ہمارا تعلق اُس نسل سے ہے، جس کی کم سنی میں عمران خان کی زیر قیادت 1992ء کے ورلڈ کپ جیتنے کی ایک نہایت مسحور کُن اور ہلکی ہلکی سی شبیہہ قائم ہوئی، جو آج بھی یادداشت کے پردے پر ذرا ذرا سی روشن ہے۔۔۔ سو ہمارے لیے کرکٹ کیا۔
کیوں اور کیسے سے بہت پہلے ہی عمران خان کا نام تھا۔۔۔ کہ زمانہ یہی تھا۔ اس کے فوراً بعد عمران خان نے کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا تھا، اب ہوش سنبھلنا شروع ہوا، تو دیگر پاکستانی کھلاڑیوں کے نام اور تعارف اور میچوں کی سُن گُن شروع ہوئی۔۔۔ جاوید میاں داد ان میں سب سے نمایاں ستارہ تھا۔۔۔ ابھی ہمارے ہوش کی آنکھ کھلی ہی تھی کہ 1996ء کا چھٹا عالمی کپ آن پہنچا۔۔۔ یہیں سے ہمارے ’کرکٹ بخار‘ کی باقاعدہ شروعات ہوتی ہے۔۔۔ اور بدقسمتی سے جو پرچھائیں دفاعی چیمپین پاکستان کی ’ہر صورت فتح‘ طے کر چکی تھی۔
وہ کوارٹر فائنل میں ہندوستان سے شکست کے بعد بری طرح پائمال ہوگئی۔۔۔! ہم نے پرائمری اسکول کے زمانے میں یہ میچ دیکھا۔۔۔ اور آج بھی وہ شکست کے بڑھتے ہوئے سائے دکھاتا لمحہ ذہن کے گوشے میں بسیرا کیے ہے کہ جب وکٹ کیپر راشد لطیف کے ساتھ جاوید میاں داد کی دفاعی بلے بازی ٹیم کی پھنسی ہوئی ناؤ کو بھنور سے نکالنے کی جستجو میں تھی۔۔۔ ’بدن بولی‘ ان دونوں کی متوقع نتیجے کے خدشات کو اچھی طرح بیان کر رہی تھی۔۔۔
ایسا لگتا تھا کہ بہت برا واقعہ ہونے کو ہے۔۔۔ اس وقت ارد گرد ہمارے بڑے یہ تبصرہ کرتے تھے کہ بس یہ دونوں کھڑے رہیں تو کچھ اچھی امید کی جا سکتی ہے۔۔۔ اُس روز ہم اپنی نانی کے ہاں تھے، اسی میچ کے دوران گھر کی راہ لی اور جب چند منٹ کی مسافت کے بعد گھر پہنچے، تو پاکستانی ٹیم کی شکست سر پر پہنچ چکی تھی اور پھر قصہ تمام شد۔۔۔ ہندوستان 39 رن سے فتح یاب ہوگیا۔۔۔!
1992ء کی فتح کے بعد 1996ء میں جیتنے کو شاید ہم بچوں نے اپنا ’حق‘ اور ایک یقینی امر سمجھ لیا تھا۔۔۔ سو بڑے بڑے ’سازشی نظریات‘ اگلے دن اسکول میں سنے گئے، جس میں بتایا جاتا تھا کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو کوئی دھمکی دی گئی تھی یا یہ کہ پاکستان ہندوستانی مسلمانوں کے تحفظ کے واسطے جان بوجھ کر ہارا ہے، ورنہ ابتدا میں عامر سہیل اور سعید انور کیا شان دار کھیل کھیل رہے تھے۔
ان دونوں کے آؤٹ ہوتے ہی صورت حال بدلتی چلی گئی۔۔۔ ہمیں یاد ہے کسی من چلے نے یہ ’افواہ ‘ بھی اڑائی تھی کہ یہ کوارٹر فائنل کالعدم قرار پایا ہے اور اب دوبارہ ہوگا۔ اب ممکن ناممکن سے بہت پرے، ہم بچوں کا اس ’افواہ‘ پر یقین کرنے کو بہت جی چاہتا تھا۔
بہرحال 1996ء کے ورلڈ کپ کے بعد جاوید میاں داد نے بھی کرکٹ کی دنیا کو الوداع کہہ دیا۔ مگر شاید جاوید میاں داد کا عہد تو ابھی جاری رہنا تھا۔۔۔ سو اب ہم ’بچے لوگ‘ بھی جاوید میاں داد کے سحر سے آزاد نہ تھے، اور شاید کرکٹ کے دیگر مداح بھی ایسا ہی سوچتے تھے، اب جاوید میاں داد کا قومی ٹیم کا کوچ مقرر ہونا اور اِن سے متعلق سارے تنازعات اور خبریں ہاتھوں ہاتھ لی جاتیں۔۔۔ جاوید میاں داد کے لیے محبت اور احترام کی عوامی لہر پہلے ہی کی طرح برقرار تھی۔۔۔
وقت آگے بڑھا، ہم عملی زندگی میں آن پہنچے، اور قلبی میلان اور ذہنی رجحان نے ہمیں صحافی بنا دیا۔ ورنہ بچپن میں شاید سوچ ہی سکتے تھے کہ ہم دلوں میں بسنے والے جاوید میاں داد کو کبھی اپنے روبرو دیکھ بھی سکیں گے۔۔۔ یہاں تک کہ باقاعدہ گفتگو کا موقع ملے۔
سو یہ کوئی ہمارا ربع صدی کا تعلق تھا اور 1996ء کے کوارٹر فائنل کی ایک امید اور بہ یک وقت کئی ملکی اور غیر ملکی ریکارڈ رکھنے والے مایہ ناز بلے باز جاوید میاں داد ہمارے روبرو تھے۔
ہم اگرچہ بچپن میں کرکٹ کا جنون رکھنے کے باوجود کبھی اچھی کرکٹ نہ کھیل سکے، نہ گیند بازی اور نہ بلے بازی۔ مگر اس کے سوا جاوید میاں داد کا ’سامنا‘ کرنا آسان نہ لگتا تھا، اس لیے بُہتیری تیاری کرنا پڑی۔۔۔ ’سوال نامے‘ کی تیاری کے ساتھ ان سے گفتگو میں انصاف کرنا ایک امتحان لگتا تھا، لیکن صاحب، جس دن یہ بڑا آدمی ہمارے روبرو ہوا تو عاجزی، انکساری اور بار بار جھلکنے والے درویشانہ انداز نے ہمارے سارے تردد اور جھجھک کو رفع کر دیا۔
ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہم اپنے اہل خانہ میں سے کسی سے گفتگو کر رہے ہیں۔ یقیناً کسی نے درست کہا ہے کہ ثمر دار شجر ایسے ہی ہوتے ہیں، ورنہ اکثر مشہور شخصیات سے ملاقات میں یہ امر مسلسل عیاں رہتا ہے کہ وہ ہم سے بہت بلند پایہ مرتبے پر براجمان ہیں، لیکن جاوید میاں داد کے لیے ایسا کوئی احساس ایک لمحے کو بھی نہیں آیا۔
جاوید میاں داد 12 جون 1957ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے 9 اکتوبر 1976ء کو لاہور میں اپنے پہلے ٹیسٹ میچ میں نیوزی لینڈ کے خلاف سینچری کی، اس سے پہلے ہی وہ کرکٹ کے پہلے ورلڈ کپ 1975ء میں ملک کی نمائندگی کا اعزاز حاصل کر چکے تھے، اور پھر قسمت نے یاوری کی کہ وہ رہتی دنیا تک یہ ریکارڈ اپنے نام کرگئے کہ جس نے کرکٹ کے ابتدائی چھے ورلڈ کپ میں حصہ لیا۔
27 اکتوبر 1980ء کو 22 سال 260 دن پہلی بار کپتان بنے، تو کرکٹ کی تاریخ کے تیسرے کم عمر ترین کپتان تھے۔ ہندوستان کے نواب پٹودی اور آسٹریلیا کے ID Craig ہی ان سے کم عمری میں اس مرتبے تک پہنچ سکے تھے۔ اس وقت بھی ریکارڈ کے کھاتوں میں وہ دنیا کے آٹھویں کم عمر ترین کپتان ہیں۔
جاوید میاں داد سے ہماری گفتگو کی شروعات اِن کے بچپن کے ذکر سے ہوئی، وہ کہتے ہیں کہ ان کے خاندان میں کرکٹ پہلے ہی سے موجود تھی، والد بھی کھیلتے رہے، وہ کراچی میں حبیب بینک پلازا کے سامنے کاٹن ایسوسی ایشن میں تھے، وہاں پورے پاکستان کی کاٹن آتی اور پیک ہوتی تھی، وہ اس کی نگرانی پر مامور تھے۔
ہم نے والد کی پولیس کی ملازمت کا پوچھا تو جاوید میاں داد نے بتایا کہ یہ ہندوستان کی بات ہے، پاکستان آئے، تو یہاں دو تین دوستوں نے مل کر کاٹن کا کام شروع کیا۔
رہائش کے استفسار پر انھوں نے بتایا کہ بوہرہ پیر، رنچھوڑ لائن میں ایک فلیٹ میں رہے، پھر 1970ء کے زمانے میں وہ ’گلبرگ‘ منتقل ہوگئے، والد کراچی مسلم جم خانہ چلاتے تھے۔ ’کراچی کرکٹ ایسوسی ایشن‘ کے اراکین کے اپنے اپنے ’کلب‘ ہوتے، یہ ایسوسی ایشن کراچی اور سندھ کی کرکٹ چلاتی، والد وہاں اہم ذمہ داریوں پر تھے۔ کراچی کرکٹ ایسوسی ایشن کے ذریعے پہلے کراچی کی مختلف انڈر 19 وغیرہ کی ٹیمیں ہوتی تھی۔
پھر اسی میں سے پاکستانی کرکٹ ٹیم کے لیے انتخاب ہوتا تھا۔ کراچی کرکٹ ایسوسی ایشن ’کے سی سی اے‘ لیگ ہوتی تھی۔ کراچی اور سندھ کی جتنی ٹیمیں ہوتیں، وہ سب حصہ لیتی تھیں، پھر انھی میں سے لڑکے آگے آتے تھے۔
’’آپ بھی انھی ٹیموں کا حصہ بنے؟‘‘ ہمارے اس استفسار پر وہ کہتے ہیں کہ ’’مسلم جم خانہ۔ جب چھوٹا تھا تو وہاں ایک چھوٹی ٹیم میں کھیلا۔ ہارون صاحب کی ٹیم تھی، جس میں سخاوت، وغیرہ سب وہیں ’جامع کلاتھ‘ کے قریب ہی کے لڑکے تھے۔‘‘
جاوید میاں داد نے جب یہ بتایا کہ وہ پانچ بھائی ہیں، اور سبھی کسی نہ کسی سطح پر کرکٹ سے وابستہ رہے، ایک بھائی انور نے تو بین الاقوامی دورہ بھی کیا، تو ہمارے ذہن میں سوال آیا کہ ایسا کیا تھا کہ باقی چار بھائی یہاں تک نہ پہنچ سکے، جہاں جاوید میاں داد پہنچ گئے۔
وہ گویا ہوئے: ’’دراصل والد کا مجھے کرکٹ کھلانے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ میں کرکٹ ٹیم میں جاؤں، بلکہ وہ صرف بری صحبت سے بچانے کے لیے ہمیں کرکٹ کی طرف لائے، ورنہ ہماری والدہ تو ہمارے کرکٹ کھیلنے کے سخت خلاف تھیں۔
ہم تعطیلات میں بھی میچ کھیلنے میں لگے ہوئے ہوتے، تو والدہ بہت اعتراض کرتیں کہ اس کرکٹ کا کیا حاصل، نہ کوئی ہنر اور نہ کوئی آمدنی، تب والد ہمارے کرکٹ کھیلنے کا دفاع کرتے اور کہتے کہ اس طرح کم سے کم ہمیں پتا تو ہے کہ بچے کہاں ہیں، گھر آکر باقی فرصت میں ہم اپنے اسکول کا کام کر کے سو جاتے، لیکن ہم کرکٹ میں آگے بڑھتے چلے گئے۔
میرے دونوں بھائیوں نے مسلم جم خانہ سے کرکٹ کھیلی۔ پھر میں نے انڈر 19 کرکٹ کھیلی۔ ایک فائدہ یہ ہوا کہ مختلف بینکوں کی ٹیمیں بھی بن گئی تھیں، کراچی کی ٹیم سے کھیلنا بڑا مشکل تھا۔ اس میں سفارشیں بھی چلتی تھیں۔ پھر اے ایچ کاردار ڈیپارٹمنٹل کرکٹ لے کر آئے۔
سندھ یا کراچی کے لیے کھیلنا میرے لیے مشکل ہوتا، بینک ایسے تھے، جیسے کاؤنٹی کرکٹ ہوتی ہے، اس سے فائدہ یہ تھا کہ ایک وقت میں زیادہ لڑکوں کو مواقع ملتے تھے۔ ایسوسی ایشن کی کرکٹ میں شفافیت نہیں تھی، کراچی کرکٹ ایسوسی ایشن، لاہور کرکٹ ایسوسی ایشن کے پاس پورا صوبہ اور ایک وسیع علاقہ ہوتا تھا۔‘‘
’’آپ ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کے حامی ہیں؟‘‘
اس سوال پر وہ کہتے ہیں کہ ’’اس سے فائدہ ہوا۔ مختلف بینک اپنے پاس بلا لیتے تھے، ان کی ٹیم میں مواقع ملتے اور آگے بڑھ کر کھلاڑی پھر پاکستان کی ٹیم کا حصہ بن جاتے تھے۔ پیسے بھی ملتے تھے اور کرکٹ کی سروس بھی جاری رہتی تھی۔‘‘
’’آپ حبیب بینک میں کب منتخب ہوئے؟‘‘
’’1975-76ء میں، پھر اسی کی بنیاد پر ہماری ترقی بھی ہوتی تھی۔‘‘ انھوں نے بتایا۔
ہم نے قومی ٹیم میں آنے کا قصہ دریافت کیا، تو انھوں نے کچھ اس طرح بتایا ’’میں پہلے انڈر 19 کھیلا، اس کا کپتان بنا اور پھر وہاں کی کارکردگی سے قومی ٹیم میں منتخب ہوا۔ کراچی انڈر 19 اور لاہور انڈر 19 کے میچ میں حفیظ کاردار صاحب نے مجھے منتخب کیا۔ وہاں ایک ہی میچ میں سینچری اور ڈبل سینچری کی تھی۔ انھوں نے یہ دیکھا، تو مجھے 1975ء کے ورلڈ کپ کے لیے بھیج دیا۔ انھوں نے مجھے ’دہائی کی تلاش‘ قرار دیا۔‘‘
ہم نے اس ’خطاب‘ یا ’اعزاز‘ کا پس منظر پوچھا تو وہ بتاتے ہیں کہ یہ انھوں نے میری کارکردگی سے متاثر ہو کر کہا۔ ورنہ ہم تو کبھی ان سے ملے بھی نہیں تھے۔
’’آپ انڈر 19 کی بات کر رہے ہیں، لیکن 18 سال ہی کی عمر سے پہلے ہی قومی ٹیم میں منتخب ہو گئے تھے؟‘‘ ہمارے ذہن میں سوال ابھرا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اسی وقت قومی ٹیم میں منتخب ہوگیا تھا، اور اسی وقت کاؤنٹی اور ’کیری پیکر‘ (اس وقت کی ایک کمرشل کرکٹ) بھی کھیلا۔ اگر کرکٹ مضبوط ہے، تو ساری طرح کی کرکٹ مستحکم ہے، کیوں کہ اس کی طرز اور زبان ایک ہی ہے۔ کرکٹ کی نوعیت چاہے بدل جائے۔ آگے آنے کے لیے کارکردگی چاہیے ہوتی ہے۔ اسی لیے فرسٹ کلاس کرکٹ ہوتی ہے۔‘‘
11 جون 1975ء کو کرکٹ کے پہلے ہی ورلڈ کپ میں پاکستان کے دوسرے ایک روزہ میچ میں پہلی بار بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے کے حوالے سے ہمیں ان کی یادوں اور تاثرات کی بڑی تفصیل کی توقع تھی۔
ہم نے ٹٹولا، مگر جاوید بھائی سرسری سے گزر گئے کہ ’’ہاں کھیلا۔‘‘ پھر اپنی دیگر یادیں تازہ کرنے لگے کہ ’’ورلڈ کپ کے بعد کاؤنٹی مل گئی، پھر ایک لیگ میں بھی شامل ہوگیا۔ مختلف جگہوں سے پیش کش ہوئی۔ کاوئنٹی سَسِیکس (Sussex) سے پیش کش ہوگئی، بطور اُوور سیز پلیئر کھیلا۔ پھر تین سال کاؤنٹی سائن کی۔ کیوں کہ جب کاؤنٹی کرکٹ ہوتی، تو پاکستان میں کرکٹ نہیں ہو رہی ہوتی تھی، لیکن اب کرکٹ بڑھ گئی ہے۔‘‘
’’14 ستمبر 1983ء کو بنگلور میں 99 رن پر آؤٹ ہوئے تو کیا احساسات تھے؟‘‘
ہمارے سوال کا وقفہ پا کر وہ چائے کا آخری گھونٹ بھرتے ہوئے اپنے روایتی درویشانہ انداز میں کہتے ہیں ’’دیکھیے، میں سوچتا ہوں کہ 100 ہو جائیں، ٹھیک ہے، لیکن اگر ہر دفعہ 99 رن بھی ملتے رہیں، تو میرے لیے وہ بھی ٹھیک ہے کہ چلو ہر دفعہ مل تو رہے ہیں۔ کارکردگی ہونی چاہیے، ریکارڈ تو بنتے ہی ٹوٹنے کے لیے ہیں۔ اصل چیز ملک کے لیے کھیلنا اور کارکردگی دکھانا ہوتا ہے۔‘‘
’’9 مارچ 1996ء کو چھٹے عالمی کپ کا کوارٹر فائنل ہندوستان سے ہارے اور 12 مارچ کو آپ نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا؟‘‘ اس سوال پر ان کا جواب تھا کہ ’’میں نے بہت اچھا فیصلہ کیا، پھر برے کھیل پر بے دخل ہوتا، اس سے پہلے عزت اور وقار کے ذریعے چلے جانا بہتر تھا۔
اگر اچھے پلیئر ملک کے لیے نہ کھیلیں کسی بھی وجہ سے۔۔۔ سب سے زیادہ اہم ٹیم میں رہنا اور اچھا کھیلنا ہے، کپتانی اہم نہیں۔ ملک کی نمائندگی کرنا اعزاز ہے۔ نئے لڑکوں کو بھی یہی دیکھنا چاہیے، کپتان تو کسی ایک ہی کو بننا ہوتا ہے۔‘‘
1996ء عالمی کپ کے کوارٹر فائنل کے تجربات ساجھے کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں ’’وکٹیں گرتی جا رہی تھیں، بس یہی تھا کہ چلو کھیلتے رہو۔ ون ڈے کرکٹ میں اوسط بڑھتا جاتا ہے، تو پھر بڑی مشکل ہو جاتی ہے۔‘‘
ہم نے جاوید میاں داد سے مختلف کپتانوں کے ساتھ تجربات کی کچھ سن گن لینی چاہی، تو انھوں نے کچھ یوں بتایا:
’’تب مشتاق محمد کپتان تھے، اس کے بعد میں ہی پہلی بار کپتان بن گیا تھا، میرے انڈر عمران خان اور دیگر سارے لڑکے کھیل رہے تھے۔
پھر سیریز بھی جیتا پھر عمران خان سمیت سینئرز کھلاڑیوں نے میری کپتانی میں کھیلنے سے انکار کر دیا، کاردار صاحب بڑے سخت تھے، انھوں نے پروا نہیں کی، اور میری کپتانی برقرار رکھی، ہم ان کے بغیر بھی جیت گئے۔ یہ تمام کرکٹر عمران خان کے اس گروہ میں موجودگی کی وجہ سے کسی بھی تادیبی کارروائی سے بچ گئے، ورنہ سب کی چھٹی ہو جاتی۔۔۔!‘‘
واضح رہے اس گروہ میں عمران خان، ماجد خان، ظہیر عباس، وسیم باری، وسیم راجہ، مدثر نذر، اقبال قاسم، سرفراز نواز، سکندر بخت، محسن خان وغیرہ کے نام لیے جاتے ہیں۔ جاوید میاں داد کہتے ہیں کہ ’’یہ بات بالکل درست تھی، یہ بورڈ کا کام ہوتا ہے کہ وہ جسے چاہے کپتان بنائے، آپ کا کام ہے کھیلنا، دنیا میں یہ نہیں ہوتا، بورڈ صلاحیت دیکھتا ہے، سنیئر جونیئر نہیں ہوتا۔ مجھ میں صلاحیت تھی تو کپتان بنا۔ کیری پیکر کھیلا، جب وہاں بڑے بڑے کھلاڑی ہوتے تھے۔‘‘
جاوید میاں داد نے گفتگو کرتے ہوئے ایک جگہ جب اپنے اور عمران خان کی قربت کا ذکر کیا، تو ہم نے لقمہ دیا ’’لیکن انھوں نے تو آپ کی کپتانی میں کھیلنے سے انکار کر دیا تھا؟‘‘ جس پر جاوید میاں داد کا کہنا تھا کہ ’’ بڑے کھلاڑیوں نے عمران خان کی آڑ لی تھی، کیوں کہ اگر عمران نہ ہوتا تو وہ سب دوبارہ کرکٹ میں واپس نہیں آتے، عمران کی وجہ سے وہ بھی بچ گئے، کیوں کہ عمران نوجوان تھا، بس سوچا گیا کہ یہ نہ جائے۔‘‘
آسان بالر کے سوال پر جاوید میاں داد کا کہنا تھا کہ ’’کوئی بھی بالر آسان یا مشکل نہیں ہوتا۔ فاسٹ بالر پانچ چیزوں کے علاوہ چھٹی کوئی چیز نہیں کرے گا، اِن سوئنگ، آؤٹ سوئنگ، یارکر، باؤنسر، سِلوور۔ ایسے ہی ’آف اسپنر‘ کے پاس بھی ایسی گنی چُنی ہی گیندیں ہیں۔‘‘
ہم نے کہا کہ ’’یہ کہنا آسان ہے، بلے باز آؤٹ بھی انھی میں سے کسی بال پر ہوتے ہیں؟‘‘
جس پر جاوید میاں داد نے استدلال کیا کہ ’’بس انھی چیزوں ہی کی تو مشق کرنی ہوتی ہے، جیسے آپ امتحان کی تیاری کرتے ہیں۔ کرکٹ میں بھی دماغ لگا کر سنجیدگی سے وقت دیتے ہیں اور پھر اس کو عملی مشق کرتے ہیں، جس کے لیے آپ کے پاس میچ ہوتے ہیں، وہاں دیکھنا ہوتا ہے کہ آپ کیسی کرکٹ کھیل رہے ہیں اور آپ کا نظم وضبط کیسا ہے۔‘‘
’’کبھی آؤٹ ہونے کے بعد لگا ہو کہ یہ غلط آؤٹ ہوگیا؟‘‘
’’لازمی بات ہے کہ آؤٹ ہونے کے بعد کبھی خود کو مطمئن نہیں کر سکتے، بس ہمیں تو یہ پتا ہے کہ 100 رن کے بعد، 200 اور پھر 300 اور پھر 400 رن ہوتے ہیں، آگے ہی کی خواہش ہوتی ہے۔ میچ بھی جیتنا ہوتا ہے اور 100 کرنے کے لیے بھی ساڑھے تین گھنٹے چاہئیں، ون ڈے تو محدود اوور کا ہے، اب ’ٹی ٹوئنٹی‘ میں صرف اوپنر کے لیے زیادہ امکان ہے۔ بعد والوں کے لیے یہ مشکل ہے، لیکن اس میں بھی ہو سکتے ہیں۔ کرکٹ میں ساری چیزیں ممکن ہیں۔
آج کی کرکٹ کو تیز اور پہلے سے بہت مختلف قرار دینے والے جاوید میاں داد کارکردگی ہی کو آگے بڑھنے کا راستہ گردانتے ہیں۔ بہترین بلے بازوں کے سوال پر کہتے ہیں کہ ایک نام لینا مشکل ہے۔ ہر ملک کے اپنے اپنے ہیں، نئے لڑکے بہت اچھا کھیل رہے ہیں، اب کرکٹ پہلے کی طرح نہیں۔ ہم اگر تعین کریں گے، تو اب ہمیں آج کے لحاظ سے سوچنا چاہیے، اپنے وقت کے طریقے سے سوچیں گا تو پھر کوئی نظر نہیں آئے گا۔‘‘
’میچ فکسنگ‘ اور ’سٹے بازی‘ اور اس پر سابق کپتان راشد لطیف کے انکشافات کی بات کرنے پر وہ بولے کہ ’’بالکل فکسنگ ہوئی تھی، میں نے بھی اسی وجہ سے چھوڑا، کیوں کہ جب میں بورڈ کو یہ بتا رہا تھا، اور وہ سن نہیں رہے تھے۔۔۔ کیوں کہ میں کپتان ہوں، مجھے پتا ہے۔‘‘
’’یہ کب کی بات ہے، 1992ء کے بعد کی۔۔۔؟‘‘ ہم نے بے ساختہ سوال کیا، تو ان کا کہنا تھا ’’جی، مجھے سب باتیں پتا چل جاتی تھیں، لیکن میں اس طرح ’ڈسکلوز‘ نہیں کرنا چاہتا۔ بہت سے لوگ کرتے تھے اور بعد میں اس کے خلاف ہیرو بن گئے، آپ کھیل رہے ہو، آپ کو نہیں پتا، یا تو کہیں کہ ہمیں بعد میں پتا چلا، جب کھیل رہے ہیں اور چیزیں ہو رہی ہیں، تو اس وقت آپ کہاں سو رہے تھے؟ میں ایک طرف ہو گیا تھا، لیکن مجھے پتا چل جاتا تھا۔ کوئی بھی چیز ہو، وہ سامنے آجاتی ہے۔‘‘
کوچ بننے کے بعد مسائل کا تذکرہ ہوا کہ آپ پاکستانی ٹیم کے تین مرتبہ کوچ بنے، 1999ء میں بھی بنایا گیا غالباً کپتان وسیم اکرم نے 1999ء کے ورلڈ کپ سے پہلے اس طرح کے بیانات دیے کہ ضرورت پڑنے پر میاں داد کو میدان میں اتاریں گے، لیکن آپ نے ورلڈ کپ سے پہلے ہی استعفا دے دیا، اس کی کیا وجوہات رہیں؟
’’بس کوئی ایسی بات نہیں تھی ، طے کرلیا کہ بس تو پھر بس۔‘‘ ہمارے اس سوال کا بھی انھوں نے بہت محتاط جواب دیا۔
’’ہم آہنگی نہیں تھی؟‘‘ ہم نے استفسار کیا، تو وہ گویا ہوئے کہ ’’کوچنگ میں کچھ چیزیں تھیں، بورڈ کو کہا، وہ نہیں مانے، تو چھوڑ دیا، جو بھی تھا، وہ بورڈ اور ہمارے درمیان تھا۔‘‘
جاوید میاں داد اس حوالے سے مزید بات کرنے کے خواہاں نہیں تھے، سو ہم نے پوچھا کہ ٹیسٹ کرکٹ کے بعد 60 اوور اور پھر 50 اوور تک کی کرکٹ کھیلی۔ اگر یہ 20 اوور کی کرکٹ آپ کے سامنے آجاتی؟ وہ کہتے ہیں کہ ’’وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہونا پڑتا ہے، ظاہر ہے ہم بھی پھر اس سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کرتے۔‘‘
کوئی کرکٹ اکیڈمی نہ بنانے سے متعلق پوچھا گیا، تو وہ جلدی سے بولے ’’کوئی اسپانسر کرے، تو میں بنا دوں، کیوں کہ میں بچوں سے کبھی پیسے نہیں لے سکتا۔۔۔! غریب جن کے پاس کھانے کو نہیں، مجھے وہ کیسے پیسے دیں؟ کوئی بچہ کہے کہ کرکٹ کھیلنا چاہتا ہوں، مگر میرے پاس پیسے نہیں، تو ہم اس سے کہیں، جاؤ پہلے پیسے لے کر آؤ۔۔۔؟‘‘
’’کوئی اسپانسر کرے، تو بنانے کے لیے تیار ہیں؟‘‘ ہم نے منطقی انداز میں دریافت کیا، تو انھوں نے اثبات میں کہا ’’سروس لینا چاہتے ہیں، تو لیں۔‘‘
ہم نے پاکستان کرکٹ کا المیہ پوچھا، تو جاوید میاں داد نے ڈیپارٹمنٹل کرکٹ ہونے کی ضرورت پر زور دیا۔ ہم نے کہا عمران خان تو اس کے بڑے مخالف ہیں، وہ صرف مختلف شہروں کی ٹیمیں بنانے کے حامی ہیں، لیکن جاوید میاں داد کہتے ہیں کہ ’’انھیں چھوڑیے۔ ’بینک کرکٹ‘ بڑی ٹاپ کلاس ہو رہی تھی، اس میں ملک بھر کے اچھے کھلاڑی سامنے آرہے تھے۔‘‘ جاوید میاں داد کا ماننا ہے کہ ہمیں دنیا کی بات کرتے ہوئے وہاں کے حالات اور مسائل بھی سامنے رکھنے چاہئیں۔ جونیئر کھلاڑیوں میں زیادہ دوستی کے استفسار پر وہ کہتے ہیں کہ ’’یہ بچے تو ویسے ہی بہت عزت کرتے ہیں، سب ہی سے ہنسی مذاق اور ہلکا پھلکا ماحول رہتا ہے۔‘‘
’’اگر کرکٹ نکال دی جائے تو جاوید میاں داد میں کیا باقی رہتا ہے؟‘‘
ہمارے اس سوال کے جواب میں وہ ایک بار پھر انکساری کے ساتھ کہتے ہیں ’’بس ایک انسان۔۔۔!‘‘ اس حوالے سے پھر وہ بزرگوں سے اپنی روحانی نسبت کا ذکر بطور اعزاز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’بس اپنے اندر دیا جلاؤ، وہ جلتا رہنا چاہیے، سارے کام ہوتے رہتے ہیں۔ بس میری دعا ہوتی ہے کہ میں جو کام کر سکوں، اللہ وہ کام لے لے۔‘‘
1986ء میں شارجہ کے یادگار چھکے والی اننگ کو سب سے یادگار قرار دیتے ہوئے جاوید میاں داد کہتے ہیں ایسی اننگ کبھی نہیں کھیلا، خود کو بھی یقین نہ تھا، بس عزت سے ہارنے کا ’ہدف‘ ذہن میں تھا۔ 1992ء کا ورلڈ کپ دوسرا یادگار لمحہ بتاتے ہیں، جب کہ تیسرا یادگار موقع ہندوستان سے ہندوستان میں سیریز جیتنے کو قرار دیتے ہیں۔
1976ء جب ان کے والد دنیا میں نہیں رہے، یہ جاوید میاں داد کی زندگی کا ایک کٹھن ترین لمحہ تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’’والد میرے تین ٹیسٹ میچ ہی دیکھ پائے۔ میں بیرون ملک دورے پر تھا، بغیر اطلاع کیے واپس بھیجا گیا، یہاں پہنچ کر سانحے کا علم ہوا، تدفین وغیرہ میں شریک نہیں ہو سکا۔‘‘
2016ء میں شاہد آفریدی اور اپنے بیانات کے تنازع کے حوالے سے سوال وہ ٹال جاتے ہیں۔ ہندوستان کے معروف ’زی ٹی وی‘ کے پروگرام کا ذکر ہوا، تو جاوید میاں داد نے بتایا کہ ہندوستان بھر میں پروگرام کرنے کا یہ تجربہ بہت اچھا تھا، جس کا عنوان تھا کہ ’میاں داد آپ کے گھر پر‘ تو ہم بطور انعام کسی مداح کے گھر میں مہمان ہوتے تھے اور پھر اس کی باقاعدہ عکس بندی ہوتی، ہندوستان کے دیگر مہمان بھی ساتھ ہوتے اور سوال جواب کا سلسلہ ہوتا تھے۔
ہماری گفتگو میں ایک استفسار اپنا ریکارڈ ٹوٹنے پر ہونے والے احساسات سے متعلق تھا، جس پر وہ بے پروائی سے کہتے ہیں کہ ’’ریکارڈ تو بنتا ہی ٹوٹنے کے لیے ہے، زیادہ نہیں سوچنا چاہیے، بس کر دیا تو کر دیا۔ کارکردگی ہونی چاہیے بس۔۔۔!‘‘
جا وید میاں داد پاکستانی کرکٹ کے ان اولین کھلاڑیوں میں سے تھے، جن کے لیے عوامی سطح پر آواز اٹھائی گئی، ان کی شان میں نغمے تک گائے گئے، اس تذکرے پر وہ کہتے ہیں کہ ’’بہرحال، میری باہر ملکوں میں بھی بہت پذیرائی ملتی، سینئر بھی بہت عزت دیتے تھے۔ آپ سوچ نہیں سکتے۔‘‘
٭ سیاسی جماعتوں سے لے کر فلموں کی پیش کش تک!
1992ء کے فائنل کے موقع پر اسٹیڈیم میں ’ایم کیو ایم‘ کے جھنڈوں کے تذکرے پر وہ کہتے ہیں کہ ’’جب پاکستان کا معاملہ ہو تو سب کو ایک ہونا چاہیے۔‘‘ ’ایم کیو ایم‘ سے کسی وابستگی کا ذکر ہوا تو کہنے لگے کہ ’’میں بھی کراچی ہی میں رہتا ہوں، سب کو جانتا ہوں، وہ بھی جانتے ہیں۔ پیپلز پارٹی بھی جانتی ہے۔
1976-77ء سے آصف زرداری سے راہ و رسم ہے۔ باقاعدہ سیاسی جماعت میں شمولیت کی پیش کشوں کا اعتراف کرتے ہوئے جاوید میاں داد نے کہا کہ ’’سیاست میں نہ جانا میرا اپنا فیصلہ ہے، ساری جگہ پر دوست ہیں، لیکن میں ٹال دیتا ہوں۔‘ دیگر تفصیلات اصرار پر جاوید میاں داد نے انتخابی فتح کے بعد ’بانی متحدہ‘ کے ساتھ اپنی شرکت کا ذکر کیا۔
فلموں میں کام کرنے کی پیش کش کے سوال کا اثبات میں جواب دیتے ہوئے جاوید میاں داد نے کچھ اس طرح بتایا:
’’فلم ساز اور اداکاروں سے اچھے تعلقات تھے، شوٹنگ پر بھی جاتا تھا، فلموں میں کام کی پیش کش ہوتی تھی۔ میں کہتا کہ میں جس کام میں ہوں، اسی میں رہنے دو۔ 1975ء سے مستقل کرکٹ میں رہا۔ اس لیے دوسری چیزوں کے سوچنے کا موقع نہیں ملا۔ پھر خاندانی پس منظر میں بزرگوں سے نسبت اور عاجزانہ طور بھی اس سے لگا نہیں کھاتا تھا۔ جب کھیلنے آتا تو میرے وکٹ پر ٹھیرنے کے لیے دعائیں کی جاتی تھیں۔
بال ٹھاکرے اندر سے اچھا آدمی تھا۔۔۔!
جاوید میاں داد کرکٹ کے حوالے سے مختلف پروگراموں وغیرہ میں شرکت کے علاوہ بالعموم گھر پر رہتے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ ’’دو بیٹے ایک بیٹی ہے، بڑے بیٹے کی شادی ہوگئی ہے۔‘‘ اہل خانہ کے حوالے سے بس وہ اتنی ہی تفصیل بتا سکے، اور اس حوالے سے ہمارے ایک اور سوال کو ٹال گئے۔ پھر ہم نے ہندوستان کے انتہا پسند راہ نما بال ٹھاکرے سے ملاقات کا ماجرا دریافت کیا، جس پر انھوں نے کہا ’’وہ میرا بہت بڑا مداح تھا۔
اس نے اور اس کی بیوی نے بھی مجھے بہت عزت دی۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اندر سے اچھا آدمی تھا، جو وہ کرتے تھے، وہ سب سیاست تھی، بس وہ یہ دیکھتے ہیں کہ انھیں کس چیز سے فائدہ ہے اور پھر اسی چیز سے وہ فائدہ اٹھاتے۔ ان کے اہل خانہ مجھ سے ملے، ساتھ تصاویر بنوائیں۔ بس یہ سیاست بنیادی طور پر ہی جھوٹ ہے۔‘‘ ہم نے عرض کیا، پھر تو یہ منافقت ہی ہوگئی؟ وہ بولے کہ ہر جگہ یہی ہے۔ دیگر ممالک سے کوچنگ کی پیش کش کے سوال کو وہ یوں سمیٹتے ہیں کہ میں اپنے ملک کے لیے ہی کوچنگ چاہتا تھا، اپنے گُر دوسروں کو کیوں سکھائوں؟
٭ قصہ نہ بن سکنے والی ٹرپل سنچری کا۔۔۔!
جاوید میاں داد کی متوقع ٹرپل سینچری کا تذکرہ ہمارے ’سوال نامے‘ کے اہم ترین سوالات میں سے ایک تھا۔ جنوری 1983ء میں حیدرآباد میں مہمان ہندوستان کے خلاف میچ میں 280 ناقابل شکست رن بنائے، اور کپتان عمران خان نے اننگ ڈکلیئر کر دی تھی، پاکستان وہ میچ اننگ اور 119 رن سے جیتا تھا۔ اگر اس میچ میں جاوید میاں داد کی ٹرپل سینچری ہوجاتی، تو یہ ٹیسٹ کرکٹ کی بارہویں ٹرپل سینچری ہوتی اور حنیف محمد کے بعد پاکستان اور ایشیا میں کسی بھی کھلاڑی کی دوسری ٹرپل سینچری ہوتی۔ ہم نے جاوید میاں داد سے پوچھا کہ آپ کے 280 ناٹ آئوٹ پر اچانک اننگ ڈکلیئر کردی گئی، تو وہ کہنے لگے کہ ’’ہو سکتا ہے ٹرپل سینچری ہوجاتی، تو ہم وہ میچ نہ جیتتے۔‘‘
ہم نے کہا کہ آپ نے تو اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ میں اس فیصلے پر ہکا بکا رہ گیا، کیوں کہ اگر اننگ ہی ڈکلیئر کرنی تھی، تو مجھے بتا دیتے، تو میں پھر اسی حساب سے کھیلتا۔ جس پر وہ کہتے ہیں کہ ’’یہ جسٹی فائی ہوگیا، دیکھیے یہ کسی ریکارڈ کے لیے ایسی کوئی بات نہیں، ملک پہلے ہے، ریکارڈ تو انفرادی ہے۔‘‘ ہم نے کہا، لیکن آپ نے تو لکھا ہے کہ اگر وہ پہلے سے بتا دیتے، پھر 20 رن ہی کی تو بات تھی، وہ تین، چار گیندوں یا 10 سے 15 منٹ میں بن سکتے تھے، پھر ہم میچ بھی جیت سکتے تھے اور ساتھ ساتھ ریکارڈ بھی بن جاتا، یہ سن کر وہ گویا ہوئے:
’’میں تو کہتا ہوں کہ بس اتنے ہی رن بنتے رہیں، لیکن ہر دفعہ بنتے رہیں۔‘‘ انھوں نے دوبارہ بھی کافی احتیاط سے جواب دیا۔
ہم نے پھر ان کے کتاب کے بیان پر توجہ دلائی، تو وہ بولے کہ میں نے لکھا تھا کہ اگر جانے دیتے، مگر میچ تو جیت لیا ہم نے۔ جاوید میاں داد یہ مانتے ہیں کہ انھیں پتا نہیں تھا کہ اننگ ڈکلیئر ہوگی، لیکن جب ان چیزوں کا اتنا دھیان بھی نہیں ہوتا تھا۔ وہ مجموعی طور پر کپتان عمران خان کے فیصلے ہی کو درست قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ کبھی کوئی چیز ایسی ہو جاتی ہے، تو پھر اس حوالے سے آگاہی بڑھتی ہے۔ جیسے کرکٹ میں لڑائی جھگڑے ہوئے، تو پھر اس حوالے سے باقاعدہ ضابطے بنائے گئے۔
ہماری گفتگو میں زندگی کے دکھ بھرے لمحے کے حوالے سے ٹرپل سنچری کا تذکرہ دوبارہ چل نکلا، وہ بتاتے ہیں کہ ’’لوگ کہتے ہیں کہ اس وقت وہ ایک ریکارڈ بننے کا موقع تھا۔ وہ میں کہتا تھا کہ اگر مجھے جانے دیتے، مگر وہ روکا گیا، تاکہ میچ جیتیں، لیکن اِسے ایسے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم میچ تو جیتتے رہتے ہیں، لیکن ریکارڈ کم بنتے ہیں، ریکارڈ میں بھی تو ہمارے ملک ہی کا نام ہوتا۔ پھر ہم حالات و واقعات دیکھتے ہیں، اس وقت دیکھا کہ میچ جیتنا ضروری ہے، تو ہم میچ جیتے، لیکن کبھی ایسا موقع آئے، تو اس حوالے سے فیصلہ لیتے ہوئے جمع تفریق کرنی چاہیے کہ کیا فیصلہ کرنا چاہیے۔ ایک چیز ملک کے لیے ہو رہی ہے، مگر دوسری چیز بھی ملک ہی کے لیے ہو رہی ہے، اسے بھی دیکھنا چاہیے۔‘‘
فیصل اقبال کو بھانجا ہونے کے سبب زیادہ موقع نہیں ملا
ہم جاوید میاں داد کے بھانجے اور سابق ٹیسٹ کرکٹر فیصل اقبال کے حوالے سے بھی استفسار کیا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بھانجا ہونے کی وجہ سے ان کا کرکٹ کیریر متاثر ہوا، وہ اچھا کھیلتا تھا، لیکن اس طرح اسے موقع نہیں ملا۔
’’پاکستان کی کرکٹ سے یہ تفریق اور ناانصافی کیسے ختم ہو سکتی ہے؟‘‘
جاوید میاں داد اس کا حل تجویز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’تمام عہدے داروں سے حلف لیں کہ جو کرو گے، اہلیت کی بنیاد پر کرو گے، چاہے اپنی اولاد ہی سامنے کیوں نہ ہو، اس کے بعد جو غلط کرے گا، تو پھر اس کا حال دنیا بھی دیکھے گی۔‘‘
’’یہاں تو لوگ ملک کے لیے حلف اٹھاتے ہیں، پھر بھی گڑ بڑ ہوتی ہے؟‘‘ ہمارے ذہن میں منطقی سوال آیا، جس پر انھوں نے کہا:
’’یہی تو پھر ناانصافی کرتے ہیں، تو پھر اس کا خمیازہ بھی بھگتتے ہیں۔ اوپر والا دکھاتا ہے۔ غلط چیز پر کوئی بچے گا نہیں، کچھ بچ جاتے ہیں، تو والدین یا کسی کی دعا کی وجہ سے۔ جناب موسیٰ علیہ السلام کو بھی ماں کا سایہ اٹھ جانے پر کہا گیا تھا کہ اب ذرا خیال رکھنا۔ تو ہماری تربیت میں تو یہ سب چیزیں شامل ہیں۔ ہم آج جو کچھ بھی سرخرو ہیں، وہ انھی بزرگوں کے طفیل ہے۔ آج بھی بزرگوں کی خدمت کے لیے جاتا ہوں۔‘‘
کراچی میں کلب کرکٹ میں شمولیت میں سیاسی دبائو ہوتا تھا
جاوید میاں داد پاکستان کے بڑے بلے بازوں میں مشتاق محمد، حنیف محمد کا نام لیتے ہیں۔ کراچی کے کرکٹروں کے لیے رکاوٹ کے تاثر کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ’’کراچی کے لڑکے سیمنٹ پر کھیل کر آتے ہیں، اور ان کو وہ ماحول نہی ملتا، جو پورے پاکستان کے لڑکوں کو دست یاب ہے، موسم کا بھی فرق ہے، یہاں پچ کے لیے پانی کی بھی کمی ہے۔‘‘ ہم نے کہا کراچی سے کرکٹر تو پھر بھی نکلے، عاصم کمال، اسد شفیق، فواد عالم وغیرہ کے نام لیے، لیکن ان کا کہنا تھا کہ بس موقع ملے، تو کارکردگی دکھانی چاہیے۔ ہم نے دیگر کو زیادہ موقع ملنے کے تاثر کا ذکر کیا، تو انھوں نے کہا کہ ’’بس آپ اپنے اسی موقع کو استعمال کریں، لوگ اس طرح کہتے ہیں، لیکن میں ایسے کہتا ہوں۔‘‘
ہم نے براہ راست کراچی کے کھلاڑیوں سے تفریق کی بات کی، تو انھوں نے انکشاف کیا کہ ’’کراچی والے بھی تو اہل لڑکوں کو نہیں کھلاتے تھے۔ نچلی سطح پر بھی کھلاڑیوں کے انتخاب کے لیے زور زبردستی اور ’میرٹ‘ کی خلاف ورزی ہوتی تھی۔‘‘ انھوں نے شہر میں کلب کرکٹ میں سیاسی دبائو کا اظہار کیا۔
The post ’باغی گروہ‘ میں عمران خان کی موجودگی کے سبب کوئی کارروائی نہیں ہوئی، جاوید میانداد appeared first on ایکسپریس اردو.