سورہ البقرۃ میں اﷲ تعالی کے ارشاد کا مفہوم: ’’کہو کہ ہم نے اﷲ کا رنگ اختیار کرلیا ہے اور اﷲ کے رنگ سے بہتر رنگ کس کا ہو سکتا ہے اور ہم اﷲ کی عبادت کرنے والے ہیں۔‘‘
انسانی شخصیت پر اﷲ کا رنگ اﷲ کی بندگی سے چڑھتا ہے۔ ہر لمحے ظاہر و باطن میں اﷲ کی رضا کی تلاش مطمعٔ نظر رہے تو اﷲ کا رنگ نصیب ہوتا ہے۔ اس آیت میں اﷲ کے رنگ اور اﷲ کی عبادت کا ایک ساتھ ذکر معنی خیز ہے۔ روزے پر غور کریں تو روزے کے دوران ہر لمحے ظاہر و باطن میں اﷲ کی بندگی کی جا رہی ہوتی ہے۔
آپ ٹھنڈے میٹھے پانی سے گریز کرتے ہیں، کس لیے۔۔۔؟ صرف اﷲ کے لیے۔ آپ گرم نرم روٹی اور مزے دار سالن سے اجتناب کرتے ہیں، کس لیے۔۔۔ ؟ صرف اﷲ کے لیے۔ آپ میٹھے رس بھرے پھلوں اور دیگر نعمتوں سے اجتناب کرتے ہیں، کس لیے۔۔۔ ؟
اگر فی الحقیقت آپ کا یہ سب کچھ اﷲ ہی کے لیے ہے تو آپ اﷲ کا رنگ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ نماز میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے کہ ہر حرکت سے پہلے اﷲ کا نام یوں لیا جاتا ہے گویا ہر جنبش اﷲ سے پوچھ کر کی جا رہی ہو۔
روز مرہ زندگی میں، نماز جیسی اﷲ کے رنگ میں رنگی مطابقت استوار رکھنے کے لیے خاتم النبیین رسول کریم ﷺ نے ہمیں ماشاء اﷲ، ان شاء اﷲ، الحمداﷲ، سبحان اﷲ، انا ﷲ و انا الیہ راجعون، وغیرہ جیسے کلمات سکھائے ہیں۔ ہر کام سے پہلے بسم اﷲ الرحمن الرحیم کی آیت پڑھنا بھی اﷲ کے رنگ میں رنگ جانے کے لیے ہی ہے۔ ملاقات پر اسلام علیکم و رحمۃ اﷲ کہہ کر اﷲ تعالی کی رحمت کے ساتھ اﷲ کی یاد کرائی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ ہم پر انفرادی و اجتماعی طور پر، اﷲ کا رنگ غالب رہے۔
ہماری روحانی شخصیت کی خوب صورتی اﷲ کی ذات کے لیے کیے گئے اعمال سے ہے۔
حضرت ابُوہریرہ ؓ سے مروی ہے، مفہوم: ’’آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ بہت سے روزہ داروں کو بھوک کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا اور بہت سے قیام کرنے والوں کو جاگنے کے علاوہ کچھ وصول نہیں ہوتا۔‘‘
اس حدیث پر غور کریں کہ اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہوسکتی ہے کہ ایسے روزے میں اور ایسے جاگنے میں، اﷲ کا رنگ شامل نہیں ہُوا ہوگا۔ حضرت نوحؑ کے بیٹے کی زندگی اﷲ کے رنگ سے خالی تھی۔ اس نے سیلابی پانی سے بچنے کے لیے اﷲ کے سوا پہاڑ کو سہارا قرار دیا۔ یوں اس کی روحانی شخصیت ناشائستہ اعمال ٹھہری۔
ہمارے اعمال کی شکل میں، ہماری روحانی شخصیت اﷲ کے ہاں ایک روپ دھارتی ہے۔ جس نے جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا ترک نہ کیا تو اﷲ تعالی کو اس کے کھانا پینا چھوڑ دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔
نبی کریم ﷺ کا ارشاد کا مفہوم ہے کہ روزہ ڈھال ہے۔ روزہ شیطانی حملوں سے روکتا ہے۔ شیطانی حملوں کا دائرہ ہماری زندگی میں ہمیں اﷲ کا رنگ اختیار کرنے سے روکنے تک پھیلا ہوا ہے۔ اگر چھوٹی چھوٹی چیزوں اور باتوں میں بھی ہم اﷲ کے رنگ میں رنگتے چلے جائیں تو ہم شیطان کے اس ہتھ کنڈے سے محفوظ ہوجائیں گے۔ اسی لیے ابلیس انسانی زندگی میں، اﷲ کے ایسے رنگ چڑھنے کو ہر ممکن حد تک روکنے کی کوشش کرتا ہے۔
آپ ﷺ کا ارشاد تو یہاں تک ہے کہ اگر جوتے کا تسمہ بھی درکار ہو تو اﷲ سے مانگو۔ حضرت رسول کریم ﷺ اﷲ کے رنگ میں کامل رنگے ہوئے تھے۔
فی زمانہ جو دنیاوی حالات ہیں، اس اعتبار سے دنیا میں شمولیت، مادے اور اس سے متعلق مہارتوں کے حصول سے عبارت ہو چکی ہے۔ نوحؑ کے بیٹے کی طرح مادی سہاروں پر انحصار شعوری سطح پر کیا جانے لگا ہے۔ آج کے انسان کو، مادے اور اس سے متعلق مہارتوں پر دست رس کے لیے اپنے سال ہا سال کھپانے پڑتے ہیں۔ ان مہارتوں میں ڈوبنا پڑتا ہے تب کہیں اسے مہارت ملتی ہے۔
یوں آج ہم میں سے اکثر کے پاس اﷲ کی نشانیوں پر غور کا وقت نہیں۔ ماضی کے انسان نے اپنی کم زوریوں کے باعث مادے اور مادی قوتوں کو خدا بنایا، آج ان پر قدرے قابو پاکر انسان نے اپنی صلاحیت کو خدا بنا لیا ہے۔ انسان تب بھی غلطی پر تھا، آج بھی غلطی پر ہے۔
روحانیت میں فروغ کے لیے مادے اور متعلقہ صلاحیتوں کے حصول اور برتنے کے تناظر میں اﷲ کی ذات کو، پس منظر اور پیش منظر میں رکھنا پڑتا ہے۔ یہیں سے ہمیں شیطان ورغلانے میں کام یاب ہوجاتا ہے اور مادے اور اس سے متعلق مہارتوں کے حصول کے تناظر میں، ہم پر اﷲ کا رنگ چڑھ نہیں پاتا۔ یوں ہمارا پڑھنا، لکھنا، کھانا، پینا اور دیگر امور روحانیت سے خالی رہتے ہیں۔
روزہ اس رنگ میں رنگے جانے کی ایک کام یاب ابتداء اس طرح بنتا ہے کہ روزے کی حالت میں ہم ہر ایسے کام کو اﷲ کی کسوٹی پر پرکھنے پر مجبور ہوتے ہیں ورنہ روزہ شرف ِ قبولیت کیسے پا سکتا ہے۔
روزہ مادے اور اس سے جڑی مہارتوں کے برتنے کو کم سے کم سطح پر رکھنے کی بھی مشق کرواتا ہے تاکہ اﷲ کی نشانیوں پر غور کا وقت نکل پائے۔ آپ نے غور کیا ہوگا کہ شدید گرمی، پیاس اور بھوک کئی ایک کام نہ کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ یوں ہم اس احساس کے ساتھ اﷲ کا رنگ اختیار کرنے کے لیے معاشرے کے بعض ان افراد کے متعلق بھی سوچتے ہیں کہ جو عدم ِ رمضان میں بھی مادے اور اس سے متعلق مہارتوں کی کم سے کم سطح سے بعض اوقات محروم ہوتے ہوئے بھی زندگی میں بھرپور حصہ لیتے ہیں۔
روحانی سطح پر روزہ باور کراتا ہے کہ آپ اﷲ کے مقابلے میں دنیاوی حدود میں کس قدر تجاوز کرچکے ہیں۔ ہر بندے میں تجاوز کی صورتیں مختلف ہوسکتی ہیں۔ ایک بزرگ کا قصہ ہے کہ انہوں نے اﷲ سے پاؤں میں جوتے نہ ہونے کا شکوہ کیا۔ کچھ آگے گئے تو اﷲ نے ایک معذور شخص کو زمین پر گھسٹتے اور رینگتے دکھا کر شکر میں آزما لیا۔ اس پر وہ اﷲ کے شکر گزار ہوئے کہ اﷲ نے پاؤں تو سلامت دے رکھے ہیں۔ اسی طرح ہم میں سے کسی کو خواہشات کا روزہ درکار ہے تو، کسی کو آنکھ کا، کسی کو کان کا اور کسی کو زبان کا۔
حضرت معاذ ؓ سے ابن ماجہ میں مروی ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی زبان پکڑ کر فرمایا: ’’اس کو روک رکھو۔ میں نے عرض کیا: اے اﷲ کے نبی ﷺ! جو گفت گو ہم عام طور پر کرتے ہیں کیا اس پر بھی مواخذہ ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اے معاذ! لوگوں کو جہنم میں اوندھے منہ گرانے کا باعث صرف ان کی زبان کی کھیتیاں (غیبت، بہتان، گالیوں بھری باتیں) ہی تو ہوں گی۔‘‘
قبر میں پیش آنے والے سوالات ہوں یا پل صراط جیسی آزمائش، یہاں وہی کام یاب ہوں گے جن کی شخصیت پر اﷲ کا جگ مگاتا رنگ چڑھا ہوا ہو۔ آپ کی قبر کے اندھیروں کو اﷲ کا یہی رنگ جگ مگانے کی مسلمہ ضمانت ہے۔ سنن نسائی کی حدیث ﷺ کے مطابق ایک دن کا روزہ جہنم سے ستّر سال کی دوری کا باعث بن جاتا ہے۔ آپ ﷺ کے مطابق اﷲ فرماتے ہیں کہ روزہ میرے لیے ہے تو اس کا بدلہ بھی پھر میں ہی دوں گا۔
اب کیا ہم اس بادشاہ ِ بے مثال کی عطا بے بہا سنبھال پائیں گے۔۔۔۔ ؟ جب عطا بڑی تو عمل بھی بڑا، عمل بڑا وہ جو اﷲ کے رنگ میں رنگا ہوا ہو۔ اس رمضان میں، جناب رسول اکرم ﷺ کی پیروی میں، اپنے ہر لمحے کو اﷲ کے رنگ میں رنگ دیجیے، یوں آمد ِ رمضان مبارک ٹھہری! خوش آمدید رمضان کریم
The post چشم ما روشن دل ِ ماشاد رمضان کریم appeared first on ایکسپریس اردو.