تاریخی اعتبار سے دیکھیں تو مسلمانوں نے بھی دنیا کی دوسری اقوام کی طرح جنگیں کی ہیں۔
اُن کی بھی بڑی بڑی سلطنتیں رہی ہیں مگر سلطان صلاح الدین کے زمانے میں لڑی جا نے والے صلیبی جنگوں میں خود برطانیہ کے بادشاہ ر چرڈ ( شیر دل) نے یہ اعتراف کیا تھا کہ مسلمان نہ صرف بہادر ی سے لڑنے والے ہیں بلکہ یہ جنگوں میں بھی انسانی بنیادوں پر ہمدردی کے اصولوں پر کاربند رہتے ہیں۔
اُس نے جنگ کے اختتام پر یہ کہا تھا ہمیں اسی لیے شکست ہو ئی کہ ہم جارحیت کر رہے تھے اور وہ دفاعی جنگ کر رہے تھے یہ بھی کہا کہ اگر اب مغربی ملکوں نے سلطان صلاح الدین سے کوئی جنگ کی تو وہ صلاح الدین ایوبی کی مخالفت کے بجائے مغربی اتحادیوں کی مخالفت کرے گا۔
مگر تاریخ نے پھر یہ بھی دیکھا کہ جب اسپین میں ملکہ ازایبلا اور فرننڈس نے شادی کر لی اور غرناطہ کے خلاف چند غدار مسلم امراء کو اپنے ساتھ ملا کر شکست دے دی تو اس کے بعد اسپین میں مسلمانوں کا ایسا قتل عام کیا کہ وہاں ایک مسلمان کو بھی نہیں چھوڑا گیا اور آج تک مسجد قرطبہ سمیت وہاں کسی مسجد میں اذان دینے والا کو ئی مسلمان نہیں ہے۔
اسپین میں اس تاریخی ظالمانہ فتح کے دن کا جشن ہر سال منایا جا تا ہے جس میں مسلمانوں کے قتل عام کی عکاسی بھی ہو تی ہے۔
پھر 1914-1918 ء میں ہونے والی پہلی جنگ عظیم میں جب خلافت ِ عثمانیہ کو شکست ہوئی تو بر صغیر کے مسلمانوں سے کئے گئے وعدے کے بر عکس یہاں خلافت ختم کر دی گئی، اس کے بعد سے پوری دنیا میں مسلمانوں کے خلاف کسی نہ کسی انداز کی جارحیت اور قتل عام کا سلسلہ دنیا کے مختلف ملکوں میں اور مختلف اوقات میں ہو تا رہا اور آج بھی جاری ہے۔
2020 ء کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی مجموعی آبادی میں عیسائیوں کی کل تعداد 2 ارب 38 کروڑ، مسلمانوں کی کل تعداد 1 ارب 91 کروڑ، ہندوؤں کی تعداد 1 ارب16 کروڑ، بدھ مت کے پیروکاروں کی کل تعداد 50 کروڑ70 لاکھ اور یہودیوں کی تعداد 1 کروڑ 46 لاکھ ہے۔
ان کے علاوہ باقی لادینی یا دیگر چھوٹے مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ 1990ء میں پاکستان کی مدد سے افغانستان میں سابق سوویت یونین کی شکست اور اس کے ٹوٹنے کے بعد سرد جنگ میں وقفہ آ گیا۔
سرد جنگ کے دوران امریکہ ، برطانیہ اور فرانس سمیت مغربی ممالک کارویہ مسلمانوں کے حوالے سے بہتر رہا۔ یہاں تک کہ ہمارے دینی اسکالرز اور عیسائی اوربعض یہودی مذہبی دانشور بھی اشتراکیت کے سیکولر پہلو کو زیادہ نمایاں کرتے تھے۔
مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے درمیان اہل کتاب ہو نے کی بنیاد پر اسلام، قرآن اور ہمارے پیارے نبیﷺ کی توہین سے گریز کیا جاتا تھا۔ مگر ایک عجیب صورت 80ء کی دہائی میں عین اُس وقت سامنے آئی جب مغرب کو یقین آنے لگا کہ سابق سوویت یونین مجاہدین کی وجہ سے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہو رہا ہے۔
سوویت یونین اقوام متحدہ کی معاونت سے تجویز کردہ مذاکرات پر بھی آمادہ ہو گیا تھا۔ اِسی دور میں سلمان رشدی کی کتاب شائع ہوئی جس میں گستاخانہ مواد شامل تھا اور پھر رُشدی کو بر طانیہ میں سیاسی پناہ بھی دے دی گئی۔ موقف اختیار کیا گیا کہ یہ آزادی اظہار ہے۔ اُس وقت پاکستان نے پوری اسلامی دنیا سمیت شدید احتجاج کیا۔ ایران کے مذہبی رہنما آیت اللہ خمینی نے رُشدی کے قتل کاحکم جاری کیا اور انعام بھی رکھا۔
1988 ء میں جنیوا معاہدے پر دستخط ہوئے، لیکن افغانستان کی تعمیر نو جس تیزی سے ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہو ئی۔ جنگ میں جھلسے اور تڑپتے افغانستان کے عوام کو امریکہ ، برطانیہ ، فرانس اور دیگر ملکوں نے ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے چھوڑ دیا۔
جلد ہی افغانستان میں خانہ جنگی نہ صرف شروع کی گئی بلکہ اس خانہ جنگی کی آگ پر تیل بھی چھڑکا گیا۔ پھر11 ستمبر2001 ء کا واقعہ پیش آیا جس کے بارے میں اب بہت سے سوالات بھی اٹھ رہے ہیں اور اسی نائن الیون کے چند روز کے اندر اندر افغانستان پر بھی حملہ کر دیا گیا۔
اس کے بعد عراق، شام ، لیبیا، سوڈان پر امریکہ اور مغربی ملکوں کی جانب سے جنگ مسلط کردی گئی اور ساتھ ہی آزادی اظہار کے نام پر نہ صرف مغربی دانشوروںنے اسلامو فوبیا کو ہوا دی بلکہ بعض یورپی سربراہان بھی اس میں شامل ہوئے۔ اب ایک جانب تو وہ دین اسلام کی توہین اور توہین رسالتﷺ کرتے رہے تو دوسری جانب مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیتے رہے۔
کبھی مسلم خواتین کو اسکارف پہننے سے زبردستی روکا گیا تو کبھی سر بازار مسلمانوں کو، جو اِن مغربی ممالک کی شہریت اپنا چکے تھے‘ گھسیٹا اور زدوکوب کیا گیا۔ اسی پراپیگنڈا اور حالات کی آڑ میں افغانستان میں لاکھوں افراد کا قتل ہوا، کبھی عراق، شام ، سوڈان اور لیبیا میں لاکھوں مسلمانوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔
یہ بہت ہی خوفناک دور تھا یہاں تک کہ ان ملکوں کی دیکھا دیکھی بھارت میں بھی مسلمانوں کے خلاف قتل و غارت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
یوں دیکھا جائے تو 1980-81 ء کے بعد سے اب تک پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف خوامخوا ہ ایک ایسی مہم شروع کی گئی جس میں انصاف کرنے کے بجائے الٹا ان کو ہی دہشت گردی اور منفی سوچ کا حامل قرار دیا جاتا ہے۔
جنوری 2023 ء میں سویڈن میں قرآن پاک کو نذر آتش کر کے پوری دنیا کے تقریباً دو ارب مسلمانوںکی دل آزاری کی گئی اور اس کو بھی فکری اور نظریاتی آزادی کا نام دیا گیا۔
15 مارچ 2019 ء کو نیوزی لینڈ میں ایک انتہا پسند دہشت گرد نے دو مساجد میں اندھا دھند فائرنگ کرکے 51 مسلمانوں کو شہید کر دیا۔
اگر چہ اس سے کہیں زیادہ ظلم برما (میانمار)، بھارت اور اسرائیل نے خصوصاً فلسطینوں کے ساتھ روا رکھا ہے مگر نیوزی لینڈ کا معاشرہ جو بہت مہذب ہونے کا دعویدار ہے، یہاں ایسا واقعہ پیش آنا دنیا کے لیے اور خصوصاً یورپ، کینیڈا، آسٹریلیا، امریکہ کے مسلمان تارکین کے لیے دل دہلا دینے والا سانحہ تھا۔
اس موقع پر نیوزی لینڈ کی سابق وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن کا رویہ مثالی رہا۔ سابق وزیراعظم عمران خان اورہمارے سفارتکاروں نے اس واقعہ کے بعد پوری دنیا کو یہ احساس دلایا کہ دنیا کے تقریباً دو ارب انسانوں (مسلمانوں)کی دل آزاری کوکسی بھی اعتبار سے آزادی اظہارکا نام نہیں دیا جا سکتا۔
27 ستمبر 2019 ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے عمران خان نے اپنے خطاب میں پُردرد انداز میں دنیا بھر کے ملکوں اور اُن کی حکومتوں سے اپیل کی کہ ہمارے نبی محمدﷺ ہمارے دل کے بہت قریب ہیں اور جب کوئی اُن کی توہین کرتا ہے تو ہمارے دلوں کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ یہ بھی بتایا کہ پوری دنیا میں اسلام دشمن اسلاموفوبیا پھیلا رہے ہیں، جس کے تدارک کی ضرورت ہے۔
فوبیا علم نفسیات کی ایک اصطلاح ہے۔ فوبیا کے لفظی معنی ’بغیر کسی وجہ کے خوفِ‘ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت بعض اسلام دشمن انتہا پسند پوری دنیا میں اسلاموفوبیا کو بڑھاوا دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
2020 ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سابق وزیراعظم عمران خان کے خطاب کے بنیادی نکات اسلاموفوبیا، بھارت میں آر ایس ایس کا مسلم مخالف رویہ، کشمیریوں کے حقوق اور آزادی، کرونا کی وباء اور دنیا میں موسمیاتی تبدیلیاں اور اِن کے پاکستان پر مرتب ہو نے والے اثرات تھے۔
پاکستان نے سفارتکاورں کو متحرک کیا اور اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر اکرم ذکی نے اوآئی سی کی قوت کو یکجا کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو آمادہ کیا کہ عالمی سطح پر اسلاموفوبیا کے انسداد کے لیے ایک دن مقر رکیا جائے، اس پر اقوام متحدہ کے 60 رکن مسلم ممالک متحد ہوگئے اور پھرکل 193 ممبران نے اس پر اتفاق کر لیا کہ 15 مارچ کو پوری دنیا میں یوم انسداد اسلامو فوبیا (International Day to Combat Islamo Phobia) منایا جائے۔
اس مطالبے کی منظوری کے بعد 15 مارچ 2023 ء کو دنیا میں پہلا عالمی یوم انسداد اسلاموفوبیا منایا جا رہا ہے۔ اگرچہ یہ ایک عالمی دن ہے لیکن یہ اقوام عالم کا وعدہ بھی ہے جس میں دنیا کے تمام ممالک نے یہ تسلیم کیا ہے کہ وہ دنیا میں اسلامو فوبیا کے خلاف کام کریںگے۔
جہاں تک انسانی رواداری کا تعلق ہے تو تاریخ گواہ ہے کہ مسلمان ممالک اور باشاہوں میں سے کوئی بھی ایسا نہیںگذرا جس نے اسپین کی طرح مخالفین کا صفایا کیا ہو، پھر عام سطح پر دیکھیں تو یہ حقیقت ہے یہودی الہامی مذاہب کے اعتبار سے اپنے بچوں کے نام حضرت عیسٰی علیہ سلام سے پہلے آنے والے انبیا اور رسولوں کے نام پر رکھتے ہیں، عیسائی حضرت عیسٰی علیہ سلام کی آمد تک کے رسولوں کے نام پر اپنے بچوں کے نام رکھتے ہیں، مگر مسلمان نبی آخرالزمان حضرت محمد ﷺ سمیت آج تک آنے والے تمام انبیا اور رسولوں کے ناموں پر اپنے بچوں کے نام رکھتے ہیں۔
تمام مسلمان اللہ تعالیٰ کے تما م رسولوں پر ایمان بھی رکھتے ہیں اور اُن کا احترام بھی کرتے ہیں، اسی لیے قانون میں توہین رسالت کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور یہ قانون ہر رسول اور نبی کے حوالے سے نافذ العمل ہے۔ اگرچہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ’’انٹر نیشنل ڈے ٹو کمبٹ اسلاموفوبیا‘‘ یعنی انسداد اسلاموفوبیا کا عالمی دن 15 مارچ کو قرار دیا ہے اور اب ہر سال اس دن کو منایا جائے گا مگر دیکھنا ہو گا کہ ہم اس دن کو پوری دنیا میں کس انداز سے مناتے ہیں۔
اگر اس دن کو پرامن اور بھرپور طریقے سے منا کر دنیا کو ہم اپنی حساسیت کا احساس دلانے میں کامیاب ہو گئے تو یہ موثر ہو گا، اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ صرف بس ایک ایسا عالمی دن ہو گا جو روایتی سا ہو کر رہ جا ئے گا۔
عالمی سطح پر اس دن کو منانے میں پاکستان نے او آئی سی کے تعاون سے اہم کردار ادا کیا، اس لیے وطن عزیز میں اس کو بھرپور طور پر منایا جانا چاہیے۔
بہتر ہو گا کہ OIC کے پلیٹ فارم سے اس دن کے منانے کے لیے ہر سال بھرپور انداز اختیار کیا جائے، تمام ممبر ممالک کے دارالحکومتوں میں تمام سفیروں کو مدعو کرتے ہوئے نہ صرف ایک ایک مرکزی پروگرام ہو بلکہ تمام اسلامی ملکوں کے دوسرے شہروں، یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں پروگرام ہوں اور ہم پوری دنیا پر یہ دباؤ ڈالیں کہ دنیا میں مسلمانوں کو دہشت گرد قرار نہ دیا جائے۔
یہ ایک المیہ ہے کہ اس وقت عیسائی، ہندؤ، بدھ مت کے پیروکار اور یہودی سبھی مسلمانوں کے خلاف پرتشدد کارروائیاں کررہے ہیں، مسلم اکثریت کے خطوں کشمیر اور فلسطین میں بھارت اور اسرائیل مسلمانوں کی نسل کشی میں مصروف ہیں جب کہ اقوام متحدہ ان کی آزادی اور خودمختاری کے لیے قراردادیں منظور کر چکا ہے۔
6 فروری 2023 ء کو ترکیہ، شام اورلبنان میں رات چار بجے کے قریب چالیس سیکنڈ کے دورانیے کا زلزلہ آیا، ریکٹراسکیل پر اس کی شدت 7.8 تھی، 15 فروری تک اس زلزلے سے جاں بحق ہو نے والوں کی تعداد 41000 سے تجاوزکر گئی ہے۔
دوسرے ممالک کے ساتھ پا کستان نے فوری طور پر ترکیہ کے لوگوں کی مدد کی اور امداد کا یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ پوری دنیا میں اس کی تڑپ محسوس کی گئی مگر وہ ملعون اسلام دشمن اس موقع کو اپنے لیے خوشی قرار دے رہے ہیں، فرانس کے اسلام دشمن اخبار ( چارلی ایبڈو) نے زلزلے کے دوسرے دن کارٹون شایع کیا۔
اخبار کے مالک نے اپنی اسلام دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے اِس کو کارٹون آف دی ڈے قرار دیا، اس کارٹون میں ترکیہ میں زلزلے کی تباہی کو دکھا یا گیا اور ساتھ فرانسسی زبان میں لکھا جس کا اردو ترجمہ یوں ہے (زلزلے ہی نے تباہ کر ڈالا ہمیں اپنے ٹینک بھیجنے کی ضرورت نہیں)۔ یہ ہے انسانی حقوق کا خیال رکھنے والوں کا ’’دردِ دل‘‘، یہ اُن کا آزادی اظہار ہے۔
اس لیے یہ موقع ہے کہ ہم 15 مارچ 2023 ء کو تدارک اسلاموفوبیا کے عالمی دن کو پوری دنیا میں اس طرح منائیں کہ پوری دنیا اسلام کی حقیقت کو سمجھے اور اس طرح کے ملعونوں پر پوری دنیا لعنت بھیجے ۔
The post اسلاموفوبیا کا سدباب کیسے کیا جائے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.