عرب جمہوریہ مصر میں پچیس مارچ2011ء میں سابق مرد آہن سید محمد حسنی مبارک کے خلاف برپا ہونے والی عوامی بغاوت کے بعد ملک میں حقیقی جمہوریت کا تجربہ ایک سال بھی نہ چل سکا اور آمرانہ مزاج مصری فوج، عدلیہ اور مفاد پرست سیاسی عناصر کی ملی بھگت سے آمریت کی خار دار جھاڑی ایک مرتبہ پھر لگا دی گئی ہے۔
آمریت کے اس نوزائدہ پودے کی آبیاری کے لیے 26 اور 27 مئی کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں جنرل عبدالفتاح السیسی پورے طمطراق کے ساتھ میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں۔ فوج اور اس کے زیراثر عدلیہ ایک عدد کٹھ پتلی حکومت کے ہوتے ہوئے صدارتی انتخابات کس حد تک شفاف ہوں گے اس پرتبصرے کی ضرورت نہیں۔
کیونکہ ان انتخابات میں سو امیدوار بھی ہوں لیکن فی الوقت فتح ونصرت کے تمام زائچے فیلڈ مارشل جنرل عبدالفتاح السیسی کی فتح کی خبر دے رہے ہیں۔ گوکہ ان کے مقابلے میں سابق شکست خوردہ امیدوار حمدین الصباحی بھی میدان میں ہیں، لیکن وہ صرف ذرائع ابلاغ کی حد تک جنرل السیسی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ویسے بھی دونوں میں معمولی سا فرق ہے کہ عبدالفتاح السیسی فوج کے سابق سربراہ ہیں اور حمدین الصباحی ایک غیر فوجی مگرآمریت نواز سیاست دان ہیں۔ مصر ی عوام کے مزاج میں آمریت کچھ اس طرح رچ بس گئی ہے کہ انہیں کوئی سول صدر کسی قیمت پر نہیں بھاتا۔
اس لیے اگر فوجی آمر عبدالفتاح السیسی کے مقابلے میں اسی کا ہم خیال حمدین الصباحی بھی آیا ہے تو مصریوں کے لیے وہ بھی قابل قبول نہیں ۔ انہوں نے ووٹ اسی کو دینے ہیں جس کی پشت پر فوج اور آمریت نواز عدالتیں کھڑی ہیں۔ سو قرعہ فال میں حمدین الصباحی کی کامیابی دور دور تک نہیں دکھائی دیتی۔ ہاں اگر معجزہ ہو جائے تو کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ مصری عوام بار بار معجزے دکھانے کی عادی بھی نہیں ۔ انہوں نے 2012ء کے انتخابات میں اخوان المسلمون کے امیدوارڈاکٹر محمد مرسی کو ووٹ دے کر معجزہ کردکھایا تھا لیکن ایک سال کے اندر اندر وہ معجزے سے تنگ آگئے۔
مصر میں دو قسم کا ووٹ بنک ہے۔ ایک مذہبی اور دوسرا آزاد خیال ووٹ۔ مذہبی حلقے دو حصوں میں منقسم ہیں۔ ایک اخوانی اور دوسرے سلفی۔ مذہبی نظریات کی بنیا د پر مصری معاشرے میں یہ تقسیم نہایت خطرناک رجحان ہے، جس نے ملک کو طوائف الملوکی کی نذر کر رکھا ہے۔ ماضی میں اخوان المسلمون اور سخت گیر سلفی ایک دوسرے کی ضد کے طور پر ابھر کرسامنے آئے۔ سلفیوں کی نمائندہ سیاسی جماعت حزب النور کو جتنا اعتدال پسند خیال جائے وہ اتنی ہی شدت پسند واقع ہوئی ہے۔
پیش آئند صدارتی انتخابات میں سلفی مسلک کے حامی پوری قوت کے ساتھ جنرل عبدالفتاح السیسی کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ جنرل السیسی کی انتخابی مہم کے دوران سلفیوں کی طرف سے ان کی حمایت میں ناقابل یقین واقعات دیکھنے کو ملے ہیں۔ ایک سلفی مولوی صاحب نے جنرل السیسی کو ووٹ دینا ’’ واجب‘‘ اور دوسرے نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے ’’فرض عین‘‘ قرار دیا ہے۔ یہی وہ گروپ ہے جو جنرل السیسی کی کامیابی کے لیے نماز حاجات کا اہتمام کر رہا ہے۔ یہ لوگ جنرل السیسی کو نجات دہندہ اور قوم کی امیدوں کا آخری سہارا سمجھتے ہیں۔
السیسی سے ان کی والہانہ محبت وعقیدت اس وجہ سے ہے کیونکہ وہ محض اخوان المسلمون کی مخالفت میں آکر ایک فوجی ڈکٹیٹر کو بار بار صدر منتخب کرانے کی بات کرتے ہیں۔ حزب النور اور سلفیوں کا مجموعی ووٹ بنک تین لاکھ کے قریب ہے، لیکن ان میں کچھ لوگ سرے سے ووٹ ڈالنے کے قائل ہی نہیں۔ انہی میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کے بھائی محمد الظواھری جیسے سخت گیر لوگ شامل ہیں۔
مذہبی ووٹ بنک میں دوسرا اور بڑا طبقہ اخوان المسلمون کے حامیوں کا ہے۔ مصر میں اخوان المسلمون کے ممبران کی تعداد پچیس لاکھ سے زیادہ ہے جن میں کم وبیش 12 لاکھ ارکان بھی شامل ہیں۔ جہاں تک ووٹروں کا تعلق ہے تو وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ اخوان کے حامی ووٹ جس امیدوار کے ساتھ ہوں گے، اس کی کامیابی کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔ چونکہ اخوان اس وقت بدترین عتاب کا شکار ہے اس لیے جماعت کی طرف سے کسی بھی امیدوار کی حمایت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اگر اپنے طور پر کچھ لوگ ووٹ ڈالنے نکلے تو ان کا انتخاب جنرل عبدالفتاح السیسی کا کوئی مخالف امیدوار ہی ہو سکتا ہے۔
عربی اخبار’’مصر الیوم‘‘ کے مطابق جنرل السیسی کی خواہش ہے کہ سلفیوں کی طرح اخوان کے حامی بھی انتخابات میں انہیں ووٹ دیں، لیکن اپنی انتخابی مہم میں انہوں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ صدر بننے کے بعد وہ اخوان المسلمون کا نام و نشان مٹا دیں گے۔ بہر حال چھبیس اور ستائیس مئی کو ہونے والی پولنگ میں اخوان المسلمون کے بائیکاٹ کے نتیجے میں ٹرن آؤٹ بری طرح متاثر ہوگا۔
مصر میں ووٹروں کا تیسرا طبقہ لبرل اور آزاد خیال لوگوں پر مشتمل ہے۔ ان میں عیسائی اور دوسری اقلیتیں بھی شامل ہیں۔ جن کی کل تعداد سلفیوں اور اخوانیوں سے قدرے زیادہ ہے۔ ان لوگوں کا مرض یہ ہے کہ یہ ووٹ ڈالنے کم ہی گھروں سے نکلتے ہیں۔ البتہ ملک کا نوجوان طبقہ کسی حد تک اب سیاست میں دلچسپی لینے لگا ہے۔
انہی میں منتخب صدر محمد مرسی کا تختہ الٹنے میں معاونت کرنے والی ’’ تمردتحریک ‘‘ بھی شامل ہے۔ یہ تحریک اب دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ ایک دھڑا کھلے عام جنرل عبدالفتاح السیسی کو صد ر منتخب کرانے کا حامی ہے جبکہ دوسرے کا خیال ہے کہ تحریک کو کسی ایک صدارتی امیدوار کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔ انقلابی گروپ میں اختلافات جنرل السیسی کے لیے نیک شگون نہیں کیونکہ انہوں نے اسی تحریک کے بل بوتے پر انتخابی دوڑ میں شامل ہونے کا اعلان کر رکھا ہے۔
الجزیرہ ڈاٹ نیٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق فیلڈ مارشل عبدالفتاح السیسی کی صدارتی انتخابات میں کامیابی تو یقینی ہے مگران کی قسمت میں بھی محمد مرسی یا اس سے بھی بدتر انجام کے امکانا ت کوبھی رد نہیں کیا جاسکتا۔ جنرل السیسی کے یقینی فتح کے دعوے اپنی جگہ مگر انتخابی مہم کے صرف پہلے دو دنوں میں مصری اسٹاک مارکیٹ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ دو روزہ مہم کے دوارن مصری بازار حصص میں 12 ارب پاؤنڈ کا نقصان اٹھانا پڑا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عبدالفتاح السیسی مشکل میں پھنس سکتے ہیں، کیونکہ عوام کا ایک بڑا طبقہ بہر حال انہیں پسند نہیں کرتا ہے۔
عبدالفتاح السیسی نے انتخابی منشور میں ملک میں حقیقی جمہوریت کے قیام، معاشی ترقی اور اصلاحات، سیاحت کے فروغ اور عالمی برادری سے یکساں تعلقات کے قیام کے بنیادی نکات شامل کیے ہیں۔ تاہم اس کے برعکس حمدین الصباحی اپنی تقاریر میں سیاسی قیدیوں کی رہائی کی بات کرتے دکھائی دیے ہیں۔انہوں نے اخوان المسلمون کا ووٹ حاصل کرنے کی کوششیں شروع کر رکھی ہیں۔ ان کا یہ بیان کہ’’ صدر منتخب ہونے کے بعد ضمیر کے تمام قیدی جیلوں سے رہا کراؤں گا‘‘ دراصل اخوان المسلمون کے حامیوں کو اپنی حمایت کی ترغیب دینا ہے۔
باہر سے انتخابی مہم میں امریکا کی طرف سے جنرل عبدالفتاح السیسی کی کھلے عام حمایت نہیں کی جا رہی تاہم اسرائیل السیسی کی انتخابی مہم چلانے میں پیش پیش ہے۔ مرکزاطلاعات فلسطین کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاھو نے جنرل السیسی کی انتخابی مہم کے لیے 80 ملین شیکل کی رقم مختص کی ہے جسے مصر میں انتخابات کے دوران’’ ضروری مواقع‘‘ پر صرف کیا جائے گا۔ انتخابات میں حتمی کامیابی کس کی قسمت میں آتی ہے، اس پر رائے دینا قبل از وقت ہے تاہم جو بھی صدر بنا اقتدار اس کے لیے پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بستر ثابت ہوگا۔
اخوان المسلمون کا وجود او ر پالیسی
مصر میں زیرعتاب اسلام پسند جماعت اخوان المسلمون نے تا دم تحریر صدارتی انتخابات کے عمل کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ جماعت کے بائیکاٹ کے نتیجے میں الیکشن میں ٹرن آؤٹ پر واضح منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ چونکہ اخوان کی مرکزی قیادت سمیت دو ہزار سرکردہ رہ نماء اور کارکن جیلوں میں بند ہیں۔ ان میں سے ایک ہزار کے لگ بھگ ارکان اور رہ نماؤں کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔ ایسے میں اخوان قیادت کے پاس انتخابی بائیکاٹ کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں رہا ہے۔ملک میں ایمر جنسی کے نفاذ، دہشت گردی کی بیخ کنی کے لیے سخت ترین قوانین کے باوجود اخوان المسلمون کی جانب سے تین جولائی دو ہزار تیرہ کے فوجی انقلاب کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ اخوان کی قیادت دن رات ملک کے بڑے شہروں میں احتجاجی جلوس نکال کراپنے وجود کو ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
تعلیمی اداروں میں شبے کی بنیاد پر ہزاروں طلباء کو بے دخل کیے جانے کے باوجود احتجاجی تحریک میں مسلسل شدت آ رہی ہے۔ احتجاجی ریلیوں میں ہزاروں افراد کی شرکت بھی برسراقتدار گروپ اور فوج کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ یہ اسی تحریک کا اثر ہے کہ مصری ذرائع ابلاغ مستقبل کی پیش بندی کرتے ہوئے بار بار حکومت کو یہ تجویز دے رہے ہیں کہ وہ سیاسی انتقام میں حد سے تجاوز نہ کرے ورنہ ملک میں ایک نئے انقلاب کو نہیں روکا جاسکتا ہے۔
جہاں تک اخوان المسلمون کے مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع سمیت سیکڑوں کارکنوں اور رہ نماؤں کو دی جانے والی پھانسی کی سزاؤں کا معاملہ ہے تو مصر میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تاہم اس میں اضافہ یہ ہوا ہے کہ اب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک بھی اخوان المسلمون کو کھلم کھلا دشمن باور کرنے لگے ہیں۔ بادی النظر میں امکان یہی ہے کہ مصری عدالتوں کے فیصلوں پرعمل درآمد کرتے ہوئے اخوان کے بعض رہ نماؤں کی سزائے موت پرعمل درآمد کیا جائے گا تاہم اتنی بڑی تعداد میں اخوانیوں کو پھانسی دینے کا مطلب مصر کو آگ کے الاؤ میں دھکیلنے کے مترادف ہوگا۔
اگرتو اخوان المسلمون صرف مصر تک محدود ہوتی تو اسے جڑ سے اکھاڑپھینکنا آسان تھا لیکن اخوان کے ہم خیال قطر، ترکی اور لیبیا کے علاوہ تیونس میں برسر اقتدار ہیں اور وہ اپنی مصری ہم خیال جماعت کی بھرپور مدد کر رہے ہیں۔ مصر میں اخوان المسلمون کی حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کے بعد عرب دنیا اخوان کے حامی اور مخالف گروپ میں بٹی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ عرب ممالک میں سیاسی بنیادوں پر یہ تقسیم نہایت خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ بالخصوص اخوان المسلمون کی مخالفت میں جس مبالغہ آرائی سے کام لیا جا رہا ہے وہ کسی بھی عرب ملک چاہے وہ افریقا، مشرق وسطیٰ یا خلیج سے تعلق رکھتا ہوکے ہرگز مفاد میں نہیں ہے۔ اخوان کی حمایت اور مخالفت کی مخاصمت برقرار رہی تو یہ عربوں کی عربوں کے ساتھ ایران والی مخاصمت پیدا ہوسکتی ہے۔
دوستی اور دشمنی کے اصول تبدیل ہونے لگے
قاہرہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات کو عالمی ذرائع ابلاغ میں بڑے پیمانے پر کوریج مل رہی ہے۔ نئے صدر کے انتخاب کے بعد ترکی اور عالمی برادری کے درمیان تعلقات کس نوعیت کے ہوں گے، یہ وہ بنیادی سوال ہے جو عالمی ابلاغی اداروں کی جانب سے مسلسل اٹھایا جا رہا ہے۔ دبئی سے نشریات پیش کرنے والے سعودی ٹیلی ویژن ’’العربیہ‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق عالمی تعلقات کے باب میں مستقبل قریب کا مصر سعودی عرب ، اسرائیل اور امریکا کے قریب جبکہ ترکی، قطر، ایران اور اخوان المسلمون کے بارے میں نرم رویہ رکھنے والے ممالک سے فاصلے پر ہوگا۔ تاہم اگر قاہرہ اخوان کے بارے میں اپنی سخت پالیسی تبدیل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو ترکی اور قطر کا بھر پور تعاون بھی مل سکتا ہے۔
آنے والے وقت میں مصر کو امن وامان کے قیام، معاشی بحران کے خاتمے اور عالمی برادری میں خراب ساکھ کی بہتری جیسے تین بڑے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ تینوں اہداف ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ معزول صدر ڈاکٹر محمد مرسی کے ایک سالہ دور حکومت میں قاہرہ کے ترکی ، ایران، پاکستان ، چین اور ملائیشیا کے ساتھ تعلقات بہتر ہوئے اور اس کے نتیجے میں مصری معیشت کو غیرمعمولی فائدہ پہنچا تھا۔
ان کی برطرفی کے بعدموجودہ فوجی حکومت نے سعودی عرب، بحرین ، یو اے ای اور اسرائیل کے زیادہ قریب جبکہ ایران، پاکستان،قطر اورچین سے دوری کی پالیسی اپنائی ہے۔ مصر میں فوجی حکومت کو اسرائیل کی غیرمعمولی معاونت حاصل ہے، یہی وجہ ہے کہ عالمی ذرائع ابلاغ میں جنرل عبدالفتاح السیسی کو مصر میں ’’اسرائیل‘‘ کا امیدوار قرار دیا جا رہا ہے۔