Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

تباہی کے بعد جاپان بھی تعمیر ہوا، میڈیا کو چاہیے کہ لوگوں میں امید پیدا کرے، ڈاکٹر شبیب الحسن

$
0
0

آنے والے کچھ برسوں میں شہرِقائد کی ’وسعتوں‘ کو بیان کرنے والی مرکزی شاہ راہ ’نادرن بائی پاس‘ مستقبل کی بہتیری ہاؤسنگ اسکیموں اور وغیرہ وغیرہ نشان زد آنے والے وقتوں کی عالی شان سوسائٹیوں کی خبر دیتی سنسان اور بے آب وگیاہ راہوں سے گزرتی جا رہی تھی۔۔۔

اُس روز ہماری منزل شہر کی معمول کی آبادی سے کچھ پرے تھی۔۔۔ کتنی عجیب بات ہے کہ گذشتہ دنوں کراچی میں ایسا ہی ایک اور طویل سفر ایک بالکل ہی مخالف سمت میں بھی درپیش رہا، لیکن صاحب، دونوں منزلوں میں سوائے کراچی شہر سے فاصلے کی طوالت کے سوا کوئی اور چیز شاید مشترک نہ تھی۔۔۔ آج ہم اپنے عہد کے ایک بے مثل مفکر اور مدبر جناب حکیم محمد سعید کے قائم کردہ شہرِعلم وحکمت کی جانب گام زن تھے۔۔۔ جب کہ وہ سفر کراچی کے ’ٹول پلازہ‘ کے چند کلو میٹر پار ایک مشہورِ زمانہ ہاؤسنگ اسکیم ہے، جسے دیکھ کر ’جنگل میں منگل‘ کا خیال آتا ہے۔۔۔ سپر ہائی وے سے جوں ہی انتظامی طور پر ’کراچی‘ بتائے گئے۔

کراچی کے جغرافیے سے الگ تھلک اس ’ٹاؤن‘ میں داخل ہوئیے، تو ایک الگ ہی دنیا دکھائی دیتی ہے، لیکن ہم آج جس نگر پہنچے، تو ’جنگل میں منگل‘ کا احساس تو یہ چھوٹا سا ’شہر‘ بھی پہنچا رہا تھا۔۔۔ لیکن یہ پرتعیش مکانات اور بلند وبالا رہائشی عمارات سے قطعی آراستہ نہ تھا، بلکہ اس میں جو کچھ تھا۔

وہ سب علم ودانش اور حکمت سے منسلک تھا۔۔۔ یعنی آٹھویں صدی میں خلیفہ مامون الرشید کے بغداد شہر میں قائم سائنس وحکمت کے عظیم مرکز ’بیت الحکمہ‘ کی طرز پر قائم ’مدینۃ الحکمہ‘۔۔۔! جو حکیم محمد سعید کی زندگی کا ایک ایسا کارنامہ ہے، جس کی پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ ہم نے ’مدینۃ الحکمہ‘ کا تذکرہ بچپن سے حکیم محمد سعید کی کتابوں میں بُہتیرا پڑھا، لیکن یہاں آنے کا یہ پہلا اتفاق تھا۔ اور اس سفر کا مقصد ’مدینۃ الحکمہ‘ میں قائم جامعہ ہمدرد کے شیخ الجامعہ ڈاکٹر سید شبیب الحسن کا انٹرویو تھا، جن سے ’ہمدرد‘ کے حوالے سے لے کر تعلیم اور سماج سے لے کر کچھ قومی امور پر بھی ایک اہم گفتگو ہوئی۔

ڈاکٹر سید شبیب الحسن 2017ء میں ’ہمدرد یونیورسٹی‘ کے شیخ الجامعہ بنے، اس وقت کی یادیں تازہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’’تب انھوں نے تین چیزیں سامنے رکھیں، طلبہ کی شمولیت، تحقیق اور ’ہائر ایجوکیشن کمیشن‘ اور دیگر ریگولیٹری اتھارٹیز سے تعلقات۔‘‘

اُن کا ماننا ہے کہ ’’جامعہ صرف ’جماعت کا کمرے‘ نہیں، بلکہ یہ ایک پوری شخصیت سازی کا نام ہے، کسی بھی جامعہ سے زانوئے تلمذ طے کرتے ہوئے ہم کسی بھی شعبے میں جانے سے پہلے خود کو اور اپنی صلاحیتوں کو ایک حتمی شکل دے رہے ہوتے ہیں کہ کس طرح میں سماج میں اپنا موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے کلاس کے بعد کے وقت میں بھی یونیورسٹی سے تربیت ہونی چاہیے، نصابی اور غیر نصابی۔‘‘

ڈاکٹر سید شبیب الحسن کہتے ہیں کہ کھیلوں سے لے کر خطابت اور فوٹوگرافی تک، جس شعبے میں بھی طالب علم کی دل چسپی ہو، وہ اُسے اپنائے اور یونیورسٹی میں اسے موقع ملے۔

ہر بچہ دوسرے بچے سے منفرد ہے۔ ابھی تک ہم اسی سوچ میں رہتے ہیں کہ ایک ہی امتحانی پرچے اور ایک ہی کلاس سے بچے کی قابلیت جانچیں، جب کہ بچہ اگر کوئی ایک مضمون اچھا نہیں پڑھ سکتا، لیکن دوسرے میں بہتر ہو سکتا ہے۔ کہیں ’تھیوری‘ میں اچھا نہ ہو ’پریکٹیکل‘ میں زیادہ بہتر ہو۔ یہ جانچ اور پھر اس کی معاونت ہو تاکہ اس کی صلاحیت کو نکھار سکیں۔ اگر ایسا نہ کریں، تو صلاحیت ضایع ہو جاتی ہے۔‘‘

’’ہم بہت سا ٹیلنٹ مسابقت میں ضایع کر رہے ہوتے ہیں۔۔۔!‘‘

ڈاکٹر شبیب الحسن کی اس قابل غور اور گہرے نکتے کو ہم نے مزید کریدنا چاہا اور اس مسابقت کے متبادل کی بات کی تو وہ بولے: ’’یعنی طالب علم خود میں جس رجحان کو بھی پاتا ہے، اس کا اظہار کرے اور اسے اختیار کرنے کی آزادی رکھے، پریشان نہ ہو۔ 2019ء میں کچھ ایسے ڈاکٹر کھیلوں کے پروگرام میں گئے، جہاں سے تین کو والی بال کی نیشنل ٹیم کے لیے بلا لیا گیا، یعنی ان کے اندر یہ صلاحیت ہوگی کہ وہ کھیلوں میں آگے جا سکتے تھے۔‘‘

’جامعہ ہمدرد‘ میں تحقیقی بڑھوتری کے حوالے سے وہ بتاتے ہیں کہ ’’پشاور میں انڈر گریڈ ریسرچ کانفرنس میں پہلے پانچ انعام ہمدرد یونیورسٹی کے حصے میں آئے ہیں۔ ہم تعلیمی نظام میں تحقیق کا نام تو لیتے ہیں، لیکن تحقیق کیسے اور کہاں ہوگی یہ نہیں سکھایا جاتا۔ اسکول کالج یا یونیورسٹی میں بنیادی چیز جو ہے کہ ’سوال پوچھنا‘ بچے کو اس کا سلیقہ یا حوصلہ ہی نہیں دیتے۔ جس سے بچے کے ذہن میں اٹھنے والی الجھنیں دور نہیں ہوتیں۔ جب اسے سوال پوچھنے کا اعتماد نہیں ملے گا، تو وہ آگے نہیں بڑھے گا، نتیجتاً تحقیق نہیں ہوگی اور پھر وہ تحقیق کے نام پر اِدھر اُدھر سے ’نقل‘ ہی کرے گا۔ جس کا کوئی فائدہ نہیں۔‘‘

’ہمدرد یونیورسٹی‘ کے تحقیقی ثمرات پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر شبیب الحسن نے بتایا کہ ’’ہم نے اس سال 45 پیٹنٹ (Patent) یا ’سند حقِ ایجاد‘ کی درخواستیں جمع کرائی ہیں۔ جس میں سے 13 منظور ہو چکی ہیں۔‘‘

ہم نے اس حوالے سے شعبہ جات دریافت کیے، تو انھوں نے بتایا کہ مشرقی ادویات، فارمیسی اور انجینئرنگ وغیرہ شامل ہیں۔ سالانہ ایسی درخواستوں کے استفسار پر وہ بتاتے ہیں کہ ’’پہلے یہ روایت نہیں تھی، اب ہم نے اس سطح پر سوچنا شروع کیا ہے۔‘‘

انھوں نے انکشاف کیا کہ اس سال انجینئرنگ سے لے کر سماجی علوم (سوشل سائنس) تک کے 322 تحقیقی مقالہ جات ’ڈبلیو‘ زمرے میں شامل ہوئے۔ جب کہ جامعہ ہمدرد کے گذشتہ 25 سالوں میں ایسے کُل مقالہ جات ہی کی تعداد 800 کے قریب ہے، جس میں سے 322 صرف اس ایک برس کی ہیں۔ ہم نے یہ رجحان بنایا ہے۔‘‘

ڈاکٹر شبیب الحسن نے یہ انکشاف کیا کہ 2017ء میں جب وہ ’ہمدرد یونیورسٹی‘ آرہے تھے، تو یہاں بے پناہ مسائل تھے، دوست احباب انھیں روکتے تھے کہ وہاں نہیں جاؤ، وہاں حالات ٹھیک نہیں، وہ یونیورسٹی تو بند ہو رہی ہے! لیکن میں نے یہاں اس شکست خوردہ ماحول کو تبدیل کر کے چیزیں درست ڈگر پر لانا شروع کیں۔

یہ پہلا مرحلہ تھا۔ اب اگلا مرحلہ یہ ہے کہ کیسے الگ اور منفرد نظر آنا ہے۔ کسی کی طے شدہ سوچ پر کام کرنا مشکل ہوتا ہے۔ بچے اب بہت سی چیزوں کو خود سے کرنا چاہتے ہیں، اب بچے اپنی یونیورسٹی کی نمائندگی کرنا چاہتے ہیں۔

اس میں وہ سارے طور اطوار اور ساری اقدار آتی ہیں۔ ’ہمدرد‘ کی روایتی ’نونہال اسمبلی‘ اب یہاں منعقد ہوتی ہے، تاکہ پتا چلے کہ اس طرح بچوں کی تربیت ہوتی ہے۔ ہم نے ڈبیٹینگ سوسائٹی، موسیقی اور کھیلوں کے حوالے سے کام کیا۔

’’جامعات کے کیا کام ہیں، جو وہ نہیں کر رہیں؟‘‘ بطور وائس چانسلر ہم نے اُن کا نقطہ نظر جاننا چاہا، جس کا ایک بڑا مختلف جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’وہ بچوں کو اتنا وقت نہیں دے رہے، جتنا وقت دینا چاہیے، یہ مسئلہ کالجوں اسکولوں سے لے کر گھر میں بھی موجود ہے۔ ہم اپنے بچوں کے ساتھ کھڑے نہیں ہوتے۔

اِن توقعات زیادہ رکھتے ہیں۔ جیسے اساتذہ کہہ دیتے ہیں کہ کچھ کام ہے، اس لیے وہ کلاس نہیں لے سکتے، جس سے کلاس کے بچوں کا وقت ضایع ہوتا ہے۔ کسی بچے کو اضافی توجہ چاہیے، وہ نہیں دے رہے۔ حوصلہ افزائی نہیں ہے، اس کے بغیر یونیورسٹی نہیں ہے، نہ وہ اسکول نہ وہ کالج۔‘‘

مجموعی طور پر تعلیمی نظام کی بہتری کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ’’ہمیں یہ سوچ بنانی پڑے گی کہ بچے کو وہ شفقت، محبت دوں گا، تو جواباً میرے بچے کو بھی وہی توجہ اور شفقت مل رہی ہوگی۔ دراصل صرف تعلیم کو نہیں، بلکہ مجموعی طور پر ہمارے پورے معاشرے کو اس کی ضرورت ہے۔ تعلیمی نظام اس کا ایک جزو ہے۔

پہلے ہمارے محلے کے بڑے سارے بچوں کا خیال رکھتے اور گھروں پر شکایت بھی کر دیتے تھے، جب کہ آج کسی کو کچھ کہہ نہیں سکتے، لحاظ اور برداشت ختم ہو گئی ہے۔

اسکولوں میں جہاں بچوں کا ذہن بن رہا ہوتا ہے، وہاں ساری باگ ڈور ان کے ہاتھ میں دے دی ہے،گھروں میں بچے ٹی وی اور موبائل دیکھتے ہوئے ہی کھانا کھاتے ہیں۔ انھیں کوئی روک ٹوک نہیں۔ بڑے ان کی ہر جائز اور ناجائز بات مانتے ہیں۔ پھر یونیورسٹی میں آکر ہم یہ توقع کریں کہ وہ ٹھیک ہوگا۔ اس سطح پر یہ مشکل کام ہے۔ اسکول تعلیم کو بہتر کیے بغیر ہماری تعلیم یا یونیورسٹیاں بہتر نہیں ہو سکتیں۔

’’ملک کی معاشی صورت حال اب بدترین سے بھی آگے نکلتی جا رہی ہے۔ پہلے ہمارے حالات صحیح نہیں ہو رہے تھے اور اب بہت تیزی سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں، ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں بہت زیادہ ہوگئی ہیں کہ قرض نہ ملا تو ہمارا گزارا ہی نہیں ہے؟‘‘

وہ کہتے ہیں کہ ’’ہے تو حقیقت، مانیں یا نہ مانیں۔۔۔‘‘ اس کے حل کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’’کرنا تو ہمیں ہی ہوگا، ہم تعلیم کے شعبے سے منسلک ہیں، تو ہمیں چاہیے کہ مثبت رہیں، اپنے حصے کا کام کریں، ہمیں اپنی صلاحیتوں پر توجہ دینی چاہیے۔

اس کے بعد ملک یا بیرون ملک کام کریں، اپنے حصے کا کام کر سکتے ہیں، بس اپنے حصے کا کام کریں گے، تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ لیکن ہم اپنا عمل نہیں دیکھ رہے، بلکہ دوسروں کو کہہ رہے ہیں کہ اس نے یہ کر دیا وہ کر دیا۔ ہمارا معاشی مسئلہ ایسا نہیں ہے۔

ہمارے ٹی وی چینل دیکھنے سے ڈپریشن ضرور ہوتا ہے، اور اپنے بچوں کے ساتھ رہیں تو ایک امید ملتی ہے، وہ نئے مواقع تخلیق کرتے ہیں۔‘‘

ہم نے کہا کہ اب ملک سے باہر جانے کی بات بہت زیادہ ہوگئی ہے؟ جیسے خدانخواستہ کسی ڈوبتے ہوئے جہاز سے لوگ کودتے ہیں؟‘‘

وہ کہتے ہیں کہ میں اب بھی ایسا نہیں کہتا، جو بھی کہہ رہا ہے، وہ ذرایع اِبلاغ کے ذریعے زیادہ ہے۔ میڈیا اس کے بہ جائے لوگوں کو خود پر بھروسا کرنا سکھائے۔ امید ختم نہ کریں، اللہ اس قوم کی مدد نہیں کرتا، جو خود اپنی مدد نہیں کرتی۔ رزق اللہ کو دینا ہے۔

اپنے حصے کا کام کریں، بچے پڑھیں، مثبت رہیں اور اپنی صلاحیتوں کے لیے موقع تلاش کریں۔ جس دن یہ یقین کرلیا، سمجھیے آدھا کام ہوگیا۔ نشیب وفراز کے مراحل تو آتے ہیں۔ ملک جنگ کے بعد بھی بنتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں جاپان بھی تو تباہ ہوا، تو کیا وہ ختم ہوگیا۔۔۔؟‘‘

’’مگر ہم جاپان تو نہیں ہیں؟‘‘ ہم نے ایک ٹکڑا لگایا۔

’’ہمیں تو زیادہ یقین ہونا چاہیے۔‘‘ انھوں نے جواب دیا۔

’’ہمارے ہاں تو کوئی نظام ہی تو موجود نہیں؟‘‘ ہمارے اس سوال پر انھوں نے بھی پوچھ لیا کہ ’’سسٹم کون بنائے گا؟‘‘

ہم نے عرض کیا کہ کیسے بنے گا؟ یہاں مضبوط جاگیردارنہ شکنجہ ہی اتنا سخت ہے۔ وہی گنے چنے خاندان مختلف جماعتوں کے ذریعے بار بار اقتدار میں آجاتے ہیں۔ ملک کے ’’مالکان‘‘ بھی کسی نہ کسی طرح اقتدار میں اپنا سلسلہ برقرار رکھتے ہیں؟

’’ملک کے ’سرپرست‘ جس طرح کریں گے، انھیں بھی یہ ملک چلانا ہی ہے۔ تبدیلی مثبت انداز سے آئے گی۔ اس کے خلاف آواز بھی اٹھے گی، ایک حد تک خرابی جائے گی، اس سے نیچے تو کوئی حد نہیں ہے، پھر تو اوپر ہی آنا ہوتا ہے۔‘‘

ملک پر قرضوں کے بوجھ اور سود کے بڑھتے ہوئے دباؤ کے تذکرے پر بھی وہ کہتے ہیں کہ امید رکھنی چاہیے۔ اس حوالے سے حکیم محمد سعید کے افکار کا تذکرہ ہوا کہ قرضوں کے مقابل وہ کہتے تھے کہ نجات اسی میں ہے کہ ’’دیوالیہ ہو جائیے۔۔۔!‘‘ کہ اس کے بغیر آپ قرضوں کی اس دلدل سے باہر نہیں آسکتے؟

وہ کہتے ہیں کہ ’’آپ اس پوزیشن پر آچکے ہیں۔۔۔!‘‘

ہم نے کہا پہلے ہم مزید قرضوں پر تو روک لگالیں، وہ کہتے ہیں کہ جو ہوگا بہتر ہوگا۔

ہم نے ’جامعہ ہمدرد‘ کی ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی درجہ بندی (رینکنگ) سے متعلق پوچھا، تو ڈاکٹر شبیب نے کہا کہ ’’میں رینک پر یقین نہیں رکھتا، میرا اصل تعلق اس بات سے ہے کہ آپ کے بچے کیا سوچتے ہیں؟ وہ جو سوچ لے کر آیا تھا، اسے وہ ملا یا نہیں ملا۔ اس کے مسائل سنے گئے؟ اور اسے حل کیا گیا یا نہیں؟ مجھے ’ایچ ای سی‘ سے زیادہ اپنے اندر کی مضبوطی پر دھیان دینا ہے۔‘‘

’’کیا آپ ’ایچ ای سی‘ کے پیمانوں سے مطمئن نہیں؟‘‘ ہمارے ذہن میں منطقی طور پر یہ سوال ابھرا۔ وہ بولے:

’’اس کی بات نہیں ہے، خود اپنی جانچ ہونی چاہیے، کہ خود دیکھیں، ہم جو کام کر رہے ہیں، اسے کیسے مزید بہتر کریں گے، ہمیں خود پتا ہونا چاہیے کہ اپنے کام کو بہتر کیسے کر سکتے ہیں۔ چہ جائے کہ کوئی دوسرا کہے۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ ’’ہمارے سوشل سائنسز کے پروگرام کو ’ایچ ای سی‘ نے ’ایکس‘ کیٹگری دی ہے، جو پاکستان میں صرف دو یا تین جامعات کے پاس ہے۔

اسی طرح انجینئرنگ کے پروگرام کا لیول ٹو پر ہے، وہ دنیا میں کہیں بھی جائے گا، اسے مزید امتحان دینے کی ضرورت نہیں ہے، اسے بہ آسانی مزید تعلیم اور ملازمت مل سکتی ہے۔ یہ معیار کی بات ہے۔ اصل ہمارے لیے یہ اہمیت رکھتی ہے۔‘‘

ہم نے کہا ’’چلیے پھر معیار ہی کی بات کر لیتے ہیں، رینکنگ چھوڑ دیتے ہیں؟‘‘ انھوں نے بتایا کہ معیار اسی طرح بہتر ہوگا کہ ’ایچ ای سی‘ سمیت تمام کونسل سراہیںکہ سب چیزیں منظم اور معیاری ہیں۔ وہ جانچ کریں، کوئی بھی رینکنگ دیں، لیکن اگر میں بہتر کر رہا ہوں، تو میں خود مطمئن ہوں۔‘‘

’’پھر ہم کیسے یہ تعین اور پیمائش کریں گے کہ کون سی یونیورسٹی بہتر ہے؟‘‘ ہم نے ڈاکٹر شبیب کے معیار کے پیمانے کو مزید جاننے کی کوشش کی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ ’’بچوں سے مل کر پتا چلے گا، بچہ کہتا ہے کہ یہاں داخلہ لو، رینکنگ کی وجہ سے نہیں، بلکہ مطمئن ہو کر جائے اور خوش ہو کہ وہی ماحول اور جو چیزیں درکار تھیں، وہ سب ملا۔ رینکنگ اچھی ہو جائے، لیکن بچہ مطمئن نہیں، تو مجھے ایسی مصنوعی چیز نہیں چاہیے۔

جب یہاں آیا تھا، تو یہاں 40 پروگرام تھے، اب 79 پروگرام ہیں۔ سماجی علوم میں انگریزی، تعلیم، نفسیات، اسلامک اسٹڈیز ہیں، پہلے انھیں ’ایم فل ’پی ایچ ڈی‘ تک لے کر جانا ہے۔ رواں برس مختلف شعبہ جات کے 22 ’پی ایچ ڈی‘ فارغ ہوئے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر شبیب الحسن کا خیال ہے کہ ’کوویڈ‘ کے بعد مشرقی طریقۂ علاج کی اہمیت بڑھ گئی ہے، ہمارے ہاں اسے اتنی اہمیت نہیں دی گئی، جتنی اردگرد ممالک میں ملی، عالمی ادارۂ صحت اِسے مان رہا ہے، لیکن ہم نے اسے نہیں سمجھا۔ کثیرالقومی اپنی ہربل مصنوعات لا رہی ہیں۔

ہمارے ہاں حکیم سعید کے بعد اس میں خلا موجود ہے، ان کی بات حکومتی حلقوں میں بھی سنی جاتی تھی۔ حکومتوں کو چاہیے اس پر توجہ دیں کہ یہ صدیوں سے مستند طریقۂ علاج ہے۔ اس سے فائدہ ہی ہوگا نقصان نہیں۔

The post تباہی کے بعد جاپان بھی تعمیر ہوا، میڈیا کو چاہیے کہ لوگوں میں امید پیدا کرے، ڈاکٹر شبیب الحسن appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles