جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو، اب راکھ جستجو کیا ہے!
دنیا کے ہر معاشرے میں خواتین کے خلاف جرائم کی ایک لمبی فہرست ہے، جس میں ذہنی اذیت کے ہتھ کنڈوں سے لے کر جسمانی تشدد تک بے شمارطریقے شامل ہیں۔
پاکستان میں شاید کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب چھوٹی معصوم بچیوں سے لے کر نوجوان لڑکیوں، ادھیڑ عمرخواتین، یہاں تک کہ بزرگ خواتین کسی قسم کی ’گردی‘ کا شکار نہ ہوتی ہوں۔
بات پسند نہ پسند کی ہو، شادی پررضا مندی کی ہو یا پھراپنی مرضی کا کیریئر یا زندگی کے اصول متعین کرنے کی، خواتین کو کمزور اور صنف نازک سمجھ کر ہمیشہ ان کو ڈرانے دھمکانے اور دبانے کے لیے مختلف قسم کے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔
یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں وہ عورت جو اپنی مرضی سے زندگی میں کچھ کرنے کی خواہش رکھتی ہو یا اصول پسند ہو وہ لازمی زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر صرف ہراسانی ہی نہیں بلکہ کبھی غنڈہ گردی تو کبھی تیزاب گردی، کبھی غیرت کے نام قتل تو کبھی اغوا یا تو کسی اور قسم کے نفسیاتی، ذہنی اور جسمانی تشدد کا شکار نظر آتی ہے۔
اس کے فیصلوں میں دراڑ ڈالنے اس کو مجبور کرنے اور نیچا دکھانے کے لیے جتنی رکاوٹیں اور مسائل کھڑے کیے جاتے ہیں ان میں ہر طریقہ اپنی مثال آپ ہوتا ہے۔
دنیا میں عورت کے خلاف ہونے والے جنسی، نفسیاتی، ذہنی اور جسمانی تشدد کی تمام اقسام کی درجہ بندی تو نہیں کی جا سکتی کہ اذیت کا کون سا عمل اس کے لیے کتنا زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے، کیوں کہ تکلیف، اذیت اور درد کی کبھی کوئی درجہ بندی ہو ہی نہیں سکتی۔
لیکن خواتین کے خلاف جرائم، ذہنی اور جسمانی تشدد کی خطرناک اور اذیت ناک شکل ’تیزاب گردی‘ ہے۔ جو عورت کے جسم کو جلانے کے ساتھ اس کی روح، جذبات، کیفیات اور دل سب کچھ راکھ میں تبدیل کر دیتی ہے۔
عام طور پر تیزاب پھینکنے کے واقعات خواتین کو ذہنی، نفسیاتی اور جسمانی اذیت دینے کے ساتھ ساتھ ان کی شکل بگاڑ کر ان کو ایک ’نہ‘ کے جرم میں معاشرے میں نشان عبرت بنانے اور ان کے چہرے اور جسم کو خراب کرنے کی نیت سے کیے جاتے ہیں۔
ان واقعات میں اضافے سے معاشرے میں تشویشناک صورت حال پیدا ہو رہی ہے، جس پر نہ صرف حکومتی بلکہ معاشرتی سطح پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
یہ ہی نہیں ان واقعات کی بڑھتی تعداد کے پیچھے معاشرے میں تیزی سے پھیلتا عدم برداشت کا رجحان بھی ہے۔ تیزاب گردی کے مختلف واقعات میں گھریلو تنازعات کے علاوہ دیگر اہم وجوہات میں کسی خاص واقعے کے نتیجے میں انتقام کے لیے خواتین کے چہرے یا جسم پر تیزاب پھینک دینا‘ غصے میں دی گئی طلاق کے بعد اپنی فرسٹریشن نکالنے کے لیے خواتین کو تیزاب گردی کا نشانہ بنانا، ادلے بدلے یا پسند کی شادی میں کسی ایک فریق کا انکار کر دینا‘ مالی تنازعات‘ شادی کے لیے انکار کر دینا‘ ناجائز تعلقات کا شبہ‘ شوہریا سسرال والوں سے جھگڑا‘ جائیداد کے تنازعات اور خاندانی جھگڑے وغیرہ شامل ہیں۔
جب کہ کبھی ایسے واقعات بھی رپورٹ ہوئے، جن میں عورت کو صرف اس لیے تیزاب گردی کا نشانہ بنایا گیا کہ اس کا جرم ’بیٹی کو جنم‘ دینا تھا۔ ان واقعات میں اضافہ اور تسلسل، اس معاشرے میں سرائیت کرتے عدم برداشت کے رجحان کے ساتھ تیزی سے بڑھتی ہوئی بے حسی کی نشاندہی کرتا ہے۔
دوسری جانب رویوں، عدم برداشت اور جھوٹی انا کی تسکین کے لیے اٹھائے گئے ایسے بھیانک اقدامات معاشرے کے ایسے مسائل میں شامل ہیں، جن کے خاتمے کے لیے معاشرے کے مردوں کی سوچ اور ذہنیت تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
حضرات کو ایسی سوچ سے باہر آنے کے ساتھ ایسے افراد سے بھی خود کو دور کرنا ہوگا، جن میں اپنی انا کی تسکین کے لیے خواتین کے خلاف کسی بھی قسم کے انتہائی اقدام اٹھائے جانے کی سوچ پائی جاتی ہے۔
ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک میں اپنی نفسیاتی اور ذہنی کی تسکین اور انتقام کے لیے تیزاب کو شاید سستا ترین ہتھیار بھی سمجھا جاتا ہے۔ سستا ترین ہتھیار ہونے کے ساتھ ساتھ انتقام لینے والے کو عورت کو انتہائی تکلیف اور اذیت کی حالت میں دیکھ کر ذہنی تسکین ملتی ہے۔
شدید انتقامی کارروائی کی آگ میں جلنے والا ’مرد‘ جب ’نہ‘ کا جرم کرنے والی عورت کو ذہنی، جسمانی اورجذباتی اور ہر لحاظ سے معذوراور شدید تکلیف میں دیکھتا ہے تویقیناً اس کی انا کی تسکین کا باعث بنتا ہے۔
خواتین کے خلاف ہونے والے ہراسمنٹ کے واقعات سے لے کر غنڈہ گردی، اغوا، ریپ، تیزاب گردی جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم معاشرے میں گراس روٹ لیول سے ان مسائل پر سنجیدہ بحث کا آغاز کریں۔ کمیونٹی اور ’مطالعاتی بیٹھک‘ میں مختلف مباحثے منعقد کرائے جائیں، جن میں تعلیمی اداروں کے علاوہ معاشرتی سطح پر بھی ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے حکمت عملی ترتیب دی جائے۔
یہاں ایک اور حیران کن بات تیزاب کا کھلے عام دکانوں پر دست یاب ہونا بھی ہے۔ تیزاب گردی کے تیزی سے بڑھتے واقعات کے رپورٹ ہونے کے باوجود حکومت قانون سازی پر سختی سے عمل درآمد کراتی نظر آتی ہے نہ روک تھام کے لیے کوئی مؤثر اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔
اپنی جھوٹی انا کی تسکین کے لیے ہنستے مسکراتے چہروں کو زندگی بھر کے لیے بھیانک شکلوں میں تبدیل کرنے والوں کے خلاف سخت ترین کارروائی شاید ایسے واقعات میں کمی لا سکے، جو کسی کے لیے عمر بھر کا روگ بن جاتے ہیں۔
ساتھ ہی بہترین بین الاقوامی ضابطوں پر عمل کرنا ہوگا جن میں تیزاب کی فروخت پر مکمل پابندی عائد کی جائے اور صرف لائسنس رکھنے والوں کو تیزاب خریدنے والے افراد سے مکمل تفتیش اور تسلی بخش وجہ جانے کے بعد فروخت کرنے کی اجازت دی جائے۔
The post حوا کی بیٹی۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.