاسکتے ہیں۔ نیوٹن اور آئن سٹائن جیسے عظیم سائنس دان، اینڈی وارہول جیسے عظیم فلم ساز، ہدایت کار اور اداکار، بل گیٹس جیسے عالمی شہرت یافتہ لوگ امکانی طور پر آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر میں مبتلا تھے۔
آٹزم اسپیکٹرم ڈس آرڈر کے بچے ہماری محبّت اور شفقت کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہمیں آگے بڑھ کر ان بچوں کا ہاتھ تھامنا ہے اور تنہائی کے عذاب سے باہر نکالنا ہے۔ ہماری محبّت انھیں معاشرے کا کارآمد فرد بناسکتی ہے۔
مت رو بچّے
تیرے آنگن میں
مْردہ سورج نہلا کے گئے ہیں
چندرما دفنا کے گئے ہیں
مت رو بچّے
امّی، ابّا، باجی، بھائی
چاند اور سورج
تو گر روئے گا تو یہ سب
اور بھی تجھ کو رلائیں گے
تو مْسکائے گا تو شاید
سارے اِک دِن بھیس بدل کر
تجھ سے کھیلنے لوٹ آئیں گے
(ڈاکٹر افتخار برنی، اسلام آباد میں نفسیاتی امراض کے ماہر اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے مرکزی جنرل سیکرٹری ہیں۔)
The post اسپیشل بچوں کو تنہا نہ چھوڑیں! appeared first on ایکسپریس اردو.