اسلام آباد: چند سال قبل ایک امریکی بینک کار نے 1980 سے ریاضی دانوں کے لئے بنے ہوئے ایک ریاضی کے مسئلے کو حل کرنے پر 10 لاکھ ڈالر انعام کا اعلان کیا تھا، یہ انعام اب تک حاصل نہیں کیا جاسکا۔
ڈلاس کے بینک کار ڈی اینڈریو بیل نے سب سے پہلے 1997 میں اس سوال کو حل کرنے پر پانچ ہزار ڈالرز انعام کی پیش کش کی تھی، جو وقت کے ساتھ ساتھ اب دس لاکھ ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ ماہرین کے مطابق’’بیل کن جکچر نمبر تھیوری پرابلم‘‘ نامی ریاضی کا یہ مسئلہ حل کرنا سیکڑوں سال بعد حل ہونے والے ریاضی کے متعدد سوالوں کے مقابلے میں اب بھی مشکل ہے۔
اینڈریو بیل کا کہنا ہے کہ وہ اس انعام کے ذریعے لوگوں کی توجہ ریاضی پر مرکوز کرنا چاہتا ہے ۔اگر آپ بھی راتوں رات لکھ پتی بن کر پاکستانی حساب سے کروڑ پتی بننا چاہتے ہیں؟ تو ریاضی کا یہ ننھا منا سا مسئلہ حل کریں اور اپنا خواب پورا کرلیں، مگر ٹھہریے! کہیں ایسا نہ ہو ’’ ایک عورت نے دوسری عورت سے کہا میں نے اپنے شوہر کو شادی کے دوماہ بعد ہی لکھ پتی بنا دیا ہے، دوسری نے پوچھا، تو کیا وہ پہلے بہت غریب تھے؟ جواب ملا ’نہیں پہلے وہ کروڑ پتی تھے‘ اس لیے ایک دوسرا آپشن بھی موجود ہے،اس پر بھی غور کر لیجے!
حال ہی میں امریکی جریدے ٹائمز نے عزت، دولت اور شہرت کمانے کا ایک آسان حل بتایا ہے، جس کے مطابق دولت کا حصول نہایت آسان ہے اور صرف چند اقدامات کے بعد ارب پتی بنا جا سکتا ہے، یوں دولت آپ کی لونڈی بن جائے گی۔اس طرح ارب پتی بننے کے لیے تین کام کرنے ہوں گے۔ اول،اپنا ملک چھوڑ کر ہانگ کانگ جانا پڑے گا، دوئم وہاں جاکر کسی بہترین یونی ورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینا ہوگی، سوئم، ان مراحل کے بعد برطانیہ منتقل ہونا پڑے گا جہاں آپ کو قانونی سطح پرکوئی کاروبار شروع کرنا ہو گا۔ برطانیہ کا قانون آپ کو کفالت فراہم کرے گا اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے آپ کروڑ پتی بن جائیں گے اور اس کے بعد ارب پتی، پھر آپ کا شمار بھی دنیا کے ارب پتی افراد میں ہونے لگے گا۔
رپورٹ میں ایسے ہی ایک 1000 افراد کا تذکرہ ہے،جنہوں نے یہ طریقہ اپنایا اور آج وہ برطانیہ میں ارب پتیوں میں شمار ہو رہے ہیں۔ ہانگ کانگ سے اعلیٰ تعلیم کے بعد آپ برطانیہ کے علاوہ کسی دوسرے ملک کا انتخاب بھی کر سکتے ہیں مگر وہ ملک ایسا ہونا چاہیے جہاں آپ پر ٹیکسوں کا بوجھ کم سے کم ہو، کاروبار کے لیے آسان شرائط اور قوانین سہل ہوں۔ رپورٹ کے مطابق موجودہ دور میں اعلیٰ تعلیم کے اعتبار سے ہانگ کانگ بہترین ملک ہے۔
وہاں کے فاضل دنیا بھر میں کاروبار کر رہے ہیں اور نہایت کام یاب ہیں۔ ہانگ کانگ کی پوری دنیا سے دوستی ہے اور اس کا کوئی دشمن نہیں۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ پوری دنیا سے لوگ وہاں پر کھنچے چلے آتے ہیں اور وہ کام یاب بھی ہو جاتے ہیں۔ ہر دس لاکھ افراد میں تین کام یاب کاروباری شخصیات صرف ہانگ کانگ میں ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ہانگ کانگ کا سفر اور وہاں کی اعلیٰ تعلیم آپ کو بہترین روزگار کے ساتھ روشن مستقبل اور کاروبار کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔اس اعتبار سے ہانگ کانگ کا شمار پہلے نمبر پر ہوتا ہے۔ دوسرے نمبر پر اسرائیل ہے، تیسرے پر امریکا، پھر سوئیزر لینڈ اور پھر سنگاپور۔
برطانیہ کاروباری میدان میں عالمی شہرت کے باوجود گیار ہویں نمبر پر ہے مگر ایک نئے عالمی مطالعاتی جائزے کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ ارب پتی لوگ لندن میں پائے جاتے ہیں، جن کی تعداد 102 ہے اور ان میں سے 72 لندن میں رہائش پذیر ہیں۔ ارب پتیوں کی یہ تعداد کسی ایک شہر میں سب سے زیادہ ہے۔ حال ہی میں برطانوی اخبار سنڈے ٹائمز نے اس جائزے کے نتائج پر مشتمل ایک فہرست شائع کی ہے، جو ہانگ کانگ سے برطانیہ کی طرف سفر کے اس فارمولے کو درست قرار دیتی ہوئی نظر آتی ہے۔
ارب پتی افراد کی اس فہرست میں شمولیت کا معیار یہ ہے کہ متعلقہ فرد برطانوی کرنسی میں ایک ارب پاؤنڈ سے زیادہ املاک کا مالک ہونا چاہیے، یعنی امریکی کرنسی میں اس کے اثاثوں کی مالیت 1.6 ارب ڈالر سے زیادہ ہو۔ اس جائزے سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ مجموعی آبادی اور اس میں ارب پتی افراد کے تناسب کے لحاظ سے بھی برطانیہ دنیا بھر میں سب سے آگے ہے۔برطانیہ میں ہر چھے لاکھ سات ہزار شہریوں میں سے ایک ارب پتی ہے۔
اس کے برعکس امریکا میں تقریباً ہر ایک ملین(دس لاکھ) شہریوں میں سے ایک ارب پتی ہے۔ ایک غیر سرکاری عالمی تنظیم اوکسفام کی تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ برطانیہ کے پانچ ارب پتی خاندانوں کے مشترکہ اثاثوں کی کل مالیت 20 فی صد غریب برطانوی آبادی کی دولت کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ برطانیہ کے پانچ ارب پتی خاندانوں کی مال ودولت کا تخمینہ 28.2 ارب پونڈ لگایا گیا ہے جو کہ غریب آبادی پر مشتمل 20 فی صد گھرانوں کی مشترکہ دولت 28.1 ارب پونڈ کے مقابلے میں زیادہ ہے۔اوکسفام نے متنبہ کیا ہے کہ برطانیہ کے امیر ترین 0.1 فی صد آبادی کی آمدنی میں تقریباً چار گنا تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس سے معاشرے میں شدید عدم مساوات پیدا ہو رہی ہے۔
موجودہ رپورٹ اقتصادی ناکامی کی علامت ہے۔اوکسفام نے اس رپورٹ کے حوالے سے شدید فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا عدم مساوات ایک شیطانی دائرہ ہے جس میں دولت اور طاقت محض چند ہاتھوں تک مرکوز ہو کر رہ گئی ہے اور باقی لوگوں کو بہت پیچھے چھوڑیا گیا ہے ۔
جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سرمایہ دار طبقہ کے مفادات کی خاطر مسلسل قوانین بنائے جا رہے ہیں مثلاً زیادہ آمدنی والوں پر کم ٹیکس عائد کرنے کی پالیسیاں بنائی جارہی ہیں۔اوکسفام کے نتائج جنوری2014 میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کے تناظر میں پیش کیے گئے ہیں جس میں بتایا گیا تھا کہ دنیا کے 85 ارب پتیوں کے مشترکہ اثاثوں کی کل مالیت تقریباً نصف دنیا کی آبادی کی دولت کے مساوی ہے۔ اوکسفام کے ڈائریکٹر بین فلپ نے کہا کہ برطانوی قوم ایک گہری تقسیم کا شکار ہے ایک طرف اشرافیہ یا امیر طبقے کی آمدنی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری جانب غریب طبقے کے لیے بنیادی ضروریات کو پورا کرنا مشکل ہو چکا ہے۔
دنیاکے چند درویش صفت ارب پتیوں کا احوال
کہا جاتا ہے کہ دولت انسان کو اندھا، بہرا اور گونگا بنا دیتی ہے لیکن دنیا میں آج بھی ایسے صاحب ثروت ہیں جو دولت کے انباروں کے مالک ہونے کے باوجود سادگی کا جیتا جاگتا نمونہ ہیں، ان کے بارے میں پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ شاید انہوں نے خود کو دولت کے شر سے محفوظ کر لیا ہے۔
العربیہ ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے پانچ ارب پتی لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے تمام تر وسائل کے باوجود تکلفات اورپرتعیش زندگی پر سادہ طرز حیات کو ترجیح دے رکھی ہے۔ کینیڈا میں آن لائن انسائیکلوپیڈیا آف انویسٹمنٹ ’’انفسٹوپیڈیا‘‘ اور دیگر ویب سائٹس نے بھی ان امیر ترین شخصیات کے سادہ طرز حیات پر رپوٹیں شائع کی ہیں۔
وارین بفِٹ warren Buffett
بزنس جریدے ’’فوربز‘‘ کے مطابق امریکی بازار حصص کے سب سے بڑے بروکر اور’’پیرک شیئر ہاتھا وائے‘‘ کمپنی کے مالک ’’وارین بفٹ‘‘ بھی ان پانچ عالمی امیر ترین شخصیات میں شامل ہیں،جو اپنی بے پناہ دولت کے باوجود سادہ طرز زندگی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
مسٹر وارین کی مجموعی دولت کا اندازہ 50 کروڑ ڈالرز لگایا گیاہے، اتنی دولت کے باوجود وہ کسی عالی شان محل کے بہ جائے ایک سادہ سے گھر میں رہتے ہیں، یہ گھر انہوں نے امریکی ریاست نبراسکا کے شہر اوھایو میں پچاس سال قبل 31,500 ڈالر میں خریدا تھا۔ بفٹ اپنی کار خود چلاتے ہیں، منہگے سیِلون کے بہ جائے ایک سادہ سی حجام کی دْکان سے بارہ ڈالرز میں کٹنگ اور شیو بنوا لیتے ہیں،امیر ہونے کے باوجود غریب لوگوں کے ساتھ ان کے تعلق کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ سال ہا سال سے ایک غریب اخبار فروش سے اخبار خریدتے چلے آ رہے ہیں۔
کارلوس سلم Carlos Slim
میکسیکو کے لبنانی نژاد کروڑ پتی کارلوس سلم بھی ان ہی ‘‘سادہ امیروں’’ کی فہرست میں شامل ہیں۔ سلم کی دولت کا اندازہ قریباً 74 کروڑ ڈالرز لگایا گیا ہے۔
وہ بھی سفر کے لیے خصوصی طیارہ یا ہیلی کاپٹر استعمال نہیں کرتے ،گذشتہ چالیس سال سے ایک درمیانے درجے کے مکان میں رہ رہے ہیں۔ پرانے ماڈل کی مرسڈیز کار ان کی اکلوتی ٹرانسپورٹ ہے، جسے وہ خود چلاتے ہیں۔
انگوار کامپراڈ Ingvar Kamprad
سویڈش کروڑ پتی اور’’ایکیا‘‘ فرم کے مالک انگوار کامپراڈ بھی سادہ طرز حیات پریقین رکھنے والے امیر ترین تاجرہیں۔کہتے ہیں’’میرے گاہکوں کے نزدیک میرا مال میری حیثیت کا آئینہ دار نہیں ہونا چاہیے بل کہ میری شخصیت ہی میری آئینہ دار ہونی چاہیے‘‘۔
ان کا یہ قول بھی مشہور ہے کہ ایکیا کمپنی کی مصنوعات وہی لوگ خریدتے ہیں جو گراں قیمت کاروں میں سفراور عالی شان ہوٹلوں میں قیام نہیں کرتے، میرے لیے یہ ہی فخر کی بات ہے۔ وہ خود بھی پرانے ماڈل کی’’والوو 240 جی ایل’’ گاڑی میں سفر کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں کاروبار کے دوران ہی سیروسیاحت کرتا ہوں۔ معمولی نوعیت کے کاموں کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتا ہوں اور طویل سفرمیں اپنی کار خود چلاتا ہوں۔
چاک فینیChuck Feeney
آئرش نژاد امریکی ارب پتی ’’چاک فینی‘‘ کی سادگی بھی ان کے اپنے الفاظ سے جھلکتی ہے۔ کہتے ہیں ’’میں دولت کا خریدار نہیں بل کہ محنت کو فروغ دینا ہی میرا نصب العین ہے‘‘۔ چاک ایک بڑی بروکر کمپنی کے مالک ہیں۔ ان کی دولت کا ایک وافر حصہ فلاحی تنظیم’’ اٹلانٹیک‘‘ کو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ ہر سال 600 ملین ڈالرز’’کورنیل‘‘ یونی ورسٹی کو دیتے ہیں، یہ ہی وہ درس گاہ ہے جہاں وہ کئی سال تک زیر تعلیم رہے۔
چاک فینی پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتے ہیں، سادہ کپڑے اور سستے جوتے پہننا پسند کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ایک وقت میں انسان کے لیے کپڑوں کا ایک سوٹ اور جوتوں کا ایک جوڑا ہی کافی ہوتا ہے‘‘۔ چاک نے نہ صرف سادگی کو اپنا شعار بنایا ہے بل کہ اپنی اولاد کی تربیت بھی اسی طرح کی ہے۔ وہ گرمیوں کے موسم میں عام شہریوں کی طرح سیرو سیاحت کرتے ہیں جو متوسط یا غریب سمجھے جاتے ہیں۔
فریڈرک مائجر Fred Meijer
ارب پتی فریڈرک مائجر’’سپر مارکیٹ فریڈرک مائجر’’ نامی کمپنی کے مالک ہیں۔ اس کمپنی کے دنیا بھر میں197 ڈیپارٹمنٹل اسٹور ہیں جن میں 72 ہزار افراد ملازمت کرتے ہیں۔ فریڈرک کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ ایک سادہ سے مکان رہتے اورایک کم قیمت گاڑی میں سفر کرتے ہیں۔
انہیں اپنی بے پناہ دولت کے باوجود کبھی کسی پرتعیش ریستوران میں طعام کرتے نہیں دیکھا گیا۔ فریڈرک کی دولت پانچ کروڑ ڈالرز سے زیادہ ہے اور ان کی دولت کا بھی زیادہ حصہ فلاحی کاموں پر صرف ہوتا ہے۔
یو یوژین( Yu Youzhen)
عموما ًامیر کبیر افراد اپنے گھروں میں عیش و آ رام کی زندگی گزارتے ہیں لیکن چین میں ایک لکھ پتی خا تون ایسی بھی ہیں جو سڑکوں پر کچرا ا ٹھا نے کا کا م کر تی ہیں۔ 54 سالہ یو یوژین گزشتہ چالیس سا ل سے خا ک ر وبی کے پیشے سے وابستہ ہے تاہم پانچ سا ل قبل اس کی قسمت اس وقت بد لی جب ایک تعمیراتی کمپنی نے لاکھو ں ڈالر میں اس کی آ بائی زمین خر ید لی ۔ زمین کی فر و خت سے حاصل ہونے والی رقم سے اس نے اپنا کاروبا ر شروع کیا اور آ ج اس کے اثا ثوں کی مالیت سو لہ لاکھ ڈالر سے بھی زیادہ ہے۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ امیر ہو جانے کے با وجو د اس نے اپنا پرانا پیشہ چھو ڑنا گوارا نہیں کیا کیوں کہ اس کا کہنا ہے کہ ایسا کر نے سے اس کے بچوں کے لیے غلط مثا ل قائم ہو گی اس کا کہنا ہے کہ وہ ساری زندگی محنت کر تے ہو ئے گزارنا چا ہتی ہے۔