مسنون نماز
مصنف: حافظ صلاح الدین، صفحات:160
ناشر : دارالسلام ، لوئر مال، نزد سیکرٹریٹ سٹاپ، لاہور ) 37324034 (042
نماز اسلام کا بنیادی رکن ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن میں نماز کا حکم بار بار دیا گیا ہے اور قیامت کے دن سب سے پہلے نماز کا سوال ہو گا۔
اسی لئے حکم ہے کہ جب بچہ سات سال کا ہو جائے تو اسے نماز کی طرف راغب کیا جائے اور جب وہ دس سال کا ہو جائے تو اسے نماز میں غفلت پر ڈانٹا جائے، تاکہ اسے نماز پڑھنے کی عادت پڑ جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ نماز مسلمان اور کافر میں فرق کرتی ہے اور کردار سازی میں سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے، حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے‘‘۔
پانچ نمازیں پڑھنے والے فرد کے ذہن میں ہر وقت خوف خدا رہتا ہے اور یہی خوف اسے برے راستے پر جانے سے روکتا ہے تاہم محبت سے نماز پڑھنا اس سے اعلیٰ درجہ رکھتا ہے مگر یہ اسی وقت ہو سکتا جب انسان کو اس کی عادت ہو جو رفتہ رفتہ شوق اور محبت میں بدل جاتی ہے۔
زیر تبصرہ کتابچہ میں نماز کی اہمیت ، طریقہ اور اس سے متعلقہ مسائل بڑی تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں ، احادیث کے حوالے بھی دئیے گئے ہیں ۔ فرض نمازوں کے علاوہ نماز جنازہ ، نماز استخارہ، نماز تسبیح ، نماز عیدین ، نماز تہجد ، نماز تراویح ، نماز استسقاء اور نماز کسوف کا بھی بیان ہے ۔
کتاب کے آخر میں ایسی ضروری دعائیں شامل کی گئی ہیں جن کا یاد ہونا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے ۔ مختصر سے کتابچے میں جامع انداز میں نماز اور اس سے متعلقہ مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ ہر مسلمان کو ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔
بحر روم
مصنف: آر۔ اے نکولسن، آزاد ترجمہ : محمد احسن، قیمت:500 روپے
صفحات:128، ناشر: فیکٹ پبلی کیشنز، علی پلازہ، ٹیمپل روڈ، لاہور
رابطہ: (03009482775)
کہانیاں بہت کچھ سکھاتی ہیں ، خاص طور پر وہ کہانیاں جو کسی دانش کدے سے ماخوذ ہوں ، زیر تبصرہ کتاب بھی مثنوی مولانا روم سے لی گئی۔
مولانا رومؒ کی علم و دانش اور معرفت کی پوری دنیا معترف ہے ۔ پروفیسر آر ۔ اے نکولسن علامہ محمد اقبالؒ کے استاد تھے ، علامہ کے افکار پر ان کے گہرے اثرات نظر آتے ہیں، انھوں نے مثنوی مولاناروم کا انگریزی میں ترجمہ کیا ۔
پروفیسر صاحب کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے، انھوں نے اسلام بالخصوص تصوف پر بہت کام کیا ، اگر یہ کہا جائے کہ انھوں نے اسلامی تصوف کو یورپی اقوام میں متعارف کرایا تو غلط نہ ہو گا ۔
مولانا روم بہت بڑے عالم تھے، سینکڑوں شاگرد ہر وقت دست بستہ رہتے تھے ، مگر علم کے سمندر میں اترنے کے باوجود انھیں ہر وقت بے چینی سی رہتی تھی، گویا علم کی پیاس بجھنے کا نام نہیں لیتی تھی ، تب حضرت شاہ شمس تبریزؒ تشریف لاتے ہیں جو ان کا ہاتھ تھام کر معرفت کے راستے پر لے کر چل پڑتے ہیں، تب ان کی بے چینی بے خودی میں بدل جاتی ہے۔
سالوں کا سفر دنوں میں طے ہو جاتا ہے ، مولانا روم نے معرفت کے وہ راز مثنوی میں آشکارا کر دیئے تاکہ ہر خاص و عام مستفید ہو سکے ۔ حضرت علامہ محمد اقبالؒ مثنوی مولانا روم سے بہت متاثر تھے ان کی شاعری پر اس کے گہرے نقوش ہیں ۔ بحر روم میں تیس کہانیاں شامل کی گئی ہیں ، ہر کہانی ایک شاہکار ہے۔
مختصر سی کہانی بہت بڑا سبق لئے ہوئے ہے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کہانی اس طرح بیان کی گئی ہے کہ بڑی آسانی سمجھ میں آ جاتی ہے ۔ ترجمہ بھی بہت شاندار ہے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
قصہ دو شبدوں کا ( خود نوشت )
مصنفہ : قیصرہ شفقت ، قیمت : 1800روپے
ناشر: بک کارنر ، جہلم ، رابطہ : 03215440882
محترمہ قیصرہ شفقت کی یہ دوسری کتاب ہے۔ پہلی کتاب تھی: ’ قصہ چار نسلوں کا ‘ ، اب کی بار ’ قصہ دو شبدوں کا ‘ لکھ دیا۔ منفرد اسلوب سے لکھنے والی مصنفہ ہیں۔ انداز تحریر مکمل طور پر غیر روایتی ہے۔
قاری کو نہایت بے تکلفانہ ماحول میں لے کر بیٹھ جاتی ہیں، اور بغیر کسی خاص ترتیب کے آپ بیتی سنانا شروع کر دیتی ہیں جو جگ بیتی زیادہ ہوتی ہے۔
رعب و دبدبہ سے پاک باتیں کرتی چلی جاتی ہیں ۔کہیں سے نہیں لگتا کہ نامور تعلیمی اداروں میں ٹیچر رہی ہیں لیکن رہی ہیں۔
ان کی کتابیں بتاتی ہیں کہ وہ ماں بھی ایسی ہی ہیں اور ساس بھی ایسی ہی۔ ایسی مائیں اور ایسی ساسیں کم ہی ملتی ہیں۔ پس! ایسی شخصیت کی تحریر میں بہت کچھ پڑھنے کو ملتا ہے لیکن کہیں پر’ میں ‘ نہیں ہوتی۔ ورنہ لوگ خودنوشت لکھتے ہیں ، اپنے آپ سے شروع کرتے ہیں اور اپنے آپ پر ختم۔
زیرنظر کتاب کے ابواب میں عجب رنگا رنگی نظر آتی ہے، کسی نظم و ضبط کے بغیر چھوٹی چھوٹی باتیں نہایت دلچسپ انداز میں بیان کرتی ہیں۔کبھی کوئی گھریلو قصہ ، کبھی بیٹی سے نوک جھونک کا احوال۔ کبھی ملازماؤں کی باتیں مزے لے کر بیان کرتی ہیں، پھر اچانک اپنی کسی سرگرمی کا ذکر کرنے لگتی ہیں۔
درمیان میں کوئی سہیلی اور کوئی رفیقہ کار بھی شامل ہو جاتی ہیں۔ بس! ایک ندیا ہے جو ایک مخصوص روانی سے بہہ رہی ہے۔ اس کتاب میں جو کچھ بیان کیا گیا ، ہرگز بلامقصد نہیں ہے۔
مصنفہ اپنی کتاب کے تعارف میں لکھتی ہیں : ’’ اس کتاب میں جہاں آپ کو میرا غیر روایتی انداز تحریر ملے گا وہاں کچھ روایتی اور تقریباً ستّر پچھتّر کی گزری معاشرتی زندگی سے متعلق کچھ قصے بھی میسر ہوں گے۔۔کوئی بڑے فلسفے یا دانشوریاں سوچ کر نہ پڑھیے گا ، بس ! اتنا کہ زندگی کو گر سکھ چین سے جینا ہے تو دوسروں کو Space دیں ، آپ کو اپنے آپ ملتی ہے۔
میری اور مہرالنسا ( بیٹی ) کی جیون کہانی دوستی اور چپقلش کی ہمراہی ہے۔ دھوپ و چھاؤں یا پانی پت کا میدان جو اب بھی بلاناغہ دوران واک یا چہل قدمی پورے طمطراق سے سجتا ہے تو پھر ہماری گنگا جمنی کہانیاں جنم لیتی ہیں۔‘‘
بس ! یہ کتاب حقیقت میں انہی گنگا جمنی کہانیوں کا مجموعہ ہی ہے۔ کتاب کے آخری حصوں میں مصنفہ نے امریکا میں گزرے روزوشب کا احوال چند مختصر ابواب میں بیان کیا ہے۔ دلچسپ اور عمدہ۔ آپ ’ قصہ دو شبدوں کا ‘ ضرور پڑھیے گا۔ آپ کے لئے دلچسپ اور شاندار تجربہ ثابت ہوگا۔
حیدر گوٹھ کا بخشن ( ناول )
مصنف : محمد حفیظ خان ، قیمت : 1250روپے
ناشر: بک کارنر ، جہلم ، رابطہ : 03215440882
محمد حفیظ خان محقق، مورخ اور نقاد ہیں۔ ناول نگار، افسانہ نگار اور ڈراما نگار بھی ہیں۔ مختلف قومی اخبارات میں کالم بھی لکھتے رہے۔ اور باقاعدہ صحافت بھی کی۔ بنیادی طور پر وکیل تھے، پھر ریٖڈیو پاکستان سے بطور پروڈیوسر منسلک ہوئے۔
ساتھ ہی مختلف تعلیمی اداروں میں قانون کی تعلیم دینے لگے۔ بعدازاں وفاقی اور صوبائی سول سروس کا حصہ رہے۔ سول جج سے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تک کے مناصب پر بھی فائز رہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان کی شخصیت کس قدر ہمہ جہت ہے۔
جس فرد نے زندگی کے بہت سے شعبے دیکھے ہوں ، وہاں زندگی گزاری ہو، مشاہدہ کیا ہو ، وہ جب لکھنے پر آتا ہے تو خوب لکھتا ہے۔ محمد حفیظ خان بھی ایسے ہی لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ناول ہوں یا کہانیوں کے مجموعے، قاری کو اپنی دنیا میں گم کر لیتے ہیں۔’ حیدر گوٹھ کا بخشن ‘‘ مصنف کا پانچواں ناول ہے۔
ہر معاشرے میں مختلف دنیائیں ہوتی ہیں ، یہ ناول بھی ایسی ہی دو دنیاؤں کا مشاہدہ کراتا ہے۔ دو کہانیاں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔
ایک کہانی ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ کی ہوتی ہے جسے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی ہی بیوی ، بچوں کی طرف سے عجیب و غریب رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انسان کو دنیا کے سب لوگوں کی طرف سے خود غرضی کا خدشہ ہوسکتا ہے لیکن ان لوگوں کی طرف سے نہیں ، جن پر وہ اپنا سب کچھ نچھاور کرچکا ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جو معاشروں کو کھدیڑ کر رکھ دیتا ہے۔
دوسری کہانی یکے بعد یگرے پیش آنے والے مختلف واقعات کا مجموعہ ہے، یہ کہانی ہمارے عدالتی نظام پر چڑھے پردے ہٹاتی ہے ۔ چونکہ مصنف وکیل بھی رہے اور پھر سول جج سے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تک سینکڑوں بلکہ ہزاروں مقدمات سنے ، اس لئے وہ بخوبی بیان کرسکتے ہیں کہ ہمارے ہاں وکلا کا طبقہ کیا کچھ کرتا ہے اور جج حضرات کس قسم کا ’’ انصاف ‘‘ کرتے ہیں اور کیسے کرتے ہیں ؟
ججز کیسے پریشر گروپس کے زیر اثر آتے ہیں؟ بدمعاش ، وکلا اور پولیس ، تینوں گروہوں نے عدالتوں کے اردگرد جال بُنا ہوتا ہے ، یہ مفادات کے کھیل میں ایک دوسرے کا کیسے ساتھ دیتے ہیں لیکن بعض اوقات مفادات کیسے انھیں ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کر دیتے ہیں؟ ناول سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ وکلا کی ہڑتالوں کے پس پردہ اصل محرکات کیا ہوتے ہیں؟
ناول کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے جو آپ پر ظاہر کرے گا کہ کہانی کس قدر زوردار ہے: ’’ اسی چڑیا کو پھڑکا کر تو اس نے علاقے کی دو بلاؤں ملک یاور بختاور اور نادر خان کو آپس میں یوں الجھائے رکھنا تھا کہ نہ صرف حکومت اور اپوزیشن دونوں سے کاروباری معاملات فِٹ رہتے بلکہ اُن کے مال کو بھی کچھ اس طرح نکہ لگاتا کہ جیسے پانی چور زمیندار نہر میں سائفن لگا کر واری کے بغیر کھیت کے کھیت سیراب کرلیتا ہے۔
لیکن یہ کیا ہوا کہ اب اللہ ڈِنو عبید جیسا بااثر شخص بھی رباب کے لئے میدان میں آگیا اور آیا بھی تو اس انداز میں کہ پرانی یاری دوستی کے سبھی طور طریقے ، ادب آداب ایک طرف کرکے کھلی دھمکیاں دیتا ہوا ماں بہن ایک کرنے پر آگیا۔ آخر کون ہے یہ رباب جس کا ہونا اور نہ ہونا اتنا اہم بنتا جا رہا ہے ۔
کہاں کہاں تک رسائی ہے اس کی؟ کیا اس کی طلب کے پس منظر میں اس کے جنسی تعامل میں بے مثال ہنر مندی اور عملیت میں اولیت کا دخل ہے یا کچھ اور سبب ہے جو اب تک کھلا نہیں۔ ‘‘
ناول بیوروکریسی کے عشرت کدوں سے پردے اٹھاتا ہے ، انھیں آباد رکھنے والوں کو بے نقاب کرتا ہے ۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ ناول پڑھنے والے کے چودہ طبق روشن کردیتا ہے۔
خلفائے راشدین ( بچوں کیلئے )
مصنف : اشفاق احمد خاں ، صفحات : 192، قیمت : 760 روپے
ناشر : دارالسلام ، لوئر مال ، نزد سیکرٹریٹ سٹاپ ، لاہور 042-37324034
زیر نظر کتاب ’’خلفائے راشدین ‘‘ دینی کتابوں کی اشاعت کے عالمی ادارہ دارالسلام کی شائع کردہ ایک خوبصورت پیشکش ہے جو کہ بالترتیب چار حصوں پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب مشہور ماہر تعلیم، ادیب اور محقق اشفاق احمد خاں کی تصنیف ہے۔
اشفاق احمد خاں کا ایک تعارف یہ بھی ہے کہ وہ بچوں کے ادب کے معروف لکھاری محمد یونس حسرت مرحوم کے فررزند ارجمند ہیں۔ محمد یونس حسرت مرحوم نے بچوں کیلئے بیشمار تربیتی اور اصلاحی کتب لکھیں جو کہ بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں میں بھی بہت زیادہ دلچسپی کے ساتھ پڑھی اور پسند کی جاتی تھیں۔
اشفاق احمد خاں کی تحریر میں وہی اپنے والد مرحوم والی پختگی، شگفتگی، سلاست اور روانی پائی جاتی ہے جو کہ زیر نظر کتاب ’’ خلفائے راشدین ‘‘ میں بھی نمایاں ہے۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر آپ اپنے بچوں کو بڑا انسان بنانا چاہتے ہیں تو انھیں بڑے لوگوں کے حالات زندگی کا مطالعہ کروائیں۔
مسلمانوں کے نزدیک انبیا ء علیھم السلام کے بعد سب سے زیادہ عظمت اور شان والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم ہیں۔ جبکہ صحابہ کرام میں سے عظمت والے خلفائے راشدین ہیں۔ خلفائے راشدین وہ عظیم ہستیاں ہیں جنھوں نے اسلام کی آبیاری کیلئے اپنا تن من دھن ، وطن ، اولاد ، ماں باپ سب کچھ قربان کردیا۔ خلفائے راشدین میں سے ہر صحابی کااپنا ایک مقام ہے۔
سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا عمر فاروق، سیدنا عثمان غنی اور سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنھم خلفائے راشدین ہیں اور ان کا عہد ۔۔ خلافت راشدہ کہلاتا ہے۔
خلافت راشدہ کے عہد کی مجموعی مدت تیس سال ہے۔ تیس سال کوئی بہت لمبا عرصہ نہیں صرف تین عشرے ہیں ان تین عشروں میں خلفائے راشدین نے اسلام کے پھیلاؤ ، تبلیغ و اشاعت اور اسلامی ریاست کی توسیع و استحکام کیلئے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے جو صدیوں میں بھی ممکن نہیں ہوتے ہیں ۔
خلفائے راشدین میں سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اولین خلیفہ ہیںجبکہ خلافت راشدہ کے زریں عہد کی آخری لڑی سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔
خلافت راشدہ ۔۔ کا دور ہر لحاظ سے تاریخ کا ایک سنہرا دور ہے جو ہمارے آج کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے لئے مشعل راہ ہے ۔ اس دور میں تمام رعایا کو بنیادی حقوق حاصل تھے ۔ ان کی شخصی و سیاسی آزادی کی حفاظت کی جاتی تھی ۔
مسلمان اور غیر مسلم کے حقوق یکساں تھے۔ کوئی شخص کسی دوسرے کی حق تلفی نہیں کر سکتا تھا اور نہ ہی کسی پر زیادتی کی جرأت کر سکتا تھا۔ غیر مسلموں کو مذہبی آزادی حاصل تھی اس کے ساتھ ان کی جان ومال اور عزت و آبرو کی حفاظت بھی کی جاتی تھی ۔
عدل کا ترازو سب کے لیے برابر تھا۔ نہ کوئی امیر، نہ غریب، نہ بادشاہ ، نہ عامی، نہ گورا ، نہ کالا اور نہ ہی رنگ و نسل کا امتیاز تھا۔
سب برابر تھے۔ مجرم مجرم ہی تھا خواہ کوئی بھی ہو۔ خلافت راشدہ میں فتوحات کا سلسلہ بھی جاری ہوا اور سلطنت وسیع ہوئی۔ اندرونی فتنوں کو بھی دبایا گیا اور بیرونی خطرات کا مقابلہ بھی ہوا لیکن ان تمام کاموں میں ایک چیز مشترک تھی وہ یہ کہ ان کا مقصد عوام کی فلاح ، ان کی خوشحالی و آسودہ حالی، ان کو امن و سکون اور اسلامی ریاست و اسلام کا تحفظ تھا ۔
آج امت مسلمہ خستہ حالی کا شکار ہے اور اس کا جسد تارتار ہے تاہم نہیں ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے اللہ اسی امت میں سے ایسے جوان پیدا فرمائے گا جو امت کے درد کا درماں کریں گے شرط ہے کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت اچھی بنیادوں پر کریں انھیں اسلامی ، اخلاقی اور اصلاحی کتب پڑھنے کیلئے دیں۔ اور یہ بات سمجھیں کہ خلفائے راشدین کا بچپن ، جوانی اور بڑھاپا ۔۔ ہمارے آج کے بچوں ، بچیوں ، جوانوں اور بزرگوں کیلئے مشعل راہ ہے ۔
یہ بات یقینی ہے کہ یہ فتنوں اور آزمائشوں کا دور ہے، اس دور میں موبائل ، فیس بک ، پب جی گیم ، واٹس ایپ اور دیگر ایسے بہت سے ذارئع موجود ہیں جو بچوں اور بچیوں کے اخلاق وکردار پر اثر انداز ہو رہے ہیں ۔۔۔۔ ان حالات میں یہ بات بے حد ضروری ہے بلکہ والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں بچیوں کے لئے ایسی کتابوں کاانتخاب کریں جو ان کے اخلاق وکردار کو سنواریں اور ان کے دلوں میں اپنے نبی علیہ السلام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہھم اجمعین کی محبت پیدا کریں ۔
’’خلفائے راشدین‘‘ بچوں کے مطالعہ لئے بہترین انتخاب ہے۔ چار حصوں پر مشتمل اس خوبصورت اور لاجواب کتاب میں بطریق احسن خلفائے راشدین کے حالات زندگی بیان کئے گئے ہیں ۔
کتابوں کا انداز بیاں بہت دلچسپ ، سادہ ، آسان اور شستہ ہے جو کہ انشاء اللہ بچوں کی شخصیت پر گہرے نقوش مرتب کرے گا، ان کے دلوں میں اسلام ، نبی علیہ السلام اور خلفائے راشدین کی محبت پیدا کرے گا ۔ دیدہ زیب سرورق ، چہار کلر طباعت کی حامل یہ کتاب دیکھنے میں جتنی خوبصورت ہے باطنی طور پر اس سے بھی کہیں زیادہ خوبصورت ہے۔
The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.